غزل برائے اصلاح (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

نوید ناظم

محفلین
ٹھیک ہے' آپ چاہے عطا مت کہیں
جی محبت کو لیکن سزا مت کہیں

ہے بڑی اس میں لذت یقیں کیجئے
اُس ادائے ستم کو جفا مت کہیں

اُس نے سینے سے میرے نکالا ہے دل
اِس محبت کو میری خطا مت کہیں

جس نے کشتی ڈبو دی ہے خود دوستو
ہو چلو نا خدا' نا خدا مت کہیں

لیجئے جاتے ہیں بزم سے آپ کی
دیکھیے اب تو ہم کو بُرا مت کہیں
 
اوزان کی حد تک تو کافی پختگی آ گئی ہے، نوید بھائی۔ ماشاءاللہ۔ مشق جاری رکھیے۔ اور نکھار آتا جائے گا۔
جہاں تک معانی کا تعلق ہے تو وہ ہمیں اچھے ہی معلوم ہوئے ہیں۔ مگر کچھ باتیں ازراہِ گفتگو کرتا ہوں۔
ٹھیک ہے' آپ چاہے عطا مت کہیں
جی محبت کو لیکن سزا مت کہیں
"جی" بھرتی کا معلوم ہوتا ہے۔
ہے بڑی اس میں لذت یقیں کیجئے
اُس ادائے ستم کو جفا مت کہیں
ایک مصرع میں "کیجیے" اور دوسرے مصرع میں "کہیں"۔ اندازِ تخاطب کے اس اختلاف کے باعث کچھ شتر گربہ کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ یا تو دوسرے میں بھی "کہیے" ہونا چاہیے تھا جو قافیے کی مجبوری کے باعث ممکن نہیں یا پھر پہلے میں بھی "کریں" کہنا چاہیے تھا۔
جس نے کشتی ڈبو دی ہے خود دوستو
ہو چلو نا خدا' نا خدا مت کہیں
دوسرا مصرع سقیم ہے۔
لیجئے جاتے ہیں بزم سے آپ کی
دیکھیے اب تو ہم کو بُرا مت کہیں
بہت خوب صورت۔ مگر شعر نمبر ۲ والی خامی اس میں بھی ہے گو اتنی بری معلوم نہیں ہو رہی۔
:):):)
 

نوید ناظم

محفلین
اوزان کی حد تک تو کافی پختگی آ گئی ہے، نوید بھائی۔ ماشاءاللہ۔ مشق جاری رکھیے۔ اور نکھار آتا جائے گا۔
جہاں تک معانی کا تعلق ہے تو وہ ہمیں اچھے ہی معلوم ہوئے ہیں۔ مگر کچھ باتیں ازراہِ گفتگو کرتا ہوں۔

"جی" بھرتی کا معلوم ہوتا ہے۔

ایک مصرع میں "کیجیے" اور دوسرے مصرع میں "کہیں"۔ اندازِ تخاطب کے اس اختلاف کے باعث کچھ شتر گربہ کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ یا تو دوسرے میں بھی "کہیے" ہونا چاہیے تھا جو قافیے کی مجبوری کے باعث ممکن نہیں یا پھر پہلے میں بھی "کریں" کہنا چاہیے تھا۔

دوسرا مصرع سقیم ہے۔

بہت خوب صورت۔ مگر شعر نمبر ۲ والی خامی اس میں بھی ہے گو اتنی بری معلوم نہیں ہو رہی۔
:):):)
آپ نے توجہ فرمائی' بہت ممنون ہوں۔۔۔ جو نقاط بیان ہوئے ان کی روشنی میں ملاحظہ کجئے گا۔

ٹھیک ہے آپ چاہے عطا مت کہیں
اس محبت کو لیکن سزا مت کہیں

ہے چُھپی اس میں لذت عجب سی کوئی
اُس ادائے ستم کو جفا مت کہیں

اُس نے سینے سے میرے نکالا ہے دل
اب محبت کو میری خطا مت کہیں

جس نے کشتی ڈبو دی ہے خود دوستو
لوگ اب تو اسے نا خدا مت کہیں

یہ لیں اٹھ جاتے ہیں بزم سے آپ کی
دیکھیے اب تو ہم کو بُرا مت کہیں
 

الف عین

لائبریرین
میری رائے سن لیں تو شاید ۔۔۔
میرا خیال میں ’مت‘ محض تم کے ساتھ اچھا لگتا ہے اور مستعمل ہے۔ مت کہیں یا مت کہیے، اس لحاظ سے درست نہیں۔ اگر مان بھی لیا جائے تب بھی محجض امر کے صیغے میں استعمال ہو سکتا ہے۔ عمومی طور پر نہیں۔ اس طرح یہ شعر تو غلط ہی ہے۔
جس نے کشتی ڈبو دی ہے خود دوستو
لوگ اب تو اسے نا خدا مت کہیں
باقی اشعار میں درست مان لیں تو بھی
ہے چُھپی اس میں لذت عجب سی کوئی
مزید روانی کا طالب ہے۔

اور
یہ لیں اٹھ جاتے ہیں بزم سے آپ کی
بھی زیادہ رواں ہو سکتا ہے، مثلاً
لیجے اٹھ جاتے ،۔۔۔۔
 

نوید ناظم

محفلین
میری رائے سن لیں تو شاید ۔۔۔
میرا خیال میں ’مت‘ محض تم کے ساتھ اچھا لگتا ہے اور مستعمل ہے۔ مت کہیں یا مت کہیے، اس لحاظ سے درست نہیں۔ اگر مان بھی لیا جائے تب بھی محجض امر کے صیغے میں استعمال ہو سکتا ہے۔ عمومی طور پر نہیں۔ اس طرح یہ شعر تو غلط ہی ہے۔
جس نے کشتی ڈبو دی ہے خود دوستو
لوگ اب تو اسے نا خدا مت کہیں
باقی اشعار میں درست مان لیں تو بھی
ہے چُھپی اس میں لذت عجب سی کوئی
مزید روانی کا طالب ہے۔

اور
یہ لیں اٹھ جاتے ہیں بزم سے آپ کی
بھی زیادہ رواں ہو سکتا ہے، مثلاً
لیجے اٹھ جاتے ،۔۔۔۔
بہت شکریہ سر۔۔۔
آئندہ کے لیے "مت" کو" تم" کے بغیر برتنے میں محتاط ہوں۔
جس نے ڈبو دی۔۔۔۔ اس شعر کو حذف سمجھتے ہوئے متبادل کے لیے سعی کر دیکھتا ہوں
سر' راحیل فاروق بھائی نے فرمایا تھا کہ" لیجئے" اور " کہیں" بالترتیب ایک شعر میں مناسب نہیں اس لیے " یہ لیں" پرہی اکتفا کیا۔۔۔ اس پر مزید رہنمائی درکار ہے۔
 

نوید ناظم

محفلین
یہ شعر تو غلط ہی ہے۔
جس نے کشتی ڈبو دی ہے خود دوستو
لوگ اب تو اسے نا خدا مت کہیں
باقی اشعار میں درست مان لیں تو بھی
ہے چُھپی اس میں لذت عجب سی کوئی
مزید روانی کا طالب ہے۔

سر جس مصرعے میں روانی متاثر تھی اسے بدلا ہے۔۔۔اور حذف شدہ شعرکی جگہ پر نیا شعر ملاحظہ فرمایے گا۔

ہم کو لذت ملی ہے اسی میں حضور
اُس ادائے ستم کو جفا مت کہیں

ہم نے کب یہ کہا ہم کو اپنا کہیں
آپ یہ کیوں کہیں گے بھلا' مت کہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بہت شکریہ سر۔۔۔
آئندہ کے لیے "مت" کو" تم" کے بغیر برتنے میں محتاط ہوں۔
جس نے ڈبو دی۔۔۔۔ اس شعر کو حذف سمجھتے ہوئے متبادل کے لیے سعی کر دیکھتا ہوں
سر' راحیل فاروق بھائی نے فرمایا تھا کہ" لیجئے" اور " کہیں" بالترتیب ایک شعر میں مناسب نہیں اس لیے " یہ لیں" پرہی اکتفا کیا۔۔۔ اس پر مزید رہنمائی درکار ہے۔
لیکن میرےمجوزہ مصرع میں ’لیجے‘ امریہ نہیں، محض محاورتاً ہے۔ یہان چل سکتا ہے۔
جفا والا شعر اب بہتر ہو گیا ہے، لیکن نیا شعر، بلکہ مطلع کچھ گنجلک ہو گیا ہے۔ ذرا غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ کیا مطلب ہے۔ ویسے درست ہے۔
 
Top