فرحان محمد خان
محفلین
فاعلاتن مفاعلن فِعْلن
لیے پھرتے ہیں خواب آنکھوں میں
آپ کی ہیں گلاب آنکھوں میں
(لیے پھرتے ہوں خواب آنکھوں میں
ان کی خاطر گلاب آنکھوں میں)
ایسا ہے کے سوال لب پہ ہیں
اور ان کے جواب آنکھوں میں
اب کے واعظ نے اتنی بندگی کی
آ رہے ہیں ثواب آنکھوں میں
غم کسی کا نہیں مگر یہ کیا
کیسا ہے اضطراب آنکھوں میں
خواہشِ دید جو نہیں تو کیا ؟
اب تو ہیں آفتاب آنکھوں میں
مبر و مہراب تمہیں مبارک ہوں
(مبر و مہراب نہیں چاہتے ہیں)
کافی ہے بس شراب آنکھوں میں
(کافی ہے ہو شراب آنکھوں میں)
بات میری تری نہیں واعظ
عشق کا ہے نصاب آنکھوں میں
کوئی آنسو نہیں مگر پھر بھی
کوئی تو ہے سراب آنکھوں میں
میں ہوں گستاخ جو اسی لیے تو
آ رہے ہیں عذاب آنکھوں میں
سر الف عین
آپ کی ہیں گلاب آنکھوں میں
(لیے پھرتے ہوں خواب آنکھوں میں
ان کی خاطر گلاب آنکھوں میں)
ایسا ہے کے سوال لب پہ ہیں
اور ان کے جواب آنکھوں میں
اب کے واعظ نے اتنی بندگی کی
آ رہے ہیں ثواب آنکھوں میں
غم کسی کا نہیں مگر یہ کیا
کیسا ہے اضطراب آنکھوں میں
خواہشِ دید جو نہیں تو کیا ؟
اب تو ہیں آفتاب آنکھوں میں
مبر و مہراب تمہیں مبارک ہوں
(مبر و مہراب نہیں چاہتے ہیں)
کافی ہے بس شراب آنکھوں میں
(کافی ہے ہو شراب آنکھوں میں)
بات میری تری نہیں واعظ
عشق کا ہے نصاب آنکھوں میں
کوئی آنسو نہیں مگر پھر بھی
کوئی تو ہے سراب آنکھوں میں
میں ہوں گستاخ جو اسی لیے تو
آ رہے ہیں عذاب آنکھوں میں
سر الف عین
آخری تدوین: