ذیشان حیدر
محفلین
صفحہ نمبر187
(۱۷)
قلعہ احمد نگر
۹/جنوری ۱۹۴۳ئ
صدیق مکرم
انانیتی ادبیات (Egotistic Literature)کی نسبت زمانہ حال کے بعض نقادوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ وہ یا تو وہ بہت زیادہ دلپذیر ہوں گی یا بہت زیادہ ناگوار۔ کسی درمیانی درجہ کی یہاں گنجائش نہیں۔ ''انانیتی ادبیات'' سے مقصود تمام اس طرح کی خامہ فرسائیاں ہیں جن میں ایک مصنف کا ایغو۱؎ (Ego)یعنی '' میں '' نمایاں طور پر سر اُٹھاتا ہے۔ مثلا خود نوشتہ سوانح عمریاں ، ذاتی واردات و تاثرات ، مشاہدات و تجارب شخصی اسلوب نظر و فکر ۔ میں نے ''نمایاں طور'' کی قیدم اس لیے لگائی کہ اگر نہ لگائی جائے تو دائرہ بہت زیادہ وسیع ہو جائے گا ۔ کیونکہ غیر نمایاں طور پر تو ہر طرح کی مصنفات میں مصنف کی انانیت اُبھرسکتی ہے۔ اور ابھرتی رہتی ہے اگر اس اعتبار سے صورت حال پر نظر ڈالیے تو ہماری درماندگیوں کا کچھ عجیب حال ہے۔ ہم اپنے ذہنی آثار کو ہر چیز سے بجا لے جاسکتے ہیں مگر خود اپنے آپ سے بچا نہیں سکتے۔ ہم کتنا ہی ضمیر غائب اور ضمیر مخاطب کے پردوں میں چھپ کر چلیں ، لیکن ضمیر متکلم کی پرچھائیں پڑتی ہی رہے گی۔ ہم جہاںجاتے ہیں ، ہمارا سایہ ہمارے ساتھ جانا ہے۔ ہماری کتنی ہی خود فراموشیاں ہیں جو دراصل ہماری خود پرستیوں ہی سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک نکتہ شناس حقیقت کو کہنا پڑتا تھا:
فقُلت لھا''ما اذنبتُ'' قالت مجیبۃُ
''وجودک ذنب لا یُقاسُ بہ ذنبْ!''۲؎
(۱۷)
قلعہ احمد نگر
۹/جنوری ۱۹۴۳ئ
صدیق مکرم
انانیتی ادبیات (Egotistic Literature)کی نسبت زمانہ حال کے بعض نقادوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ وہ یا تو وہ بہت زیادہ دلپذیر ہوں گی یا بہت زیادہ ناگوار۔ کسی درمیانی درجہ کی یہاں گنجائش نہیں۔ ''انانیتی ادبیات'' سے مقصود تمام اس طرح کی خامہ فرسائیاں ہیں جن میں ایک مصنف کا ایغو۱؎ (Ego)یعنی '' میں '' نمایاں طور پر سر اُٹھاتا ہے۔ مثلا خود نوشتہ سوانح عمریاں ، ذاتی واردات و تاثرات ، مشاہدات و تجارب شخصی اسلوب نظر و فکر ۔ میں نے ''نمایاں طور'' کی قیدم اس لیے لگائی کہ اگر نہ لگائی جائے تو دائرہ بہت زیادہ وسیع ہو جائے گا ۔ کیونکہ غیر نمایاں طور پر تو ہر طرح کی مصنفات میں مصنف کی انانیت اُبھرسکتی ہے۔ اور ابھرتی رہتی ہے اگر اس اعتبار سے صورت حال پر نظر ڈالیے تو ہماری درماندگیوں کا کچھ عجیب حال ہے۔ ہم اپنے ذہنی آثار کو ہر چیز سے بجا لے جاسکتے ہیں مگر خود اپنے آپ سے بچا نہیں سکتے۔ ہم کتنا ہی ضمیر غائب اور ضمیر مخاطب کے پردوں میں چھپ کر چلیں ، لیکن ضمیر متکلم کی پرچھائیں پڑتی ہی رہے گی۔ ہم جہاںجاتے ہیں ، ہمارا سایہ ہمارے ساتھ جانا ہے۔ ہماری کتنی ہی خود فراموشیاں ہیں جو دراصل ہماری خود پرستیوں ہی سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک نکتہ شناس حقیقت کو کہنا پڑتا تھا:
فقُلت لھا''ما اذنبتُ'' قالت مجیبۃُ
''وجودک ذنب لا یُقاسُ بہ ذنبْ!''۲؎