غزل برائے اصلاح - زنیرہ گل

زنیرہ عقیل

محفلین
محبت ہے پہاڑوں سی مجھے چڑھنا نہیں آتا
کٹھن راہوں پہ مجھ کو اس طرح چلنا نہیں آتا
کروں گی کس طرح شکوہ اگر دل میرا ٹوٹا تو
مجھے رونا تو آتا ہے مگر لڑنا نہیں آتا
ادھورا ہے سفر میرا نہ ہی اب تک ملی منزل
کسی بھٹکے ہوئےکو راہ پر لانا نہیں آتا
ملاتی ہاتھ ہوں جب دوست سے تو کانپ جاتی ہوں
مجھے اچھے بُرے کا فرق بھی کرنا نہیں آتا
ثباتِ گل پرکھنے کے لیے گل کو مسل دیکھو
کہ حق کی راہ پر باطل سے بھی ڈرنا نہیں آتا
ممقیدّ کر نہیں سکتی میں خوشبو کو کبھی اپنی
عدو سے بھی مہک کو فاصلہ کرنا نہیں آتا
شکن بھی گلؔ کے ماتھے پر اسے اچھی نہیں لگتی
کہ خود جس کو کسی کے سامنے ہنسنا نہیں آتا

زنیرہ گل
 
زنیرہ بہن، اس غزل کے قوافی محلِ نظر ہیں۔ محض ’’نا‘‘ مشترک ہونے سے قافیہ قائم نہیں ہوگا۔
چڑھنا اور لڑنا ہم قافیہ ہوسکتے ہیں (شاید!)
کرنا اور ڈرنا الگ گروپ ہے قوافی کا
لانا اور ہنسنا کے جوڑ کا کوئی قافیہ موجود نہیں غزل میں۔
ایک سادہ سا اصول یہ یاد رکھیں کہ اگر قافیہ مصدر ہے، جیسے چڑھنا، چلنا وغیرہ ۔۔۔ تو اس میں سے علامتِ مصدر ’’نا‘‘ نکالنے کے بعد جو فعلِ امر بچ رہیں، جیسے چڑھ، چل ۔۔۔ قافیہ قائم کرنے کے لئے ان کا ہم آواز ہونا ضروری ہوتا ہے۔ گویا چڑھنا کا قافیہ پڑھنا تو ہوسکتا ہے، چلنا نہیں۔ اسی طرح چلنا کے قافیے پلنا، جلنا وغیرہ ہوسکتے ہیں، لانا اور ہنسنا نہیں۔

دعاگو،
راحلؔ
 
آخری تدوین:

زنیرہ عقیل

محفلین
زنیرہ بہن، اس غزل کے قوافی محلِ نظر ہیں۔ محض ’’نا‘‘ مشترک ہونے سے قافیہ قائم نہیں ہوگا۔
چڑھنا اور لڑنا ہم قافیہ ہوسکتے ہیں (شاید!)
کرنا اور ڈرنا الگ گروپ ہے قوافی کا
لانا اور ہنسنا کے جوڑ کا کوئی قافیہ موجود نہیں غزل میں۔
ایک سادہ سا اصول یہ یاد رکھیں کہ اگر قافیہ مصدر ہے، جیسے چڑھنا، چلنا وغیرہ ۔۔۔ تو اس میں سے علامتِ مصدر ’’نا‘‘ نکالنے کے بعد جو فعلِ امر بچ رہیں، جیسے چڑھ، چل ۔۔۔ قافیہ قائم کرنے کے لئے ان کا ہم آواز ہونا ضروری ہوتا ہے۔ گویا چڑھنا کا قافیہ پڑھنا تو ہوسکتا ہے، چلنا نہیں۔ اسی طرح چلنا کے قافیے پلنا، جلنا وغیرہ ہوسکتے ہیں، لانا اور ہنسنا نہیں۔

دعاگو،
راحلؔ
بہت بہت شکریہ محترم ۔۔۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا
 
Top