غزل : اُس نگر کا نام بھی سپراؔ شرافت پُور تھا - تنویر سپرا

غزل
اُس نگر کا نام بھی سپراؔ شرافت پُور تھا
جس کے ہر انسان میں اک بھیڑیا مُستور تھا

فاتحوں سے قبل وہ مالِ غنیمت پر گرا
جنگ کے میدان سے جو شخص کوسوں دور تھا

وقت سے پہلے ہوس کی آریاں اس پر چلیں
ایک پودا جو ابھی نوخیز تھا ، بِن بُور تھا

اپنی تاریخِ نسب پر اس لیے نازاں ہوں میں
عظمتِ محنت مرے اجداد کا منشور تھا

دشمنی زردار سے مجھ کو وراثت میں ملی
میں بھی ہوں مُزدور ، میرا باپ بھی مُزدور تھا

رابطوں کے لوٹنے پر بھی ضدیں محفوظ تھیں
جو اُسے منطور تھا وہ مجھ کو نامنظور تھا

کس طرح تنویرؔ سپرا دور ہوتیں دوریاں
میں اندھیرا جھونپڑے کا وہ محل کا نُور تھا
تنویر سپراؔ
 
Top