غزل۔ ملتے ہیں نقوشِ پا ،نقشِ پا نہیں ملتا۔ شہپر رسول

فرحت کیانی

لائبریرین
ملتے ہیں نقوشِ پا ،نقشِ پا نہیں ملتا
راستے تو ملتے ہیں راستا نہیں ملتا

تاریخ اب بنے کیسے کیا لکھے مؤرخ بھی
حادثے تو ملتے ہیں واقعہ نہیں ملتا

دُکھ کی داستاں ہے یہ اور اس کا دُکھ یہ ہے
ایک لفظ بھی اس میں دُکھ بھرا نہیں ملتا

پُھوٹ نکلے آنکھوں سے یا بسے ہیں رُوحوں میں
آبلہ یہاں کوئی زیرِ پا نہیں ملتا

لفظ جیسے عاجز ہوں اپنی بات کہنے میں
بھر گئی کتابِ جاں حاشیہ نہیں ملتا

خواب کے مثلث میں، میں تھا، وہ تھا، دنیا تھی
خواب کیا ، مثلث کیا ، زاویہ نہیں ملتا

عام راستوں میں بھی خاص لوگ ملتے ہیں
ایک شخص بھی شہپر عام سا نہیں ملتا

کلام: شہپر رسول
 
Top