غزل برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمن،فلسفی،عظیم
------------
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
-----------
کرتے ہو مجھ سے پیار مگر مانتے نہیں
لگتے ہو اس طرح سے مجھے جانتے نہیں
------------
لوگوں سے کہہ رہے ہو تمہیں پیار مجھ سے ہے
آتے ہو میرے پاس تو پہچانتے نہیں
------------
دنیا کا ڈر نکال کے دیکھو مجھے کبھی
گر کسی سے پیار ہو تو کانپتے نہیں
----------یا---
کرتے ہیں جو بھی پیار وہ یوں کانپتے نہیں
----------
کہتا رہوں گا میں تو یہی مان جایئے
یوں راستے میں چھوڑ کے تو بھاگتے نہیں
------------
بچپن سے چل رہے ہیں یہ الفت کے سلسلے
کرنا نہیں تھا پیار تو یوں پالتے نہیں
---------------
ارشد کسی کا پیار یوں مانگو نہ بھیک میں
ایسے کسی کا پیار کبھی مانگتے نہیں
 
ہم ایک مرتبہ پھر دہرائے دیتے ہیں کہ مطلع میں شاعر قافیوں کا تعین کرتا ہے۔ یہی بات استادِ محترم بھی کئی بار دہرا چکے ہیں

ارشد بھائی بنیادی بات سمجھ لیجے کہ مطلع میں آپ قافیہ ڈیفائن کرتے ہیں اور پھر اسی پر قائم رہتے ہیں۔

مطلع کو دیکھتے ہوئے باقی غزل کے قافیے درست نہیں۔
مطلع میں آپ نے مانتے اور جانتے قافیے بنائے، اب اگلے اشعار کے قافیوں میں " انتے" لازمی جزو ہونا چاہیے۔
 
آخری تدوین:
محمّد خلیل الرحمن
کرتے ہو مجھ سے پیار مگر مانتے نہیں
لگتے ہو اس طرح سے مجھے جانتے نہیں
------------
لوگوں سے کہہ رہے ہو تمہیں پیار مجھ سے ہے
آتے ہو میرے پاس تو پہچانتے نہیں
------------
دنیا کا ڈر نکال کے دیکھو مجھے کبھی
میری کسی بھی بات کو گردانتے نہیں
----------
کہتا رہوں گا میں تو یہی مان جایئے
اتنی کرو نہ ضد کہ مری مانتے نہیں
------------
بچپن سے چل رہے ہیں یہ الفت کے سلسلے
ایسی کرو نہ بات کہ تم جانتے نہیں
---------------
ارشد کسی کا پیار یوں مانگو نہ بھیک میں
جن کو نہیں ہے پیار کبھی مانگتے نہیں
 

عظیم

محفلین
کرتے ہو مجھ سے پیار مگر مانتے نہیں
لگتے ہو اس طرح سے مجھے جانتے نہیں
------------دونوں مصرعوں کا آپس میں تعلق کمزور ہے، پیار کا اعتراف اور انجانے پن میں کوئی ربط سمجھ نہیں آتا
۔۔۔کیا تم خود اپنے دل کا کہا جانتے نہیں؟
اس مصرع سے دیکھیں کہ ربط قائم ہو گیا ہے

لوگوں سے کہہ رہے ہو تمہیں پیار مجھ سے ہے
آتے ہو میرے پاس تو پہچانتے نہیں
------------پہل مصرع روانی چاہتا ہے مثلاً
لوگوں سے کہہ رہے ہو کہ کرتے ہو مجھ سے پیار

دنیا کا ڈر نکال کے دیکھو مجھے کبھی
میری کسی بھی بات کو گردانتے نہیں
----------ڈر کے لیے نکالنا استعمال کریں گے تو دل وغیرہ لانا ہو گا
دنیا کے ڈر کو بھول کے۔ کیا جا سکتا ہے
لیکن بات کو گرداننا بے معنی ہے، بات کو سچ گردانا جاتا ہے یا کسی کو اپنا گردانا جاتا ہے۔ مطلب صرف گرداننا مکمل معنی ادا نہیں کرتا

کہتا رہوں گا میں تو یہی مان جایئے
اتنی کرو نہ ضد کہ مری مانتے نہیں
------------اتنی نہ ضد کرو.....

بچپن سے چل رہے ہیں یہ الفت کے سلسلے
ایسی کرو نہ بات کہ تم جانتے نہیں
---------------یہ ٹھیک ہے

ارشد کسی کا پیار یوں مانگو نہ بھیک میں
جن کو نہیں ہے پیار کبھی مانگتے نہیں
۔۔۔بس یہ قافیہ غلط رہ گیا ہے

ارشد کسی کا پیار یوں مانگو نہ بھیک میں
جن کو نہیں ہے پیار کبھی مانتے نہیں
۔۔۔متبادل مقطع میں پہلا مصرع
ارشد کسی کا پیار نہ مانگو یوں بھیک میں، رواں رہے گا
اور دوسرا مصرع بے معنی ہو گیا ہے
کسی اور طرح کہنے کی ضرورت ہے
 
Top