عورت سہارا اور امید

تجمل نقوی

محفلین
عورت سہارا اور امید !
سہارا اور امید محظ لفظ نہیں بلکہ یہ اک احساس، مان، اور رشتہ ہے۔ کہا جاتا ہے دنیا امید پر قائم ہے اور امید بزاتِ خود سہارا ہے۔ مخلوقِ خدا کے لئے سہارا بہت سی کیفییات کا نام ہے۔ ماں باپ کے لئے اولاد سہارا ہے، بہن کے لئے بھائی، ازدواجی حثیت رکھنے والی دوشیزہ کے لئے اس کا محرم، اک عاشق کے لئے اس کا محبوب، اک بیٹے اور بیٹی کے لئے اسکے ماں باپ، جانور کے لئے اسکا مالک، دوست کےلئے دوست، مریض کے لئے طبیب، بوڑھے کے لئے لاٹھی ، نوجوان کے لئے ہمت و حوصلہ، تحریر کو قلم ، عمل کے لئے سوچ اور ارداہ،گنہگار کے لئے رحمت، مخلوق کےلئے خالق،تمام تر اعمال یا کام کسی امید یا سہارے کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔ نیکی بخشش کی امید پر کی جاتی ہے اور سرخروئی کا سہارا بنے۔ الغرض آپ امید اور سہارے کے منکر نہیں ہو سکتے۔
عورت۔
عورت ہمارے معاشرے کا لازمی جزو ہے۔ جب اللہ نے تخلیقِ کائنات کا ارداہ فرمایاتو آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔ پھر اماں حوا ہو تخلیق کیا۔ یعنی عورت کا وجود و ارتقاء ارادہءخداوندی ہے۔ تاہم اسکی عزت و تکریم ضروری ہے۔

عورت بحثیت بیٹی
قبل از اسلام اگر کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تو اس کے پیدا ہونے معیوب سمجھا جاتا۔ ماں باپ کو کوسا جاتا اور معاشرتی اعتبار سے انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ بھائی کو بہن کا طعنہ دیا جاتا۔ پھر اللہ نے اسلام کو دینِ حق بنایا اور عورت کو عزت و تکریم سے نوازہ اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیٹی سے نوازہ اور جنت کی عورتوں کی سردار بنایا۔
عورت بحثیت بیٹی اک ایسی زندگی گزارتی ہے جس میں اسے یہ خیال اور فکر لاحق رہتی ہے کہیں اسکی وجہ سے اس کے ماں باپ کو کوئی دشواری یا ندامت نہ ہو۔ وہ اپنی اور اپنے والدین اور دوسرے کئی رشتوں کی لاج رکھتے ہوئے اپنے احساسات اور جزبات وقت کے ساتھ ساتھ دفن کرتی چلی جاتے ہے۔ وہ خدا کی رحمت ہونے کا حتی الامکان ثبوت دیتی ہے۔ عالمِ جوانی میں بیٹی کا امتحان شروع ہوتا ہے جب وہ خود کو لوگوں کی شہوتی نظروں کا شکار ہوئے بغیر پاکدامن رہتی ہے۔ قدرت نے زن و مرد میں اک عجیب کشش رکھی ہے اور اک بیٹی اس کشش کو دفع کرنے میں رہتی ہے مگر وہ اس بات کا ارمان اور امید اپنے اندر ہے کہیں دفن کر دیتی ہے کہ کشش اس کو اک حسین احساس دلانا شروع کر چکی ہے جسے صاحبِ علم محبت کا نام دیتے ہیں۔ بیٹی نہ چاہتے ہوئے بھی محبت کا زہر پی جاتی ہے جو اسکے زہن اور اندر کے انسان کو نیلا کر دیتا ہے مگر ضبط کی انتہا کا عالم قابلِ رشک ہوتا۔ عالمِ جوانی میں عورت جب غیر منکوحہ ہوتی ہے تو وہ خوابوں خیالوں کی مسافرہ ہوتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ کوئی حسین شہزادہ اس کے خوابوں کو تعبیر دے گا۔ والدین کو امید ہوتی ہے کہ بیٹی کو کسی محسن کے ہمراہ رخصت کریں گے۔ یعنی امید یہاں بھی ہوتی ہے۔ اک نوجوان دوشیزہ جب کسی ہم سفر کا تصور باندھتی ہے تو اسے ہر وہ شخص لبھاتا ہے جو اس سے محبت کی زبان بولتا ہے۔ مگر وہ اپنا آپ صرف اس کو سونپتی ہے جس کا فیصلہ اس کے والدین کرتے ہیں۔ کبھی کسی کا لہجہ اچھا لگنے لگتا ہے تو کبھی کسی کی صورت و عادات۔ الغرض عورت بھی محبت کے جزبات سے کنارہ نہیں کر سکتی۔ کسی اپنے کے چلے جانے پر بیٹی رات کی تنہائی میں اشکوں کا دریا بہاتی ہے کہ دن کے اجلاے میں اسکا ٹوتا ہوا ضبط باقی افراد کو شاید برداشت نہ ہو سکے۔ بیٹی اللہ کا اک عظیم تحفہ اور رحمت ہے۔ داستانیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کی بیٹے کہیں نہ کہیں ماں باپ کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں مگر بیٹی کی بے وفائی کی کہانیاں شاید ہی سننے کو ملیں۔ مشرقی بیٹی حوصلے، جزبے، اور وفا کی اپنی مثال آپ ہے۔ کیونکہ مغربی آزاد خیال عورت اپنے جزبات اور احساسات کو بیان کر دیتی ہے اور اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے کئی رشتوں کو روند دیتی ہے مگر مشرقی بیٹی رشتوں کی اہمیت کو مقدم سمجھتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ زمانہء جدید میں کیا ہو رہا ہے مگر فطری طور پر بیٹی کا وفا و حیا کا پیکر سمجھا جاتا ہے۔
عورت بحثیت بہو۔
ازدواجی رشتہ میں منسلک ہونے کے بعد مشرقی عورت خود کو محکومہ سمجھتی ہے در حقیقت یہ خوف اور ڈر پسِ منظر ہوتا ہے کہ کہیں اسے دھدکار نہ دیا جائے اور اپنے والدین کے لئے باعثِ زحمت نہ بن جائے۔ اور اولاد کے پیدا ہونے تک وہ اسی خوف میں زندگی گزارتی یے۔ اولاد کی نعمت ملنے کے بعد اسے کچھ حوصلہ سہارا اور امید ملتی ہے اس ازدواجی زندگی کو آگے لے کر چلنے کی۔ کیا ہی عجیب لمحہ یا موڑ ہے عورت کی زندگی کا کہ وہ اک ایسے انسان کے سپرد کر دی جاتی ہے جو اسے اور اس کے جزبات کو جانتا تک نہیں۔ وہ نہیں جانتا کہ اس خدا کے شاہکار کو کن مشقتوں سے گزر کر پالا گیا ہے۔ اور یہاں بھی عورت کے حوصلے اور ہمت کی داد اس کا حق ہے کہ وہ ہنسی خوشی اس نئے رشتے کو تسلیم کرتی ہے اور اپنے محرم کو اس خواب کی تعبیر سمجھتی ہے جو اس نے سجائے تھے۔ والدین اپنے جسم کا ٹکڑا بخوشی انجان ہاتھوں کے سپرد کرتے ہیں۔ عورت اس مقام پر پہلے پہل خوشی و مسرت کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے اور بعد میں لوگوں کے چہروں سے نقاب اترتے ہیں۔ محرم کی ماں بہن اور بھائی کےرشتےآہستہ آہستہ ساس نند اور دیور جیٹھ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ آنے والی عورت بیٹی سےبہو بن جاتی ہے اور رشتوں کی ڈوری میں گرہیں لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ عورت اپنے تمام دکھ تکلیفیں اور سختیاں اپنے آپ سے یا خدا سے بیان کرتی ہے۔ اپنے بھائی بہنوں کو اس لئے نہیں بتاتی کہ کہیں انہیں مشکل نہ ہو وہ دکھ میں نہ آ جائیں۔ اور اس کے ضمیر پر لگنےوالے یہ زخم پلتے پلتے جان لیوا کینسر بن جاتے ہیں مگر حیرت ہے کی اس ناسور کے ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے مجازی خدا کی فرمانبردار رہتی ہے۔ طعنے اور سختیاں سہتی ہے۔ یہاں مرد کمزور ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنا غم و غصہ نکال لیتا ہے مگر عورت کس کے آگے فریاد گو ہو۔ مگر اسے سہارا ہوتا ہے اللہ کا امید ہوتی ہے اس بات کی کہ اک نہ اک دن اس کی ان تکالیف کو راحت ملے گی اس کی محنت اور کاوشیں رنگ لائیں گی۔ یہاں اک بات قابلِ غور ہے کیا ہر عورت ایسا کرتی ہے نہیں برا کرنے والی عورت کبھی ایسا نہیں کرتی اسے اپنی انا اور غرور پیارا ہوتا ہے وہ گھر آباد کرنے کا کبھی نہیں سوچ سکتی۔ اس امر میں اک ماں کا کردار بہت اہم ہے کیوں بیٹی ماں کے قریب ہوتی ہے اور نہ سمجھ عورت اپنا گھر اس زمرے میں آ کر برباد کر لیتی ہے کہ وہ اپنی ماں کا حکم مان رہی ہے۔ کیونکہ اک بہو کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اس کے محرم کے عزیزواقارب اور دوست احباب کا حلقہ موجود ہے۔ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔ تاریخ گواہ ہے اگر کوئی کسی اپنے سے جدا ہوا ہے تو خوشی اسکا مقدر نہیں بنی۔ مشرقی معاشرے میں بہو اپنا حق جتاتی ہے اور ساس نند اپنا مگر دونوں ہی اپنے اپنے فرائض سے انجان ہوتی ہیں۔ بہو اگر بیٹی اور ساس نند اگر ماں اور بہن بن کر رہیں تو یہ معاملہ حل ہو جائے۔ اکثر مشرقی عورتوں کو گلہ کرتے دیکھا گیا ہے کہ شوہر اپنی کمائی کا کچھ حصہ بہن بھائیوں پر لٹا رہا ہے اور اگر یہی کام انکا اپنا بھائی کرے تو صدقے واری جاتی ہیں۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے عورت خود پسند بھی ہے اور حقِ ملکیت رکھنے والی بھی۔ اسی طرح داماد کا ببیٹی کو خوش رکھنا قابلِ تعریف اور بیٹے کا بہو کو خوش رکھنا قابلِ مزمت گردانہ جاتا ہے۔ اس اعتبار سے عورت میں شراکت داری نہیں۔ حلانکہ شراکت بہت سے مسائل کا حل ہے۔ اس رشتہ میں منسلک سب افرادکو اپنے حقوق و فرائض سر انجام دینے چاہیئں۔

عورت بحثیت بہن
اللہ نے بہن بھائی کا رشتہ ایسا بنایا ہے کہ جس میں درد تکلیف خوشی غمی سب اک جیسے محسوس ہوتے ہیں۔ مشرقی معاشرے میں بہن اپنا ہی مقام، عزت و وقار رکھتی ہے۔ عورت کی اس صورت میں بھی سہارا اور امید کا پہلو شامل ہے۔ اک بہن کو بھائی پر مان ہوتا ہے کہ وہ اس کا دکھ درد برداشت کرے گا وہ اسکی فریاد سنے گا۔ وہ اسکی عزت کا رکھوالا ہے۔ نوک جھوک شرارتیں بہن بھائی کی زندگی کا اہم جزو ہیں۔ بھائی کی شکایتیں اور پردہ داریاں بہن بھائی رشتہ میں اک حسین موڑ لاتی ہیں۔ بھائی گھر میں ہو تو لڑائی نہ ہو تو انتظار۔ صدقے واری جانے والی عورت بہن کے روپ میں دنیا کی سب سے امتیازی مخلوق لگتی ہے۔ بھائی بہن کی عزت کے لئے جان کی پرواہ کئے بغیر دنیا سے مقابلہ کرتا ہے۔ اور بہن بھائی کی تکلیف کا احساس کرتی ہے۔ جس طرح ماں باپ کو اپنی اولاد سب سے پیاری ہوتی ہے ویسے ہی بہنوں کو بھائی۔ جب کسی کا بیٹا یا بھائی زندگی ہار جاتا ہے تو ماں باپ کے ساتھ بہنوں کے لئے انکا دوست ان کی زندگی کا سہارا بھی چلا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی عورت سے پوچھا گیا کہ تمہارے لئے سب سے انمول کونسا رشتہ ہے تو جواب آیا بھائی۔ کیونکہ بھائی صرف پیدا کرنے والی ماں باپ کے اس جسم کا حصہ ہوتے ہیں جس کا جسم کا بہن۔ شادی کے بعد عورت کو امید ہوتی ہے تو ماں باپ کے بعد صرف بھائی کی۔ رات کے سناٹوں میں بھائی کے درد کے لئے جاگنا اور دعائیں مانگنا بہنوں کا ہی شیوہ ہے۔ بڑے بھائی باپ ہوتے ہیں اور بہنیں ماں۔ یہاں میاں محمد بخش نے فرمایا

باپ مرے سر ننگا ہوندا ویر مرن کنڈ خالی
ماواں بعد محمد بخشا کون کرے رکھوالی

بھائی بھائیاں دے درد ونڈاندے
تے بھائی بھائیاں دیاں باہنواں
باپ سراں دے تاج محمد
ماواں ٹھنڈیاں چھاواں

کلا ہتھ کدی نئی ڈبدا
اک دوجے نوں دوھوندا
بھائیاں باہج محمد بخشا
کون کسے نوں روندا۔
یہ درد اور دکھ جدا ہوئی بہنیں ہی جانتی ہیں۔
عورت بحثیت ماں۔
ماں کا درجہ اور مقام اسلام نے ویسے ہی بہت بلند بیان کیا ہے۔ ماں کا نعم البدل اس جہان میں نہیں۔ عورت اک ماں ہے تو اولاد کی خاطر سوکھے پہاڑوں سے پانی نکال لیتی ہے۔ عورت ماں ہے تو اپنا خون پلانے کو تیار ہے۔ ماں ہے تو تقدیر کا لکھا بدلنے کے لئے اللہ سے تبدیل کروا لیتی ہے۔ عورت بحثیت ماں صبر واستقلال کا منبع ہے جو اولاد کی خاطر کیا کچھ نہیں کرتی۔ مگر اک ماں کو اپنی اولاد سے امید ہوتی ہے کی وہ سہارا بنے۔ عورت اس روپ میں اپنی جوانی خواب سب کچھ اپنی اولاد کے لئے قربان کرتی ہے۔ راتوں کی عبادات میں اولاد کی کامیابی اور بہتری کے لئے خدا سے ہم کلام ہوتی ہے۔ بسہ اوقات اپنوں اور اغیار کے طعنے بھی سنتی ہے۔ عورت مکمل ہے تب ہوتی ہے جب وہ ماں بنتی ہے۔ دنیا کی نظر میں بدصورت اولاد ماں باپ کے لئے کسی چاند سے کم نہیں ہوتی۔ ماں اور بیٹی کا رشتہ دوستانہ ہوتا ہے۔ ماں بس ماں ہے۔ ماں مر کر بھی اپنی اولاد کی تکلیف برداشت نہیں کرتی۔ اسکی روح ایسے ہی تڑپتی ہے جیسے وہ زندہ رہ کر تڑپتی ہے۔ اولاد کتنی ہی سمجھدار ہو جائے مگر زندگی کے بہت سے معاملات میں اس ہستی کی کمی ضرور محسوس ہوتی ہے۔ اللہ نے اک عورت کو بہت حوصلہ عطا کیا ہے۔اگر مرد باہر کی سختیاں برداشت کرتا ہے تو عورت چاردیواری کی ناموس کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ عورت کا سب سے حسین اور بے مثال چہرہ ماں ہونا ہے۔ عورت کا مقام اس سے زیادہ کیا ہو کہ ماں کی دعا رد نہیں کی جاتی اور محبت کی نگاہ ڈالنے پر حج جیسی عبادت کا ثواب عطا ہوتا ہے۔ دنیا کی تمام مائیں شاید اک جیسے جزبات رکھتی ہوں مگر مشرقی ماں ان جزبات میں اپنا ہی مقام رکھتی ہیں۔
عورت اور محبت
عورت میں شراکت داری کی خصلت نہیں ہوتی۔ وہ نہیں چاہتی کہ اسے چاہنے والا کسی اور کا دیکھے۔ بہت سے مفکروں نے عورت کی بے وفائی کو بیان کیا ہے مگر عورت عورت کبھی بے وفا نہیں ہوتی وہ کحاظ اور عزت کی پہرے دار ہوتی ہے۔ کسی اجنبی سےراہ چلتے محبت نہیں کرتی۔ لیکن اگر اسے کوئی پسند آ جائے اس پر دل نچھاور کر بیٹھے تو اس شخص کو اپنا حق سجھتی ہے۔ عورت اظہار میں پہل بہت کم کرتی ہے۔ وہ محبت کو اپنے اندر ہی رکھنا چاہتی ہے اور ڈرتی ہے کہ اگر اظہار کر دیا تو کہیں اسکا محبوب مغرور ہو کر اسے چھوڑ نہ دے۔ عورت کو انکار سے نفرت ہے۔ اسے حق جتانا اچھا لگتا ہے۔
عورت اگر محبت کی انتہا کو پہنچ جائے تو رابعہ بصری، بی بی پاکدامنہ کے نام سے جانی جاتی ہے، عشقِ مجاز میں لیلا، ہیر، سسی کے نام سے اپنا نام پیدا کرتی ہے۔ عورت میں شدت پسندی مرد سے قدرے زیادہ ہوتی ہے۔ عورت کو انتظار کرنا اچھا نہیں لگتا۔
اک عورت اپنے محبوب کے لئے دنیا کی ہر طاقت سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔ یہاں عورت کمزور ہوتی ہے۔ کیونکہ محبت عورت کی کمزوریوں میں سے اک کمزوری ہے اسی لیے بہت سی عورتیں اس محبت کے نام پر اپنی عزت و تکریم گنوا چکی ہیں۔ کچھ مرد عورت کو محبت کے نام پر کھلونا بنا لیتے ہیں اور عورت اس معاملے میں عورت کمزور ہوتی ہے اور محبت کے جزبات میں وہ اپنا آپ پیش کرنے کو تیار ہو جاتی ہے۔ مگر عورت محظ جسمانی تسکین کو ترجیح نہیں دیتی وہ خالص محبت کی متلاشی ہوتی ہے اک ایسی محبت جو اسکی روح کو تسکین دے۔ کسی اجنبی سے گفتگو کے دوران بھی وہ اس بات کو اول رکھتے ہے کہ اس کو عزت اور محبت کس قدر ملتی ہے۔ ایامِ جوانی عورت کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں ہوتے کیونکہ احساسات، جزبات اور خواب بھی عورت کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں۔ کچھ تو ان جزبات پر قابو ڈال کر زندگی گزارتی ہیں تو کچھ نہ ڈال کر۔ وہ چاہتی ہے کہ اسے چاھا جائے۔ اسے کے اندر اترا جائے۔ اس بات کو مقدم سمجھا جائے۔ محبت کا احساس تو ویسے ہی دلکش اور خوابیدہ ہوتا ہے۔ چند روز کی صحبت کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں عورت کو محبت کا احساس پیدا کرتی ہے۔ کسی اجنبی کی گفتگو اچھی لگے تو اس کی گفتگو سے محبت، کسی کے لہجے سے، کسی کی صورت سے کسی کی فطرت سے تو کبھی کسی کے پاس آنے سے۔ مگر محبت کا احساس وہ لے چکی ہوتی ہے۔ کسی سے راتوں کے جگراتے اور احساسات بیان کرنا محبت کو جنم ضرور دیتا ہے۔ محبت کا ملنا یا نہ ملنا اس شخص کی عادت کو ختم نہیں کر سکتا۔ یاد کا پہلو زندگی کا حصہ ہوتا ہے کم ہو یا زیادہ۔ صاحبِ نظر محبت کی بو سونگھ لیتے ہیں۔ ہر فرد محبت کا شکار ہوتاہے کوئی دولت سے، ےو کوئی انسانوں سے،کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی سے محبت کرتا ہے۔ عورت کی محبت انتقامی نوعیت کی ہوتی ہے وہ نقصان کا خیال نہیں رکھتی۔ عورت پارسا ہے تو محبت کا احساس دبائے رکھتی ہے اور خواب و خیال میں کسی کو محرم بنا لیتی ہے۔ اور اگر عورت پارسائی کا دامن چھوڑ دے تو قدرت کی حدود پھلانگ کر جزبات کو بہا دیتی ہے۔
الغرض عورت کو جس روپ میں دیکھیں وہ قدرت کی اک منفرد تخلیق نظر آتی ہے۔ بقلم خود۔تجمل نقوی
 
Top