غزل۔۔ جواب آں غزل

شیزان

لائبریرین
غزل
شاعر: راحت نسیم ملک

گھر پہنچ کر دُور جاتے راستوں کی سوچنا
تم سے ہو پائے تو میرے فاصلوں کی سوچنا

رسمی لفظوں سے چکُا کر کاغذوں کے قرض کو
جو کبھی لکھے نہیں ،ایسے خطوں کی سوچنا

اجنبی بانہوں میں اپنا ہم بدن پا کر کبھی
جن پہ اپنا نام تھا ان دھڑکنوں کی سوچنا

سوئی جھیلوں کے بدن میں لہر بن کر ٹوٹنا
کچی نیندوں کے بگڑتے دائروں کی سوچنا

دُھند میں لپٹے ہوئے شیشوں پہ لکھ کر کوئی بات
اپنی بے مطلب پریشاں انگلیوں کی سوچنا

دن گذر جائے گا اندر کا خلا بھرتے ہوئے
شعر لکھنا اور بوجھل فائلوں کی سوچنا

رات بھر محصور لوگوں کی دعائیں مانگنا
پھر ابا بیلوں کی ،ان کے کنکروں کی سوچنا

خون میں جمتی ہوئی بنجر سفر کی گرد میں
شہر کے زخموں کو دھوتی بارشوں کی سوچنا

کھوجتے پھرتا ہوں میں اپنے کھوئے لمس کو
جو نہیں آئے نسیم ان موسموں کی سوچنا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جوابی غزل
شاعرہ: ارشاد عرشیؔ ملک

آسماں کی وسعتوں، ٹوٹے پروں کی سوچنا
تم سے ہو پائے تو میرے حوصلوں کی سوچنا

سوچ کر لکھے ہُوئے خط کی عبارت سے الگ
جو جلا ڈالے گئے ہیں اُن خطوں کی سوچنا

رنگ جاگ اُٹھتے ہیں ان آنکھوں میں جن کے نام پر
اُن حسیں لوگوں کی مدھم آہٹوں کی سوچنا

کلیوں، کلیوں اُڑنے والی خوبصورت تتلیو!
وقت مل جائے تو آتے پت جھڑوں کی سوچنا

وقت کا ہر نقش چہرے پر اُترتا دیکھنا
خود بخود بے آب ہوتے آئینوں کی سوچنا

اپنے آسودہ گھروں کی کھڑکیوں میں بیٹھ کر
بارشوں کو دیکھنا ،کچے گھروں کی سوچنا

تلخ باتیں ہر کِسی سے بے دھڑک کہنا نہیں
کانچ پر پتھر پڑے تو کرچیوں کی سوچنا

شہر کی سب رونقوں سے ،چہچہوں سے بے خبر
بیٹھ کر لہروں کو گننا ،دائروں کی سوچنا

جسم و جاں پر بے حسی کی زرد چادر اوڑھ کر
یونہی بے مقصد گذرتے موسموں کی سوچنا

یاد آتا ہے، مرا تجھ کو ستانا رات دن
نِت نئی معصوم چنچل شوخیوں کی سوچنا

مجھ کو ہنستے دیکھ کر تم مطمئن ہونا مگر
ہوسکے تو دِل پہ گرتے آنسوؤں کی سوچنا

خودبخود عرشیؔ مہک اُٹھیں گے سارے راستے
تم سدا پھولوں کی، رنگوں، خوشبوؤں کی سوچنا
 
آخری تدوین:
Top