غزل برائے اصلاح: وقت جو بیت گیا اس کو صداکیا دینا: محمد حفیظ الرحمٰن

غزل
از: محمد حفیظ الرحمٰن
وقت جو بیت گیا اس کو صدا کیا دینا
بجھ چکی آگ تو پھر اس کو ہوا کیا دینا
جس کا بالکل بھی نہ ہو لوٹ کے آنے کا خیال
پھر اسے لوٹ کے آنے کی دعا کیا دینا
فاصلے لاکھ سہی، دل میں تو بستا ہے وہی
اتنے نزدیک سے آواز بھلا کیا دینا
جرم ثابت ہو، گواہی بھی ہو، لیکن پھر بھی
سر جھکائے وہ کھڑا ہو تو سزا کیا دینا
زندگی کی نہیں اب جس میں رمق بھی باقی
میری جاں، اب اسے دامن کی ہوا کیا دینا
کھوج میں جس کی لٹے لوگ نجانے کتنے
پھر کسی کو اسی منزل کا پتا کیا دینا
 

الف عین

لائبریرین
خوب حفیظ، ماشاء اللہ اچھی غزل ہے۔ ایک دو بہتری کی تجویزیں دوں گا۔
ایک تو ’اتنے نزدیک‘ درست ہے، اتنی نزدیک نہیں۔
دوسرے اس شعر میں
جرم ثابت ہو، گواہی بھی ہو، لیکن کویئ
سر جھکائے جو کھڑا ہو تو سزا کیا دینا
مجھے ‘کوئی‘ جس کا تعلق دوسرے مصرع سے ہے، پہلے میں اتنا مناسب نہیں لگ رہا ہے۔ اگر یوں کہو تو
جرم ثابت ہو، گواہی بھی ہو، لیکن پھر بھی
سر جھکائے وہ کھڑا ہو تو سزا کیا دینا
 
محترم جناب استاد عبید اعجاز صاحب۔ سر اصلاح کے لئے بہت بہت شکریہ۔ اتنی کی جگہ اتنے کا لفظ ہی واقعی درست ہے۔ دوسرے شعر میں اصلاح سے بھی شعر بہتر ہو گیا ہے۔ میری مدیرِ محترم جناب خلیل صاحب سے التماس ہے کہ استادِ محترم کی اصلاح کے مطابق غزل میں ترمیم کر دیں۔ شکریہ۔
 
محترم جناب استاد عبید اعجاز صاحب۔ سر اصلاح کے لئے بہت بہت شکریہ۔ اتنی کی جگہ اتنے کا لفظ ہی واقعی درست ہے۔ دوسرے شعر میں اصلاح سے بھی شعر بہتر ہو گیا ہے۔ میری مدیرِ محترم جناب خلیل صاحب سے التماس ہے کہ استادِ محترم کی اصلاح کے مطابق غزل میں ترمیم کر دیں۔ شکریہ۔
تدوین کردی ہے جناب۔
بہت داد قبول فرمائیے اس خوبصورت غزل پر
 

الف عین

لائبریرین
نہیں بلال، یہاں ’دینا‘ ردیف ہے، جسے نیوٹرل استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ صرف دہلی اور لکھنؤ کے جھگڑوں میں ہو تا ہے کہ صدا دینی درست ہے (لکھنؤ) اور ’صدا دینا‘ ہونا چاہئے (دہلی)۔ لیکن آج کل زبان کے اس فرق پر زور نہیں دیا جاتا، اور یوں بھی ردیف یہاں ’دینا‘ ہی ہے، اور یہ شاعر کی مجبوری ہے، یا ضرورت شعری ہے
 
Top