غزل : آنکھوں کے سامنے کوئی تصویر ہُو بہُو - سرمد صہبائی

غزل
(نذرِ سراج اورنگ آبادی)

آنکھوں کے سامنے کوئی تصویر ہُو بہُو
کُھلتی ہے میرے خواب کی تعبیر ہُو بہُو

چشمِ سیہ وہ زلفِ گرہ گیر ہُو بہُو
نظارۂ طلسمِ اساطیر ہُو بہُو

بالوں کے درمیاں برہنہ ہوئی وہ مانگ
کُھبتی چلی گئی کوئی شمشیر ہُو بہُو

بوسہ خدا گواہ اس آتش پرست کا
ہے موسمِ بہشت کی تاثیر ہُو بہُو

آوردِ ذوق و شوق میں آمد کی لذتیں
کرتا رہا وہ ہم سے مزا میر ہُو بہُو

ہر ہر خوشی کی اوٹ میں اک سایۂ ملال
اُس شوخ کی ہے شوخیِ تدبیر ہُو بہُو

لپٹے ہے میرے پاؤں سے پھر تیری رہ گزر
لے کر ہمیں پھرے ہے یہ زنجیر ہُو بہُو

ہم کو رُخِ سراجؔ مجالِ سخن کہاں
لکھتی ہے آپ خود کو یہ تحریر ہُو بہُو

رندِ خراب سرمدِؔ شاہد پرست کو
کچھ لوگ مانتے ہیں یہاں پیر ہُو بہُو
سرمد صہبائی
 
آخری تدوین:
Top