عِشق میں وصلِ یار نعمت ہے غزل نمبر 162 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر یاسر شاہ سر
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
کچھ دنوں سے اس شعر نے بہت بے چین کیا ہوا تھا۔
تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ
تن درستی ہزار نعمت ہے

یہ شعر ایک ضرب المثل شعر بھی ہے اس ردیف کو لے کر قافیے ذہن میں آتے گئے اور اشعار بنتے گئے اور یہ غزل سامنے آئی پیشِ خدمت ہے۔۔
عِشق میں وصلِ یار نعمت ہے
جِس کو مِل جائے پِیار نعمت ہے

ہر کسی کو ہے یہ نصیب کہاں
حُسن مِلنا بھی یار نعمت ہے

نِیند اِن کے بِنا نہیں آتی
یہ سکوں، یہ قرار نعمت ہے

ہے مُحافظ تری نزاکت کا
اے مرے پُھول! خار نعمت ہے

یہ خِزاں دِیدہ پُھول کہتے ہیں
اے چمن! یہ بہار نعمت ہے

دُور کرتا ہے تابِ سورج کو
پیڑ یہ سایہ دار نعمت ہے

کام آتی ہیں گرمی ،سردی میں
برف نعمت ہے نار نعمت ہے

ساتھ لے جاتی ہے یہ منزل تک
ہم سفر رہگزار نعمت ہے

یہ مِٹا دیتا ہے گناہوں کو
اے مریضو! بُخار نعمت ہے

ساتھ دیتے ہیں سب ہی خُوشیوں میں
گر مِلے غم گسار نعمت ہے

عاصیوں پر تری کریم خدا!
آج بھی برقرار نعمت ہے

جان دی اور مسلمان کیا
سب پہ یہ آشکار نعمت ہے

اپنے محبُوب کا غُلام کیا
یہ بڑی شاہکار نعمت ہے

ہم خطا بار بار کرتے رہے
تُو نے دی بار بار نعمت ہے

ذِکر تیرا ہمارے ہونٹوں پر
تیری پروردگار نعمت ہے

پڑھ کے روزانہ آیتِ قُرآں
اپنے دِل میں اُتار، نعمت ہے

شُکر رب کا ادا کرو
شارؔق
" تندرستی ہزار نعمت ہے"
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اچھی غزل ہے شارق بھائی ماشاءاللہ ۔ لیکن "یہ" کا اکثر شعروں میں استعمال محض بھرتی کے لیے کیا گیا ہے۔ اگر ذرا توجہ دیں اسے ختم کرنا کچھ مشکل نہیں جیسا کہ ایک شعر ہے۔
یہ خِزاں دِیدہ پُھول کہتے ہیں
اے چمن! یہ بہار نعمت ہے


اسے آپ یوں بھی کر سکتے ہیں

کہہ رہے ہیں خزاں رسیدہ پھول
اے گلستاں! بہار نعمت ہے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
دُور کرتا ہے تابِ سورج کو
پیڑ یہ سایہ دار نعمت ہے
جن الفاظ کا آپ مرکب بنا رہے ہوں دیکھ لیا کریں کہ کہیں ان میں کوئی لفظ سنسکرت کا تو نہیں کیونکہ ان کے ساتھ اضافت نہیں لگتی ۔ یہاں پر تابِ سورج نہیں آئے گا۔ اسے تابِ خورشید کر لیں۔ لیکن اس کا معنی میرے خیال میں وہ نہیں بنے گا جس کے لیے آپ استعمال کر رہے ہیں۔
 

امین شارق

محفلین
اچھی غزل ہے شارق بھائی ماشاءاللہ ۔ لیکن "یہ" کا اکثر شعروں میں استعمال محض بھرتی کے لیے کیا گیا ہے۔ اگر ذرا توجہ دیں اسے ختم کرنا کچھ مشکل نہیں جیسا کہ ایک شعر ہے۔
یہ خِزاں دِیدہ پُھول کہتے ہیں
اے چمن! یہ بہار نعمت ہے


اسے آپ یوں بھی کر سکتے ہیں

کہہ رہے ہیں خزاں رسیدہ پھول
اے گلستاں! بہار نعمت ہے
شکریہ محمد عبدالرؤوف بھائی غزل پسند کرنے کے لئے۔
آپ کا مشورہ موزوں ہے یہی بہتر رہے گا
کہہ رہے ہیں خزاں رسیدہ پھول
اے گلستاں! بہار نعمت ہے

تابِ سورج والے والے مصرع کا متبادل لانے کی کوشش کرتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
کام آتی ہیں گرمی ،سردی میں
برف نعمت ہے نار نعمت ہے
خواہ مخواہ کا شعر ہے، نکال دو
جان دی اور مسلمان کیا
سب پہ یہ آشکار نعمت ہے
پہلا مصرع بحر سے خارج ہے
باقی اشعار درست ہیں، روفی کے نشان زد کے علاوہ
 

امین شارق

محفلین
سپاس گزار ہوں جناب الف عین سر اور عبدالرؤوف بھائی برف نار والا شعر خارج کردیا ہے غزل سے، تابِ سورج والا مصرع تبدیل کردیا ہے
عِشق میں وصلِ یار نعمت ہے
جِس کو مِل جائے پِیار نعمت ہے

ہر کسی کو ہے یہ نصیب کہاں
حُسن مِلنا بھی یار نعمت ہے

نِیند اِن کے بِنا نہیں آتی
یہ سکوں، یہ قرار نعمت ہے

ہے مُحافظ تری نزاکت کا
اے مرے پُھول! خار نعمت ہے

محمد عبدالرؤوف بھائی کے مشورے کے مطابق لیکن مصرع اول میں یہ بحر (فاعِلاتن مفاعِلن مفعول) آرہی ہے کیا یہ درست ہے؟؟؟
کہہ رہے ہیں خزاں رسیدہ پھول
اے گلستاں! بہار نعمت ہے

سایہ کرتا ہے دھوپ میں ہم پر
پیڑ یہ سایہ دار نعمت ہے

ساتھ لے جاتی ہے یہ منزل تک
ہم سفر رہگزار نعمت ہے

یہ مِٹا دیتا ہے گناہوں کو
اے مریضو! بُخار نعمت ہے

ساتھ دیتے ہیں سب ہی خُوشیوں میں
گر مِلے غم گسار نعمت ہے

عاصیوں پر تری کریم خدا!
آج بھی برقرار نعمت ہے

الف عین سر اس مصرع پر تین بحریں آرہی ہیں جس میں ہماری مطلوبہ بحر بھی شامل ہے
جان دی اور مسلمان کیا
سب پہ یہ آشکار نعمت ہے

اپنے محبُوب ﷺکا غُلام کیا
یہ بڑی شاہکار نعمت ہے

ہم خطا بار بار کرتے رہے
تُو نے دی بار بار نعمت ہے

ذِکر تیرا ہمارے ہونٹوں پر
تیری پروردگار نعمت ہے

پڑھ کے روزانہ آیتِ قُرآں
اپنے دِل میں اُتار، نعمت ہے

شُکر رب کا ادا کرو شارؔق
" تندرستی ہزار نعمت ہے"
 

الف عین

لائبریرین
جس بحر /زمین میں مطلع ہو گا، وہی بحر مانی جاتی ہے، دوسری ملتی جلتی بحر کی اجازت نہیں۔ ہاں، آخری فعلن کو دونوں بحور( فاعلاتن مفاعلن فعلن ، فاعلاتن فَعِلاتن فعلن) میں "فعلان" باندھا جا سکتا ہے
روفی کے مشورے کو بھی قبول کر سکتے ہو
 
Top