عورت کہانی

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
چند عورتوں کی سچی کہانیاں (نام و مقام تبدیل کیئے گئے ہیں ، واقعات کی ترتیب زمانی ہے ) کاپی رائیٹ مکمل طور پر میرا اپنا ہے اس مواد کو کہیں بھی نشر کرنے سے پہلے مجھ سے خصوصی اجازت لینا ضروری ہے

فیصل
 
مقام: اوکاڑہ (پاکستان)
سال 1953
محمد بشیر چکی والے کے ہاں شادی کے بہت سال بعد پہلی بیٹی کی پیدائش ہوئی جس کا نام عذراء رکھا گیا ۔ گوری چٹی عذراء اپنے ماں باپ کی لاڈلی بیٹی تھی اور گھر بھر کی آنکھوں کا تارا بھی ، پاکستان بننے کے فسادات گزرے بھی چند برس گزر چکے تھے اور مہاجروں کا سیلاب پاکستان میں آ کر مختلف علاقوں میں بس کر اپنے ماضی کی شان اور فسادات کے دکھ سے نپٹنے کی کوششوں میں تھا ۔عذراء ابھی چھوٹی ہی تھی کہ کوثر اور تسنیم کی صورت میں اللہ نے بشیر کو دو اور بیٹیاں دے دیں ۔ کاروباری حالات اچھے نہ تھے لیکن کھینچ تان کر گزر ہو ہی رہی تھی ، بڑی عید کے دوسرے دن محمد بشیر کی بیوی اللہ رکھی اللہ کو پیاری ہوگئی اور عذرا، کوثر اور تسنیم بن ماں کے بچیاں رہ گئیں ۔ ان کے ننھیال نے بچیوں کو اپنے پاس رکھنے کی کوشش کی لیکن بشیر اس پر راضی نہ ہوا پھر کچھ عرصے بعد جب دیکھا کہ بچیاں گھر میں اکیلی ہیں اور ننھیال انہیں لے جائیں گے تو بشیر نے دوسری شادی ایک بیوہ عورت سے کر لی جس کے اپنے پہلے گھر سے ایک بیٹا اکبر موجود تھا ۔ بچیوں نے ننھیال نے بچیاں چھیننے کی کوشش کی تو بشیر احمد اوکاڑہ سے نکل کر قصور پہنچ گیا ، رحماں جو بشیر کی دوسری بیوی تھی اس کے میکے سے کچھ رشتہ دار قصور کی تحصیل چونیاں کے ایک قریبی علاقے ٹھینگ موڑ کے قریب ایک گاؤں سوڈیوالہ رائے سنگھ والا میں رہتے تھے ۔ چکی بیچنے سے جو رقم ملی اس کا ایک مکان وہاں خرید لیا لیکن اس کے بعد کچھ پاس نہ بچنے کی وجہ سے برف کے گولے بنانے کا کام شروع کر لیا ۔چھوٹی بیٹی کوثر ذہنی طور پر کمزور تھی تو سارے علاقے میں سائیں مشہور ہو گئی ،
سال 1968۔
عذراء کی خوبصورتی علاقے میں مشہور ہونے لگی تو رحماں نے لاہور کے تاج الدین سے پندرہ برس کی عمر میں اس کی شادی کردی تاج الدین کی عمر پینتیس چالیس برس تھی اور اس کی پہلی بیوی فوت ہو چکی تھی جو اسے لے کر لاہور چلا گیا، پیچھے کوثر اور تسنیم بچے ، انیس سو ستر 1970 میں کوثر کی شادی انور سے کی گئی تو شادی کے دو برس بعد ہی انور اللہ کو پیارا ہو گیا اور کوثر اپنی بیٹی شازیہ کے ساتھ بیوہ ہو گئی اب رحماں نے اس کی شادی پھر سے 1974 میں محمد شفیع سے کر دی جو ایک راج مزدور تھا اور عمر تھی کم و بیش پچاس برس کوثر اس کی دوسری بیوی تھی ۔ پہلی بیوی سے ایک بیٹا امانت محمد شفیع کے پاس تھا جبکہ ایک بیٹی پہلے خاوند سے کوثر کے پاس تھی ۔
سال 1974
عذرا اس دوران چار بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی اور باغبان پورہ کے قریب رہائش پذیر تھی ، تاج الدین کو شراب کی لت لگ گئی۔ لاہور میں شراب عام تھی اور ایک تو تاج الدین کی بیوی خوبصورت اور عمر میں اس کی نسبت کافی جوان اوپر سے بیٹیوں پر بیٹیاں ماتھے مار رہی تھی اسی دکھ میں تاج دن کی شراب نوشی بڑھتی جا رہی تھی اس دوران تاج الدین چڑ چڑا ہوگیا تھا اور بچیوں کو بہت زیادہ مارنے پیٹنے لگا ساتھ ساتھ عذراء کو بھی تشدد کا نشانہ بناتا بار بار اسے کبھی کسی کے ساتھ تو کبھی کسی کے ساتھ خراب کہہ کر مارتا اس ماحول میں عذرا کی تین بیٹیاں فوت ہوگئیں اور ایک بیٹی مدثر زندہ بچی جو روز روز کی مار پیٹ دیکھ دیکھ کر ہر وقت سہمی رہتی اور ہلکا سا کھٹکا ہونے پر بھی اس قدر ڈر جاتی کہ پیشاب خطا ہوجاتا عذرا کی چھوٹی بہن تسنیم کی بغل میں پھوڑا نکلا جس کی وجہ سے وہ اللہ کو پیاری ہوگئی اب عذرا اور کوثر دو بہنیں بچیں باپ غریب گولے بیچنے والا، ایک بہن ذہنی مریضہ جسے ہوائی چیزیں نظر آتی تھیں لاہور بلوا کر اسے لاہور مینٹل اسپتال چیک کروایا تو پتہ چلا کوئی شیزوفرینیا نام کا ذہنی مرض ہے جس کے علاج کے طور پر ہر پندرہ دن بعد ایک ٹیکہ لگایا جانا تھا ۔ اور یہ ٹیکہ جب تک ڈاکٹر نہ کہیں لگاتے رہنا تھا۔ ایک دن تاج الدین اچانک بیمار ہوکر موقع پر اللہ کو پیارا ہوگیا اسے چیک کروانے کے لئے ڈاکٹر بلوایا گیا جس نے آکر تصدیق کی کہ تاج الدین اب اس دنیا میں نہیں رہا ۔
سال 1974
یہ اکیس سال کا نوجوان ڈاکٹرعظیم تھا ۔ جو سیالکوٹ کے قریب پسرور کے گاؤں ابدالی سے لاہور اپنے بڑے بھائی صوفی لطیف صاحب کے پاس آ کر ٹھہرا صوفی لطیف صاحب ریلوے میں چوکی دار کی نوکری کرتے تھے اور خاندان کے واحد سرکاری ملازم تھے اور ڈاکٹر حفیظ کے پاس کام سیکھ کر ڈاکٹری کی دکان بنا کر بیٹھا ہوا تھا ۔ایم بی بی ایس ڈاکٹر بہت کم ہوتے تھے لہذا لاہور میں ڈاکٹر اختر راز جو پاکستان کے بننے سے پہلے انگریزوں کے دور کے ایم بی بی ایس اور میڈیکل کی بہت سی کتابوں کے مصنف بھی تھے انہوں نے لاہور میں کالج آف میڈیکل پریکٹیشنرز بنایا جس میں ڈپلوما آف میڈیکل پریکٹس سروس نام کے ڈپلومے کروائے جاتے تھے ۔اس کالج کی قانونی حیثیت صرف اتنی تھی کہ آئین کے عدم وجود میں آئینی اداروں کا خلا تھا اور آئین بننے سے پہلے اسے اس امید پر بنا دیا گیا تھا کہ جب چل رہا ہوگا تو کوئی نہ کوئی قانونی حیثیت مل ہی جائے گی ۔ جو آئین بننے کے بعد بھی چلتے رہنے کی صورت بن رہی تھی عظیم نے اس کی امید میں اس کالج سے ڈاکٹری کا ڈپلومہ کر لیا گیا ۔ ساتھ کے ساتھ اندرون لاہور مصری شاہ کے ڈاکٹر حفیظ کے پاس ڈسپنسر کا کام کرتے کرتے اسی کی چھتری تلے اپنا کلینک بنا لیا ۔ یہ ڈاکٹر حفیظ لاہور کے مشہور گاما پہلوان کے داماد تھے اور ان کی ایک بیٹی کلثوم کی شادی لاہور میں فولاد سازی کے کارخانے کے مالک میاں شریف کے بیٹے محمد نواز جو گورنمنٹ کالج لاہور بی اے کر کے ایل ایل بی کر چکا تھا کے ساتھ کی گئی تھی ۔
سال 1974
کرائے کے مکان میں رہتی بیوہ عذراء اپنی بہن کوثر کا علاج کرواتی اور ساتھ ساتھ اپنی بیٹی مدثرہ کو سنبھالتی ، گھر کا خرچ کوثر کا خاوند شفیع روزانہ راج مزدوری کرتے چلا رہا تھا ، کوثر ، شفیع ، مدثرہ ، امانت ، شازیہ اور کرائے کا گھر ۔ گزارا بہت آسان نہیں تھا لیکن واپس ٹھینگ موڑ جا کر رہنا بھی کوئی حل نہیں تھا کیونکہ باپ تو خود بوڑھا تھا صبح گاؤں کے بچوں کو قرآن پڑھاتا اور دن بھر گولے بیچتا محمد بشیر اتنے لوگوں کو کیسے رکھ سکتا تھا جبکہ گھر پر مکمل گرفت رحماں کی تھی اور اس نے پہلے ہی بیٹیوں سے بمشکل جان چھڑائی تھی ۔ ایسے میں ڈاکٹر عظیم ایک با اخلاق لڑکا عذرا کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا عذرا کا کوئی بھائی نہیں تھا اور وہ عذرا کو باجی کہتا اور عذرا اسے باؤ (چھوٹے بھائیوں کو پیار سے پکارا جانے والا لاہور کا مقامی نام ) پکارتی ۔ عظیم کے ماضی کو دیکھیں تو یہ مولوی عبد الکریم کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا ۔ اس سے بڑے دو بہنیں اور تین بھائی پہلے سے شادی شدہ تھے اور بیوی بچوں والے تھے ۔ جب یہ لاہور آیا تو بڑے بھائی اور بھاوج کے کسی طعنے کے جواب میں خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی راہ پر ڈاکٹر حفیظ کے کلینک اور ڈاکٹر اختر راز کے کالج میں داخلہ لے کر ( جیما ملوانا ) عظیم اب ڈاکٹر عظیم بن چکا تھا لیکن اس کی شادی کے سلسلے میں تمام بہن بھائی ایک دوسرے سے چھپ کر الگ الگ لڑکیوں کو پسند کیئے بیٹھے تھے اور ان کے گھر والوں سے پینگیں بڑھا رہے تھے جبکہ ڈاکٹر عظیم کے والد مولوی عبد الکریم قریشی گاؤں میں مسجد کی امامت میں مشغول تھے ۔ اس دوران ان کی زوجہ اور ڈاکٹر عظیم کی والدہ اللہ رکھی میکے لائلپور گئیں تو وہاں بیمار ہو گئیں انہیں لاہور علاج کے لئے لایا گیا جہاں وہ لطیف کے گھر میں دوران علاج اس دنیا سے کوچ کر گئیں ۔عظیم ماں کی وفات پر بہت زیادہ بے قرار ہو گیااور خود کو بے سہارا سمجھنے لگا ۔ سمجھتا بھی کیوں نہ ماں سے گھر کی رونق تھی اور وہی سارے گھر کو چلا رہی تھی ۔والد تو مسجد کے ہو رہے تھے اور دنیا، رشتے دار سب کو تو ماں نے ہی سنبھالا تھا ۔
 
آخری تدوین:
ماں کو لاہور میں ہی انجینئرنگ یونی ورسٹی کے پاس مجددی دربار کے احاطے والے قبرستان میں دفنایا گیا ، عظیم ماں کے بغیر اپنی زندگی ادھوری محسوس کرنے لگا، بہن بھائیوں کی باتوں سے پہلے ہی وہ برگشتہ تھا ۔ ایسے میں اسے عذرا کے گھر میں جا کر جو کلینک کے پاس ہی تھا سکون ملتا ، مدثرہ کی معصومیت اور سہم جانے کی عادت کو دیکھ کر اسے اس سے انس ہوگیا تھا اور کلینک سے دوپہر کے وقفے میں وہ کبھی کبھار کھانا کھانے عذرا کے گھر چلا جاتا ۔ایک دن مولوی عبد الکریم لاہور آتے ہیں اور لطیف کے گھر ٹھہرتے ہیں عظیم جس کے کلینک ، کالج کے متعلق اس کے گھر کسی کو علم نہیں تھااپنے والد کو اپنے کلینک اور اس سے متعلقہ اپنی موجودہ پوزیشن بتانے کے لئے اپنے ساتھ اپنے کلینک لے آتا ہے ۔اور سارا راز کھول کر انہیں اپنا ڈپلوما، کلینک اور موٹر سائیکل جو اس کلینک کی کمائی سے خریدا تھا دکھاتا ہے ۔ مولوی صاحب بہت خوش ہوتے ہیں اتنے میں مدثرہ کلینک میں آکر عظیم کو بتاتی ہے کہ امی نے پراٹھے بنائے ہیں وہ کھا لیں ۔ عظیم مدثرہ کو کہتا ہے امی کو کہو یہیں بھیج دیں اور پراٹھے وہیں آ جاتے ہیں۔ دونوں باپ بیٹا پراٹھے کھا کر واپس لطیف کے گھر جاتے ہیں جو اپنے والد سے عظیم کی ایک دم ترقی کا سن کر ایک دم جھٹکے میں آجاتا ہے کہ کیسے عظیم اتنا بڑا ہو گیا کہ اپنے فیصلے خود کرنے لگا؟؟۔
لطیف کی پہلی شادی ناکام ہونے پر دوسری شادی کوثر بی بی سے ہوئی اور ابھی تک اس کے بطن سے اس کی بیٹی رخسانہ، رضوانہ اور سب سے چھوٹی فوزیہ تھیں کوئی بیٹا ابھی تک نہ تھا عظیم کی اس حرکت سے اسے یہ ہوا کہ اب یہ لڑکا ہاتھ سے نکل گیا ہے ۔ اسی غصے کے عالم میں ابا جی (مولوی عبد الکریم ) نے انہیں عذرا کے پراٹھوں کے بارے میں بتایا تو انہیں بہت غصہ آیا کہ کیوں بھئی کام بھی کرنا شروع کردیا،اور کسی عورت کے گھر سے پراٹھے بھی کھا رہا ہے ۔ ہو نہ ہو یہ اس عورت کے ساتھ عشق مشوقی کر رہا ہے ۔ جب عظیم کی کھنچائی کی گئی تو اس نے بتایا کہ بھائی میں اسے باجی کہتا ہوں آپ شک نہ کریں لیکن جب کٹیلی باتیں عظیم کے برداشت نہ ہوئیں تو اس نے اس نہج پر سوچنا شروع کردیا ۔ بیوہ بھی ہے اور بیوہ سے شادی کرنا تو ثواب کا کام ہے ادھر عذراء کو عظیم کی بدلی ہوئی نظر محسوس ہو چکی تھی ۔ لیکن بری نہیں لگی کیوں کہ اپنا تو کوئی نہ پیچھے تھے نہ آگے بچی کو بھی ڈاکٹر اچھا لگتا تھا اور جب یہ سب ہونا شروع ہوا تو دونوں طرف پسندیدگی ظاہر ہوگئی
سال 1975 مارچ کا مہینہ
اور پھر ایک دن ڈاکٹر عظیم کا عذرا سے نکاح ہوگیا جس میں عظیم کی طرف سے کوئی نہ تھا جبکہ عذرا کی طرف سے اس کا بہنوئی اور کچھ محلے دار شامل تھے ۔ سادگی سے نکاح ہو گیا ۔ اب عذراء کا نام تبدیل کر کے شمع رکھا گیا اور کاغذات میں شمع عظیم لکھوا دیا گیا۔ لیکن شاید دونوں یہ نہیں جانتے تھے کہ ایک بڑا طوفان آنے کو تھا ۔
 
آخری تدوین:
عظیم نے جب اپنے گھر میں اپنی شادی کا بتایا تو مولوی عبدالکریم صاحب تو خوش ہوئے اور انہوں نے بہو کو خوش آمدید کہا جبکہ تینوں بھائی لطیف ، طفیل اور منیر سخت ناراض ہوئے اور عہد کیا کہ یہ شادی ختم کروا کے رہیں گے ۔دونوں بڑی بہنوں نے بھائیوں کا ساتھ دیا اور والد کے علاوہ باقی سب نے مل کر ایک منصوبہ بنایا ۔ اس منصوبے کے مطابق عظیم اور اس کی بیوی کو گاؤں بلوایا گیا۔ ابا جی خود تو ابدالی میں تھے جبکہ پسرور شہر میں مسلم کالونی میں ممتاز بی بی کا گھر تھا ، زہرہ بی بی گوجر گورایہ میں ، جبکہ طفیل اور منیر دونوں لاہور میں رہتے تھے ۔ عذرا جو اب شمع عظیم بن چکی تھی اپنے خاوند کے ساتھ گاؤں چلی گئی جہاں سب سے پہلے ابا جی سے ملاقات ہوئی دوسرے دن اباجی کی طرف سے نکلے اور پھر اس کے بعد دونوں بڑی بہن کی طرف گوجر گورایہ گئے جہاں سے سب ممتاز کی طرف گئے جہاں شمع کو ایک کمرے میں بند کر کے شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ تم نے عظیم کو پھنسایا ہے اب اسے چھوڑ بھی دو دوسرے کمرے عظیم کو مارا گیا ہاتھ پاؤں باندھ کر دو دن تک مارا پیٹا جاتا رہاکہ یہ دونوں ایک دوسرے کو چھوڑ دیں ، شمع کے پاس لوٹنے کا راستہ تھا ہی نہیں ، باپ غریب ، بھائی کوئی تھا نہیں ، بہن پہلے ہی ذہنی مریضہ ایک عظیم کی صورت اسے نئی زندگی کا رااستہ ملا تھا وہ اسے کیسے چھوڑ دیتی ۔لہذا اس نے مرجانے کو عظیم کو چھوڑ دینے سے بہتر سمجھا اور ہر تشدد کا مقابلہ صرف یہ کہہ کر کیا کہ نہیں چھوڑوں گی۔ دوسری طرف عظیم اپنی آنکھوں سے شمع کا ماضی دیکھ چکا تھا ۔ کیسے اپنے ہاتھ سے بنایا ہوا آشیاں خود ہی برباد کرنے کو تیار ہو جاتا ۔اور اس سب سے اسے ضد بھی ہو گئی تھی کہ ایسے تو میں نہیں چھوڑوں گا۔ اگر چھڑوا سکتے ہو تو چھڑوا لو۔ دوسری جانب اسے شمع کے حوصلے سے بھی حوصلہ ملتا اور شدید ترین تشدد کے سامنے دونوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ۔ ایسے میں ممتاز کے شوہر امین بٹ نے چھپ کر اپنے سسر مولوی عبد الکریم کو اس سب کی خبر کر دی اور انہوں نے آکر بیٹے بہو کو ان کے چنگل سے نکالا اور ان کے ساتھ بول چال بند کردی
 
مارچ 1976
شمع اور عظیم کے گھر پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی ۔ اس کا نام قیصر رکھا گیا۔ لڑکا ماں کی طرح خوبصورت خدوخال والا تھا اور شمع تو پھولے نہیں سما رہی تھی اس کی تو جنت پوری ہوگئی تھی ۔ مدثرہ کو بھائی مل گیا تھا ۔اور شمع کے خاندان کا پہلا لڑکا اللہ نے شمع کے گھر میں پیدا کیا تھا ۔ خود دو بہنیں باپ کی نسل رک جانے پر پشیمان زندگی اس دکھ میں گزارتے گزارتے اور یہی طعنے سنتے سنتے عرصہ بیت گیا تھا کہ اوتریاں دی اوتری (پنجابی میں اوترا عربی کے ابتر کا مترادف ہے) اب جب اللہ نے بیٹا دیا تو وہی بیٹا اسے اس کا بھائی نظر آیا وہی اس کا بیٹا نظر آیا اور اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے عمروں کی پڑی ہوئی لعنت کا طوق اس کے گلے سے اتر گیا تھا۔اس کا سر فخر سے اونچا ہوگیا تھا۔دوسری طرف مدثرہ قیصر کو دیکھ کر بہت خوش تھی ۔ تاج الدین کے دور کا خوف اس کی رگوں سے اچھی طرح نکلا نہیں تھا ۔ہرچند کہ عظیم اس سے انتہائی شفقت سے پیش آتا لیکن کسی بھی شخص کو چیختے یا چلاتے دیکھ کر اس کا خوف عود کر آتا اور وہ ڈر سہم جاتی ۔ اب بھائی کو لیئے لیئے پھرتی تھی ۔عظیم کا کلینک بہت اچھا چل رہا تھا ۔ پیسہ وہ جو پانی کی طرح برس رہا تھا ۔
فروری 1977
عظیم سے شادی کے بعد شمع کا دوسرا حمل تھا ۔ چھٹا مہینہ آدھے کے قریب گزر چکا تھا کہ شمع کی طبیعت خراب ہوئی اور ایک اور بیٹا اس کے گھر پیدا ہوا ۔ سات مہینے بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ فیصل پیدا ہوا اتنا چھوٹا بچہ نہ پہلے دیکھا تھا نہ کسی کو پالتے دیکھا تھا لیکن پالنا تھا تو رانی کھیت کے قطرے پلا کر مرغیوں کی خوراک سرنجوں کے ذریعے پلا کر اس بچے کو جوتوں کے ڈبے میں رکھ کر پالنا شروع کیا ۔روزانہ مالش ، خوراک اور احتیاط کام آگئی اور چھے ماہ دس دن کا یہ پری میچور بچہ فیصل بچ گیا۔ رنگ کافی کالا تھا لیکن بچ گیا تھا یہ کم غنیمت تھا؟ انہی دنوں قیصر بیمار ہو گیا اور اسے ہیضہ ہوگیا ۔اتنا بیمار کہ بچنا مشکل ہوگیا اب شمع اور مدثرہ دونوں مجسم خدمت بن کر دونوں لڑکوں کو سنبھالنے لگیں اور ڈاکٹر عظیم نے ڈاکٹر حفیظ سے مشورہ کر کے قیصر کا علاج کیا جو کارآمد ثابت ہوا اور اللہ کے فضل سے دونوں لڑکے بچ گئے ۔
مارچ 1979
تیسرا بیٹا کاشف پیدا ہوا تو شمع کی زندگی کی خواہش پوری ہوگئی زندگی جیسے مکمل ہوگئی ہو ۔ تین تین بیٹے ایک بیٹی ایک آئیڈیل شوہر معاشی طور پر خوشحال گھرانہ ، دو دو مکان ایک دکان اپنا اسکوٹر شمع نے اپنا آپریشن کروا کر خاندانی منصوبہ بندی کروا لی ۔باغبان پورے سے دونوں میاں بیوی بند روڈ کے قریب جھگیاں شہاب دین شفٹ ہو گئے تھے ۔ خاندان بھر میں شور مچ گیا تھا کہ عظیم نے اپنا گھر لے لیا ہے ۔وہ رشتے دار جو چار سال پہلے تک عظیم اور شمع کو جان کی دھمکیاں دے کر شادی ختم کرنے کو کہہ رہے تھے اب ان کی خوشی میں خوش تھے اور انہیں اپنے ساتھ سب ماضی کو بھول جانے کا درس دے رہے تھے ۔ ڈاکٹر ڈاکٹر ہو رہی تھی ہر طرف اور عظیم نے سی کیٹیگری کر کے بی کیٹیگری کرنا شروع کردیا تھا ۔
جون 1984
شمع کا یتیم چچازاد بھائی سرور جسے کسی نے نہیں پالا تھا اور پچھلے نو برس سے شمع اور عظیم نے اس کا خرچ اٹھا رکھا تھا اس کی شادی شمع نے بڑی دھوم دھام سے کی عظیم کا ایک دوست مسعود اختر اپنا گھر جھگیاں شہاب الدین کے قریبی محلے جھگیاں ناگرہ میں بنا چکا تھا سات مرلے کا یہ گھر اس علاقے میں ایک کوٹھی کہلاتا تھا ۔ خوبصورت تعمیر زمین سے چار فٹ اونچا یہ گھر سرور کی شادی کے لئے مسعود اختر سے ڈاکٹر عظیم نے کچھ دنوں کے لئے ادھار مانگا اور وہاں سرور کی شادی شاہ پور کانجرہ میں ایک دھوبی کی اکلوتی بیٹی سے کروا دی اور شمع کے میکے اور سسرال کے سب لوگوں کو ہفتہ دس دن تک اس گھر میں رکھ کر باقاعدہ مہمان نوازی کی گئی جو لمبا چوڑا خرچ تھا اور اس زمانے میں شہری زندگی میں بہت بڑی بات تھی ۔ اس طرح شمع کے میکے اور سسرال دونوں میں ان کے مالی استحکام کا مکمل مظاہرہ ہو گیا ۔ شادی کے بعد وہ گھر واپس دے کر ڈاکٹر عظیم بمعہ اہل و عیال واپس اپنے گھر آگئے
اگست 1984
ڈاکٹر عظیم یتیم خانہ چوک کے پاس لاہور کے طبیہ کالج میں فاضل طب و الجراحت کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تاکہ مکمل حکمت کا کورس کر کے اسے اپنے کلینک کے لیئے مزید قانونی تحفظ حاصل ہو سکے ، دور اب 1975 جیسا نہیں تھا کہ کوئی پوچھتا نہیں تھا ۔ اب ادارے وجود میں آرہے تھے اور ایسے کلینکس جو ڈاکٹر عظیم جیسے ڈاکٹر چلاتے تھے آہستہ آہستہ قانونی مشکلات کا شکار ہوتے جا رہے تھے ۔ باقاعدہ طور پر عطائی کی اصطلاح ایجاد کر دی گئی تھی اور اب صرف ہومیو پیتھک / یونانی اور ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کلینک کر سکتے تھے ۔ لہذا یہ کورس شروع کیا ایک دن کالج سے واپسی پر یتیم خانہ چوک کے پاس مچھلی والے کی دکان پر مچھلی خریدتے ہوئے ڈاکٹر کی کھڑی موٹر سائیکل کو پیچھے سے ٹکر مار دی ۔ اسی دن ڈاکٹر عظیم نے ایک اور گھر کا بیعنامہ کیا تھا جس میں ان کی شفٹنگ جاری تھی کہ باہر کسی محلے دار نے آواز لگائی باجی ڈاکٹر دا ایکسی ڈنٹ ہو گیا ۔ ننگے سر دوڑتی ہوئی شمع باہر کو دوڑی اور دوڑتی چلی گئی
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
السلام علیکم
فیصل میاں
جیتے رہیے شاد و آباد ۔۔آج بڑے دن بعد تھوڑی طبعیت بہتر ہوئی ۔۔نماز کے بعد لیٹینے کا دل بالکل نہیں .محفل آئے تو آپکی لکھی کہانی میں ایسا گم ہوئے کہ پوری ختم کرکے سانس لی ۔۔بہت خوبصورت انداز میں زندگی کی تلخ حقیقت بیان کی ہے ۔۔۔
بہت اچھا لکھتے ہیں ۔۔۔ ڈھیروں دعائیں آپ کے اور ماہم کے لئے اللہ پاک آپ دونوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین
 

سید عمران

محفلین
مارچ 1976
شمع اور عظیم کے گھر پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی ۔ اس کا نام قیصر رکھا گیا۔ لڑکا ماں کی طرح خوبصورت خدوخال والا تھا اور شمع تو پھولے نہیں سما رہی تھی اس کی تو جنت پوری ہوگئی تھی ۔ مدثرہ کو بھائی مل گیا تھا ۔اور شمع کے خاندان کا پہلا لڑکا اللہ نے شمع کے گھر میں پیدا کیا تھا ۔ خود دو بہنیں باپ کی نسل رک جانے پر پشیمان زندگی اس دکھ میں گزارتے گزارتے اور یہی طعنے سنتے سنتے عرصہ بیت گیا تھا کہ اوتریاں دی اوتری (پنجابی میں اوترا عربی کے ابتر کا مترادف ہے) اب جب اللہ نے بیٹا دیا تو وہی بیٹا اسے اس کا بھائی نظر آیا وہی اس کا بیٹا نظر آیا اور اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے عمروں کی پڑی ہوئی لعنت کا طوق اس کے گلے سے اتر گیا تھا۔اس کا سر فخر سے اونچا ہوگیا تھا۔دوسری طرف مدثرہ قیصر کو دیکھ کر بہت خوش تھی ۔ تاج الدین کے دور کا خوف اس کی رگوں سے اچھی طرح نکلا نہیں تھا ۔ہرچند کہ عظیم اس سے انتہائی شفقت سے پیش آتا لیکن کسی بھی شخص کو چیختے یا چلاتے دیکھ کر اس کا خوف عود کر آتا اور وہ ڈر سہم جاتی ۔ اب بھائی کو لیئے لیئے پھرتی تھی ۔عظیم کا کلینک بہت اچھا چل رہا تھا ۔ پیسہ وہ جو پانی کی طرح برس رہا تھا ۔
فروری 1977
عظیم سے شادی کے بعد شمع کا دوسرا حمل تھا ۔ چھٹا مہینہ آدھے کے قریب گزر چکا تھا کہ شمع کی طبیعت خراب ہوئی اور ایک اور بیٹا اس کے گھر پیدا ہوا ۔ سات مہینے بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ فیصل پیدا ہوا اتنا چھوٹا بچہ نہ پہلے دیکھا تھا نہ کسی کو پالتے دیکھا تھا لیکن پالنا تھا تو رانی کھیت کے قطرے پلا کر مرغیوں کی خوراک سرنجوں کے ذریعے پلا کر اس بچے کو جوتوں کے ڈبے میں رکھ کر پالنا شروع کیا ۔روزانہ مالش ، خوراک اور احتیاط کام آگئی اور چھے ماہ دس دن کا یہ پری میچور بچہ فیصل بچ گیا۔ رنگ کافی کالا تھا لیکن بچ گیا تھا یہ کم غنیمت تھا؟ انہی دنوں قیصر بیمار ہو گیا اور اسے ہیضہ ہوگیا ۔اتنا بیمار کہ بچنا مشکل ہوگیا اب شمع اور مدثرہ دونوں مجسم خدمت بن کر دونوں لڑکوں کو سنبھالنے لگیں اور ڈاکٹر عظیم نے ڈاکٹر حفیظ سے مشورہ کر کے قیصر کا علاج کیا جو کارآمد ثابت ہوا اور اللہ کے فضل سے دونوں لڑکے بچ گئے ۔
مارچ 1979
تیسرا بیٹا کاشف پیدا ہوا تو شمع کی زندگی کی خواہش پوری ہوگئی زندگی جیسے مکمل ہوگئی ہو ۔ تین تین بیٹے ایک بیٹی ایک آئیڈیل شوہر معاشی طور پر خوشحال گھرانہ ، دو دو مکان ایک دکان اپنا اسکوٹر شمع نے اپنا آپریشن کروا کر خاندانی منصوبہ بندی کروا لی ۔باغبان پورے سے دونوں میاں بیوی بند روڈ کے قریب جھگیاں شہاب دین شفٹ ہو گئے تھے ۔ خاندان بھر میں شور مچ گیا تھا کہ عظیم نے اپنا گھر لے لیا ہے ۔وہ رشتے دار جو چار سال پہلے تک عظیم اور شمع کو جان کی دھمکیاں دے کر شادی ختم کرنے کو کہہ رہے تھے اب ان کی خوشی میں خوش تھے اور انہیں اپنے ساتھ سب ماضی کو بھول جانے کا درس دے رہے تھے ۔ ڈاکٹر ڈاکٹر ہو رہی تھی ہر طرف اور عظیم نے سی کیٹیگری کر کے بی کیٹیگری کرنا شروع کردیا تھا ۔
جون 1984
شمع کا یتیم چچازاد بھائی سرور جسے کسی نے نہیں پالا تھا اور پچھلے نو برس سے شمع اور عظیم نے اس کا خرچ اٹھا رکھا تھا اس کی شادی شمع نے بڑی دھوم دھام سے کی عظیم کا ایک دوست مسعود اختر اپنا گھر جھگیاں شہاب الدین کے قریبی محلے جھگیاں ناگرہ میں بنا چکا تھا سات مرلے کا یہ گھر اس علاقے میں ایک کوٹھی کہلاتا تھا ۔ خوبصورت تعمیر زمین سے چار فٹ اونچا یہ گھر سرور کی شادی کے لئے مسعود اختر سے ڈاکٹر عظیم نے کچھ دنوں کے لئے ادھار مانگا اور وہاں سرور کی شادی شاہ پور کانجرہ میں ایک دھوبی کی اکلوتی بیٹی سے کروا دی اور شمع کے میکے اور سسرال کے سب لوگوں کو ہفتہ دس دن تک اس گھر میں رکھ کر باقاعدہ مہمان نوازی کی گئی جو لمبا چوڑا خرچ تھا اور اس زمانے میں شہری زندگی میں بہت بڑی بات تھی ۔ اس طرح شمع کے میکے اور سسرال دونوں میں ان کے مالی استحکام کا مکمل مظاہرہ ہو گیا ۔ شادی کے بعد وہ گھر واپس دے کر ڈاکٹر عظیم بمعہ اہل و عیال واپس اپنے گھر آگئے
اگست 1984
ڈاکٹر عظیم یتیم خانہ چوک کے پاس لاہور کے طبیہ کالج میں فاضل طب و الجراحت کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تاکہ مکمل حکمت کا کورس کر کے اسے اپنے کلینک کے لیئے مزید قانونی تحفظ حاصل ہو سکے ، دور اب 1975 جیسا نہیں تھا کہ کوئی پوچھتا نہیں تھا ۔ اب ادارے وجود میں آرہے تھے اور ایسے کلینکس جو ڈاکٹر عظیم جیسے ڈاکٹر چلاتے تھے آہستہ آہستہ قانونی مشکلات کا شکار ہوتے جا رہے تھے ۔ باقاعدہ طور پر عطائی کی اصطلاح ایجاد کر دی گئی تھی اور اب صرف ہومیو پیتھک / یونانی اور ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کلینک کر سکتے تھے ۔ لہذا یہ کورس شروع کیا ایک دن کالج سے واپسی پر یتیم خانہ چوک کے پاس مچھلی والے کی دکان پر مچھلی خریدتے ہوئے ڈاکٹر کی کھڑی موٹر سائیکل کو پیچھے سے ٹکر مار دی ۔ اسی دن ڈاکٹر عظیم نے ایک اور گھر کا بیعنامہ کیا تھا جس میں ان کی شفٹنگ جاری تھی کہ باہر کسی محلے دار نے آواز لگائی باجی ڈاکٹر دا ایکسی ڈنٹ ہو گیا ۔ ننگے سر دوڑتی ہوئی شمع باہر کو دوڑی اور دوڑتی چلی گئی
بہت بہترین کہانی فیصل صاحب...
ابھی جاری ہے؟؟؟
 
بچوں کو ہمسایوں نے خود ہی سنبھال لیا ۔ نیم دیوانی شمع جس کی تمام تر خوشیوں کا مرکز عظیم تھا جسے عزت ، محبت اور تکمیل کا احساس عظیم نے دیا تھا کیسے اس عظیم کے بغیر زندگی کا تصور بھی کر سکتی تھی ۔ننگے پاؤں ننگے سر دوڑتی ہوئی شمع یتیم خانہ چوک پہنچی تو پتہ چلا ڈاکٹر کو میو اسپتال لے کر گئے ہیں ۔ میو اسپتال پہنچی تو جانا کہ حالت نازک ہے لگتا ہے کمر ٹوٹ گئی ہے اسے جنرل اسپتال لے گئے ہیں ۔ وہاں سے دوڑی تو جنرل اسپتال پہنچ کر دم لیا آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہ لیتے تھے ۔ ہر قدم پر اپنی کم مائیگی کا احساس کہ جسے ابتروں کی ابتر ہونے کے طعنے ملتے تھے اسے خدا نے بیٹوں کی عزت دی ، گھر بار دیا ، پیار کرنے والا شوہر دیا، اب اچانک اللہ نہ کرے اسے کچھ ہو گیا تو کیا کروں گی ۔ میری تو زندگی ہی ختم ہو جائے گی۔ ہائے میرے ڈاکٹر صاحب کو کچھ ہونے سے پہلے اے خدایا مجھے موت دے دینا۔


محمود نامی ایک ہمسایہ کی بیوی نے اسے ڈوپٹہ کھانا اور جوتا دے کر پیچھے بھیجا تو ڈھونڈتے ڈھونڈتے موٹر سائیکل پر دوسرے دن صبح جنرل اسپتال پہنچا تو شمع کو ایمرجنسی کے باہر نیم دیوانگی کی حالت میں دیکھ کر ششدر رہ گیا ۔ ایمرجنسی کے باہر کھڑی گیٹ کو تکتی جا رہی آنکھیں پتھر آنسو رواں پاؤں سوجے اور دونوں ہاتھ مٹھیوں کی صورت آپس میں یوں جڑے ہوئے جیسے خدا کے سامنے اپنی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے سراپا دعا بن چکی ہو ۔ اے اللہ میرے ڈاکٹر صاحب کی حفاظت کرنا۔ مولا میرا تو اور کچھ بھی نہیں ہے انہیں مجھ سے مت چھیننا۔ مالک میں تو بے بس ہوں ہاتھ جوڑ کر تجھی سے سوال کرتی ہوں مجھے پھر سے لاوارث نہ کیجئو ۔ محمود کی آنکھیں یہ سب دیکھ کر برس پڑیں اور اس نے ایک نرس کی وساطت سے اسے سمجھایا کھانا کھانے کو کہا ڈوپٹہ دیا جوتا پہنایا اور حوصلہ دیا کہ فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

پہلا معجزہ
عظیم کو ایمرجنسی سے آئی سی یو شفٹ کر دیا گیا تھا ۔ ایکس رے سے معلوم ہوا کہ کمر کی ہڈی کا فریکچر ہے تو سہی لیکن حرام مغز ٹوٹنے سے بچ گیا ہے البتہ گردن سے نچلا حصہ مفلوج ہے جو وقت کے ساتھ ہی پہلے ہڈی اور اس کے بعد اردگرد کی بافتوں کی صحت یابی کے بعد ٹھیک ہونے کا امکان ہے ۔ البتہ اس میں وقت کتنا لگے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔اس میں ایک سال بھی لگ سکتا ہے اور یہ عمر بھر ایسے رہنے کی بھی صورت حال ہو سکتی ہے ۔ شمع کی پہلی دعا قبول ہو چکی تھی اللہ نے عظیم کی جاں بخشی کردی تھی ۔ جیسا بھی تھا جو بھی تھا اس کی تو کائنات ہی وہ تھا ۔ اب واپس ملا تو جان میں کچھ جان آئی اورکھانا جوتا ڈوپٹہ اور بچے یاد آئے۔

کم و بیش دو ماہ اسپتال میں رہنا پڑا ۔ بیعنامہ والا مکان ہاتھ سے نکل گیا ۔ پیسے بھی گئے اور مکان بھی گیا ۔عظیم کو دو تین دن میں ہوش تو آگیا تھا لیکن کمر گردن پر پلستر کر دیا گیا تھا۔ عظیم حرکت کے قابل نہ رہا تھا حتی کہ فطری حاجات تک کے لئے دوسروں کا محتاج ہو گیا ۔ ضدی شروع سے تھا اس حالت کو بھی خود کے لئے چیلنج سمجھا جو دوکان اور دو مکان پہلے سے اپنے پاس تھے فورا بیچ کر اپنے علاج پر لگانے اور گھر کے اخراجات کے لئے استعمال کرنے شروع کیئے ۔ اپنے مکانوں والی دو کمرے کے ایسے مکان میں چلی گئی جو ایک کمرہ کسی ایک فیملی کے پاس تھا جبکہ دوسرا کمرہ شمع اپنے چار بچوں اور برسر بستر مریض خاوند کے پاس تھا ۔ نئے خریدار سے اپنی ہی دکان جو کل تک اپنی تھی کرائے پر حاصل کی اور ڈاکٹر عظیم نے اپنی شمع کے ساتھ وہیں کام شروع کر دیا۔ مریض چیک کرنا ، ٹیکہ لگانا ، دوائی بنانا ، سب کچھ سکھایا ساتھ بتا بتا کر مڈوائفری کا کورس کروا دیا اس طرح گھر چلنے کا راستہ بنا لیکن واپس کرائے پر منتقل ہونے کے بعد زندگی پھر سے صفر سے شروع کرنا پڑی دونوں مل کر کلینک کرتے ، جو پیسے کماتے وہ اور گھر بیچ کر جو رقم ملی وہ سب خرچ کر کے علاج کرواتے ۔ آخر یہ رقم بھی اختتام کو پہنچی ۔ لیکن تب تک ایک اور معجزہ ان کے انتظار میں تھا۔

دوسرا معجزہ اپریل 1985
ڈاکٹر عظیم اٹھ کر بیٹھ گیا تھا ۔ وہ چلنے بھی لگا تھا ۔ پتہ نہیں کیا معجزہ ہوا تھا کہ خدا کا خاص کرم ہوگیا تھا ۔ یا شمع کی راتوں کو رو رو کر کی جانے والی دعائیں قبول ہوچکی تھیں لوگ تو کہتے تھے کہ کمر ٹوٹنے والا کبھی نہیں اٹھتا لیکن عظیم پھر سے اٹھ کھڑا ہوا اور پوری قوت سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ شمع کی قربانیاں ، راتوں کی دعائیں کام آئیں اللہ کا خاص کرم ہو گیا ۔ ٹھیک ہونے تک رشتہ داروں میں سے کسی پر ایک روپے کا بوجھ نہ ڈالا بلکہ مل جل کر اپنا تمام سرمایہ و جائیداد استعمال کرتے ہوئے اس آزمائش سے اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ اکٹھے نکلے ۔ اس دوران شمع ڈاکٹر شمع بن گئی اور ڈاکٹر عظیم بھی نئے جذبے کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا ۔ پہلا چیلینج گھر واپس لینے کا تھا اس کے لئے پیسہ کمانا تھا۔ اور پیسہ کمانے کا واحد طریقہ محنت اور درست راستے پر محنت تھا۔ ایک دوست نے اسٹیٹ لائف میں بھرتی کروا دیا اور اس ادارے میں بطور سیلز ریپ انشورنس بیچنے کا ہنر سکھا دیا ۔ عظیم کو اور کیا چاہیئے تھا ۔ زندگی کا جو چیلنج سامنے تھا وہ بہادرانہ عمل کا متقاضی تھا اس نے راتوں کی نیند اور دنوں کا چین خود پر حرام کر لیا اور دن رات انشورنس بیچنے پر کمر باندھ لی ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے بہت لوگ اسے جانتے تھے اور باتوں کا فن اسے خوب آتا تھا ۔
تیسرا معجزہ جنوری 1986
جون اور دسمبر کی کلوزنگ میں ڈاکٹر عظیم نے پورے لاہور زون میں انشورنس سیلز میں ٹاپ کیا اور انہی دنوں میں ایک خانگی جھگڑے میں مسعود اختر کی بیوی زاہدہ نے خود پر تیل چھڑک لیا اور ماچس کی تیلی دکھا کر اپنے خاوند کو دھمکی دینے لگی کی میں خود کشی کر لوں گی ۔اور اس حادثے میں زاہدہ مسعود اللہ کو پیاری ہوگئی ۔ کسی کی موت میں کسی کی زندگی کے مصداق مسعود اختر نے دکھ کے عالم میں ڈاکٹر عظیم کو کہا کہ مکان بیچنا ہے اگر کسی کو خریدنا ہو تو بکوا دو ۔ ڈاکٹر صاحب نے جھٹ پیسے جیب سے نکالے اور مسعود اختر کے ہاتھ رکھ دیئے اس طرح وہی مکان جہاں سرور کی شادی کی تھی اور تمام رشتہ داروں کی ضیافت کی تھی ڈاکٹر عظیم کے ہاتھ پکے ہوئے پھل کی طرح آن گرا اوروہ ڈاکٹر عظیم جو پچھلے سال کمر ٹوٹ کر قلاش ہوا پڑا تھا آج پھر سے گھر بار کاروبار والا ہوگیا تھا ۔انہی دنوں سوزوکی ایف ایکس کا بہت چرچا تھا یہ گاڑی بھی عظیم نے خرید لی یہ سب کچھ کسی معجزے سے کم کیا ہوگا؟؟
 
آخری تدوین:
عظیم کی زندگی کا یہ اتنا بڑا جھٹکا اللہ نے جیسے رفع کیا یقینا ایسا ہونا خصوصی رحمت کے ممکن نہ تھا لیکن عظیم جو گاؤں ، کلینک اور شہر کی زندگی میں ہمیشہ مصروف رہا اس کا واسطہ کارپوریٹ کلچر سے پہلے نہ پڑا تھا۔ سید شہزاد حسین کاظمی جن کی بیگم زیبی نومسلم تھیں خاندان کے دباؤ میں دوسری شادی کر رہے تھے جس پر زیبی نے ان کی بارات پر پہنچ کر ان کی شیروانی چاک کر دی اور وہیں عظیم صاحب کی اپنی شمع کے لئے محبت ایسی تھی کہ اسے ایک کتے نے کاٹنے کی کوشش کی تو حضرت گھر سے پستول لے کر اس کتے کو قتل کرنے پہنچ گئے ۔ سچ کہا ہے کسی نے وقت کا پہیہ کبھی کبھی بڑے ناز کرنے والوں کو یوں گھماتا ہے کہ چھتوں والے فرشوں پر اور فرشوں والے چھتوں پر پہنچ جاتے ہیں ۔
اپنے گھر کا نام عظیم مینشن رکھا کارنر کا اونچا گھر چھت اتنی بڑی کی کونسلر کا الیکشن جیتنے والا آدمی عظیم صاحب کا دوست تھا تو پورے گاؤں کو اس گھر کی چھت پر کھانا کھلایا گیا اور وہ بھی عظیم صاحب کے خرچ پر۔ ہر طرف عظیم صاحب کی جے جے کار ہونے لگی ۔ گاؤں سے کسی کو لاہور کام ہوتا تو وہ آ کر لاہور میں ڈاکٹر عظیم کے گھر ٹھہرتا، بہنوں کو اس بھائی سے زیادہ عزیز کوئی نہ تھا اور بھائیوں کی زندگیوں کا کوئی معاملہ عظیم کے مشورے کے بغیر نہ چلتا تھا ۔ہر جگہ مشہور تھا کہ دولت عظیم کے گھر پر عاشق ہے ۔

سال 1989
ایسے میں سال آگیا انیس صد نواسی جب قیصر دسویں ، فیصل نویں اور کاشف ساتویں میں پڑھتا تھا ۔گوجر گورائیہ سے زہرہ باجی کے ہمسائے کی بڑی بیٹی خالدہ ، عابدہ اور تیسری نائلہ لاہور آئیں کہ خالہ لاہورن کو لاہور چیک کروانے جانا تھا ۔ قرعہ فال نکلا ڈاکٹر عظیم کے گھر کا کہ وہاں جانا تھا ۔کسے معلوم تھا کہ یہ آمد عظیم صاحب کی زندگی کو ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دے گی۔ تینوں بہنیں لاہور آئیں اور آکر جب انہوں نے ڈاکٹر عظیم کے گھر کا نظام دیکھا تو ان کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں ۔دو دو گاڑیاں ، دو دو ملازمائیں ، کلر ٹی وی ، بڑی فریج ، کھلا پیسہ ، ہر کمرے میں اٹیچ باتھ یہ دنیا گمراہ کر دینے والی چیز ہے ۔تو گاؤں سے آنے والی عابدہ جو اس وقت انیس برس کی دوشیزہ تھی کیوں نہ یہ سب کچھ دیکھ کر گمراہ ہو جاتی ۔ عظیم صاحب کو خود کارپوریٹ کلچر کی جھلک نظر آ چکی تھی اور خود سے آدھی عمر کی دوشیزہ نے جب لفٹ کرائی تو انہیں بھی امیرانہ شوق عقد ثانی کا سوجھا ۔
 
آخری تدوین:
جون 1989
اس دوران بہت کچھ بدل چکا تھا ۔ ڈاکٹر عظیم سیل ریپ سے سیلز افسر اور پھر سیلز مینیجر بن چکا تھا اور ایریا مینیجر کی پروموشن کے لئے بالکل تیار تھا ۔ گھر اپنا ہوچکا تھا ۔ بچے اسکولوں میں پڑھتے تھے ، اسٹیٹ لائف کی جانب سے مینیجر لیول کی طبی سہولیات کی وجہ سے پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج معالجہ بالکل مفت تھا ۔ ہن بارش کی طرح برس رہا تھا ۔ ادھر شمع جو پہلے گردے کی تکلیف کی وجہ سے آپریشن کروا چکی تھی، اب اچانک دل کی تکلیف کی وجہ سے اسے لاہور کےفیملی اسپتال میں داخل کروانا پڑ گیا ۔ جہاں زندگی کے اتار چڑھاؤ سے گزرتی ہوئی شمع ایک موجود و ناموجود عجیب طرح کے خوف کا شکار ہو رہی تھی ۔
اور ایسا ہونا بالکل عام بات ہے ۔ جب آپ کے پاس خوشیاں ایک تسلسل سے آتی رہتی ہیں تو اپنی خوشیوں کے چھن جانے کا خوف اندر ہی اندر اپنی جگہ بنانے لگتا ہے ۔ جن سے آپ کی خوشیاں وابستہ ہوتی ہیں ان کے بچھڑنے کا خوف ایک دیمک کی طرح شمع کو اندر ہی اندر کھا رہا تھا ۔ وہ کبھی یہ سوچتی کہ اب میں مر جاؤں گی تو میرے بچوں کا کیا بنے گا ، کبھی سوچتی میرے لڑکے تو کسی نہ کسی طرح پل جائیں گے لیکن میری مدثرہ کا کیا بنے گا ۔گو کہ مدثرہ کی عمر اب کم و بیش سترہ برس تھی لیکن جسمانی طور پر وہ چودہ پندرہ کی لگتی تھی ۔ گھر بھر کی لاڈلی مدثرہ جسے اس کے بھائی پیار بھی بہت کرتے تھے اور اسے اپنے ڈیڈی سے اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشیں پوری کرنے کے لئے سفارشیں کرنے کے لئے بھی استعمال کرتے تھے ۔ اپنی ماں کی کمزوری تھی بیٹوں کی کثرت کے بعد اکلوتی بیٹی جس کی نظر چھے نمبر تک کمزور ہو چکی تھی اور بہت سادہ مزاج تھی ۔ گھر میں کام والیاں ہونے کی وجہ سے کام کاج میں کمزور رہ جانے والی مدثرہ اپنے گھر جا کر کیا کرے گی؟ یہ ہونے نہ ہونے والا خوف بھی شمع کو ڈراتا تھا۔اپنا بچپن ، اپنی بہن کوثر کا بچپن اور جوانی اور اس کی محرومیاں ، اردگرد پھیلے معاشرے میں پھیلتی ہوئی مایوسی اور لڑکیوں کے لئے مشکل ماحول سب مل کر اس کے سامنے ایسا منظر نامہ بنا رہے تھے جو اسے اکثر ڈرائے رکھتا ۔دنیا جہاں کی آسائشیں گھر میں ہونے کے باوجود خود کو اس قابل نہ سمجھنے والی شمع اس سب کے بکھر جانے کے خوف میں مبتلا ہو رہی تھی اور جلد از جلد اپنی بیٹی مدثرہ کے فرض سے سبک دوش ہو جانا چاہتی تھی ۔
فیملی اسپتال کے ایگزیکیٹیو ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں میں علاج کے لئے داخل شمع کو یہ لگ رہا تھا کہ اب میں نے مر جانا ہے اور میرے بچے زمانے کی ٹھوکروں میں جا پہنچیں گے ۔ ایسے میں گوجر گورایہ سے زہرہ اپنے چھوٹے بیٹے بلال کے ساتھ جو دسویں سے اسکول چھوڑ چکا تھا اور آج کل لاہور میں کسی کارگو کمپنی میں کسٹم کلیئرنگ کا کام کرتا تھا لاہور شمع کا پتہ لینے پہنچی ۔ دوسری طرف منیر بڑے بھائی لطیف کے ساتھ اتفاقا اسی دن شمع کا پتہ لینے کے لئے اسپتال میں پہنچ گئے ۔ شمع کے پاس سب رشتے دار اکٹھے تھے ایک طرف ڈاکٹر عظیم دوسری جانب زہرہ باجی کمرے میں موجود صوفے پر لطیف صاحب اور منیر صاحب بیٹھے ہوئے تھے ۔ شمع اپنے دل کی تکلیف کو لے کر روہانسی ہو رہی تھی اور سب اسے حوصلہ تسلی دے رہے تھے ۔ ایک دم سے شمع نے اپنے خاوند کو مخاطب کیا:-
شمع : --------باؤجی (شمع اب بھی ڈاکٹر عظیم کو پیار سے باؤ جی کہہ کر پکارتی تھی)
ڈاکٹر عظیم : ---جی چھمو (شمع) بولو۔
شمع: --------اگر میں مر گئی تو میری مچھاں (مدثرہ) کا کیا بنے گا؟
ڈاکٹر عظیم : ----تو فکر کیوں کرتی ہے ۔ کچھ نہیں ہوگا تمہیں اللہ خیر رکھے تم یہاں سے ٹھیک ٹھاک ہو کر اپنے گھر جاؤ گی ۔
شمع :--------- مجھے نہیں لگتا میں بچوں گی ۔ میری مچھاں کی شادی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتی تو میرا مرنا آسان ہو جاتا۔
ڈاکٹر عظیم : -----اچھا تو ٹھیک ہو جا پھر دیکھتے ہیں ۔
شمع: (روتے ہوئے)- نہیں دل کا دورہ پڑنے کے بعد میں نے کسی کو بچتے نہیں دیکھا مجھے لگتا ہے اب میں نے بھی نہیں بچنا ۔ میری مچھاں کا کچھ کر لیں تو میں سکون سے مر جاؤں۔
باجی زہرہ -------- ہے ہے کیا بات کر رہی ہو ؟ خیر کی بات کرو ۔ اپنی بادشاہی ہے ۔ گاؔڑیاں ، گھر ، مکان ، کیا کمی ہے تمہاری مچھاں تم مجھے دے دو ۔ یہ بلال ہے ناں تمہارا ہی بیٹا ہے میری طرف سے کل ہی مچھاں مجھے دے دو۔ لیکن ایسی باتیں نہ کرو۔

شمع نے ڈاکٹر عظیم کو دیکھا ، ڈاکٹر عظیم ہکا بکا اپنی بہن کو دیکھ رہا تھا جبکہ لطیف اور منیر صاحب یہ سمجھنے کی کوشش میں تھے کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔

لطیف صاحب:----: ارے بھئی بچوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے ایسے کیسے کھڑے پیر شادی طے کر دیں ۔ تیاریاں کرنے کے لئے بھی وقت چاہیئے ہوتاہے ۔ ہمارا کیا ہے تنخواہ دار لوگ ہیں مہینہ گن گن کر گزارتے ہیں ۔ ہزار خرچے ہوتے ہٰیں ۔ پھر لڑکی والوں کا کیا ؟ پرائی بچی کے لئے راتوں رات کون شادی کے انتظامات کر سکتا ہے ۔ یہاں اپنی کے لئے اتنا جلدی کچھ نہیں ہو سکتا ۔عظیم کو بھی ہزار انتظامات کرنے ہونگے کھینچ تان کر انتظامات میں وقت لگتا ہے ۔

ڈاکٹر عظیم --- کیا مطلب ہے آپ کا یعنی میں ایسا نہیں کر سکتا ؟ مدثرہ میری بیٹی ہے کوئی یہ غلط فہمی نہ رکھے کہ یہ کسی اور کی بیٹی ہے ۔ یہ قیصر ، فیصل ، کاشف کی بڑی بہن ہے اور ڈاکٹر عظیم کی بیٹی ہے ۔ جاؤ میں نے کہہ دیا کل صبح دن میں مدثرہ کی شادی ہے اور آپ سب کو یہاں سے گھر اور گھر سے واپسی اور شادی پر ہونے والے تمامی اخرجات بھی میر ی طرف سے ۔ کیا ہی ایسی شادی کبھی آپ نے دیکھی ہوگی ۔
اب وہ باجی زہرہ سے مخاطب ہوتے ہیں : آپا آپ بھی تیاری کریں صبح آپ میرے ساتھ جا رہی ہیں اور شادی کی پوری خریداری کریں میں بیٹھا ہوں ۔ بلال کے کپڑے ، آپ کی طرف سے بھی جو کچھ ہوگا میرے خرچ پر ہوگا ۔
منیر صاحب اس سارے معاملے میں ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور اس طرح بیٹھے بٹھائے مدثرہ کی شادی بلال سے طے ہوگئی اور چوبیس گھنٹے کے اندر اندر مکمل اخراجات کے ساتھ مدثرہ کی شادی بلال سے ہوجاتی ہے ۔ اس عجیب و غریب شادی میں جس کی تیاری صبح چھے بجے شروع ہوئی اور دوپہر تین بجے بارات اور نکاح کے لوازمات پورے کر لیئے جاتے ہیں تاج دین مرحوم کی بیٹی مدثرہ ڈاکٹر عظیم کے گھر سے رخصت ہو کر بلال شاکر کی بیوی بن گئی اور چند گھنٹے میں لڑکی والوں ، لڑکے والوں اور بارات رخصتی کا عمل مکمل کر لیا جاتا ہے۔ پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا ایسے کہ نہ اس سے پہلے کبھی ایسی شادی دیکھی نہ اس کے بعد اتنے کم وقت میں اتنے شاندار طریقے سے ایک کھاتے پیتے مڈل کلاس گھر میں ایسا ہونا عجیب و غریب کیس تھا۔

زہرہ ڈاکٹر سے مدثرہ کا رشتہ لے کر بہت خوش تھی ۔ ایک طرف امیر گھر کی لڑکی ، دوسری طرف عظیم کی اکلوتی بیٹی (کسے پروا تھی اپنی جنی ہے کہ نہیں) زہرہ تو یہ دیکھ رہی تھی کہ عظیم جیسا جن اس کے قابو میں آچکا تھا ۔اب دیکھو یہ آپا زہرہ کرتی کیا ہے ۔ شمع نے عظیم کو ہم سے چھینا تھا اب ہم عظیم کو بھی شمع سے چھین کر دکھائیں گے ۔ اور اس کی دنیا بھی ایسے ہی برباد کریں گے جیسے اس نے ہماری دنیا کو برباد کیا تھا ۔
 
آخری تدوین:
سال : 1989
تیرہ سالہ قیصر ڈاکٹر عظیم کا بڑا لڑکا تھا ۔ خوبصورتی میں ماں پر گیا تھا اور شروع سے ہی اس پر لڑکیاں بھنوروں کی طرح گرتی تھیں ابھی دو سال پہلے کی ہی تو بات تھی جب باجی مدثرہ کے اسکول میں پڑھنے والی ا س کی سہیلی زیبا ایک دن گھر چھوڑ کر عظیم مینشن جا پہنچی کہ میں اپنا گھر چھوڑ آئی ہوں مجھے قیصر سے محبت ہے اور میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ سب ہنسنے لگے اور قیصر کی ماں شمع نے بڑے پیار سے اسے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا کوئی بات نہیں تم فکر نہ کرو میں کرواتی ہوں تمہاری شادی قیصر سے ایسا کرتے ہیں تمہارے والدین کو بلوا کر تم دونوں کی شادی سیٹ کروا دیتے ہیں ۔ میری ایک شرط ہے بس ایک شرط کہ تم ابھی پڑھو گی اور جب تمہاری عمر اٹھارہ سال ہو جائے گی ہم تمہاری ڈولی اٹھا کر اپنے گھر لے آئیں گے ۔ زیبا بارہ سال کی عمر میں ان چالاکیوں کو کیا سمجھتی ؟ مان گئی بے چاری پھر اس کے والدین کو بلوا کر ان کا ایک سیشن کیا گیا۔ کرائے پر وی سی آر منگوا کر بچیوں کے ساتھ عشقیہ فلمیں دیکھنے کا انجام دکھایا گیا اور پھر باقاعدہ لائحہ عمل تجویز کرنے کے بعد انہیں زیبا کو لے جانے کی اجازت دی گئی ۔
اسی طرح کا حادثہ اس کے ساتھ تایا لطیف کے گھر جانے پر بھی ہوتا تھا جب ان کی صاحبزادی فوزیہ انہیں دیکھ کر اس کے ساتھ لاڈیاں کرتی ۔ کبھی دیکھ کر چھپ جاتی اور کبھی چھپ چھپ کر دیکھتی رہتی ۔ فوزیہ عمر میں قیصر سے کوئی سال ایک بڑی ہوگی لیکن تائی کوثر بھی اور فوزیہ بھی دونوں قیصر کو پسند کرتے تھے ۔ اچھے گھر کا بڑا لڑکا تھا ۔ خوبصورت بھی تھا تو وقت سے پہلے ہی اسے جوڑ کر رکھنا زیادہ مفید ثابت ہوتا ۔ وقت کا کوئی اعتبار نہیں کب لڑکا بڑا ہو جائے اور کہیں اور جان پھنسے؟
ایسے میں قیصر میں پسندیدگی کے جذبات کو سمجھ پانا اور پہچان لینا آسان ہوگیا کیونکہ اس سب کو وہ دیکھتا اور اس سب میں سے گزرتا ہوا آیا تھا ۔ قیصر کا سب سے زیادہ مسئلہ فیصل کے ساتھ ہوا کرتا تھا کیونکہ عمر کا بہت زیادہ فرق نہ ہونے کی وجہ سے فیصل اس کے ساتھ ضد لگا لیا کرتا تھا۔ اور ضد کی صورت میں قیصر کو بہت غصہ آجاتا تھا ۔ پھر وہ مار کٹائی ہوتی کہ الحفیظ و الامان ۔ بارہ اور تیرہ سال کی عمر میں عموما نئی نئی تبدیلیاں ہو رہی ہوتی ہیں ۔ لڑکے جوان ہو رہے ہوتے ہیں اور ان جسمانی اور نفسیاتی تبدیلیوں کو سمجھنا اور انہیں ایک رخ دینا والدین کا کام ہے ۔ جو شاید شمع اور ڈاکٹر عظیم کرنے کا مناسب شعور نہیں رکھتے تھے ۔وجہ دونوں کی مصروفیات کہ ڈاکٹر صاحب اسٹیٹ لائف میں جبکہ شمع گھر آنے والے مہمانوں اور مریضوں کو ہینڈل کرنے میں اس قدر مصروف ہو چکے تھے کہ بچوں کا وقت نکالنا مشکل ہوتا جا رہا تھا ۔
اس وقت میں جب بچوں کو وقت کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے بچے میدان میں لگے جھاڑ جھنکاڑ کی طرح بڑھ رہے تھے ۔ قیصر اور فیصل اسکول سے اکٹھے بنک کرتے لیکن پتہ نہیں پکڑے کیسے جاتے تھے ۔ جس دن بنک کرتے اسی دن پکڑے جاتے اور رات کو ڈیڈی باٹا چپل کا نیلا چھتر پاس رکھ کر پوچھتے کہ ہاں بھئی آج اسکول گئے تھے؟ قیصر پہلے کہتا کہ جی گئے تھے پھر ایک آدھ چھتر پر مان جاتا کہ نہیں گئے تھے ۔ فیصل کا قصہ مختلف تھا وہ پہلے کہتا جی گئے تھے پھر جب چھتر پڑتے تو ڈر جاتا کہ اب مان گیا تو جھوٹ بولنے پر اور چھتر پڑیں گے تو وہ نہیں مانتا تھا کہ ہم نے آج اسکول سے بنک کیا تھا۔ اور نتیجتا قیصر ایک دو چھتر کھا کر آزادی پا لیتا جبکہ فیصل کی چھترول ہوتی رہتی کہ بتاؤ گئے تھے کہ نہیں اور وہ کہتا رہتا کہ گئے تھے ۔ آخر جب تھک جاتا چھتر کھا کھا کر تو مان جاتا کہ ہاں ہم نہیں گئے تھے ۔ ان کے ڈیڈی انہیں ہر بار سمجھاتے کہ گدھو غلطی ہو جاتی ہے لیکن مان لینا اور سچ بولنا ضروری ہوتا ہے ۔ نہ جانے کیوں فیصل یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا بلکہ وہ تو یہ سوچتا رہتا تھا کہ وہ کالا ہے اس لئے اس کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک ہوتا ہے ۔ پھر کبھی کبھار مذاق میں جب قیصر اور مدثرہ اسے یہ کہتے کہ تو تو ہمارا بھائی ہی نہیں ہے امی تجھے کسی ٹیوب ویل سے اٹھا کر لائی تھیں ۔ تم پتہ نہیں کس کے بچے ہو۔ اپنی کالی رنگت جو اس کے پری میچور ہونے اور جسم کی ماں کے پیٹ کی بجائے بیرونی فضا میں نشوونما کا نتیجہ تھا فیصل آہستہ آہستہ احساس کمتری کی طرف جانا شروع کر رہا تھا ۔
قیصر بڑا تھا ۔ فیصل منجھلا اور کاشف ان سب سے چھوٹا تھا ۔ قیصر اور کاشف کو خصوصی سلوک ملتا جس کی وجہ رنگت نہیں بلکہ انسانی فطرت کا وہ پہلو ہے کہ جس میں سب سے بڑا بچہ پیارا اور سب سے چھوٹا لاڈلا ہوتا ہے ۔ اس سب میں درمیان والے بچے خود کو فراموش تصور کرتے ہیں ۔اور توجہ پانے کے لئے کبھی گھر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں تاکہ اپنی اہمیت بنا سکیں۔ تو کبھی پڑھائی میں زیادہ محنت کرکے زیاد ہ سے زیادہ نمبر حاصل کر کے اپنے اس احساس کی تسکین کا سامان کرتے ہیں اور فیصل بالکل یہی کرتا تھا ۔ کبھی اسکول میں کھیلوں میں حصہ لیتا اور اپنا غصہ نکالنے کی کوشش کرتا ۔ کبھی بہت زیادہ کھا کر نظروں میں آنے کی کوشش کرتا ۔ ایسے میں بہت سے دل چسپ حادثے بھی ہوئے ۔
چھٹی جماعت میں قیصر کو چوبرجی سکول میں داخل کروا دیا گیا اگلے ہی برس فیصل بھی چھٹی میں پہہنچ گیا تو اسے بھی اسی سکول میں داخلہ مل گیا اس طرح اس سکول میں دونوں بھائی اکٹھے پڑھتے تھے تو اسکول کا ایک مرتبہ سالانہ کھیلوں کا مقابلہ ہوا جہاں فیصل نے سو میٹر کی دوڑ دوڑنے کا فیصلہ کیا ۔ تیز دوڑنے کی کوشش میں اپنے دونوں بوٹ اتار کر دوڑ پڑا۔ دوسرے بچے زیادہ پھرتیلے تھے فیصل کمزور تھا ، تو وہ دوڑ میں جیت نہ سکا ۔واپس آ کر بوٹ تلاش کیئے تو وہ کوئی اٹھا کر لے گیا تھا ۔یہ زندگی میں پہلی مرتبہ تھی کی اسے یہ احساس ہوا کہ اپنی چیز کو بغیر کسی رکاوٹ یا ذمہ داری کے کہیں چھوڑنے کا مطلب اس کے غائب ہونے کا انتظام کرنا ہی ہوتا ہے ۔ دوسری طرف قیصر کافی تیز دماغ تھا چیزوں کو سمجھنا اور اس کے مطابق فیصلہ کرنا اس کا خاصہ تھا جہاں فیصل قیصر سے لڑتا تھا وہیں فیصل کے لئے رول ماڈل بھی اس کا بڑا بھائی تھا ۔ اور وہ یہ سمجھتا تھا کہ قیصر بھائی کو تو سب پتہ ہوتا ہے ۔ہر مسئلہ اسے معلوم ہوتا ہے اور اس کا دماغ بڑا تیز ہے لہذا ہر بات میں قیصر بھائی سے مشورہ ضرور ہوتا ۔ اب قیصر بھائی کو تلاش کیا تو وہ اپنی جماعت میں تھے بہرحال انتظار کے بعد جب چھٹی ہوئی تو دونون بھائی مل کر ابو کے دفتر جو اردو نگر سمن آباد میں تھا پہنچے جہاں ڈاکٹرعظیم میٹنگ میں تھے ۔ استقبالیہ والوں نے بچوں کو بٹھایا اور میٹنگ کے خاتمے پر ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں بھیج دیا ۔ واقعہ معلوم ہونے پڑ ڈاکٹر صاحب نے بچوں کو جوس پلایا اور ساتھ لے کر سیدھے سروس شوز کی دکان پر پہنچے نیا جوڑا جوتے کا لے کر دیا اور ساتھ ہی پیسے دے کر تانگہ کروا کر گھر بھیج دیا ۔
 
سال - 1990
ایک طرف یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو دوسری طرف قدرت کچھ اور ہی انتظام کر رہی تھی ۔ قیصر میٹرک کر چکا تھا ۔ ڈاکٹر عظیم کا آنا جانا پچھلے کچھ عرصے سے گوجر گورایہ زیادہ ہو گیا تھا ۔ خاص طور پر جب سے مدثرہ کی شادی بلال سے کی گئی تھی ڈاکٹر صاحب مہینے بھر میں ایک دو چکر لگاتے رہتے تھے ۔ بلال لاہور میں رہتا تھا جبکہ مدثرہ جس کی ساری عمر لاہور میں گزری تھی ایک دم سے شہر سے گاؤں آن پہنچی تھی ۔جہاں نہ نوکر چاکر ، نہ عظیم مینشن جیسی آسائشیں اور نہ ہی ایسی مالی آزادی جیسی لاہور میں ہوتی تھی ۔ مدثرہ جب اس ماحول سے تنگ آجاتی تو وہ زہرہ بی بی جسے پھپھو کہتے تھے کے پاس بیٹھتی تو وہ اسے موقع کی مناسبت سے سنا کر کہتی کہ تمہیں کچھ بتانا ہے لیکن پتہ نہیں تم اپنے تک رکھ پاؤ گی کہ نہیں ۔ کہیں اپنی ماں کو نہ بتا دو اس وجہ سے تم میرے راز کی ہمراز نہیں بن سکتی ۔ مدثرہ کے اندر تجسس بڑھتا جا رہا تھا لیکن پھپھو کچھ بتاتی نہیں تھی ۔ دوسری طرف آپا زہرہ نے ڈاکٹر عظیم کو بلال کی نوکری کے لئے کہا جو اس نے وعدہ کیا کہ وہ اس کے لئے ضرور کچھ نہ کچھ کرے گا ۔ لیکن نوکری سے بہتر ہے کاروبار کرلے میں اس کا کاروبار لاہور میں سیٹ کروا دیتا ہوں ۔ جب یہ گفتگو ہو رہی تھی ساتھ والی دیوار سے عابدہ سر اٹھا کر ڈاکٹر عظیم کو دیکھ کر ہلکے ہلکے سے مسکرا رہی تھی ۔اور ڈاکٹر بھی باتیں بہن سے کرتے ہوئے ہولے ہولے مسکرا رہا تھا ۔شاید کہیں دور پیار کی جلترنگ اپنا کام دکھا رہی تھی ۔

شمع اسپتال سے فارغ ہو کر مدثرہ کی شادی کے بعد اپنے گھر عظیم مینشن میں آچکی تھی ۔ مدثرہ کی شادی کے بعد اس کا جہیز عظیم صاحب نے فوری خرید کر بھیج دیا وہ خود تو اسپتال میں تھی لیکن بہت سی چیزیں ڈبل ڈبل ہوگئیں رضائیاں بنا کر پیٹی میں رکھی تھیں تو ڈاکٹر صاحب نے نئی بھی خرید کر دے دیں اب جو شمع نے بنائی ہوئی تھیں وہ بھی اس نے مدثرہ کو پہنچا دیں ۔ اس بات سے دل بہت سکون میں تھا کہ ڈاکٹر صاحب مہینے بھر میں ایک دو چکر لگاتے رہتے تھے - بھلا مدثرہ کا اپنا باپ بھی اتنا کہاں کرتا ۔شہزادیوں کی طرح راتوں رات لڑکی بیاہ دی اب اس کے بعد سے ہر مہینے ایک دو چکر گاڑی پر اس کے سسرال کا لگاتے رہنا کہاں آسان ہے ۔مدثرہ بھی شاید اپنے گھر میں خوش ہی ہے ۔ کوئی شکایت نہ شکوہ نہ گلہ نہ دکھڑا کچھ بھی تو نہیں کیا اس نے یقینا خوش ہی ہوگی ۔ بلال بھی اچھا لڑکا ہے ۔بس ذرا کم پڑھا لکھا ہے لیکن ہماری مدثرہ کون سا گریجویٹ ہے وہ بھی تو ویسی ہی ہے چلو اللہ نے جوڑی ملا دی اللہ انہیں خوش رکھے ۔

اچانک گھر میں آپا زہرہ کی آمد ہوئی ساتھ مدثرہ بھی ہے اور تکلیف سے رو رہی ہے ۔ شمع کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیا ہوگیا میری مچھاں کو ؟؟ پتہ چلا کہ مدثرہ حمل سے ہے اور پانچواں مہینہ ہے اور خون شروع ہے فورا اسے شیخ زاید اسپتال لے کر گئی اور داخل کروا دیا ۔ یہ اسپتال نیا نیا بنا تھا اور کافی اچھا سمجھا جاتا تھا ۔ دکھ کی بات کہ وہ حمل ضائع ہوگیا اور شمع کی نانی بننے کی خواہش پوری نہ ہو سکی البتہ مدثرہ کو اسپتال سے عظیم مینشن لے کر پہنچی تو اس کی یادیں تازہ ہوگئیں اور ماں باپ کے گھر کی بادشاہی یاد آگئی رونے لگی کہ مجھے کہاں بھیج دیا ۔ شہروں کی پلی کو گاؤں میں نکال پھینکا ۔جس نے زندگی میں کبھی گھر میں تپڑی نہ ماری اسے گائیں بھینسیں سنبھالنے بھیج دیا یہ کیا ظلم کیا ماں ؟؟

شمع کے کلیجے کو ہاتھ پڑا یہ کیا ؟ میں نے تو سوچا تھا کہ بیٹی خوش باش ہوگی یہ تو دکھی ہے ۔ زندگی اور اس کی کوششوں کے مراکز میں سے ایک بڑا مرکز اس بچی کو دکھوں سے بچانا تھا یہ میں نے کیا کر دیا ؟ یہ تو اور دکھی ہو گئی ۔رات کو عظیم گھر آئے تو ان سے بات کی کہ آج مدثرہ سے یہ بات ہوئی ہے کیا کروں میری بچی اتنا بڑا دکھ سینے پر لیئے بیٹھی ہے اور میں یہاں مطمئین بیٹھی ہوں یہ کیا ہوگیا ۔عظیم نے اسے حوصلہ دیا اور آپا زہرہ کو کہا کل بلال کو بلاؤ میں اس کے کاروبار کا مسئلہ حل کرتا ہوں ۔ دوسرے دن صبح ملتان روڈ پر گرینڈ بیٹری ااسٹاپ کے قریب ایک دکان کرائے پر حاصل کی اور وہاں تھری اسٹار اسٹیٹ ایجنسی کا نام رکھ کر اسٹیٹ ایجنسی شروع کر دی ۔بلال کو سمجھایا کہ میں اس جگہ کو چلاتا ہوں تم ایسا کرو کہ جہاں تمہیں بٹھاؤں اس سے اسٹیٹ ایجنسی کا کام سیکھنا شروع کر دو جب تک تم کام سیکھ جاؤ گے ۔ تب تک یہ ملتان روڈ والی ایجنسی چل رہی ہوگی تم وہاں جا کر سب کچھ اپنے ماتحت کر لینا ۔ تب تک کے تمہارے اخراجات میرے ذمے ۔ یہ ہنڈا 125 کی چابی لو اور تم اور مدثرہ میرے پاس میرے گھر میں رہو ۔ تم ویسے بھی میرے بیٹے ہو اور وہ میری بیٹی تو جب اپنے قابل ہو جاؤ گے الگ ہو جانا۔ بلال نے ہاں کر دی اور اس طرح مدثرہ اور بلال لاہور شفٹ ہو گئے ۔ مدثرہ کا سامان گاؤں میں ہی رہا اور عظیم مینشن میں ان کی ایڈجسٹ منٹ ہو گئی ۔

اسی برس ڈاکٹر عظیم کی پروموشن مکمل ہو گئی اور وہ اسٹیٹ لائف میں ایریا مینیجر ہو گئے جو ایک گزیٹیڈ آفیسر کا درجہ تھا ۔ اس میں سرکاری گاڑی ، سینکڑوں لٹر سرکاری پٹرول ، ایک ڈرائیور ، ایک کلرک ، ایک چپڑاسی ، مکمل دفتر بمعہ بجلی پانی کے بلز ، طبی سہولیات شامل تھیں المختصر یہ کہ ڈاکٹر عظیم مرکزی حکومت کے گریڈ اٹھارہ کے ملازم کی تمام تر سہولیات کا مستحق ٹھہرا اور سرکاری نوٹیفیکیشن ہوگیا ۔ اب ڈاکٹر عظیم صاحب ایک گزیٹیڈ سرکاری افسر تھے لہذا اپنا کلینک نہ کر سکتے تھے ۔کلینک بند کر دیا گیا اور اس کا سامان اٹھا کر گھر لے آئے جسے شمع کے کلینک میں تبدیل کر دیا گیا۔ اب گھر میں ایک حصے میں بلال اور مدثرہ رہنے لگے ، ایک حصہ کلینک میں تبدیل ہو گیا اور ایک حصہ تینوں لڑکے شمع سمیت استعمال کرنے لگے ۔ ایک طرف ڈاکٹر عظیم کی سرکاری مصروفیات بڑھتی جانے لگیں ۔ تو دوسری طرف عذرا جو اب ڈاکٹر شمع عظیم بن چکی تھی بھی ایک مصروف ڈاکٹر ہو چکی تھی ، چہار سو اس کے ہنر کا تذکرہ تھا بے اولاد جوڑے اس سے علاج کروانے دور دور کے شہروں سے آیا کرتے تھے ۔ اور گھر میں ہر طرف سے صرف دولت کی برسات تھی ۔

قیصر جوانی کی دہلیز پر تھا ۔ باپ کی گاڑی چلانا سیکھ چکا تھا ۔ لڑکیوں نے قریب ہو ہو کر اسے عورت کا مزہ چکھا ہی دیا تھا۔ میٹرک کا لڑکا جسے ابھی کچھ پتہ نہیں ہونا چاہیئے تھا عورت سے آشنا ہو چکا تھا۔ قریبی گھروں میں ایک گھر کی خاتون نے اسے سب سے پہلے خرابی کردار سے آگاہ کیا ، پھر دوسرا شکار گھر کی ایک ملازمہ نے اس کا کیا، تیسرا شکار پہلا شکار کرنے والی کی بڑی بیٹی نے کیا، چوتھا شکار اس بڑی بیٹی کی چھوٹی بہن نے کیا ، یہ کیا ہورہا تھا؟؟ عمر چودہ پندرہ برس اور لٹ گیا اتنی بار؟؟ بچہ تھا جب سب نے اسے بلا جھجک استعمال کیا تو احساس جرم کہاں سے آتا؟؟ جب آنکھ ہی جرم میں کھلے تو مجرم کسے ٹھہرایا جائے ؟؟ لہذا بغیر جرم کے احساس کے اسی کو عام زندگی سمجھ بیٹھا ۔

ڈاکٹر شمع کو جب معاشی آزادی نصیب ہوئی تو ایسے میں اپنی پسند نا پسند پر ڈاکٹر عظیم کے ساتھ اختلاف ہوجانا کوئی بڑی بات نہ تھی لیکن اس اختلاف میں آوازیں بلند ہوجانا ، ایک دوسرے کی عزت نفس کو کچل دینا کبھی کبھی سے اکثر کا سفر کرنے لگا ۔ڈاکٹر عظیم نے گھر میں خرچ کرنا آہستہ آہستہ بند کردیا تھا اب ڈاکٹر شمع پورے گھر کا خرچ اٹھا رہی تھی ، مدثرہ اور بلال کے اخراجات بھی وہی اٹھا رہی تھی ،محلے میں کسی کی بیٹی کی شادی ہوتی تو کھل کر اس میں پیسہ لگاتی ڈاکٹر شمع اندر سے غربت کو یاد رکھے ہوئے تھی لہذا عاجزی والی تھی لیکن کمانے کی وجہ سے اختیار ہاتھ میں رکھنے کی فطری خواہش سے مجبور بھی تھی لہذا ڈاکٹر عظیم کا کھنچا ہوا ہاتھ دیکھ کر بھی الجھن اور غصے کا شکار ہوتی اور دونوں میاں بیوی کے جھگڑے ہونے لگے ۔ ان جھگڑوں کے بڑھتے پتہ ہی نہ چلا کب عابدہ نے اپنی جگہ مضبوط کر لی اور ڈاکٹر شمع کو ڈاکٹر عظیم کے دل سے دیس نکالا مل گیا ۔
 
آخری تدوین:
سال 1991
شمع اور عظیم کی شادی کو 16 برس گزر گئے ہیں قیصر سی کام کر رہا ہے ، فیصل میٹرک کا امتحان دے چکا ہے جبکہ کاشف ابھی آٹھویں میں پڑھ رہا ہے ۔ مدثرہ اس بار پھرحمل سے ہے اور بلال کا اسٹیٹ ایجنسی کا کام چل رہا ہے ۔ ڈاکٹر شمع نے ابھی حال ہی میں مدثرہ کو گلشن کالونی میں مکان کرائے پر لے کر دیا اور اس میں پورا سامان ڈال کر دیا ہے اس کے علاوہ راشن بھی ڈال کر دیا ہے کہ وہ اپنا گھر چلانے میں سنجیدہ ہو سکے ۔ ڈاکٹر صاحب نے تو کوئی سال بھر ہوچکا تھا گھر میں خرچ بند کر رکھا تھا ۔ رمضان گزر چکا تھا بڑی عید آنے والی تھی کہ ایک دن ڈاکٹر صاحب نے بیگم کو بتایا کہ مجھے کراچی جانا ہے کچھ دنوں تک واپس آجاؤں گا تم میرا بیگ تیار کردو ۔ شمع نے ڈاکٹر صاحب کا بیگ تیار کروایا اور اپنے خاوند کو کراچی کے لئے روانہ کیا ۔ واپس آ کر لیٹی تو سو گئی۔
دوپہر تین بجےکے قریب دو آدمی لطیف صاحب کے ساتھ آ کر عظیم مینشن کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ۔ کام والی دروازہ کھولتی ہے تو وہ براہ راست ڈاکٹر صاحب کا پوچھتے ہیں ۔ کام والی انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھا کر ڈاکٹر شمع کو اٹھاتی ہے کہ بیگم صاحبہ مہمان آئے ہیں ۔ شمع ان کو ملتی ہے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کی بیٹی عابدہ گھر سے غائب ہے اور ان کی معلومات کے مطابق وہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے ۔ پہلے لمحے میں تو شمع صدمے میں آجاتی ہے ۔ ان کی بات پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ لطیف بھائی جو ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی ہیں ان کے ساتھ ہیں اور ان کی بات کی تصدیق کر رہے ہیں ۔ انہیں ڈاکٹر صاحب کے کراچی جانے کی کہانی اور اس کی تعمیل کا واقعہ بتا کر اس کے آنسو نہیں رک سکتے اور وہ مسلسل صدمے کی حالت میں ہے ۔ زلزلے چلنے شروع ہوگئے ۔ شمع کی حالت دیکھ کر وہ دونوں افراد جو عابدہ کے بھائی ہیں واپس چلے جاتے ہیں اور لطیف صاحب شمع کو حوصلہ تسلی دیتے ہیں۔ شمع بلال کو بلوا بھیجتی ہے اور اسے کہتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو تلاش کرو ۔ بلال روزانہ شمع سے پٹرول کے پیسے لے کر نکل کھڑا ہوتا ہے اور ڈاکٹر صاحب کو تلاش کرنے لگتا ہے ۔
شمع کی دنیا لٹ گئی ، اپنی بربادی کا قصہ کسے سنائے کس سے جا کے روئے اپنے غم کا فسانہ، ایسا شدید جھٹکا کہ زندگی بھر کی کمائی آنکھوں کے سامنے برباد ہوگئی تو ایسے میں ہوش میں رہنا کہاں ممکن تھا ۔مریض آتے دوا کی بجائے گم سم بیٹھی ڈاکٹر کو دیکھ کر نکل جاتے ۔ چند ہی دنوں میں جما جمایا کلینک ہوا ہوگیا ۔ رونقوں سے بھرا پرا گھر اجڑ گیا۔ وہ جو مدد مانگنے اس در پر آتے تھے اب افسوس کرنے آنے لگے ۔ڈاکٹر شمع ایک بار پھر سے سہاگن رہتے بیوہ جیسی ہوگئی تھی اور اس بار جانے والا اس کا مان ، اس کی دنیا اور جینے کی تمنا ساتھ لے کر گیا تھا ۔

کاشف اور قیصر اپنی پڑھائیوں میں گم تھے ۔جبکہ فیصل امتحانات سے فارغ تھا ۔ فیصل نے دونوں بھائیوں کو دیکھا تو کاشف بہت چھوٹا تھا، قیصر کو کہا تو اس نے کہا کہ میں تو پڑھ رہا ہوں کالج کے بعد وقت ہی نہیں ہوتا لہذا میں کام نہیں کر سکتا ۔ گھر کے حالات کو دیکھ کر چودہ سال کے فیصل نے ادھر ادھر بھاگ دوڑ شروع کی ایک جگہ سے پتہ چلا کہ ویگن کی کنڈکٹری کر لو روز کے پچیس روپے ملیں گے اور ساتھ میں کھانا پینا ویگن والے کا ۔ کام سیکھنے کے لئے نو نمبر ویگن کے اڈے کا رخ کیا تو استاد نے ایک گاڑی کے ساتھ بھیج دیا ۔جاؤ پہلے کام سیکھو دو تین دن کام سیکھ لو پھر کام کرنا ۔بچہ تھا عمر کم اور کام کا تجربہ ندارد ویگن میں سو جاتا تو کئی سٹاپ آگے جا کر جگانا پڑتا لہذا مالکوں نے کام سے نکال دیا ۔

محلے کا ایک قصاب عابد جس سے گوشت لینے جاتے تھے رسالے پڑھنے کے شوق کی وجہ سے فیصل کا دوست بن چکا تھا اس نے اسے اپنی دکان پر بیٹھ کر گوشت بنانا سکھا دیا ۔ اتنے میں بڑی عید آگئی اور فیصل نے زندگی کا پہلا کام کیا ۔عید کے دنوں میں قصابوں کے ساتھ جاتا رہا تین دن کام کیا تین دن بعد تین سو روپے ملے لا کر گھر دیئے ماں یہ سب دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی ۔ فیصل بھی چھوٹی عمر میں اپنی کمائی لا کر گھر دیتے ہوئے بہت رویا کہ اس کے ہاتھوں میں تین دن تک بکرے اٹھاتے ، گوشت بناتے چھالے پڑ چکے تھے اور ان چھالوں کے بنتے فیصل خود دیکھ چکا تھا کہ کم از کم نو ہزار کا کام عابد نے کیا تھا جس میں سے زیادہ نہیں تو کم از کم ایک ہزار تو اس کا حق بنتا تھا لیکن چھوٹا تھا کیا کرسکتا تھا پھر کہیں کام کا کوئی تجربہ تو تھا نہیں کہ جا کر وہی کر لیتا۔

بلال اس دوران روزانہ شمع سے پیسے لے کر نکلتا اور ڈاکٹر صاحب کو تلاش کرتا رہتا تھا ۔ کام والیاں جو کبھی گھر کے سارے کام دیکھتی تھیں ۔ اب غائب ہو چکی تھیں ، شمع گھر میں بیٹھ کر ہر وقت روتی رہتی تھی ۔فیصل چھوٹے موٹے کام کر کے کبھی شادیوں میں ویٹر کا کام اور کبھی کچھ کرتے ہوئے گھر کی مدد کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ صادق میراثی جو ہر عید تہوار پر اس گھر سے عید ، شب براءت پر صدقہ خیرات اکٹھا کرتا تھا اور ڈاکٹر عظیم کے گھر عید والے دن آیا تو شمع نے اسے کہا بھائی اس عید پر ہم نے قربانی نہیں کی ، ڈاکٹر صاحب نے نئی دنیا بسا لی ہے مجھے معاف کر دینا کہ اس عید پر تمہیں خالی ہاتھ لوٹا رہی ہوں ۔صادق نے ہاتھ شمع کے سر پر رکھا اور کہنے لگا ساری عمر تیرے گھر سے کھایا ہے ۔ ہمیش اس گھر کو اپنا گھر سمجھا ۔ تم لوگوں نے کبھی کم نہیں کیا ۔یہ صادق میراثی اتنا کمینا کیسے ہو سکتا ہے کہ اپنی بہن کے گھر کو نیچا ہونے دے ۔ نکلا وہاں سے اور کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد واپس لوٹا تو ایک بڑی گٹھڑی اٹھائے ہوئے تھا ۔ اس گٹھڑی میں گوشت ہی گوشت تھا کم از کم ایک من گوشت نہ جانے کہاں سے لایا تھا صادق میراثی لا کر شمع کے قدموں میں رکھ کے کہنے لگا۔ لے بہن بانٹ سب کو گوشت پھر نہ کہنا کہ تیرے گھر قربانی نہیں ہوئی کہ تیرے گھر کا نام اونچا ہو ۔ تیرے در سے کوئی خالی نہ لوٹے ۔ جب نہ کہا تو کہنے لگا کیا تو نے کمین سمجھ کے میرے بھائی ہونے کو دھتکار دیا ہے ۔تو روتی ہوئی شمع نے اس سے وہ گوشت لیا اور کاشف اور قیصر کو کہا جاؤ گلی محلے میں اسے بانٹ کو آؤ ۔ صادق اچھل کر آگے آیا اور اپنے کندھے سے صافہ پھیلا کر بولا بہن میرا حصہ؟؟ شمع کی آنکھوں سے سیلاب تھا کہ رکتا ہی ناں تھا ۔ اور وہ روتی چلی گئی ۔
 
آخری تدوین:
قیصر ان دنوں میں سی کام کا کورس کر رہا تھا ۔ اقبال ٹاؤن پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ میں پڑھتے ہوئے طلباء سیاست کا بھی علم ہوا اور دنیا کے متعلق اور بھی بہت سے حقائق سے آگاہی ۔ لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ اس کی عشقیہ زندگی بھی چل رہی تھی ۔ جسے وہ سوائے فیصل کے سب سے مخفی رکھنے میں کامیاب رہا تھا۔ فیصل اور قیصر کی جوڑی عجیب اعتماد اور اختفاء کے اصولوں پر مبنی تھی ۔ فیصل ، قیصر کو اپنا رول ماڈل سمجھتا تھا لیکن اس کی عشق محبت والی کہانیوں کو جاننے کے باوجود اس سب سے دور تھا ۔ یا شاید اس کی رنگت کی وجہ سے اسے کوئی لفٹ ہی نہیں کراتی تھی ۔لونڈوں کی عمریں دیکھو چودہ ، پندرہ سال اور زندگیاں ابھی سے بٹی ہوئی تھیں ۔ ٹائپنگ سکھاتے ہوئے ایک لڑکی کو قیصر سے محبت بھی ہوئی اور اس نے اپنے گھروالوں کے ذریعے شادی کی بات چلوائی بھی ۔ اسی دوران فوزیہ میں دل چسپی بھی قائم رہی لیکن ویسے نہیں جیسے دوسری عورتوں یا لڑکیوں سے تھی ۔
چودہ برس کا فیصل گھر کو سپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ بڑے بھائی قیصر کو بھی وقتا فوقتا مالی طور پر دیتا رہتا تھا ۔ اور کاشف تو کاشف امی کا لاڈلا ہونے کی وجہ سے ان کی حالت دیکھ کر پڑھائی سے برگشتہ ہوگیا تھا ۔اور اسکول چھوڑ دیا تھا ۔ ماں کے بار بار کہنے کے باوجود وہ اسکول جانے کو تیار نہ ہوا اور آوارہ پھرنے لگا ۔ گھر کے اخراجات زیادہ تھے تو پہلے زیور بکے ، پھر قرض کا بوجھ بننا شروع ہو گیا ۔راستہ کوئی نظر نہیں آرہا تھا ۔ قرض حسنہ کا دور شاید سینکڑوں سال پہلے کا گزر چکا تھا ۔ اب تو سود پر قرض ملتا تھا اور وہ بھی بیس فیصد کے حساب سے۔ ساتھ والے گھر میں لالہ نذیر رہتا تھا ۔ یہ نابینا شخص خود شوگر کا مریض تھا اور سود پر رقم دے کر اپنا گزران کرتا تھا ۔ ہزار روپے پر دوسو روپے ماہوار لیتا تھا تو پہلے پہل اس سے رقم لینا شروع کی کبھی ہزار کبھی دو ہزار اور گھر کے معاملات چلانے کی کوشش کی گئی ۔فیصل کی آمدن اتنی تھی نہیں جبکہ شمع کا کلینک پہلے ہی بند ہو چکا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب اردگرد کہیں تھے نہیں کہ گھر کو سپورٹ کرتے ۔ بلال اب بھی روزانہ انہیں تلاش کرنے نکلتا تھا ۔اور شمع سے پٹرول وغیرہ کے پیسے لے کر جاتا تھا ۔
اسی ابتری میں چند مہینے گزر گئے ۔ وہ عظیم مینشن جو رونقوں کا مرکز تھا ۔ جہاں آکر لوگ رہتے تھے ، جو لوگوں کی آنکھیں خیرہ کیئے ہوئے تھا اب ایک خانہ بربادی کا منظر پیش کرتا تھا ۔ قرضے کی دلدل میں پھنستی ہوئی شمع ، ہاتھ پاؤں مارتا فیصل ، آوارہ کاشف ، اور عشق چلاتا قیصر اس گھر کے مکین تھے ۔ ڈرائینگ روم کا قالین مہینوں سے صاف نہیں کیا گیا تھا اور زمین سے چپک کر اوپر سے قالین جبکہ اندر سے مٹی ہوچکا تھا ۔ گھر کے گٹر بند ہونے کی وجہ سے بیت الخلاء استعمال کے قابل نہ رہا تھا ۔ ٹھیک کروانے کے لئے پائپ نئے ڈلوانے پڑتے اور ہزاروں کا خرچ تھا جبکہ یہاں تو کھانوں کے لالے پڑے تھے ۔ لڑکے مسجد چلے جاتے تھے جبکہ شمع اکیلی ہمسایوں کی طرف ہو آتی ۔ محلے کی دکان کا قرض بھی بڑھنے لگا تھا ۔
اس مصیبتوں کے دور میں فیصل کا میٹرک کا رزلٹ آگیا ، اس نے فرسٹ ڈویژن میں میٹرک کر لیا تھا جبکہ قیصر کا سی کام کا رزلٹ آیا تو وہ اس میں فیل ہو گیا اور اس نے سادہ ایف اے کی پڑھائی کر کے امتحان دے دیا ۔اس بار اس نے کاشف پہلے ہی پڑھائی چھوڑ چکا تھا ۔گاڑی ڈاکٹر صاحب ساتھ لے گئے تھے قیصر اور فیصل کو اپنا مستقبل بھی دیکھنا تھا حالات مشکل سے مشکل کی طرف بڑھتے ہوئے نظر آ رہے تھے اور شمع کی پریشانی بھی اس کے لئے ذہنی دباؤ میں اضافے کی وجہ تھی ۔اسی کشمکش میں شمع نے پھر سے کلینک شروع کرنے کا سوچا اور اپنے بچوں کے لئے سہارا بننے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر ایک دن اچانک باہر گاڑی رکنے کی آواز آئی ۔ کاشف دوڑتا ہوا اندر آیا اور کہنے لگا امی امی ڈیڈٍی آگئے۔

شمع باہر کی طرف دوڑی لیکن پھر رک گئی، پھر دوڑی پھر رک گئی ۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ناراض ہو یا خوش ہو اپنی ذات کا تو کہنا ہی کیا خود سے ہوئے دھوکے پر عظیم کو سزا دے یا سر پر بڑھتے ہوئے دنیا کے بوجھ میں اپنی ٹوٹی ہوئی چھتری واپس ملنے پر خوشیاں منائے ۔ اسی تذبذب میں سامنے سے عظیم آتا ہوا دکھائی دیا۔ شمع کی آنکھوں میں آنسو آئے لیکن کہیں پلکوں پر ہی پتھرا سے گئے ۔وہ عظیم کو دیکھ کر روتے روتے پتھرا سی گئی چند لمحوں میں اس کی آنکھوں کے سامنے عظیم کے ساتھ گزرا ہوا ماضی گھوم گیا ، وہ بن بھائی کے لڑکی ذات چھوٹی عمر میں تاج الدین سے شادی ، روز روز کی مار پیٹ ، تاج دین کے بعد کی محرومی ، عظیم سے شادی ، مدثرہ سے عظیم کا پیار ، وہ مار پیٹ ، پھر قیصر کا ہونا اور بیمار رہنا ، پھر فیصل کی پیدائش اور پھر کاشف کی آمد ، وہ گھر ، دکان اور پھر ایکسیڈنٹ ان سب سے اکٹھے گزرنا پھر کیا ہوا کہ میرا عظیم میرا نہ رہا؟؟ کیا میں نے قربانیاں کم دی تھیں ؟ یا پھر جو مجھے ملا وہ مجھ پر صرف مالک کا احسان تھا نہ میری قربانی کوئی قربانی تھی نہ میری ذات ایک ذرے سے زیادہ اہمیت کی حامل ۔ یہ سوچتے ہی دل کو قرار سا آگیا اور آگے بڑھ کر عظیم کو خوش آمدید کہا ۔ بالکل ایسے ہی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
 
آخری تدوین:
کئی ماہ کے بعد گھر آنے والا ڈاکٹر عظیم حیران تھا کہ شمع کی طرف سے کوئی جھگڑا نہیں کوئی لڑائی نہیں کوئی طنز اور چبھتی ہوئی باتیں نہیں کیا ہوگیا ہے اسے؟ بچوں کو شمع نے سختی سے سمجھا دیا تھا کہ خبردار اپنے باپ سے کسی نے بھی بدتمیزی کی یا کوئی ایسی ویسی بات کی ۔ بچے ماں کی گزشتہ ماہ کی حالت سے باخبر تھے لہذا چپ رہے ویسے بھی ان کی تربیت میں ہی نہیں تھا کہ ماں باپ سے بد تمیزی کریں اور ماں انہیں سمجھا چکی تھی کہ تمہارے باپ نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر اللہ کی شریعت میں امتناع ہو دوسری شادی کی نہ صرف شرع میں اجازت ہے بلکہ اسے رد کرنے کی تم لوگوں کے پاس کوئی وجہ نہیں ہے ۔میری خاطر باپ کے گستاخ مت بننا ورنہ میں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی ۔ بچے چپ ہو گئے لیکن باپ سے ایک فاصلہ سا پیدا ہو گیا تھا ۔


ڈاکٹر عظیم کبھی عظیم مینشن اور کبھی اپنے دوسرے گھر رہتا آمدن کے معاملات میں پہلے ہی شمع والا گھر غفلت کا شکار تھا لیکن شمع ڈرتی تھی کہ اب پھر سے مالی معاملات میں ڈاکٹر عظیم کو پریشان کیا تو کہیں پھر وہ گھر چھوڑ کر نہ چلا جائے ۔فیصل البتہ نے ایف اے میں داخلہ لے لیا تھا اور اپنے والد کو گھر کے معاملات میں توجہ کے لئے کہہ چکا تھا ۔ ایک دن ڈاکٹر عظیم نے اپنے بیٹے فیصل کو بلایا اور اسے کہنے لگا ۔ دیکھو فیصل جب میں تمہاری عمر کا تھا تو نہ صرف اپنا خرچ اٹھاتا تھا میں چاہتا ہوں میری اولاد بھی خود کفیل اور اپنی محنت سے اپنا مستقبل تعمیر کرے لہذا یہ دو ہزار روپے ہیں چاہو تو انہیں لے لو اور آئندہ زندگی میں مجھ سے کسی قسم کی توقع نہ کرنا اور یہ میرا پسندیدہ فیصلہ ہوگا اور اگر تم چاہو تو جیسے چل رہا ہے چلتا رہے جب تم سمجھو کہ تم اپنا مستقبل سنبھالنے کے قابل ہو تب سے میرا مالیاتی تعاون بند ۔ فیصل پچھلے کچھ مہینوں سے جو کچھ دیکھ چکا تھا اور جس طرح سے معاملات سے گزر چکا تھا یہ اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ اب زندگی کے سفر پر خود ہی نکلنا ہوگا نہ کوئی ساتھ ہے نہ سہارا تو اس نے وہ دو ہزار روپے قبول کر لیئے ۔ دوسرے دن صبح گھر سے نکلا سب سے پہلے محلے میں شریف کی دکان پر گیا ، شریف قسطوں میں سامان بیچنے کا کام کرتا تھا ۔اسے چھے سو روپے ایڈوانس دے کر اس سے سائیکل قسطوں پر حاصل کی ۔ اس کی قسط ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار طے پائی ۔ سب کو معلوم تھا کہ ڈاکٹر عظیم کا بیٹا ہے لہذا کسی قسم کی ضمانت وغیرہ درکار نہ تھی ۔ پھر فیصل نے اردگرد محلے دار دوستوں سے بات کی تو سجیل نامی ایک دوست نے اسے دھاگے کی نلکیوں کا کام بتایا تو اس نے جعفریہ کالونی کے قریب اس کارخانے کا دورہ کیا ۔ ایک ڈبہ نلکیوں کا اسے نو روپے میں ملتا جو وہ گیارہ سے تیرہ روپے میں بیچتا لیکن اس کام میں ایک آدھ دن میں ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ ادھار اور پیسے نیچے لگانے والے اس کام کو برباد کر دیں گے ۔ پھر واپس آکر امی سے بات کی اتفاقا اس وقت ان کے پاس خالدہ بیٹھی ہوئی تھی ۔ یہ محلے دار خاتون شمع کی بیٹی بنی ہوئی تھی اس کا خاوند سائیکل پر گولیاں ٹافیاں بیچ کر گھر چلاتا تھا تو اس نے مشورہ دیا کہ فیصل میرے بندے کے ساتھ یہ کام کر کے دیکھ لے اللہ ہاتھ پکڑ لے تو اور کیا چاہیئے ؟ فیصل نے خالدہ کے خاوند بشیر سے رابطہ کیا اور اس سے کچھ سامان آزمائشی طور پر لے کر سائیکل کے پیچھے باندھا اور نکل کھڑا ہوا ۔ تین سے چار گھنٹے میں تمام سامان بک گیا اور اس میں سے اسے ایک سو بیس روپے کی بچت ہوئی جس میں سے ایک سو روپے اس نے امی کو دیئے کہ لیں ماں گھر کا خرچ چلائیں باقی اپنی راس مال کو پاس رکھا ۔ پندرہ سال کا فیصل بہت خوش ہوا اور اس کام کے کرنے کو تیارہو گیا۔ ستمبر میں کالج کھل گئے اور اسلامیہ کالج سول لائنز میں داخل فیصل کی نئی کلاسز کا آغاز ہوا۔
نئے کالج کی نئی زندگی سے تعارف ہو چکا تھا اور فیصل نے کالج میں این سی سی میں داخلہ لے لیا ، اس کے علاوہ کالج کی باکسنگ اور ریسلنگ ٹیمز میں بھی اس کی سیلیکشن ہو گئی تھی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں تقریری مقابلوں میں بھی کالج کی جانب سے شریک ہوتا فیصل اپنی ذات کی شناخت اور تسلیم کے سفر سے گزر رہا تھا ۔ اسی دوران اس کا گھر کو مالی طور پر سہارا دینے کا عمل بھی زوروں پر تھا اور روزانہ گھر پر ایک سو روپے دینے سے گھر کے اخراجات کا مسئلہ کم و بیش حل ہو چکا تھا ۔ وہ اور شمع دونوں کی کمائی سے اتنا ہو جاتا تھا کہ گھر چل جاتا لیکن پچھلے قرضے اب بڑھتے جا رہے تھے اور ڈاکٹر عظیم جو دوسری شادی کے بعد دونوں گھروں میں بٹا ہوا تھا اک اور ہی طرح سے حالات کو کنٹرول کرنا چاہتا تھا ۔

دوسری شادی کا گیم پلان اور اس کے کردار


اب شمع اور اس کے گھر کے حالات کو تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں ذرا دیکھتے ہیں کہ اسی زمانے میں کیا کچھ دوسری طرف چل رہا تھا کہ شمع کا گھر تباہی کی طرف جاتا رہا اور ڈاکٹر عظیم نے پھر شادی بھی کر لی؟؟ تو جناب بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عظیم کی دوسری بیگم عابدہ جو اب شہزادی عابدہ عظیم تھی سے شادی بہت لمبی گیم اور پلاننگ کا نتیجہ تھی اس کے بڑے کرداروں میں سے گھر میں توعابدہ کی ماں ، ڈاکٹر عظیم کا بڑا بھائی بھائی لطیف اس کی زوجہ کوثر ، باجی زہرہ ، بلال اور شہناز جو بلال کی بڑی بہن تھی کا کافی کردار تھا ۔ جبکہ گھرسے باہر سے ایڈووکیٹ سرور سندھو جو ڈاکٹر عظیم کا جاننے والا ایک وکیل تھا اور ڈاکٹر عظیم کو وہ اپنا محسن سمجھتا تھا کیونکہ جب وہ ایل ایل بی کر رہا تھا تو ڈاکٹر عظیم نے اسے اپنے گھر میں اپنے بیٹوں کی طرح رکھ کر پالا تھا اور اس کی تعلیم کے لئے تمام سہولیات فراہم کی تھیں اور وہ بھی بغیر کسی سابقہ تعلق واسطے کے۔ تو اس احسان کا بدلہ سرور سندھو نے اس معاملے میں ڈاکٹر عظیم کا ساتھ دے کر دیا۔
واقعہ کچھ یوں ہوا تھا کہ جن دنوں ڈاکٹر عظیم مدثرہ کو ملنے گوجر گورایہ جایا کرتا تھا انہیں دنوں اس کی بات چیت عابدہ سے شروع ہوئی جو بڑھتے بڑھتے پیار و محبت اور عہد و پیمان میں بدل گئی ۔اس معاملے میں پہلے شہناز کے ذریعے عابدہ سے جو ہم عمر اور آپس میں دوست تھیں پیام و سلام کا آغاز و تشدید ہوئی اس طرح ایک طرف شہناز کے ساتھ عابدہ کو لاہور بلوا کر خفیہ طور پر اس کا نکاح ڈاکٹر عظیم سے کروا کر اسے واپس ویسے ہی والدین کے گھر پہنچا دیا گیا اس نکاح میں بلال جو مدثرہ کا خاوند تھا ایک گواہ تھا ۔ جبکہ پھر دوسرے قدم کی صورت میں عابدہ کے باپ مرزا امانت بیگ کے پاس لطیف ، کوثر اور زہرہ رشتہ لے کر پہنچیں اس معاملے میں یہ خیال رکھا گیا کہ کہیں بھی ان کے چلتے ہوئے معاشقے کا ذکر یا بھنک تک کسی اور کو نہ پڑے۔ مرزا صاحب نے جب یہ پروپوزل سنا تو ان کی لائی ہوئی مٹھائی انہیں واپس دیتے ہوئے کہا میری بات سن کر جانا کہ کسی کا گھر اجاڑ کر میری بیٹی کا گھر بسے مجھے یہ قبول نہیں ہے لہذا اس رشتے سے انکار کو باعزت ترین جواب سمجھو اب کیونکہ تم لوگ مجھ تک عزت سے پہنچے ہو میں بھی عزت کا پاس رکھنے والا آدمی ہوںاس لئے یہ معاملہ یہیں کا یہیں ختم سمجھو ۔ یہ سب یہ سن کر واپس اپنے گھروں کو لوٹ آئے یہ معاملہ جن دنوں ہوا یہ وہی دن تھے جب مدثرہ اور بلال لاہور میں عظیم مینشن میں رہ رہے تھے اور زہرہ بی بی گاؤں میں رہتی تھی ۔​
اب اس نکاح چند ماہ کے بعد اگلا کام یہ کیا گیا کہ عابدہ کی طرف سے ڈاکٹر عظیم سے تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کیا گیا جس میں عابدہ کی طرف سے ڈاکٹر عظیم سے نکاح کو عدالتی تنسیخ کا امیدوار بنایا گیا ۔جیسے عدالت کا اصول ہوتا ہے کہ دونوں فریقوں کو صلح صفائی کے لئے موقع دیا جاتا ہے تو انہیں بھی موقع دیا گیا جس میں دونوں کی صلح ہوگئی لیکن اس صلح کے بعد عابدہ نے عدالت میں درخواست کی کہ کیوں کہ میں اب اپنی رضامندی سے اپنے خاوند سے صلح کر رہی ہوں میرے والدین مجھے جذباتی بلیک میل کرنے کی کوشش کے علاوہ میرے خاوند کو جعلی مقدمات یا پولیس کے ذریعے پریشان کر سکتے ہیں اس لئے عدالت پولیس اور انتظامیہ اور میرے والدین کو یہ حکم دے کہ وہ ہمارے معاملات میں نہ تو دخل دیں نہ ہمیں ہراساں یا پریشان کریں ۔ جیسے ہی عدالت سے تمام فریقین کے لئے احکام حاصل کیئے گئے اور ان احکام کی رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے متعلقہ مقامات پر وصولی کروا لی گئی ۔ اپنے ماں باپ کے گھر پر وصولی عابدہ نے باپ کے دستخط سے کی ۔ جب کہ انہیں خواب میں بھی شک نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہونا ممکن ہے۔ گجر گورائیہ کے مقامی اور لاہور کے تھانے ، مرکزی پولیس افسران وغیرہ کو ان احکام کی وصولی کروا دی گئی ۔ پھر ان احکام کو چیلنج کرنے کا وقت گزرنے کا انتظار کیا گیا اور جیسے ہی وہ وقت گزرا شہزادی عابدہ اور ڈاکٹر عظیم دونوں نے گھروں کو چھوڑا اور لاہور آکر ایک فلیٹ لیا وفاقی کالونی میں، اس فلیٹ میں مکمل گھر کا فرنیچر ڈالا اور شہزادی عابدہ کے لئے زیورات اور کپڑے وغیرہ خریدے گئے اور نئی زندگی شروع ہوگئی۔
دوسری جانب جب عابدہ کے گھر میں یہ معلوم ہوا کہ عابدہ گھر سے غائب ہے تو اس کا والد اور بھائی دونوں تھانے اس کی گمشدگی کی رپورٹ کرانے تھانے پہنچے ۔ تھانے میں جب انہوں نے رپٹ درج کرانے کی درخواست دی تو تھانے والوں نے انہیں الٹا ذلیل کرنا شروع کر دیا کہ بیٹی کا بسا بسایا گھر کیوں خراب کرنا چاہتے ہو ۔ جب وہ اپنے گھر میں راضی خوشی رہنا چاہتی ہے تو تم کیوں مفت کے کیدو بننے کی کوشش میں ہو۔کیسے باپ ہو نام ہے حاجی مرزا امانت بیگ پانچ وقت کے نمازی علاقے میں مشہور ہو شریف ترین لیکن یہ حرکت تمہیں زیب دیتی ہے؟ چھے مہینے سے لڑکی کی صلح ہے اور وہ اپنے خاوند کے گھر میں ہے اور تم اب ڈرامے کرنے یہاں آن پہنچے ہو؟؟
مرزا امانت بیگ کے منہ سے اتنا ہی نکلا جا ؤ عابدہ رب کرے کبھی سکون نہ پاؤ ۔ باپ کا شملہ نیچا کیا، اسکی شرافت و نیکی کو رول کر رکھ دیا ساری عمر کی کمائی ایک مان ہی تھا وہ بھی توڑ دیا میرے لیئے تو مر گئی ۔ اپنے بیٹوں کو کہا چلو گھر اب ہماری دو ہی بیٹیاں ہیں خالدہ اور نائلہ ۔ بس ایک بار مل کر انہیں اپنا فیصلہ بتا دیں تو حجت تمام ہو جائے گی ۔ لطیف صاحب کے ساتھ دونوں بھائی اسی لئے آئے تھے اور لطیف صاحب نے انہیں یقین دلا دیا تھا کہ اس سب کا نہ انہیں علم ہے نہ ان کی اس میں رضامندی ہے اگر وہ چاہیں تو وہ انہیں ان کے گھر تک لے جا سکتے ہیں اور یوں لطیف صاحب دو آدمیوں کے ساتھ عظیم مینشن تک پہنچے تھے ۔ دوسری طرف اس نکاح کا گواہ بلال کتنا عرصہ تک شمع سے پیسے لے کر صرف ظاہری طور پر ڈاکٹر عظیم کو تلاش کرنے نکلتا رہا ۔ اور شمع کی حالت دیکھ کر دونوں بھائیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ اس گھر نہ آئیں گے نہ انہیں پریشان کریں گے کہ اس عورت کی تو اپنی دنیا برباد ہو گئی اب اس سے کیا کہنا سننا ۔
 
آخری تدوین:
ڈاکٹر عظیم کو احساس ہو چکا تھا کہ اس کی شادی کے بعد تینوں لڑکے اس سے دور ہو چکے ہیں اور یہ گھر اس کو بچانا ہے لیکن کس طرح ؟ اس معاملے میں اسے کسی اور نے نہیں پھنسایا تھا وہ خود ہی اس معاملے میں پھنسا تھا ۔یہ سوچتے ہوئے کہ بڑا گھر خوب اچھا چل رہا ہے اور اس کی آمدنی مستقل طور پر مضبوط ہے دوسری طرف ایریا مینیجر کی جاب کی آمدن سے دوسرا گھر آسانی سے چل سکتا تھا ۔ جب فیصلے بے بنیاد امیدوں پر کئے جاتے ہیں تو ایسے میں احساس ہونے کے بعد بھی انسان کچھ نہیں کر پاتا ۔ اب عابدہ کی نئی زندگی بھی ڈاکٹر عظیم کی ہی ذمہ داری تھی اور عظیم مینشن سے وہ پہلے ہی عملی طور پر فارغ البال ہو چکا تھا ۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کے جانے سے سارا نظام ایسے تلپٹ ہو جائے گا ۔کہ اس کے ملبے سے نکل پانا اکیلی شمع کے بس کی بات نہ ہوگی ۔ اس کے علاوہ موصوف اس چیز کو بھی اپنے منصوبے میں شامل نہ کر سکے تھے کہ نئی زندگی شروع کرنے سے جوجھٹکا لگے گا اس کے کیا اثرات گھر، خاندان اور گھر کی معیشت پر ہونگے ۔ شاید کسی حد تک وہ بھی اسی فریب نظر کا شکار ہوچکے تھے جس فریب نظر کے نتیجے میں اکثر مرد حضرات دو شادیاں کر لیتے ہیں ۔ یہاں دوسری شادی سے مقصد گھر خاندان بنانا نہیں تھا بلکہ اس عابدہ نامی حسینہ کو اپنے خزانے کا موتی بنانا تھا جس کی نظروں کو ڈاکٹر عظیم صاحب کی کوٹھی ، گاڑی ، گھر کا سامان اور کھلا پیسہ لٹانے کا انداز اپنا دیوانہ بنا بیٹھا تھا ۔ اسی سراب کے پیچھے عابدہ نے اپنی کشتیاں جلا لی تھیں اور اپنی خواہشات کے سمندر میں ڈاکٹر عظیم بھی چھلانگ لگا چکا تھا ۔ اس سب کا نتیجہ جو ہونا تھا وہی ہوا اور جیسے ہی ڈاکٹر عظیم کو ہوش آیا اس کا سفینہ اپنے متن میں پانی کی رسائی کے آگے بے بس ہونا شروع ہو چکا تھا۔

گھروں میں برکت کی چابی باہمی اعتماد ، مشترکہ کوشش اور تمام لوگوں کا ساتھ ہوتا ہے اس گھر میں یہ تینوں باتیں ناپید ہو چکی تھیں ۔ دوسری طرف عابدہ کی ماں اس سے مسلسل رابطے میں تھی ۔اور گاؤں سے لاہور بیٹے کو ملنے کے بہانے آ کر بیٹی کی طرف رہ جایا کرتی تھی ۔بیگ صاحب کو کچھ علم نہ تھا لیکن ان کی زوجہ اپنی ممتا سے مجبور عابدہ کو ملنے سے باز نہ رہ سکی ، شاید اس سب میں کہیں نہ کہیں اس کا بھی کوئی کردار تھا۔ اب اس نے بار بار کے دوروں کے دوران وقتا فوقتا اپنی بیٹی کو دعائیں تو دینی ہی تھیں کہ اللہ تمہیں اولاد سے نوازے اس کے علاوہ اس نے مشورے دیتے ہوئے اسے سمجھایا کہ بیٹی عورت وہی مضبوط ہوتی ہے جس کی اولاد ہو ۔ نہیں تو اس کی زندگی ہوا میں اڑتے پتے کی طرح ہے ۔ اور تم جس کی جگہ پر آئی ہو اس کے تین تین بیٹے ہیں ۔وہ مضبوط ہے اور تم کمزور۔ اپنے خاوند کو قابو کرو پہلے اس کے سامنے ایسے ہو جاؤ کہ تم سے کمزور کوئی ہے ہی نہیں۔ دوسری جو جو شکایتیں تمہارا خاوند دوسری کی تم سے کرے وہ عیب تم میں کبھی نظر نہ آئے ۔ مرد اپنی پسند کی عورت کو کمزور جانے تو پھر اسے قوت دینے میں تمام دنیا سے لڑ جاتا ہے اور اسے یہ کبھی پسند نہیں آتا کہ اس کی عورت اس سے مضبوط ہو ۔

عابدہ نے یہ نصائح اپنے پلے باندھ لیں اور ایک ایک کر کے ان پر عمل شروع کردیا ۔ سب سے پہلے صاحب کو بتایا کہ آپ کی روز روز کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے میں چاہتی ہوں کہ ہم عظیم مینشن کے قریب چلے جائیں تاکہ آپ کو زیادہ سے زیادہ آرام مل سکے ۔ دوسری جو نصیحت ماں کی اس نے پلے باندھی تھی وہ یہ تھی کہ جب بھی ڈاکٹر عظیم ناراض ہوتا وہ ڈر جاتی ، کانپنے لگتی اور رونے لگتی ۔جو وہ کہتا کپکپاتے ہاتھوں سے وہ کام پورا کرتی ۔ جب کسی بات پر اگر ہاتھ اٹھا دیتا تو جواب میں زبان نہ کھولتی اور سر جھکا کر ایسے روتی کہ چھپا بھی رہی ہے اور نظر بھی آرہی ہے ۔اس کا نتیجہ ڈاکٹر عظیم پہلے تو اسے ناراض ہو لیتا لیکن جب دیکھتا کہ ننھی سی معصوم عابدہ رو رہی ہے تو دل میں آتا اس کی زندگی میں اپنوں سے دوری کا دکھ بھرنے والا میں ہوں اور اب یہ میرے ساتھ لڑ کر کہیں جا بھی نہیں سکتی تو اس کا دل نرم ہو جاتا اور وہ آہستہ آہستہ عابدہ اور شمع میں سے عابدہ کے زیادہ قریب ہوتا چلا گیا ۔ کیونکہ شمع اب جھگڑا تو کم کرتی تھی لیکن عمر کا فرق نہ ہونے کے باعث اور گھر کے معاملات میں ڈاکٹر عظیم کا مالی عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہونے کے باعث اب اس کی وہ عزت نہ کرتی تھی نہ ہی اسے کبھی کبھار مذاق مذاق میں یہ جتلانے سے باز آتی کہ نئی زندگی تو آپ نے شروع کر لی ہے ہمیں اس کا کیا بھرم ۔وغیر وغیرہ تو ڈاکٹر عظیم دونوں کے تقابل میں عابدہ کے سلوک سے زیادہ متاثر ہوتا جا رہا تھا ۔

سال 1992
فیملی اسپتال لاہور
عابدہ کا پہلا حمل ہے ۔ پرائیویٹ اےسی کمرہ میں عابدہ ڈیلیوری کے لئے داخل ہے ۔ ڈاکٹروں نے نربچہ کی پوزیشن نادرست ہونے کا بتاتے ہوئے خون کا بندو بست کرنے کو کہہ رکھا ہے ۔ ڈاکٹر عظیم گھر آتا ہے اور آکر شمع کو بتاتا ہے کہ عابدہ کو خون کی ضرورت ہے ۔شمع بلڈ گروپ پوچھتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ او پازیٹیو خون ہے ۔ دوپہر کا وقت ہے فیصل ابھی کالج سے آیا ہی ہے کہاسے ماں حکم دیتی ہے کہ جاؤ عابدہ کو خون دے کر آؤ ۔اللہ تمہیں چھوٹے بھائی سے نواز رہا ہے ۔ جو خوشی تمہارے ڈیڈی کو میں کاشف کے بعد نہ دے سکی اب عابدہ دے رہی ہے۔ جاؤ بھائی کا استقبال کرو ۔ فیصل فورا اسپتال جا کر بلڈ دے آتا ہے ۔ اگلے دن ایک سی سیکشن کے ذریعے عامر اس دنیا میں آگیا ۔

عامر کی آمد پر شمع خود اسپتال گئی اور مٹھائیاں منگوا کر بانٹیں ۔ جو دیکھتا حیران ہوتا کہ کیسی سوتن ہے جو اپنی سوتن کے گھر بچہ پیدا ہونے پرخوشیاں منا رہی ہے ۔ لیکن شمع نے تو سوتن کے متعلق سوچا ہی نہیں ۔اس کے لئے تو وہ اس کے بچوں کا بھائی اور اس کے ڈاکٹر صاحب کا فرزند تھا لہذا اس کا بیٹا ہی تھا ۔عابدہ کو شمع کی یہ خوشیاں پسند نہ آئیں لیکن اس نے خاموشی مناسب سمجھی ۔ وہ خود حیران تھی کہ یہ کیا ۔جس کی آمد سے شمع کے سینے میں آگ لگ جانی چاہیے تھی وہ خوشیاں مناتی پھرتی ہے اور تو اور اپنے بیٹے کو خود بھیجا کہ جاؤ اپنے بھائی کی ماں کو خون دے کر آؤ ۔پھر عابدہ کی ماں رہنے آئی ۔ اور کچھ دن رہ کر چلی گئی ۔ ایک دن جب عامر کو عظیم مینشن لے جانے کے لئے کاشف گھر آیا تو عابدہ نے ساتھ بھیجنے سے انکار کر دیا ۔کہ میرا بیٹا ہے میری مرضی میں بھیجوں یا ناں بھیجوں ۔یہ بات ڈاکٹر عظیم کو معلوم ہوئی تو اس نے عامر کو اٹھایا اور خود عظیم مینشن لے کر آیا اور شمع کی گود میں ڈالا کہ لو یہ تمہارا بھی بیٹا ہے وہ کون ہوتی ہے اسے یہاں آنے سے روکنے والی ۔ اب اسے تم واپس نہیں بھیجو گی ۔ شمع نے کہا نہیں ڈاکٹر صاحب ایسا نہیں ہو سکتا میں کون ہوں ماں بچے کو جدا کرنے والی ۔ آپ اسے لے آئے میرے سر ماتھے پر لیکن اسے میں ماں سے جدا نہیں کر سکتی ۔اس سے ڈاکٹر عظیم حیران رہ گئے

عابدہ اس صورت حال سے خوش نہیں تھی ۔ میرا بیٹامجھی سے چھین کر میری سوکن شمع کے حوالے کیا گیاتھا۔ اس کی چالاکی تو دیکھو سے ڈاکٹر صاحب عامر کو اٹھا کر جیسے میرے پاس سے عظیم مینشن لے کر گئے تھے کسی نے نہیں سوچا کہ اس کی ماں میں ہوں پر کوئی ناں میں نے بھی بدلا نہ لیا تو میرا نام بھی عابدہ نہیں ۔ جیسے میرے خاوند کی نظروں میں اس نے مجھے گرایا ہے میں نے اسے اسی خاوند کی زندگی سے نہ بھگایا تو مجھے عابدہ کون کہے گا؟؟ لیکن فی الحال مجھے چپ رہنا ہے اور موقعے کے مطابق اپنا جواب دینا ہے ۔
رات کو ڈاکٹر عظیم عابدہ کے گھر واپس آیا تواس نے دیکھا کہ عابدہ خاموشی سے بیٹھی ہوئی تھی آنکھیں آنسوؤں سے تربتر اور پچھتاوا ان سے نمایاں ۔ عامر کو اس کے حوالے کیا، ماں کو تو اپنا جگر گوشہ سینے سے لگاتے ہی ٹھنڈک پڑ گئی ۔ لیکن ساتھ ہی اس نے ڈاکٹر عظیم کو ملتجیانہ انداز میں دیکھ کر مخاطب کیا:۔
ٰٰعابدہ : سوہنے (وہ ڈاکٹر عظیم کو سوہنا کہہ کر پکارتی تھی) مجھے معاف کر دیں ۔ میں نے آپ کا دل دکھایا۔
ڈاکٹر عظیم : -ہے پاگل ؟ میرا دل دکھنے کی بات نہیں ہے تم نے غلطی کی تھی کہ عامر کو اس گھر جانے سے منع کیا۔ تمہیں کوئی اندازہ ہے کہ ایسے کتنے فاصلے پیدا ہوں گے۔
عابدہ : -----چلو اب معاف کر دیں آئیندہ ایسا نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر عظیم: -وعدہ؟
عابدہ : -----پکا وعدہ۔
ڈاکٹر عظیم-: اچھا پکایا کیا ہے ؟
عابدہ : ----- دال چاول ہیں ۔ لاؤں ڈال کر؟
ڈاکٹر عظیم:-- ہاں لاؤ (اور عابدہ دال چاول لے آتی ہے جو دونوں مل کر کھاتے ہیں)۔
عابدہ : -----(ڈاکٹر عظیم کے منہ میں دال چاول کا لقمہ ڈالتے ہوئے) ایک بات کہوں ؟ برا تو نہیں مانیں گے؟؟
ڈاکٹر عظیم--: بولو شہزادی کیا بات ہے۔ اگر عامر والا مسئلہ ہے تو اس موضوع پر مجھ سے بات نہ ہی کرو تو بہتر ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ اور ہے تو بولو۔
عابدہ :----- نہ نہ میری کیا مجال کہ آپ کی مرضی کے خلاف جاؤں ؟ بس کچھ ذہن میں آ رہا تھا سوچا آپ سے بات کروں۔
ڈاکٹر عظیم--: بولو کیا بات ہے
عابدہ : -----آپ کھانا کھا لیں پھر بات کرتے ہیں ۔ سچ کہتے ہیں آپ میں بھی کتنی بے عقل ہوں نہ موقع دیکھتی ہوں نہ محل بس شروع ہو جاتی ہوں۔
ڈاکٹر عظیم:--(کھانا کھانے کے بعد) بولو جو ہے بتاؤ ۔
عابدہ :----- آپ کو روز روز عظیم مینشن چکر لگانا ہوتا ہے گھر سے دفتر ، دفتر سے بڑے گھر ، پھر بڑے گھر سے یہاں تھک جاتے ہونگے ۔ کیوں نہ ہم عظیم مینشن کے قریب ہی شفٹ ہو جائیں ؟ ایسے میں ایک تو آپ کو آنے جانے کی مشکل نہیں ہوگی دوسرے عامر اور بچے آپس میں زیادہ دور بھی نہیں رہیں گے۔ آگے آپ کی مرضی۔
ڈاکٹر عظیم-- بات تو درست ہے تمہاری چلو میں دیکھتا ہوں اس سلسلے میں کچھ کرتے ہیں ۔
عابدہ:----- دوسری بات یہ کہنا تھی کہ آپ اٹھارویں گریڈ کے افسر ہیں آپ کی کوئی عزت ہے ۔ تو فیصل آپ کا بیٹا ہو کر گولیاں ٹافیاں بیچتا اچھا لگتا ہے؟؟ لوگ کیا کہیں گے ۔ باپ افسر ہے مگر بیٹے کو گولیاں ٹافیاں بیچنے پر لگا رکھا ہے ۔
ڈاکٹر عظیم:-- یہ بھی درست ہے ، حیرت ہے میری نظر پہلے اس طرح سے اس معاملے پر کیوں نہیں پڑی؟ چلو دیکھتے ہیں یہ معاملہ بھی۔
عابدہ : -----اب دیکھتے ہی نہ رہئیے گا ۔ کچھ کر بھی لیجئے گا ۔
ڈاکٹر عظیم:- اچھا اب تم مجھے مت پڑھاؤ
عابدہ:----- اللہ میری یہ مجال کہ اپنے سوہنے کو پڑھاؤں ۔ مر نہ جاؤں
ڈاکٹر عظیم:- مریں تمہارے دشمن تم تو میری جان ہو۔ چلو اب سو جاؤ

اور کمرے کی لائٹ بجھا دی گئی اور فضا میں محبت ہی محبت پھیلتی چلی گئی ۔
 
آخری تدوین:
Top