غداروں سے نفرت کیجئے

nazar haffi

محفلین
تحریر: نذر حافی

تاریخ وفاداروں اور غداروں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ غداری کی ہزار شکلیں ہیں، صرف بےگناہ انسانوں کو قتل کرنا ہی ملک و ملت کے ساتھ غداری نہیں ہے، بلکہ قاتلوں کو شاباش دینا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا، ان کے جرائم پر پردہ ڈالنا، انہیں اقتدار اور سیاست میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کرنا، ان کے ساتھ مذاکرات کی فضا تیار کرنا، انہیں سیاسی لیڈروں کے طور پر متعارف کرانا، یہ سب ملک و قوم اور ملت کے ساتھ غداری ہے۔ یہ غداری ہے۔۔۔ مساجد میں شہید ہوجانے والے بےگناہ نمازیوں کے خون کے ساتھ، یہ غداری ہے۔۔۔ بازاروں کے چوراہوں پہ بمب بلاسٹ کے شکار ہوجانے والے معصوم انسانوں کے ساتھ، یہ غداری ہے ۔۔۔داتا دربار اور بری امام جیسے مقدس مزارات پر خاک و خون میں لت پت ہوجانے والے انسانوں کے ساتھ۔ یہ غداری ہے۔۔۔۔ پاکستان کے سبز پرچم اور ملت پاکستان کے سرخ خون کے ساتھ۔ یہ غداری ہے۔۔۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے پاکستان کے دیانتدار بیوروکریٹس کے خون ساتھ۔۔۔ یہ غداری ہے۔۔۔ یہ غداری ہے۔۔۔ یہ غداری ہے۔۔۔ ہمیں اپنی ملت کی سلامتی کو مصلحتوں کے عوض فروخت نہیں کرنا چاہیے، ہمیں یہ بات خود بھی سمجھنی چاہیے اور پوری ملت پاکستان کو سمجھانی چاہیے کہ دشمن کا دوست، صرف اور صرف دشمن ہوتا ہے۔ اس وقت طالبان کے یاروں کے خلاف آواز اٹھائیے، غداری کے خلاف آواز اٹھائیے۔ ابھی وقت ہے، ابھی بولئے، ابھی مہم چلائیے، ابھی قوم کو یہ شعور دیجئے کہ غداروں کا جو یار ہے، وہ بھی غدار ہے۔ غداری کو موضوع بنائیے اور غداری کو مسترد کیجئے۔ جو شخص اپنی ملت کے قاتلوں اور دشمنوں کے لئے قابلِ اعتماد ہو، وہ ملت کا خیر خواہ کیسے ہوسکتا ہے۔ یہ اسی صدی کی بات ہے کہ اپنی ملت کے ساتھ غداری کرنے والوں میں سے ایک ایسا بھی تھا کہ وہ تاریخ کے نامور بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔ اتنا بڑا بادشاہ کہ اپنے آپ کو علی الاعلان بادشاہ کہتا اور اپنے نام کے ساتھ بادشاہ لکھتا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ دنیائے سیاست میں اس کے نام کا سکّہ چلتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ امریکہ اور یورپ کے تمام منصوبے اس کے تعاون اور مدد سے پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتا تھا کہ وہ اور امریکہ و یورپ کا اہم اتحادی ہے، وہ ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنے ملک کو مسلسل مغرب کے سانچے میں ڈھالتا جا رہا تھا۔ اس نے دینی طالبعلموں کو اچھوت اور دینی مدارس کو پسماندگی کے مراکز قرار دے دیا تھا، وہ مذہبی حلقوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے زبان سے دین کی سربلندی کی باتیں کرتا تھا اور عملاً امریکہ و یورپ کا مطیع تھا۔ اس نے انگریزوں کی خوشنودی اور رضا مندی کے لیے اپنی قومی عزت اور ملکی وقار کو بڑے خوبصورت انداز میں نیلام کر دیا تھا۔ وہ دین کی باتوں سے صرف زبانی چسکا لیتا تھا اور پردے کو ترقی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ گردانتا تھا۔ اس نے بے پردگی اور بے حجابی کی تبلیغ کا آغاز اپنے ہی گھر سے کیا۔ 1928ء کے شروع میں پہلی بار اس کی بیوی اور بیٹی مجمع عام میں بے حجاب آئیں۔ اس نے ترکی کا دورہ کرنے کے بعد 1934ء میں کشف حجاب یعنی بے پردگی کا قانون بنایا جو 1935ء میں عملی طور پر نافذ ہوا۔ 1928ء سے لیکر 1935ء تک وہ اپنی ہی ملکی، قومی اور اسلامی حدود و روایات کے خلاف ترقی اور خوشحالی کے نام پر سرد جنگ لڑتا رہا۔ عوام الناس کو "بے پردگی" سے مرعوب کرنے کے لئے جنوری 1935ء میں ایک یونیورسٹی کے افتتاحی پروگرام میں اس بادشاہ کی بیوی اور دو بیٹیاں اور اس کے وزراء و مشراء کی بیویاں اور بیٹیاں سب بے پردگی کے عالم میں شریک ہوئیں۔ اسی روز اس جشن میں خطاب کرتے ہوئے اس بادشاہ نے اعلان کیا کہ "آج ہم نے زندان کی تمام سلاخوں کو توڑ دیا ہے۔ اب قفس میں رہنے والے قیدی آزاد ہیں اور اُنھیں اختیار ہے کہ وہ اپنے لیے قفس کی جگہ حسین و خوبصورت گھر بنائیں۔ یہ بادشاہ رضا شاہ پہلوی تھا۔ جی ہاں وہی رضا شاہ پہلوی جو اغیار کے ہر حکم کو فرمانبردار بیٹے کی طرح بجا لاتا تھا۔ جس نے اپنی عزّت اور خودمختاری کو امریکہ و یورپ کے اشاروں پر قربان کر دیا تھا۔ جو امریکہ کی آنکھوں کا تارا، برطانیہ کا چہیتا اور ترکی کا لاڈلا تھا۔ اسے گھمنڈ تھا کہ امریکہ و یورپ کے ساتھ اس کے مضبوط تعلقات ہیں۔ اسے گمان تھا کہ وہ روز بروز مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ اسے یقین تھا کہ اس کے روشن خیالی اور ترقی کے نعروں کے خلاف زبان کھولنے والے غیر مہذب، جاہل اور پسماندہ لوگ ہیں۔ لیکن وقت آنے پر ثابت ہوا کہ اس نے اپنے گرد امریکہ اور یورپ کے وعدوں کی جو فصیلیں کھڑی کی ہوئی تھیں، وہ ریت کی دیواریں تھیں۔ آج شہنشاہ ایران کی شخصیّت حرف غلط کی طرح مٹ چکی ہے۔ مغرب کی وہی خرافات جنہیں شہنشاہ ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری سمجھتا تھا، شہنشاہیّت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئیں اور شہنشاہ کے بلند و بانگ دعوے اور نعرے ہی اس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئے۔ ہمارے سیاستدان اور اربابِ اقتدار بھی جب دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے نعرے لگاتے ہیں تو انہیں سابقہ حکمرانوں کی تاریخ سامنے رکھنی چاہیے۔ انہیں ہر یو ٹرن لینے سے پہلے، ہر سرخ بتی پر اشارہ توڑنے سے پہلے، ہر ایمرجنسی کا سائرن بجانے سے پہلے، امریکی اور برطانوی کارندوں کے ساتھ ملی بھگت کرنے سے پہلے اور ملت پاکستان کے قاتلوں اور دہشت گردوں کے ساتھ دوستی کے لئے ہاتھ بڑھانے سے پہلے، صرف ایک مرتبہ اتنا سوچ لینا چاہیے کہ زمانہ محمد علی جناح کا احترام اور میر جعفر پر لعنت کیوں کرتا ہے؟ سیاستدان اور حکمران اپنی ملت کی سلامتی کے امین ہوتے ہیں، فوج اور پولیس اپنی قوم کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے اور جو لوگ بھی اپنے فریضے کی ادائیگی میں وفاداری کے ساتھ اپنی جان قربان کر دیتے ہیں، وہ ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں، لیکن جو لوگ قوم کے ساتھ خیانت کرتے ہیں، رہتی دنیا ان پر لعنتیں بھیجتی رہتی ہے۔ آج ملت پاکستان کی مظلومیت تو دیکھئے! کراچی سے لے کر خیبر تک اور پنجاب و بلوچستان سے لے کر گلگت و بلتستان تک ہماری قوم کا ہر بچہ، ہر لمحے اپنی غیر متوقع موت کا انتظار کر رہا ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ اگلے لمحے کیا ہوجائیگا۔ قاتل دندناتے پھر رہے ہیں اور کچھ تو اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔۔۔ کہیں نہیں ۔۔کہیں نہیں ۔۔۔ لہو کا سراغ۔۔۔اب ہم جس فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں، جس صوبے کے بھی رہنے والے ہوں اور جو بھی زبان بولتے ہوں، ہمارے سامنے بھی صرف ایک ہی راستہ ہے، چاہے تو دہشت گردوں، غداروں، خونخواروں، قاتلوں، درندوں، وحشیوں اور بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام کرنے والوں کے پرچم تلے جمع ہوجائیں اور چاہے تو امن کے علمبرداروں اور وطن کے وفاداروں کے کندھوں سے کندھا ملا لیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے جس طرح میر جعفر اور میر صادق جیسے پاکستان کے دشمنوں اور غداروں کی نسلِ نو پاکستان کو توڑنے کے لئے ڈٹی ہوئی ہے، اسی طرح محمد علی جناح جیسے وفاداروں کی اولاد بھی پاکستان کو بچانے کے لئے سینہ سپر ہے۔ اس وقت طالبان کے یاروں کے خلاف آواز اٹھائیے، غداری کے خلاف آواز اٹھائیے۔ ابھی وقت ہے، ابھی بولئے، ابھی مہم چلائیے، ابھی قوم کو یہ شعور دیجئے کہ غداروں کا جو یار ہے، وہ بھی غدار ہے۔ غداری کو موضوع بنائیے اور غداری کو مسترد کیجئے۔ غداری کے خلاف عوامی شعور کو اس قدر بیدار کیجئے کہ لوگ آسانی سے اس حقیقت کو سمجھنے لگیں کہ اب ہمارے سامنے راستہ صرف ایک ہے، دوسرا نہیں، ملک و قوم کے ساتھ غداری یا وفاداری۔۔۔ غداروں سے نفرت یعنی دین اور ملک و قوم سے محبت۔
 

نایاب

لائبریرین
کیا نفرت کریں ۔ الیکشن میں کامیابئ چاہیئے چاہے کسی بھی قیمت پہ ملے ۔
ابھی تو مصلحت انگیزی سے کام لیتے سیٹ ایڈجسمنٹ اور انتخابی اتحاد بنا " کرسی " حاصل کر لوں ۔
" کھابے کھاؤں گا پھر اور " غدار و کافر " کے نغمے گنگناؤں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حسینی

محفلین
آنکھیں کھول دینے والی تحریر ہے نذر بھائی۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔۔۔
واقعا۔۔۔ پاکستان کی عوام کو اب سوچ لینا چاہیے کہ اگلے پانچ سال کے لیے وہ اس پیارے وطن کو کن لوگوں کے ٰ ٰہاتھ میں دینا چاہتے ہیں؟؟
ابھی الیکشن میں اپنا حق رائے دہی سوچ سمجھ کر استعمال کیجیے۔۔۔ وطن دوست اور دہشت گرد مخالف طاقتوں کو کامیاب کریں۔۔۔
ہر وہ پارٹی جو َ طالبان، سپاہ صحابہ اور اس طرح کی دہشت گرد گروہوں کو سپورٹ کرتی ہو۔۔۔ ہرگز ووٹ نہ دیں۔۔
اللہ پاکستان کا حامی وناصر ہو۔۔
 

ساجد

محفلین
اس تحریر کو "آج کی خبر" سے "آپ کے کالم" میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ صاحبِ تحریر مطلع رہیں کہ "آج کی خبر" میں صرف اسی دن کی خبر شریک کی جاتی ہے مزید تفصیلات کے لئے متعلقہ زمرے کے چسپاں مراسلات کو ایک نظر دیکھ لیں۔
ذاتی معلومات کسی شکل اور حوالے سے اردو محفل پر بھیجی جانے والی کسی تحریر میں شامل نہیں کی جا سکتیں۔
 

یوسف-2

محفلین
یہ وہ ملک ہے کہ آپ اسلام کا ٹھپہ لگا کر کفر بھی بیچو دھڑا دھڑ بکے گا
پھر تو یہ ”کاروبار“ آپ کے لئے نہایت منافع بخش ثابت ہوسکتا ہے۔ پیکنگ اور ٹھپہ کا ٹھیکہ طالبان ایجنسی کو دے دیجئے اور اپنی پراڈکٹ دھڑا دھڑ بیچئے۔ :grin:
 

مہ جبین

محفلین
تحریر تو یقیناؐ بہت عمدہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس پورے ایوانِ سیاست میں کوئی ایک بھی ایسا شخص بتادیں جو دودھ کا دھلا ہو؟؟؟
آزمائے ہوئے کو آزمانا تو جہالت ہے ہی لیکن جن کو نہیں آزمایا ان سے بھی کوئی خاص امیدیں نہیں ہیں کیونکہ بدعنون اور رشوت خور تو ہر جگہ ہیں ان سے کوئی جماعت پاک نہیں تو پھر ہم کس کو ووٹ دیں وہی چہرے نقاب بدل بدل کر آتے ہیں اپنے بنک بیلنس بھرکے ملک کو لوٹتے ہیں اور اگلے الیکشن میں انتہائی معصوم و مسکین بن کر پھر ووٹ لینے آجاتے ہیں
جس مقصد کے لئے اس ملک کا وجود دنیا کے نقشے پر ابھرا وہ تو کسی جماعت کو یاد ہی نہیں ہے اپنے اپنے جھنڈے اٹھائے اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں سارے سیاست دان ۔۔۔۔۔۔۔ میرا بس چلے تو ان سب کو ملک بدر کردوں اور اثاثے ضبط کرکے اس ملک کی معیشت کو مضبوط کروں ۔۔۔۔۔
لیکن سوال پھر وہی ہے کہ میرا بس چلے ہی کیونکر؟؟؟؟؟؟
 
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ [اقبال]
ہم کم از کم فتنے کو فتنہ تو کہہ سکتے ہیں۔۔
برائی کو دل میں براکہنا بھی تو جہاد ہے
 

ساجد

محفلین
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ [اقبال]
ہم کم از کم فتنے کو فتنہ تو کہہ سکتے ہیں۔۔
برائی کو دل میں براکہنا بھی تو جہاد ہے
حضورِ والا ، سپیمنگ سے باز رہئیے۔ اب تک آپ کے کل پوسٹ شدہ 8 مراسلوں میں یہ تیسرا مراسلہ ہے جو میری نظر میں اب تک آیا اور سبھی میں آپ نے سپیمنگ کی ہے۔ باقی کے 5 مراسلوں تک ابھی میری رسائی نہیں ہوئی۔
 

پردیسی

محفلین
یہ اسی صدی کی بات ہے کہ اپنی ملت کے ساتھ غداری کرنے والوں میں سے ایک ایسا بھی تھا کہ وہ تاریخ کے نامور بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔ اتنا بڑا بادشاہ کہ اپنے آپ کو علی الاعلان بادشاہ کہتا اور اپنے نام کے ساتھ بادشاہ لکھتا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ دنیائے سیاست میں اس کے نام کا سکّہ چلتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ امریکہ اور یورپ کے تمام منصوبے اس کے تعاون اور مدد سے پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتا تھا کہ وہ اور امریکہ و یورپ کا اہم اتحادی ہے، وہ ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنے ملک کو مسلسل مغرب کے سانچے میں ڈھالتا جا رہا تھا۔ اس نے دینی طالبعلموں کو اچھوت اور دینی مدارس کو پسماندگی کے مراکز قرار دے دیا تھا، وہ مذہبی حلقوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے زبان سے دین کی سربلندی کی باتیں کرتا تھا اور عملاً امریکہ و یورپ کا مطیع تھا۔ اس نے انگریزوں کی خوشنودی اور رضا مندی کے لیے اپنی قومی عزت اور ملکی وقار کو بڑے خوبصورت انداز میں نیلام کر دیا تھا۔ وہ دین کی باتوں سے صرف زبانی چسکا لیتا تھا اور پردے کو ترقی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ گردانتا تھا۔ اس نے بے پردگی اور بے حجابی کی تبلیغ کا آغاز اپنے ہی گھر سے کیا

ہمارے سامنے بھی صرف ایک ہی راستہ ہے، چاہے تو دہشت گردوں، غداروں، خونخواروں، قاتلوں، درندوں، وحشیوں اور بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام کرنے والوں کے پرچم تلے جمع ہوجائیں اور چاہے تو امن کے علمبرداروں اور وطن کے وفاداروں کے کندھوں سے کندھا ملا لیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے جس طرح میر جعفر اور میر صادق جیسے پاکستان کے دشمنوں اور غداروں کی نسلِ نو پاکستان کو توڑنے کے لئے ڈٹی ہوئی ہے، اسی طرح محمد علی جناح جیسے وفاداروں کی اولاد بھی پاکستان کو بچانے کے لئے سینہ سپر ہے۔ اس وقت طالبان کے یاروں کے خلاف آواز اٹھائیے، غداری کے خلاف آواز اٹھائیے۔ ابھی وقت ہے، ابھی بولئے، ابھی مہم چلائیے، ابھی قوم کو یہ شعور دیجئے کہ غداروں کا جو یار ہے، وہ بھی غدار ہے۔ غداری کو موضوع بنائیے اور غداری کو مسترد کیجئے۔ غداری کے خلاف عوامی شعور کو اس قدر بیدار کیجئے کہ لوگ آسانی سے اس حقیقت کو سمجھنے لگیں کہ اب ہمارے سامنے راستہ صرف ایک ہے، دوسرا نہیں، ملک و قوم کے ساتھ غداری یا وفاداری۔۔۔ غداروں سے نفرت یعنی دین اور ملک و قوم سے محبت۔

محترم آپ کی متضاد باتیں سر سے بہت اوپر سے گزر گئیں۔۔۔۔سمجھ نہیں آیا آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔۔۔بے ربط سی سوچ
پہلے بے حجابی والا غدار ۔۔جس نے مدرسوں کوبند کیا
پھر طالبان دہشت گرد اور غدار ۔۔ جو مدرسوں کے بانی

محترم غدار کون ہے ۔۔۔ کھل کر بتائیے
 

ساجد

محفلین
محترم آپ کی متضاد باتیں سر سے بہت اوپر سے گزر گئیں۔۔۔ ۔سمجھ نہیں آیا آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔۔۔ بے ربط سی سوچ
پہلے بے حجابی والا غدار ۔۔جس نے مدرسوں کوبند کیا
پھر طالبان دہشت گرد اور غدار ۔۔ جو مدرسوں کے بانی

محترم غدار کون ہے ۔۔۔ کھل کر بتائیے
ان کے کافی ساری باتیں ہمارے سر کے اوپر سے بھی ایف 16 کی طرح سے گزر گئیں ۔:)
 
اللہ کریم ہمیں فکری بے سمتی سے بچائے، اور ہماری زبوں حالی پر رحم کرے۔
اللہ کریم ہمیں وہ فکر عطا فرمائے جو ہمیں اللہ کی رسی میں پرو دے۔
آمین!
 
مجھے تو یہ بتائیں کہ یہ سپیمنگ کیابلاہے اور مجھے اعتراض ہے دوسرے ممالک کے ایجنٹوں پر ہمیشہ ہیلو افغانستان ہی کیوں،کبھی ہیلو پاکستان بھی کہہ کر دیکھیں۔آپ مانیں یا نہ مانیں پاکستان واحد ملک ہے جس میں غداروں کی اکثریت ہے۔اس ملک مین آپ کو ہر ملک کے ساتھ ہیلو ہائے کرنے والے مل جائیں گے۔حتی کہ ہیلو ہندوستان کہنے والے بھی لیکن کسی دوسرے ملک میں آپ کو ہیلو پاکستان کہنے والے نہیں ملیں گے۔کیا کبھی کسی افغانی کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی پاکستان سے مھبت کادم بھرتاہو اور وہ ہیلو پاکستان کا بیج سجائے پھرتاہو۔۔۔۔۔۔سوچئے گا باتیں کھری ہیں لیکن سچی ہیں۔۔۔۔
 

ظفری

لائبریرین
جذبات کی رو میں تحریر اپنے پیرائے سے کئی بار دور گئی اور صاحبِ تحریر نے بار بار غداری اور وفاداری کا نعرہ لگا کر اس کو دوبارہ پٹری پر چڑھانے کی کوشش کی ۔ مگر پھر بھی یہ وضع نہیں کرسکے کہ ان کی گفتگو کا ماخذ کیا تھا ۔ :idontknow:
 

ساجد

محفلین
مجھے تو یہ بتائیں کہ یہ سپیمنگ کیابلاہے اور مجھے اعتراض ہے دوسرے ممالک کے ایجنٹوں پر ہمیشہ ہیلو افغانستان ہی کیوں،کبھی ہیلو پاکستان بھی کہہ کر دیکھیں۔آپ مانیں یا نہ مانیں پاکستان واحد ملک ہے جس میں غداروں کی اکثریت ہے۔اس ملک مین آپ کو ہر ملک کے ساتھ ہیلو ہائے کرنے والے مل جائیں گے۔حتی کہ ہیلو ہندوستان کہنے والے بھی لیکن کسی دوسرے ملک میں آپ کو ہیلو پاکستان کہنے والے نہیں ملیں گے۔کیا کبھی کسی افغانی کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی پاکستان سے مھبت کادم بھرتاہو اور وہ ہیلو پاکستان کا بیج سجائے پھرتاہو۔۔۔ ۔۔۔ سوچئے گا باتیں کھری ہیں لیکن سچی ہیں۔۔۔ ۔
آپ کی خدمت میں عرض کر دوں کہ اردو محفل انٹر نیٹ کی دنیا پر موجود سوشل میڈیا سے بہت مختلف ہے۔ پہلے اس کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کریں ، آپ کو اپنے سوالوں کے جواب خود ہی مل جائیں گے۔
یہ ہمارے لئے نیا انکشاف ہے کہ کسی ملک کا تعارف کروانا بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے !!!۔ :)
پاکستان کیسا ہے ، کیا ہے اور کیسا ہونا چاہئیے ؛ اہل محفل کو ضرور بتائیں تا کہ ہمیں بھی کچھ بصیرت مل سکے۔
------------------------
جب آپ مختلف لڑیوں میں ایک ہی پیغام بار بار کاپی پیسٹ ماریں اور اس کا تعلق کسی مراسلے کے جواب سے نہ ہو تو یہ سپیم کہلواتا ہے۔
 

nazar haffi

محفلین
جب انسان کسی حقیقت کو نظر انداز کرنا چاہتاہو یا پھر کسی موضوع کو دبانا چاہتاہو تو اس کاآسان طریقہ یہ ہے کہ یہ کہہ دیا جائے کہ مصنف متضاد باتیں کرتاہے،بے ربط باتیں کرتاہے،پٹڑی سے اترجاتاہے۔مناظرے کے یہ پرانے اور ازمائے ہوئے طریقے ہیں۔بندہ حقیر نہ ہی تو مناظر ہے اور نہ ہی کسی کے پیش کردہ نظریات کو اس طرح سے رد کرنے کو درست سمجھتاہے۔یہ علم و تحقیق کی دنیا ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔موجودہ دور کی ساری ترقی اس وقت بے سود اور غیر مفید ہے کہ جب خود انسان کے دل و دماغ میں وسعتیں پیدا نہ ہوں۔
ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ گفتگو ہمیشہ افہام و تفہیم کے تناظر میں ہو اور وسعت قلبی اور کشادہ روئی کے ساتھ ہو۔
ایک صاحب نے کہا ہے کہ :
محترم آپ کی متضاد باتیں سر سے بہت اوپر سے گزر گئیں۔۔۔ ۔سمجھ نہیں آیا آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔۔۔ بے ربط سی سوچ
پہلے بے حجابی والا غدار ۔۔جس نے مدرسوں کوبند کیا
پھر طالبان دہشت گرد اور غدار ۔۔ جو مدرسوں کے بانی
میری قارئین سے گزارش ہے کہ منصف مزاجی سے کام لیں اور خود فیصلہ کریں کہ کون بے ربط اورمتضاد باتیں کررہاہے۔علامہ مودودی رح کے بقول جو قوم حق کو حق سمجھتے ہوئے حق کا ساتھ نہیں دیتی اور باطل کو باطل سمجھتے ہوئے باطل کی مخالفت نہیں کرتی وہ اپنے گھر کے سوا ایک انچ زمین بھی فتح نہیں کر سکتی؛
میری قارئین سے دست بستہ عرض ہے کہ خدا کے لئے انصاف کریں کیا میں نے پوری تحریر میں کہیں "مدارس کے کھولنے یا بند کرنے کو" وفاداری یا غداری کا معیار قراردیاہے۔یہ وہ بے سروپا اور بے ربط بات ہے جو ایک صاحب نے اس تحریر کی طرف منسوب کی۔
مدارس بنوانے یا کھولنے کا وفاداری یا غداری سے کیا تعلق ہے؟مسجد ضرار تو منافقین نے بنوائی تھی؟ کیا مساجد اور مدارس بنوانا یا کھولنا وفاداری یا غداری کا معیار ہے۔
وفاداری یا غداری کا جو معیار بیان کیا گیاہے محترم کی نقاد کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اسے دوبارہ پڑھیں اور تعصب کے بجائے سمجھنے کے لئے پڑھیں۔
یہ ہے معیار غداری اور وفاداری کا جو اس مضمون میں بیان ہے:
سیاستدان اور حکمران اپنی ملت کی سلامتی کے امین ہوتے ہیں، فوج اور پولیس اپنی قوم کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے اور جو لوگ بھی اپنے فریضے کی ادائیگی میں وفاداری کے ساتھ اپنی جان قربان کر دیتے ہیں، وہ ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں، لیکن جو لوگ قوم کے ساتھ خیانت کرتے ہیں، رہتی دنیا ان پر لعنتیں بھیجتی رہتی ہے۔
قارئین کرام انصاف کے ساتھ بتائیں کہ میں نے "مدارس کے کھولنے یا بند کرنے کو" وفاداری یا غداری کا معیار قراردیاہے یا مندرجہ بالا عبارت کو۔
دوسرا ظلم جو دوسرے صاحب نے ڈھایا یہ کہ جذبات کی رو میں تحریر اپنے پیرائے سے کئی بار دور گئی اور صاحبِ تحریر نے بار بار غداری اور وفاداری کا نعرہ لگا کر اس کو دوبارہ پٹری پر چڑھانے کی کوشش کی ۔ مگر پھر بھی یہ وضع نہیں کرسکے کہ ان کی گفتگو کا ماخذ کیا تھا ۔
ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ میری گفتگو کا ماخذ ہر زندہ باشعورمسلمان اور انسان کا ضمیر ہے۔جب انسان کا ضمیر زندہ ہو تو وہ نہ غداری کرتاہے اور نہ غداروں سے محبت کرتاہے۔یہ ہر باشعور انسان کے ضمیر کی آواز ہے۔اسے اگر آپ جذبات کا نام بھی دیں تو یہ کوئی بری بات نہیں بلکہ یہی وہ پاک و پاکیزہ جذبات ہیں،جن کے اوپر پیغمبر اسلام ”ص“ اور ان کے اصحاب نے ایک اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی ہے۔
میرے آقا مولا جناب بلال کو جب ان کا مالک گرم ریت کے اوپر گھسیٹتا تھا تو یہ جناب بلال کہ مقدس جذبات ہی تھے جنہوں نے جناب َ بلال کو ظلم وجبر کے سامنے جھکنے نہیں دیا،مواخات مدینہ کے وقت جب رسول گرامی”ص“ نےمہاجر ین و انصار کو آپس میں بھائی بھائی بنایا تو یہ صحابہ کرام کے مقدس جذبات ہی تھے کہ جن کے باعث قرن کا اویس”رض' یمن کامقداد”رض'فارس کاسلمان”رض'اور مکے کا عمر”رض' آپس میں بھائی بھائی بن گئے،نہ کالا کالا رہا،نہ گورا گورا رہا،نہ عربی عربی رہا،نہ عجمی عجمی رہا،نہ مکی مکی رہا نہ مدنی مدنی رہا،نہ قریشی قریشی رہا نہ حبشی حبشی رہا۔سب آپس میں بھائی بھائی بن گئے،سب کے لئے ایک قانون تھا اور ایک ھکم تھا۔یہ تھا اسلامی معاشرہ جس کی بنیادحضرت آمنہ ”رض' کے لعل اور حضرت عبداللہ کے یتیم نے رکھی تھی۔اس ریاست میں کوئی دوہرا معیار نہیں تھا۔سب کے لئے ایک جیسے جذبات اور سب کا ایک جیسا احترام تھا۔ریاست کے حاکمٰ اعلی کاایک ہی فرمان تھا کہ خبردار اگر میری بیٹی بھی چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی تو اس کے ہاتھ کاٹ دئے جائیں گے۔
قارئین کرام جذبات بری چیز نہیں ہیں۔کسی کے مقدس جذبات کو پامال کرنا بری بات ہے۔کل شہنشاہ ایران نے اپنی ملت کے مقدس جذبات کو روندا تو وہ بھی غدار تھا چاہے شیعہ ہو یا نہ ہو اورآج طالبان نے ملت پاکستان کے مقدس جذبات کو کچلا،انہوں نے"الجہاد"الجہاد" کے نعرے لگاکرپورے عالم اسلام سے مددحاصل کی، جہاد کے نام پر تربیت اور اسلحہ حاصل کیا اور پھر فرقہ واریت کاجھوٹا نعرہ لگاکرقاری سعید چشتی سے لے کرایس ایس پی اشرف مارتھ تک بہترین دنشمندوں،پولیس آفیسرز،پروفیسرز اور شعرا کو موت کے گھاٹ اتار کر ہماری ملت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے اب وہ جس گروہ ،فقہ یا فرقےسے بھی تعلق رکھتے ہوں انہوں نے ملت پاکستان کے ساتھ اور دین اسلام کے ساتھ غداری کی ہے۔
غداری اور وفاداری کا معیار ایرانی،پاکستانی،سعودی،شیعہ،سنی،وہابی ،دیوبندی ہونا یا مدرسے کھلوانا اور بند کروانا نہیں ہے بلکہ اپنی ہی ملت پر شبخون مارناہے اپنی ہی ملت کے قیمتی افراد کو موت کے گھاٹ اتارنا ہے اور بغل میں چھری رکھ کر رام رام کی مالا جھپناہے،مسلمانوں کے گلے کاٹنا،بے گناہ اور راہ چلتے ہوئے انسانوں کو بم دھماکوں میں اڑانا اور الجہاد الجہاد کے نعرے لگاناہے۔
میری اردو محفل فورم کے قارئین سے گزارش ہے کہ خدا را جہاں تک ممکن ہوانصاف سے کام لیں اور ضرور فیصلہ کریں کہ بے ربط باتیں اور بے جا اعتراض کس نے کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ جو قوم حق کو حق سمجھتے ہوئے حق کا ساتھ نہیں دیتی اور باطل کو باطل سمجھتے ہوئے باطل کی مخالفت نہیں کرتی وہ اپنے گھر کے سوا ایک انچ زمین بھی فتح نہیں کر سکتی۔

 

ساجد

محفلین
او بھائی میری جان چھوڑو کون غدار ہے یا نہیں۔۔۔ میرا اس بحث سے کوئی تعلق نہیں۔ میں کل ایسے ہی اس فورم پر آگیا،پہلی دفعہ آیاتھا،چاہیے تو یہ تھا کہ مجھے کوئی سمجھاتاکہ بھائی اس طرح سرگرمیوں کو آگے بڑھاو۔یہ یہ مراحل ہین۔لیکن عجب بداخلاق مدیر اعلی سے پالا پڑا۔جب بڑے میاں کا یہ حال ہے تو باقیوں سے کیا امید رکھوں۔جو آگیا اس غلطی کو معاف کریں آئندہ نہیں آوں گا۔
حضور والا ، یہاں تشریف لائیں اور بہ نفس نفیس ملاحظہ فرمائیں کہ آپ کو کتنے پیار سے سمجھایا گیا تھا کہ سرگرمیاں کس طرح سے آگے بڑھانی ہیں لیکن آپ کے سر سے گرمیاں ہی گرمیاں نکلیں ہمارے لئے۔
جو لوگ وقت پر درست فیصلے کرتے ہیں وہ بہت سمجھدار ہوتے ہیں آپ نے یہاں نہ آنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ آپ کی سمجھداری کا بین ثبوت ہے۔:)
 
Top