غزل : اس گل کے لب پہ خوشبوئے امکاں سی کِھل گئی - م م مغل

غزل
اس گل کے لب پہ خوشبوئے امکاں سی کِھل گئی
نخلِ مراجعت کو بھی میعاد مل گئی

کل شب بہت قریب سے گزری تھی کوئی یاد
ایسا لگا کہ بانوئے خورشید مل گئی

میں پائمالِ گرد ذرا دیر کو رُکا
ملبوس جھاڑتے ہوئے امید مل گئی

خاکسترِ خیال سے اٹھا خمیرِ خواب
اچھا ہوا کہ زنجشِ افلاک و گِل گئی

اب کیا سکوتِ لمس کی تکرار کھینچیے
جب اس طرف نہ جنبشِ آوازِ دل گئی

کل تک اسی کے نام پہ قائم تھی سلطنت
پھر یوں ہوا کے قصر کی بنیاد ہل گئی

اے دل قبائے صبح کی بخیہ گری پہ خاک
یہ دیکھ اُداس شام بھی دامن میں سل گئی

محمودؔ یہ غزل بھی اسی دشت پر نثار
جس میں ترے غزال کو رفتار مل گئی
م م مغل
 
آخری تدوین:
Top