غزل برائے اصلاح #۲

انس معین

محفلین
میں کہتا ہوں کہ رک جائیں اور ان سے عشق مت کیجے

مگر دل جی تو افسر ہیں وہ سنتے ہیں کہاں میری
(یہ شعر مجھے بلکل عجیب سا لگ رہا ہے اس غزل میں نکال دینا بہتر ہے ؟)


میرے بالوں میں چاندی ہے مگر دیکھو خدا کے رنگ

جو دیکھا چہرا بیٹے کا ہوئی آنکھیں جواں میری


بدن سارا کیوں دکھتا ہے دل کے کام اب سمجھے

کیا ہے درد خوں کے ساتھ ہر رگ میں رواں میری


کئی سر چھیڑوں لفظوں سے میں کہہ دوں گیت باتوں میں

میں ہوں اس واسطے نازاں کہ اردو ہے زباں میری


وبائے ہجر پھیلی ہے ادا تم اس کی زد میں ہو

میری آنکھوں کے حلیے سے ہوئی مرضیں عیاں میری

استاد محترم اصلاح کی درخواست الف عین

عظیم فلسفی
عظیم بھائی ۔فلسفی بھائی نظر فرمائیے گا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
میں کہتا ہوں کہ رک جائیں اور ان سے عشق مت کیجے

مگر دل جی تو افسر ہیں وہ سنتے ہیں کہاں میری
(یہ شعر مجھے بلکل عجیب سا لگ رہا ہے اس غزل میں نکال دینا بہتر ہے ؟)
۔۔۔میرا خیال ہے کہ افسر کی جگہ دیوانے لے آئیں۔ مگر دل جی ہیں دیوانے یہ سنتے.....
اچھا شعر ہے

میرے بالوں میں چاندی ہے مگر دیکھو خدا کے رنگ

جو دیکھا چہرا بیٹے کا ہوئی آنکھیں جواں میری

۔۔۔۔میرے کی جگہ 'مرے' ہونا چاہیے تھا اور 'ہوئی' کی جگہ میرا خیال ہے کہ 'ہوئیں' ہونا چاہیے

بدن سارا کیوں دکھتا ہے دل کے کام اب سمجھے

کیا ہے درد خوں کے ساتھ ہر رگ میں رواں میری
۔۔۔۔۔۔۔خیال بہت اچھا ہے لیکن پہلا مصرع بحر میں نہیں ہے
جو دکھتا ہے یہ سارا جسم دل کا کام اب سمجھا
کیا جا سکتا ہے

کئی سر چھیڑوں لفظوں سے میں کہہ دوں گیت باتوں میں

میں ہوں اس واسطے نازاں کہ اردو ہے زباں میری
۔۔۔۔چھیڑوں میں 'ڑوں' صرف ڑُ پڑھا جا رہا ہے جو اچھا نہیں لگ رہا۔ اور گیت باتوں میں کہنا عجیب بات ہو گئی ہے
الفاظ بدل کر کہنے کی کوشش کریں، دوسرا مصرع بہت اچھا ہے

وبائے ہجر پھیلی ہے ادا تم اس کی زد میں ہو

میری آنکھوں کے حلیے سے ہوئی مرضیں عیاں میری
۔۔۔۔'میری' کی جگہ 'مری' ہونا چاہیے، اور مرض کی جمع کیا درست ہے؟
 

انس معین

محفلین
سر دوبارہ درخواست ہے

میں کہتا ہوں کہ رک جائیں اور ان سے عشق مت کیجے
مگر دل جی ہیں دیوانے یہ سنتے ہیں کہاں میری
---------------------------------------------------------------
مرے بالوں میں چاندی ہے مگر دیکھو خدا کے رنگ
جو دیکھا چہرا بیٹے کا ہوئیں آنکھیں جواں میری
---------------------------------------------------------------
کیوں دکھتا ہے سارا جسم دل کا کام اب سمجھا
کرے یہ درد خوں کے ساتھ ہر رگ میں رواں میری
---------------------------------------------------------------
نزاکت سے بھرا لہجہ ہیں رنگوں سے بھری باتیں
میں ہوں اس واسطے نازاں کہ اردو ہے زباں میری
--------------------------------------------------------------
ادا کو ہجر لاحق ہے نہیں سوتا وہ راتوں میں
مری آنکھوں کے حلیے سے ہوئی عادت عیاں میری
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
'رنگوں سے بھری باتیں' بے معنی ہے۔ مٹھاس بھری باتیں یا اس طرح کی کچھ اور بات ہوتی تو کام بن سکتا تھا
ہجر لاحق ہونا بھی عجیب بات ہو گئی ہے۔ ادا کو ہجر کھاتا ہے نہیں سوتا وہ راتوں کو۔ کیا جا سکتا ہے
مقطع کا دوسرا مصرع بھی پہلے کا ساتھ نہیں دے رہا 'عادت' فٹ نہیں ہو رہا
 

انس معین

محفلین
'رنگوں سے بھری باتیں' بے معنی ہے۔ مٹھاس بھری باتیں یا اس طرح کی کچھ اور بات ہوتی تو کام بن سکتا تھا
ہجر لاحق ہونا بھی عجیب بات ہو گئی ہے۔ ادا کو ہجر کھاتا ہے نہیں سوتا وہ راتوں کو۔ کیا جا سکتا ہے
مقطع کا دوسرا مصرع بھی پہلے کا ساتھ نہیں دے رہا 'عادت' فٹ نہیں ہو رہا
یہی ہے ناں تک بندی کا نقصان عظیم بھائی اب اس کو ٹھیک کرنے میں بھی مزید دو دن درکار ہیں :)
 

انس معین

محفلین
سر دوبارہ ۔۔۔
نزاکت سے بھرے لہجہ محبت کے بھرے یہ رنگ
میں ہوں اس واسطے نازاں کہ اردو ہے زباں میری
 

عظیم

محفلین
سر دوبارہ ۔۔۔
نزاکت سے بھرے لہجہ محبت کے بھرے یہ رنگ
میں ہوں اس واسطے نازاں کہ اردو ہے زباں میری
پہلا مصرع مکمل طور پر ہی نیا کہنے کی ضرورت ہے۔ کچھ اور خیال بھی لایا جا سکتا ہے
اس مصرع سے آپ کے نازاں ہونے کی وجہ نہیں بیان ہوتی
 

انس معین

محفلین
سر دوبارہ

جو دکھتا ہے یہ سارا جسم دل کا کام اب سمجھا
کرے یہ درد خوں کے ساتھ ہر رگ میں رواں میری
---------------------------------------------------------------
یہ نازک مسکراہٹ ہے جو ہر لب کی بنی خاہش
میں ہوں اس واسطے نازاں کہ اردو ہے زباں میری
--------------------------------------------------------------
اداؔ کو ہجر کھاتا ہے نہیں سوتا وہ راتوں میں
مری آنکھوں سے ظاہر ہیں یہ شب بیداریاں میری
 

عظیم

محفلین
جو دکھتا ہے یہ سارا جسم دل کا کام اب سمجھا
کرے یہ درد خوں کے ساتھ ہر رگ میں رواں میری
---------------------------------------------------------------دوسرا مصرع پہلے والا ہی بہتر تھا۔ جو سب سے پہلے کہا تھا

یہ نازک مسکراہٹ ہے جو ہر لب کی بنی خاہش
میں ہوں اس واسطے نازاں کہ اردو ہے زباں میری
--------------------------------------------------------------ابھی بھی شعر نہیں بن پایا، پہلے مصرع میں کچھ غرور و تکبر یا گفتگو میں کسی خاصیت کی بات ہوتی تو دوسرا مصرع سوٹ رہنا تھا

اداؔ کو ہجر کھاتا ہے نہیں سوتا وہ راتوں میں
مری آنکھوں سے ظاہر ہیں یہ شب بیداریاں میری
۔۔۔۔۔دونوں مصرعوں میں ایک جیسی بات ہو گئی ہے
 
Top