غزل برائے اصلاح

الف عین
فلسفی، خلیل الرحمن ، عظیم
------------------
میں پچھلی رات میں اُٹھ کر خدا کو یاد کرتا ہوں
خطائیں بخش دے میری ، یہی فریاد کرتا ہوں
-----------------------
سکوں پاتا ہے دل میرا خدا کو یاد کرنے سے
دلِ برباد کو دوبارا سے آباد کرتا ہوں
---------------------
منا لیتا ہوں لوگوں کو اگر ناراض ہو کوئی
میں اپنے دل کو نفرت سے سدا آزاد کرتا ہوں
----------------------
یہ فتنوں کا زمانہ ہے بچے رہنا بُرائی سے
گناہوں سے بچو لوگو یہی فریاد کرتا ہوں
------------------
کسی کا دل دُکھانا تو کبھی چاہا نہیں ارشد
جو اُکسائے بُرائی پر ، اُسے ناشاد کرتا ہوں
-----------------
 

عظیم

محفلین
میں پچھلی رات میں اُٹھ کر خدا کو یاد کرتا ہوں
خطائیں بخش دے میری ، یہی فریاد کرتا ہوں
-----------------------مطلع پڑھتے ہی بہت پیارا لگا لیکن ایطا پر نظر پڑی تو دل ٹوٹ گیا، کسی طرح ایطا (جو 'یاد' اور 'فریاد' قافیہ ہونے کی وجہ سے ہے) کو دور کر دیں تو بہت اچھا مطلع ثابت ہو گا۔
ایک اور چھوٹی سی خامی 'پچھلی رات' کی وجہ سے ہے، اس سے قاری کا ذہن گزشتہ رات کی طرف بھی جا سکتا ہے۔ اس کا بھی متبادل سوچیں۔

سکوں پاتا ہے دل میرا خدا کو یاد کرنے سے
دلِ برباد کو دوبارا سے آباد کرتا ہوں
---------------------دوسرے مصرع میں روانی کی کمی ہے اس کو بہتر بنائیں

منا لیتا ہوں لوگوں کو اگر ناراض ہو کوئی
میں اپنے دل کو نفرت سے سدا آزاد کرتا ہوں
----------------------شعر بہت اچھا ہے لیکن اس میں آپ کی ردیف خراب ہو رہی ہے، یعنی 'آزاد کرتا' ہوں کی بجائے 'آزاد رکھتا ہوں' کا محل ہے

یہ فتنوں کا زمانہ ہے بچے رہنا بُرائی سے
گناہوں سے بچو لوگو یہی فریاد کرتا ہوں
------------------دونوں مصرعوں میں تقریباً ایک سی بات ہو گئی ہے، پہلے میں برائی اور دوسرے میں گناہ سے بچنا کہا جا رہا ہے۔

کسی کا دل دُکھانا تو کبھی چاہا نہیں ارشد
جو اُکسائے بُرائی پر ، اُسے ناشاد کرتا ہوں
-----------------تو کے طویل کھنچنے کی وجہ سے روانی متاثر ہو رہی ہے۔ الفاظ کی نشست بدل کر کہیں، ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے
کسی کا دل دکھانا تُو نے کب چاہا کبھی ارشد
لیکن میرے خیال میں یہ مصرع ردیف 'کرتا ہوں' کے ساتھ مناسب نہیں رہے گا۔
 
عظیم ، الف عین
-------------------
تبدیلیوں کے بعد
------------------
خدا کی یاد سے دل کو سدا آباد کرتا ہوں
خطائیں بخش دے میری یہی فریاد کرتا ہوں
------------------
اندھیرے دل کے ایسے ہی ہمیشہ دور ہوتے ہیں
میں راتوں کی سیاہی میں خدا کو یاد کرتا ہوں
-----------------
سکوں پاتا ہے دل میرا خدا کو یاد کرنے سے
یہ دل ویران ہوتا ہے اُسے آباد کرتا ہوں
---- یا -------
غموں سے دل کو ایسے ہی سدا آزاد کرتا ہوں
---------------------
منا لیتا ہوں لوگوں کو اگر ناراض ہو کوئی
کدورت دور ہوتی ہے اُنہیں پھر شاد کرتا ہوں
-----------------
یہ فتنوں کا زمانہ ہے بچے رہنا بُرائی سے
میں دنیا بھر کے لوگوں سے یہ فریاد کرتا ہوں
---------------
نہیں عادت یہ ارشد کی دُکھائے دل وہ لوگوں کے
جو اُکسائے بُرائی پر اُسے ناشاد کرتا ہوں
----------------
 

عظیم

محفلین
مطلع اب درست ہو گیا ہے
دوسرے شعر میں 'ہمیشہ' مجھے بھرتی کا لگ رہا ہے ۔ اس کے بغیر بھی بات مکمل ہوتی ہوئی معلوم ہو رہی ہے۔ اور شعر میں دو لختی کا احساس بھی ہے
دوسرے مصرع میں 'میں' کی بجائے 'جو' استعمال کریں تو پہلے مصرع میں جو بات کی گئی ہے اس کی وضاحت میں دوسرا مصرع ہو جائے گا اور میرے خیال میں ربط بھی قائم ہو جائے گا
تیسرے شعر کے دونوں متبادل مصرعے پہلے مصرع کا ساتھ نہیں دے رہے، دوبارہ غور کرنے پر دوسرا متبادل کچھ بہتر معلوم ہو رہا ہے اور میرے خیال میں دوسرے متبادل کے ساتھ شعر درست رہے گا
چوتھا شعر یوں کہیں تو
منا لیتا ہوں لوگوں کو اگر ناراض ہو کوئی
میں اپنی بات سے روٹھے ہوؤں کو شاد کرتا ہوں
فتنوں والے شعر کے دوسرے مصرع میں شاید ٹائپو ہے، 'یہ' کی جگہ 'یہی' ہونا تھا
مقطع میں صرف ایک خامی محسوس ہو رہی ہے، وہ یہ کہ جب ردیف 'کرتا ہوں' ہے تو اپنے لیے 'وہ' کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں پہلے مصرع کے 'وہ' کو 'یہ' سے بدلنے کی ضرورت ہے
 
Top