غزل برائے اصلاح "مفعول مفاعلن فعولن"

بن کےجو عذاب چبھ رہے ہیں
آنکھوں میں خواب چبھ رہے ہیں

کانٹوں کا گلا ہی کیا ہے یارو
اب تو یہ گلاب چبھ رہے ہیں

لوگوں کے سوالوں کا نہیں دکھ
اُن کےتو جواب چبھ رہے ہیں

جب آئے ہیں ہم ان کی محفل
فرمایا جناب چبھ رہے ہیں

مسجد میں سے جو ہو رہے ہیں
مجھ تو وہ خطاب چبھ رہے ہیں

ہے مجھ تو گناہوں سے محبت
گستاخ ثواب چبھ رہے ہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بن کےجو عذاب چبھ رہے ہیں
آنکھوں میں خواب چبھ رہے ہیں
÷÷خواب کا ’و‘ محض لکھا جاتا ہے، محض ’خاب‘ بولا جاتا ہے۔
’جو‘ کی معنویت بھی واضح نہیں ہوتی۔

کانٹوں کا گلا ہی کیا ہے یارو
اب تو یہ گلاب چبھ رہے ہیں
؟÷÷ ’کیا ہے یارو‘ کچھ مطلب ہے یا محض وزن پورا کرنے کے لئے؟

لوگوں کے سوالوں کا نہیں دکھ
اُن کےتو جواب چبھ رہے ہیں
÷÷’بس ان کے جواب‘ بہتر ہو گا شاید۔

جب آئے ہیں ہم ان کی محفل
فرمایا جناب چبھ رہے ہیں
÷÷پہلا مصرع وزن سے خارج،
جب آئے ہیں ان کی بزم میں ہم


مسجد میں سے جو ہو رہے ہیں
مجھ تو وہ خطاب چبھ رہے ہیں
÷÷یہ شعر ضروری ہے؟

ہے مجھ تو گناہوں سے محبت
گستاخ ثواب چبھ رہے ہیں
۔۔پہلے مصرع میں شاید ٹائپو ہے۔
ہے مجھ ’کو‘ گناہ سے محبت
ہی کافی ہے۔
 
بن کےجو عذاب چبھ رہے ہیں


کانٹوں کا گلا ہی کیا ہے یارو
اب تو یہ گلاب چبھ رہے ہیں
؟÷÷ ’کیا ہے یارو‘ کچھ مطلب ہے یا محض وزن پورا کرنے کے لئے؟
مطلب پیدا کرنے کی کوشش کی تھی جو شاہد نہیں ہو سکا؟
لوگوں کے سوالوں کا نہیں دکھ
اُن کےتو جواب چبھ رہے ہیں
÷÷’بس ان کے جواب‘ بہتر ہو گا شاید۔
لوگوں کے سوالوں کا نہیں دکھ
بس ان کے جواب چبھ رہے ہیں
اب جائے کچھ بہتر ہوا ہے سر

مسجد میں سے جو ہو رہے ہیں
مجھ تو وہ خطاب چبھ رہے ہیں
÷÷یہ شعر ضروری ہے؟
شاہد وہ مفہوم پیدا نہیں ہو سکا جودل میں مقصد تھا
 
Top