غداری کیس: شوکت عزیز ، جسٹس (ر) عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو شریک ملزم بنانے کا حکم- تفصیلی خبر

غداری کیس: شوکت عزیز ، جسٹس (ر) عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو شریک ملزم بنانے کا حکم

news-1416618051-9526.jpg


اسلام آباد (آئی این پی+ بی بی سی+ نمائندہ نوائے وقت) غداری کیس کی سماعت کرنیوالی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی ایمرجنسی لگانے سے متعلق اس وقت کی وفاقی حکومت اعلیٰ عسکری و سول قیادت کو شریک جرم کرنے سے متعلق درخواست جزوی طور پر منظور کر لی اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز‘ سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو بھی فریق بنانے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے تینوں ملزمان کے بیانات قلمبند کرنے اور وفاقی حکومت کو اِن کے نام شامل کرکے 15دن میں دوبارہ درخواست دائر کرنے کا حکم دیا ہے۔ بنچ کے ایک رکن جسٹس یاور علی نے فیصلے پر اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ نے 31اکتوبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنادیا۔ جسٹس فیصل عرب نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے بتایا کہ جسٹس یاورعلی نے فیصلے پر اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا ہے۔ عدالت نے ہدایت کی ہے کہ تینوں شخصیات کے بیانات قلمبند کئے جائیں۔ پرویز مشرف نے درخواست کی تھی کہ دیگر شریک افراد کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ چلایا جائے یا پھر انہیں بھی بری کر دیا جائے کیونکہ وہ اس سارے معاملے میں اکیلے نہیں تھے اور ایمرجنسی لگانا فرد واحد کا کام نہیں۔ عدالت کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ ایمرجنسی کی آڑ میں ججز کو ہٹانے کیلئے پہلے سے طے شدہ منصوبے پر عمل کیا گیا۔ ایمرجنسی کا مقصد اس وقت کے چیف جسٹس کو تبدیل کرنا تھا۔ وزیراعظم، وزیر قانون اور جو لوگ ججز کو ہٹانے میں شریک تھے جرم میں شامل ہیں۔ عدالت ریکارڈ پر موجود شہادتوں کا جائزہ لیکر انہیں ملزم کے ہمراہ طلب کر سکتی ہے۔ ملزمان کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہو گا۔ ترمیمی شکایات دائر کرنے کیلئے حکومت کو 2 ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔ سنگین غداری کیس کی آئندہ سماعت 9 دسمبر کو ہو گی۔ جسٹس یاور علی نے 5 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ ایسی کوئی شہادت سامنے نہیں آئی جس کی بنیاد پر تینوں کو شریک ملزم نامزد کیا جائے۔ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ کا خود اعلان کیا۔ جسٹس یاور علی نے ایک کیس کا حوالہ بھی دیا۔ وزیراعظم نے آئین کی خلاف ورزی کی کوئی ایڈوائس نہیں دی تھی۔ پرویز مشرف نے کہا کہ مشاورت کے بعد بذات خود ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ آرٹیکل 48 کے تحت ایسی کوئی ایڈوائس اور شہادت سامنے نہیں آئی جس میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا کہا گیا ہو۔ سابق صدر کے وکیل فیصل چودھری نے عدالت کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ عدالتی فیصلے کے بعد حکومت کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کہ شریک ملزمان کے نام مقدمے میں شامل کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ 3 نومبر کی ایمرجنسی کے اقدام کے حوالے سے درخواست میں کور کمانڈرز کے ناموں کا بھی ذکر کیا تھا تاہم عدالت نے انہیں شامل کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ واضح رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے عدالت میں دائر درخواست میں اپیل کی گئی تھی کہ 600 سول و فوجی مددگاروں اور معاونین کو شریک ملزمان کے طورپر شامل کیا جائے جن میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز، جسٹس (ر) حمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور دیگر شامل ہیں۔ بی بی سی کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کور کمانڈروں، جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، مسلح افواج کے سربراہوں اور چاروں گورنروں کو ملک میں ایمرجنسی کے بارے میں بریفنگ ضرور دی گئی تھی لیکن اْن کا ایمرجنسی لگانے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ یاد رہے کہ اس مقدمے میں شریک جرم کیے جانے والے تین افراد میں سے دو افراد اس وقت بیرون ملک ہیں۔ ان میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر شامل ہیں جبکہ زاہد حامد موجودہ حکومت میں بھی وفاقی وزیر ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ( ن) کی حکومت ہی نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لئے درخواست دائر کی تھی اور موقف اختیار کیا تھا کہ تین نومبر 2007 میں ملک میں ایمرجنسی لگانے کی تمام تر ذمہ داری پرویز مشرف پر عائد ہوتی ہے۔ ثناء نیوز کے مطابق فیصلہ 29 صفحات پر مشتمل ہے۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سپریم کورٹ کے کسی سابق چیف جسٹس کو غداری کے مقدمے میں شامل کرنے کا کہا گیا۔ شوکت عزیز کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ایمرجنسی لگانے کے لئے خط لکھا تھا جبکہ اس وقت کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے قانونی رائے دی تھی اور ایمرجنسی کے بعد اس وقت کے جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے ایمرجنسی لگانے کے اقدامات کو جائز قرار دیا تھا۔ نمائندہ نوائے وقت کے مطابق فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم اور وزیر قانون دونوں نے ججوں کو عہدوں سے ہٹانے کے عمل میں خود کو ملوث کیا، 3 نومبر کے اقدام کے خلاف اگر پرویز مشرف نے وزیراعظم سے مشاورت نہیں کی تو اس کے اختیارات غلط طور پر استعمال کئے جا رہے تھے جس کے خلاف وزیراعظم نے کوئی مؤقف نہیں دیا۔ اس حوالے سے عدالت میں پیش کیا گیا ریکارڈ بالکل خاموش ہے۔ وزیراعظم نے وزیر قانون کے ہمراہ پی سی او کے تحت آنے والی تبدیلی کے معاونت کی کیونکہ انتظامی ایکشن کے حوالے سے وزیر قانون آئینی و قانونی ضرورتوں سے یقیناً آگاہ تھے۔ فیصلے میں سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو مقدمہ میں شریک ملزم بنانے کے بارے میں پرویز مشرف کے وکیل کے دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 6 میں تبدیلی آگئی تھی اس لئے ان کے خلاف دلائل مؤثر نہیں۔ عدالت نے کہا ہے کہ پرویز مشرف نے 27 نومبر 2007ء کو پاک فوج کی کمان جنرل کیانی کے حوالے کی جب تک آئین میں پی سی او کے حوالے سے قانون میں متعدد تبدیلیاں کی جا چکی تھیں۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ مشرف کے وکلاء عدالت میں کوئی ایسا گواہ پیش نہیں کر سکے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ سابق صدر معصوم ہیں اور یہ فیصلہ کرنے میں کئی افراد نے ان کا ساتھ دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد وزیراعظم، ارکان کابینہ، سینئر بیوروکریٹس اور پی سی او ججز نے اسے پورے دل کے ساتھ قبول کیا۔ آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت کوئی ایسی ایڈوائس سامنے نہیں آئی جس میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا کہا گیا ہو۔ مشرف کے وکیل بھی اس بات پر عدالت کو قائل نہیں کر سکے کہ دوبارہ تفتیش کا حکم دیا جا سکے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس یاور علی کے اختلافی نوٹ کا فیصلہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ فیصلہ اکثریتی رائے پر کیا گیا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
وزیراعظم، وزیر قانون اور جو لوگ ججز کو ہٹانے میں شریک تھے جرم میں شامل ہیں۔ عدالت ریکارڈ پر موجود شہادتوں کا جائزہ لیکر انہیں ملزم کے ہمراہ طلب کر سکتی ہے۔ ملزمان کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہو گا۔
گیہوں کے ساتھ ساتھ گھن کا پسنا اک لازم امر ۔۔۔۔۔
"چوہدری برادران " تو رضاکارانہ طور پر خود کو اس مقدمے میں نامزدگی کے لیئے عرصہ پہلے ہی پیش کر چکے ہیں ۔
" فوج " تو مکھن سے بال کی طرح نکلی محسوس ہو رہی ہے ۔ خواجہ ناظم الدین کے دور سے لیکر مشرف دور تک سب " فوجی حکمرانوں " کے اقدام " نظریہ ضرورت " پر استوار " پاکستان کی بقا" کے لیئے ناگزیر پاتے رہے ہیں ۔ سیاستدان اور علماء کرام ان اقدامات کو اپنے تعاون سے مضبوط کرتے رہے ہیں ۔ کاش کہ یہ عدالت اس مقدمے کا دائرہ " پہلے مارشل لا " کی وجوہات تک پھیلا دے ۔ اور مفاد پرست سیاستدانوں علماء کے چہروں سے نقاب اتار دے ۔ تاکہ کبھی " مارشل لا " کی تاریک رات دوبارہ ملک پاکستان کو اندھیروں میں نہ ڈبو سکے ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
یہ مطالبہ تو وقتاً فوقتاً بہت سے لوگ کرتے رہے ہیں کہ آرٹیکل 6 کا نفاذ پہلے مارشل لاء سے کیا جا ئے اور سب کو سزا دی جائے۔
اس مطالبے پر عمل در آمد کے لئے ضروری ہے کہ 1956 کے آئین میں آرٹیکل 6 یا اس سے ملتا جلتا کوئی آرٹیکل ہو۔ میرا سوال یہ کہ کیا 1956 کے آئین میں ایسا کوئی آرٹیکل تھا؟
 

arifkarim

معطل
امید ہے 2044 تک پرویز مشرف کی فاتحہ خوانی کے وقت اس "غداری" کیس کا فیصلہ ہو جائے گا :)
عدالت عظمیٰ کی مضحکہ خیزی دیکھئے کہ سابق چیف آف آرمی اسٹاف پر غداری کے کیس کی سماعتیں کر رہی ہے۔ یوں افواج پاکستان کا نام پوری دنیا میں مزید روشن ہوگا کہ ایک عرصہ دراز تک "غدار" کے زیر سایہ یہ افواج کام کرتی رہیں :)
 

نایاب

لائبریرین
کیا 1956 کے آئین میں ایسا کوئی آرٹیکل تھا؟
آئین بھی تو پاکستان کے پاس 1973 سے پہلے نہیں تھا ۔۔
نظریہ ضرورت کے تحت پاکستان کی سالمیت و بقاء کے لیئے اگر یہ عدالتیں کوئی قانون بنا کر لاگو کر سکتی ہیں ۔
آمریت کی پھیلائی تاریک رات کو جائز قرار دے سکتی ہیں تو یہ سوال بے معنی ہے کہ 1953 میں آرٹیکل 6 تھا کہ نہیں ۔۔
۔۔۔
ملک و قوم سے غداری کرنے والے کو عبرت کی مثال بنا دینا ہی ملک و قوم کے لیئے بہترین ہے ۔
جیسا کہ بنگلہ دیش نے ملک و قوم کے مفاد میں کوئی دباؤ قبول نہ کیا ۔ اور نقصان پہنچانے والوں کو دار کے حوالے کر دیا ۔
۔۔
بہت دعائیں
 

arifkarim

معطل
جیسا کہ بنگلہ دیش نے ملک و قوم کے مفاد میں کوئی دباؤ قبول نہ کیا ۔
پاکستانی افواج اور اسٹیبلیشمنٹ کو بھی وہاں 1971 میں منہ کی کھانی پڑی مکتی باہنی کے ہاتھوں۔ وہ مشرقی پاکستانی تو آزاد ہو گئے اور آج ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ مغربی پاکستانی کب آزاد ہوں گے؟
 

نایاب

لائبریرین
افواج پاکستان کا نام پوری دنیا میں مزید روشن ہوگا کہ ایک عرصہ دراز تک "غدار" کے زیر سایہ یہ افواج کام کرتی رہیں
افواج پاکستان تو تخلیق پاکستان کے وقت سے ہی ملک و قوم کی سر بلندی کے لیئے بے لوث قربانیاں دیتی چلی آئی ہے ۔
فوج کو " مارشل لا " کا راستہ کون دکھاتا ہے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ذرا غیر جانبدار رہ کر پڑھنے سے آسانی سے علم ہوجاتا ہے ۔
کبھی " تحفظ ختم نبوت " کی تحریک کو اپنے مقاصد کے لامیابی کے لیئے اک ہتھیار بنایا جاتا ہے ۔ اور فوج کو زبردستی " نظم و نسق " قائم رکھنے کے لیئے بلایا جاتا ہے ۔ کبھی " تحریک نفاذ اسلام " ابھرتی ہے اور مفاد پرستوں کے دل کی کلی کھل جاتی ہے ۔ فوج آتی ہے ۔ اور سب نعرے باز اس کے گرد جمع ہوتے " تحفظ ختم نبوت " کا قانون بنانے والے کو پھانسی گھاٹ پہنچا اس " کالی رات " میں کھل کھیلتے ہیں ۔ فوجی سربراہ تو دور کی بات ہمارا تو اک فوجی جوان بھی غداری نہیں کرتا ۔ یہ ہم اور ہمارے سیاست دان اور علماکرام کھینچ لاتے فوج کو اس " غداری " کے جال میں ۔
جسٹس " فیصل عرب " اگر اپنے اصول پہ قائم رہے تو اس کیس کا فیصلہ زیادہ تاخیر کا شکار نہیں ہوگا ۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
پاکستانی افواج اور اسٹیبلیشمنٹ کو بھی وہاں 1971 میں منہ کی کھانی پڑی مکتی باہنی کے ہاتھوں۔ وہ مشرقی پاکستانی تو آزاد ہو گئے اور آج ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ مغربی پاکستانی کب آزاد ہوں گے؟
وہاں بھی ہمارے سیاستدان ہی گل کھلاتے رہے اور "بھوکا بنگالی " کہتے " پٹ سن " سے مال بناتے رہے ۔ فوج ناکام نہیں ہوئی وہاں بھی ۔ سیاستدان اپنی سازشوں میں کامیاب ہوگئے ۔حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کھلے طور اس کے اسباب بیان کرتی ہے ۔۔۔۔
مغربی پاکستان کب آزاد ہو گا چوروں لٹیروں سے ۔؟
جب ہم سب " تھر " کے بچوں کا اپنا سمجھنا شروع کر دیں گے ۔ بصورت دیگر ابھی " صبح " بہت دور دکھتی ہے ۔،،
بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
1956 میں ملک میں آئین بنایا گیا اور نافذ کیا گیا اس لئے اسے 1956 کا آئین کہتے ہیں :)
مجھے علم نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔
بس اتنا جانتا ہوں میرے بھائی کہ 1956 ایسے آئین جیسے بہت سے تماشے 1973 سے پہلے ہو چکے ہیں ۔
بہت دعائیں
 
Top