غزل : بجھتے ہوئے ضمیر کو شعلہ انائیں دے - تنویر سپرا

غزل
بجھتے ہوئے ضمیر کو شعلہ انائیں دے
اس جاں بلب مریض کو تازہ ہوائیں دے

ان وسوسوں کے اندھے کنوئیں کی جگہ مجھے
اے ذہنِ شر پسند یقیں کی ضیائیں دے

پتھر نہیں تو خود کو گرا سطحِ آب پر
ان گنگ منظروں کو سمندر صدائیں دے

جن کی شکم میں صرف اُجالے ہی پل سکیں
یا رب نئے بشر کو وہ مہتاب مائیں دے

جس جس کے پاس جو نہیں کر وہ عطا اسے
مُلّا کو روح کی مجھے تن کی غذائیں دے

استادِ وقت سے مری اتنا ہے التجا
کمسن سماعتوں کو نہ بوڑھی صدائیں دے

جگ مگ کرے گا شایدِ معنی کا انگ انگ
سپراؔ وجودِ شعر کو شیشہ قبائیں دے
تنویر سپرا
 
Top