غزل برائے اصلاح یوسف جمیل یوسف

md waliullah qasmi

محفلین
جو کچھ ہو آخری میں میسر سمیٹ لو
جانا ہے اس دیار سے منظر سمیٹ لو

آلودگی فضا میں ہے پھیلی چہارسو
پرواز ہے فضول ابھی پر سمیٹ لو

ہاتھوں میں دیگا تم کو اٹھاکر نہیں کوئ
جو کچھ بھی ہے یہاں پہ وہ آکر سمیٹ لو

کچھ تو ضرور نکلے گا ہوگا جو قیمتی
بکھرے پڑے ہیں جتنے بھی پتھر سمیٹ لو

کہتے ہیں جس کو ہجر وہ لمحہ بھی آگیا
دل میں کرو اب عزم سفر گھر سمیٹ لو


اس صبر بے خلوص سے امید ہے فضول
کاسا اٹھاؤ ہاتھ میں چادر سمیٹ لو

محبوب کی گلی کے نشانی کے واسطے
گر کچھ نہیں ہے اور تو پتھر سمیٹ لو

آنسو بہے تو روئینگے بچے بہت جمیل
اشکوں کو اپنی آنکھ کے اندر سمیٹ لو
 
آنسو بہے تو روئینگے بچے بہت جمیل
اشکوں کو اپنی آنکھ کے اندر سمیٹ لو
بہت اچھے۔
"کاسہ" مجھے لگتا ہے ایسے لکھنا چاہیئے۔
 

الف عین

لائبریرین
عزیزی یوسف جمیل سےکہیں کہ خود ہی یہاں پوسٹ کیا کریں محفل کے رکن بن کر۔

جو کچھ ہو آخری میں میسر سمیٹ لو
جانا ہے اس دیار سے منظر سمیٹ لو
مطلع واضح نہیں ہے۔ اگر دوسرا مصرع یوں ہو
جانا ہی ہے یہاں سے تو منظر سمیٹ لو
تو بات بنتی ہے۔ پہلے مصرع میں ’آخری‘ کا استعمال بھی غلط ہے، محض ’آخر‘ ہونا چاہئے۔

آلودگی فضا میں ہے پھیلی چہارسو
پرواز ہے فضول ابھی پر سمیٹ لو
۔۔پہلا مصرع شست نہیں، اسے یوں کہیں
آلودگی فضاؤں میں پھیلی ہےچارسو
تو رواں ہو جاتا ہے۔

دل میں کرو اب عزم سفر گھر سمیٹ لو
۔۔اس میں عزم‘ کی ’ع‘ کا اسقاط ہو رہا ہے۔ الف تو جائز ہے لیکن ’ع‘ کا گرنا جائزنہیں۔
’’دل میں‘ نکال کر الفاظ بدلیں تو بہتر ہو سکتا ہے۔

محبوب کی گلی کے نشانی کے واسطے
گر کچھ نہیں ہے اور تو پتھر سمیٹ لو
اس کو نکال ہی دیں، ناصر کاظمی کی نقل لگ رہا ہے۔
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
 

md waliullah qasmi

محفلین
شکریہ سر
میں کوشش کر رہا ہوں کہ یوسف جمیل صاصب خود یہاں تشریف لائیں انشاءاللہ بہت جلد یہاں آجائیں گے
 
Top