غزل برائے اصلاح (فاعلاتن مفاعلن فِعْلن)

فیضان قیصر

محفلین
ٹھیک ہے اب مجھے اجازت دو
تم نہیں سمجھے مسئلہ کیا ہے
آج بھی تم اداس بیٹھے ہو؟
آج معلوم ہے وجہ کیا ہے؟
پند اپنے ہی پاس رکھ ناصح
تُو مجھے یہ بتا دوا کیا ہے
لاکھ کوشش کے بعد بھی اب تو
یاد آتا نہیں مزا کیا ہے
جنکو لگتا ہے بے وفا ہوں میں
انکا پیمانہِ وفا کیا ہے
آپ کو ناگوار گزرے گی
میری رائے کا فائدہ کیا ہے
دل تری ایک بھی نہ مانوں گا
اب بتائوں گا میں انا کیا ہے
آپ نے ہی سکھا یا ہے یارو
پیار، نفرت ، دغا ، وفا کیا ہے
بے سبب ہی اداس ہو جانا
دل کا معمول ہے نیا کیا ہے
جس نے فیضان دل کی جاں لے لی
کون جانے وہ حادِثہ کیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
آج بھی تم اداس بیٹھے ہو؟
آج معلوم ہے وجہ کیا ہے؟
÷÷وجہ بطور وجا غلط ہے۔ ’ہ‘ پر جزم ہے صحیح تلفظ میں۔


جس نے فیضان دل کی جاں لے لی
کون جانے وہ حادِثہ کیا ہے
÷÷دل کی بھی جان ہوتی ہے؟؟
 
Top