غزل برائے اصلاح (فاعلاتن مفاعلن فعلن)

نوید ناظم

محفلین
میرے دکھ کی دوا نہیں کرتا
کرنے کو یوں کیا نہیں کرتا

یہ بھی کم عقل کی نشانی ہے
بولتا ہے' سنا نہیں کرتا

دیکھ صیاد کا ستم مجھ پر
یہ قفس بھی کھُلا نہیں کرتا

ڈال دے خود بھنور میں کشتی کو
ایسے تو نا خدا نہیں کرتا

خود مِلے ہے رقیب سے دیکھو
میں تو اس کا بُرا نہیں کرتا

ایک ہی عیب ہے بڑا اس میں
یہ کہ ہم سے مِلا نہیں کرتا

بچ کے رہنا نوید نظروں سے
وہ نشانہ خطا نہیں کرتا
 
میرے دکھ کی دوا نہیں کرتا
کرنے کو یوں کیا نہیں کرتا

یہ بھی کم عقل کی نشانی ہے
بولتا ہے' سنا نہیں کرتا

دیکھ صیاد کا ستم مجھ پر
یہ قفس بھی کھُلا نہیں کرتا

ڈال دے خود بھنور میں کشتی کو
ایسے تو نا خدا نہیں کرتا

خود مِلے ہے رقیب سے دیکھو
میں تو اس کا بُرا نہیں کرتا

ایک ہی عیب ہے بڑا اس میں
یہ کہ ہم سے مِلا نہیں کرتا

بچ کے رہنا نوید نظروں سے
وہ نشانہ خطا نہیں کرتا
 
Top