غربت کیسے ختم کرنی ہے؟

جاسم محمد

محفلین
غربت کیسے ختم کرنی ہے؟
راضیہ سید جمع۔ء 24 جنوری 2020
1961833-ghurbatkesaykhatamkrnihay-1579691921-771-640x480.jpg

پاکستان کا سب سے بڑا، سنگین اور اہم مسئلہ غربت ہے۔ (فوٹو: فائل)


اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے ’’گلوبل ملٹی میڈیا پورٹی انڈیکس 2019‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 101 ممالک میں سے 1.3 بلین افراد کثیرجہتی غربت کا شکار ہیں۔ یہ دو تہائی آبادی متوسط گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں زیادہ تر 18 سال سے کم عمر بچے ہیں۔

دنیا بھر میں غریب افراد، جن کی یومیہ آمدن ڈھائی ڈالر سے بھی کم ہے، ان کی تعداد تین ارب کو چھو رہی ہے۔ عراق، شام، افغانستان، لبنان، فلسطین، کشمیر، جو کئی دہائیوں سے بیرونی حملوں اور اندرونی خانہ جنگی کا شکار ہیں، میں سیاسی ابتری کی وجہ سے معاشی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک، جیسے جرمنی میں ایسے افراد کی تعداد سولہ لاکھ پچاس ہزار تک پہنچ گئی ہے جو لنگر سے کھانا کھاتے ہیں۔ یہاں کل لنگروں کی تعداد 942 ہے۔

پاکستان کا غریب ترین صوبہ بلوچستان ہے، جہاں شہری علاقوں میں 37.3 فیصد افراد غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ سب سے بڑا، سنگین اور اہم مسئلہ غربت ہے، جو تمام معاشرتی اور سیاسی برائیوں کی جڑ ہے۔ حکومتیں اپنے اقتدار کے دوام کےلیے سنہرے سپنے دکھاتی ہیں تو عوام روٹی کے چکر سے ہی نہیں نکلتے اور وہ کچھ مثبت سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ غریب آدمی کو تو سورج میں بھی روٹی ہی نظر آتی ہے۔

ایک طرف دنیا کی ترقی کا شور ہے تو دوسری طرف معاشی طور پر غیر منصفانہ معاشرہ جرائم کو جنم دے رہا ہے۔ غربت اور فاقے ہوں تو ڈپریشن اور شدید ذہنی امراض جنم لیتے ہیں۔ پھر لوگ جائز اور ناجائز کے فرق سے نکل کر صرف پیسہ کماتے ہیں۔ پھر ایسی چیزوں کی بھی خرید و فروخت کی جاتی ہے جو ممنوعہ ہوتی ہیں۔

بیروزگاری سے تنگ بہت سے نوجوان نشہ آور اشیا کا استعمال کرتے ہیں تو ملک کی مجموعی ترقی رک جاتی ہے۔ کیونکہ نوجوان آبادی کا ایک بڑا طبقہ ہوتے ہیں۔ جب وہ ہی بیمار اور ناکارہ ہوجائیں تو ملک کیا خاک ترقی کرے گا؟

صحت کی ناکافی سہولیات اور اچانک حادثاتی اموات میں اضافہ بھی غربت کا ہی کرشمہ ہے۔ کیونکہ غریب کی جیب خالی ہو تو نہ وہ ڈاکٹر کو دکھا سکتا ہے اور نہ ہی ادویات خرید سکتا ہے۔ حتیٰ کہ خیراتی اسپتالوں میں اس کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔

دوسری طرف بھوک اور افلاس ناخواندگی کو بھی جنم دیتی ہے۔ دوسرے بچوں کو اسکول جاتے دیکھ کر غریب آدمی میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے اور یہ چیز بھی کسی شریف انسان کو مجرم بنا دیتی ہے۔ ہمارے بہت سے منفی جذبات اور احساسات جیسے خودغرضی، غصہ اور رقابت غربت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ معاشرے میں دوسروں سے تقابل کا رحجان اداسی اور ناخوشی پیدا کرتا ہے، جس سے انسان مجرم بنتا ہے۔

اقوام متحدہ نے غربت کے خاتمے کےلیے 2030 کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے۔ تاہم سب کچھ بے نتیجہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ اسرائیل، امریکا اور بھارت پر پابندیاں نہیں لگاسکتی۔ یہ تنظیم انہی ممالک کے فنڈز سے کام چلاتی ہے۔

مندرجہ بالا ممالک اسلحہ ساز ہیں۔ یہ خرید و فروخت تب ہی جاری رہ سکتی ہے اور منافع حاصل ہوسکتا ہے، جب غریب ممالک میں انسانی جانیں ضائع کی جائیں۔ کیونکہ اگر غریب ممالک کو اپنے وسائل پر خود کنٹرول کا اختیار مل گیا تو وہ ان بڑے ممالک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں گے اور اپنے وسائل کا بے دریغ استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

بیرونی دنیا کی طرز پر تخفیف غربت کےلیے لنگرخانوں کا قیام پاکستان میں بھی فروغ پارہا ہے۔ تاہم لنگرخانوں پر مکمل اعتماد محنت کشں افراد کو ناکارہ بناکر رکھ دے گا۔ چینی کہاوت ہے کہ کسی کو مچھلی پکڑ کر دینے سے بہتر ہے کہ اسے مچھلی پکڑنے کی ڈوری دے دی جائے۔

ترقیاتی منصوبوں کا آغاز صرف حکومت کا ہی کام نہیں، بلکہ روزگار کے مواقع نجی سطح پر پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ ہمیں فی کس آمدنی کو بہتر بناکر ایک محنت کش کی تنخواہ بیس ہزار تک کرنا ہوگی۔ بہت سے اداروں میں قلیل مشاہیرے اور بروقت تنخواہ نہ دینے کا رواج پنپ رہا ہے، جس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ ایسی صورتحال میں بھی انسان تخریب کار بنتا ہے۔

پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا نظریہ قائداعظم نے دیا تھا، جسے ازسرنو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مخیر حضرات کو معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی بہتری کےلیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ اکثر شاہراہوں پر کئی سفید پوش ٹھیلے والے ہوتے ہیں، جنہیں ہمارے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔

بیرونی قرضوں کے حجم کی کمی، جی ڈی پی میں اضافہ، بھاری بھرکم ٹیکسوں کے نظام کو بہتر بناکر غربت کم کی جاسکتی ہے۔

یہ بات کڑوی ضرور ہے لیکن ہے بالکل سچ کہ ہم نے ہنر اور تربیت کو رواج نہیں دیا، بلکہ محض رٹنے والے طوطے تیار کیے ہیں۔ ہمارے بہت سے شعبہ جات ایسے ہیں جن میں کام کیا جاسکتا ہے۔ مصنوعی بجلی پیدا کرنے، خوراک کو سائنسی بنیادوں پر محفوظ کرنے، آبی وسائل کی بہتری کےلیے کام نہیں ہورہا۔ یہاں روزگار کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں اور بہت سے نوجوان اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔

سائنس کے میدان میں ترقی کرنا دور حاضر کی ضرورت ہے۔ ہمیں ماہرین لسانیات کی بھی ضرورت ہے۔ یہ افراد بیرون ممالک میں بھی مترجم کے فرائض سرانجام دے سکتے ہیں۔ کیونکہ ایک نئی زبان سیکھنے سے ہم ایک نئی معاشرت اور ثقافت کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ ہمیں اپنی نئی نسل کےلیے اَن تھک کوشش کرنی ہے۔ نہ ماضی پر بھروسہ کرنا ہے، نہ مستقبل کے اندیشوں کو ذہن پر سوار کرنا ہے۔ تو آئیے پہلا قدم بڑھائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top