غزل برائے اصلاح۔۔۔۔۔۔

دل کا ہے سوز لوگو، کوئی ساز نہیں ہے
یہ شاعری ہے حسن کی آواز نہیں ہے

پتہ نہیں بچا ہے کوئی صحن چمن میں
کیا سرپھری ہوا کا سازباز نہیں ہے

ہونا ترا اس شوخ ادا سےغزل سرا
کہدو طوائفوں کا یہ انداز نہیں ہے

تعمیر کرے کون محبت کی نشانی
شاہ جہاں نہیں کوئی ممتاز نہیں ہے

کھل کر یزید وقت سے جو کردے بغاوت
کوئی حسین سا یہاں جانباز نہیں ہے
خورشید بھارتی
انڈیا
 
Top