غزل برائے اصلاح

تیرے ہونٹوں کی ہنسی اچھی لگی
جگنوؤں کی روشنی اچھی لگی
جب لگی ہا تھوں میں ان کی مہندیاں
مجھ کو ان کی بے بسی اچھی لگی
ہو گیا اب معتبر میرا قلم
ان کو میری شاعری اچھی لگی
شہر گھو ما سیکڑوں میں نے مگر
مجھ کو بس تیری گلی اچھی لگی
کچھ پرانے دوستوں میں بیٹھ کر
بد مزہ یہ چائے بھی اچھی لگی
ہو گئی تھی بے وجہ بے رنگ سی
تم ملے تو زندگی اچھی لگی
آندھیوں کا سامنا کرتی ہوئی
گلستاں میں اک کلی اچھی لگی
خورشید بھارتی
مرزا پور۔یو۔پی
9506910222
 

یاسر شاہ

محفلین
غزل مجھے تو اچھی لگی - یہ مصرعے ذرا کھٹکے:

جب لگی ہا تھوں میں ان کی مہندیاں

"مہندیاں "نہیں جچتا --

ہو گئی تھی بے وجہ بے رنگ سی

بے وجہ بروزن مفعول استعمال ہوتا ہے -اس کی جگہ "بےسبب" کر دیں
 

یاسر شاہ

محفلین
جب رچی مہندی تمہارے ہاتھوں میں
مجھکو تیری بے بسی اچھی لگی

شتر گربہ =تمھارے + تیری

مصرع اولیٰ کی یہ شکلیں دیکھ لیں :

  • رچ(لگ) رہی تھی مہندی تیرے ہاتھوں پر
  • جب حنا تازہ تھی ہاتھوں پر ہنوز

سر دست یہ مصرع بھی درست کر لیں :

شہر گھو ما سیکڑوں میں نے مگر

"نے" اضافی ہے-یوں کر دیں :

شہر گھو ما سیکڑوں ہرچند میں
 
Top