غزل - احباب کی بصارتوں کی نذر

دائم

محفلین
امیرِ شہر کیوں بن کر شرار اس پر لپکتا ہے؟
غریبِ شہر کے آنگن میں جو بھی گل مہکتا ہے

محافظ تھے جو ملت کے وہی غدار بن بیٹھے
حجابِ غیرتِ قومی کبھی یوں بھی سَرَکتا ہے

دمِ تیغِ جنوں نے کیا لکھا بر سینۂِ عاشق
فرازِ دار پر جو بے خودی میں یوں لہکتا ہے

چراغِ ضبط ہے حالات کی تُندی کے پیشِ رَو
وہ جتنا تلخ تر ہوتے ہیں ، یہ اُتنا بھڑکتا ہے

سُرورِ لمسِ پائے عاشقِ منزل سے ہر ذرّہ
فلک پر مثلِ انجم کیف و مستی میں چمکتا ہے

اجالا دن کا کیا جانے ، جفائے وقت سے ہر دم
کوئی آشفتہ سَر پہلوئے شب میں کیوں سسکتا ہے؟

نرالی ہیں شرابِ عشق کی سرمستیاں دائم
کوئی پی کر سنبھلتا ہے ، کوئی پی کر بہکتا ہے
 

منیب الف

محفلین
کوئی پی کر سنبھلتا ہے، کوئی پی کر بہکتا ہے۔۔ کیا کہنے، دائم صاحب!
شاندار اشعار!
ایک بات ہے۔
یہ جو آپ نے لکھا ہے:
احباب کی بصارتوں کی نذر
اسے لکھیے:
احباب کی بصارتوں کا امتحان
کیونکہ آپ فانٹ سائز خاصا چھوٹا استعمال کرتے ہیں :)
 
Top