عمل کا دار ومدار نیت پر ہے ۔

ام اویس

محفلین
*عمل کا دارومدار نیت پر ہے*
امیر المومنین ابو حفص عمر بن الخطاب ؓ سے روایت ہے فرمایا:
میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
اعمال کا دارومدار نیتوں ہی پر ہے۔ اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہےجس کی اس نے نیت کی۔ پس جس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی جانب ہے تو اس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم ہی کی جانب ہے۔ ( یعنی دنیا اور آخرت دونوں میں اسے پھل ملے گا ) اور جس کی ہجرت دنیا کےلیے ہے کہ اسےکمائے یا عورت سے شادی کرنے کے لئے ہجرت کی ہو گی اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہو گی ۔ جس کے لئے اس نے ہجرت کی ۔ ( ملے یا نہ ملے یہ اس کی قسمت ہے ۔ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے اسے کچھ نہ ملے گا ۔ ) ۔

*نیت کا بیان*

نیت کے معنی اگرچہ قصد اور ارادے کے ہیں ۔ لیکن نیت دراصل اُس وجہ کا نام ہے جس کے لئے انسان کوئی کام کرتا ہے ۔ خواہ وہ وجہ اچھی ہو یا بُری ۔
حضرت امام غزالی رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں کہ " نیت وہ خواہش ہے جو تجھے کسی کام میں لگا دے اور کام وہ چیز ہے جس کے کرنے پر تُو قادر ہوتا ہے " اور یہ کہ کسی عمل کی نیت کا اعلان کر دینا ہی کافی نہیں ۔ کیونکہ یہ زبانی جمع خرچ ہے
اور اگر صرف دل میں ہی کہہ رہا ہے تو وہ حدیث نفس ہے ۔ " بلکہ جو دل میں بغیر اعلان کے سچی ہو اور عمل میں اُسی طرح ہو تو نیت کہلائے گی "

اعمال تین طرح کے ہوتے ہیں ۔

ایسے اعمال جو صرف الله جل شانہ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لئے کئے جائیں ۔

دوسر ے ۔۔۔ گناہ اور معصیت کے اعمال ۔

تیسری قسم مباح اعمال کی ہے ۔ یعنی جن کے کرنے سے نہ ثواب ہے نہ گناہ۔

گناہ اور نافرمانی والے کاموں میں اگر نیت اچھی بھی ہو تو وہ نیکی میں نہیں بدل سکتے ۔
البتہ اچھی نیت کی وجہ سے اطاعت کے کام اور مباح کاموں کا درجہ بلند ہو سکتا ہے
اور بُری نیت کی وجہ سے یہی کام گناہ میں بدل سکتے ہیں ۔

عبادات و طاعت کی قبولیت کا تمام تر دارومدار صرف اخلاص اور نیت کی موجودگی پر ہے ۔ چنانچہ دکھاوے اور شہرت کی غرض سے یا کسی بھی اور دُنیوی غرض سے کسی بھی نیک کام کے کرنے کو محققین نے "شرکِ خفی " قرار دیا ہے یہانتک کہ ایمان و اسلام بھی اگر صرف ریا کاری ، شہرت یا کسی دُنیوی غرض کے لئے ہو تو معتبر نہیں اور اس کو شریعت میں نفاق کہا جاتا ہے ۔
الله جل شانہ کے ہاں ہر عملِ خیر ، عبادت و طاعت یہاں تک کہ ایمان بھی صرف اسی وقت مقبول ہوتا ہے جب خالص اسی کے لئے ہو ۔ یہی اخلاص عبادت واطاعت کی روح ، اس کی حقیقت اور سب سے پہلی شرط ہے ۔

اس حدیث مبارکہ میں اچھی اور بُری دونوں قسم کی نیتوں کا ذکر ہے ۔ -------- نیکی کے کام کے لئے اچھی نیت اسے مقبولیت کے اعلی درجہ تک پہنچا دیتی ہے ۔ اور اسی کام میں اگر دُنیا کے فائدے یا عورت سے نکاح کی نیت شامل ہوجائے ۔تو اجر ضائع ہو جاتا ہے ۔ الله جل شانہ کے ہاں وہی عبادت مقبول و مطلوب ہے جو دل کی پوری توجہ کے ساتھ ہو اور صرف الله تعالی کے لئے ہو اور کسی دوسری غرض کے لئے نہ ہو ۔ اس لئے ہر عملِ خیر اور عبادت کے وقت دل کا پوری طرح الله جل شانہ کی طرف متوجہ ہونا نہایت ضروری ہے ۔ اور اسی کو نیت کا حاضر ہونا یا احضارِ نیت کہتے ہیں

آج کے زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ نماز روزے کے پابند لوگوں میں بھی وہ اثرات نظر نہیں آتے جن کا ذکر قرآن و احادیث میں ہے ۔

مثلاً نماز کی خاصیت ہے ۔۔۔۔ الله جل شانہ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ۔

اِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمنْکَرِ

عنکبوت:۸۵

بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے

آج لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں اور فحش اور بُرے کام بھی کرتے ہیں ، جھوٹ بولتے ، خیانت کرتے ، دھوکہ دیتے ، ظلم اور حق تلفی کرتے اور طرح طرح کے حرام اور ممنوع کام کرتے ہیں ۔ اور نمازی کے نمازی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نماز ہی وہ نماز نہیں جس کی خبر قرآن حکیم اور مخبرِ صادق صلی الله علیہ وسلم نے دی ہے ۔ اول تو ہماری نمازوں میں وہ خلوص ہی نہیں ہوتا جو بندگی کا حقیقی تقاضا ہے ۔ اور الله جل جلالہ کو مطلوب ہے ۔ اور دوسرا یہ کہ ہماری توجہ نماز اور عبادت کی طرف عموما نہیں ہوتی ۔ اور ہم سمجھتے ہی نہیں کہ ہم کس کے سامنے کھڑے ہیں ۔ یہی حال ہماری اور تمام عبادتوں کا ہے ۔ہمیں اُن کی عادت پڑ چکی ہوتی ہے ۔ جیسے دوسرے بہت سے کام حسب عادت کر لیتے ہیں ۔ اسی لئے ہمارے نماز روزے اور دوسرے نیک اعمال میں وہ اثر نہیں جو الله اور اس کے محبوب صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے ۔

عادت اور عبادت میں فرق اور حدّ فاصل نیت ہے ۔ اگر نیت ہو تو عادت بھی عبادت بن جاتی ہے ۔ اور اگر نیت نہ ہو تو عبادت بھی عادت بن جاتی ہے ۔

*مأخذ* اس حدیث مبارکہ کا ماخذ الله جل جلالہ کا فرمان ۔۔۔

لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ

اللہ جل جلالہ تک نہ ان ( قربانی کے جانوروں ) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون۔ بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔

اور اسی کا اقتباس ہے ۔ آیتِ کریمہ میں اسی اصول کو قربانی کی مثال میں بیان کیا گیا ہے اور حدیث مبارکہ میں ہجرت کی مثال سے ۔

اصول عام ہے کوئی بھی عملِ خیر اور عبادت و طاعت ہو اس کا مدار نیت پر ہے ۔

اس آیتِ کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے دلوں میں عبادت و طاعت کی نیت اور ارادہ ہونے یا نہ ہونے کا اور جس مقصد کے لئے ہم وہ عبادت کر رہے ہیں اس کا حال الله جل شانہ کو خوب معلوم ہے ۔
اس لئے ہر اچھے قول و عمل اور عبادت و طاعت کے وقت اس کی نیت دل میں ضرور کرنی چاہئیے ۔ اور خالص الله جل شانہ کے لئے کرنی چاہئیے ۔
ذرا سوچئے ! ہم کتنے بڑے خسارے میں جارہے ہیں ۔ اس لئے سب سے اہم اور ضروری چیز جس سے ہم محروم ہیں اور جسے ہمیں سب سے پہلے حاصل کرنا چاہئیے ۔ یہی حقیقی اخلاص اور پوری توجہ کے ساتھ نیت اور عبادت کا ارادہ اور قصد ہے ۔

*نیت کا زبان سے کرنا ضروری نہیں بلکہ دل کا الله جل شانہ اور اس کی عبادت کی طرف پوری طرح متوجہ ہونا ضروری ہے ۔ اگر زبان سے بھی کہہ لے تو کوئی حرج نہیں ۔ خواہ عربی میں کہے یا اُردو میں یا کسی اور زبان میں*
الله جل جلالہ ہماری نیتوں کو صرف اور صرف اپنے لئے خالص فرما دے ۔۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
*حدیث نمبر~~~~2*

*حشر کے دن لوگ اپنی اپنی نیتوں پر اٹھیں گے*

اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی الله عنھا سے روایت ہے کہ :

مخبرِ صادق صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : (قیامت کے قریب ) ایک لشکر الله کے گھر ( کعبہ ) پر چڑھائیکرنے کے لئے نکلے گا جب وہ زمین کے کُھلے میدان میں پہنچے گا تو اس لشکر کے اگلے پچھلے سب لوگوں کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا ۔

حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنھا نے عرض کیا : یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم اگلے پچھلے سب لوگوں کو کیسے دھنسا دیا جائے گا ؟ ان میں دوکاندار بھی ہوں گے اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جو ان حملہ آوروں میں سے نہ ہوں گے ۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :اگلے پچھلے سب ہی لوگ دھنسا دئیے جائیں گے ۔ پھر اپنی اپنی نیت پر اٹھائے جائیں گے ۔

حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنھا کا پوچھنا حیرت کی وجہ سے ہے ۔ کہ سب تو جنگ کرنے نہیں آئے ہوں گے بلکہ ان کے ساتھ سودا سلف بیچنے والے اور نوکری چاکری کرنے والے بھی ہوں گے ۔ تو ایسے لوگ بلا قصور کیسے اور کیوں ہلاک کر دے جائیں گے ؟
تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : اس وقت تو مجرموں کے ساتھ ہونے کی وجہ سے سب ہلاک ہوں گے البتہ حشر کے دن اپنی اپنی نیت پر اٹھائے جائیں گے ۔ جو کعبے پر چڑھائی کرنے آئے تھے وہ تو مجرموں کے زمرے میں الگ اور جو اس نیت نیت سے نہیں آئے تھے وہ الگ کھڑے کئے جائیں گے ۔

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مجرموں بد کاروں اور گنہگاروں کے فقط ساتھ رہنا بھی عذابِ الٰہی اور قہرِ خداوندی میں گرفتار ہو جانے کا سبب بن جاتا ہے ۔ اگرچہ حشر کے دن آخرت کے عذاب سے کوئی اپنی نیت سے بچ بھی جائے ۔ اس لئے ایسے مجرموں اور گنہگاروں سے زیادہ سے زیادہ دور اور علیحدہ رہنا چاہئیے ۔

*مأخذ*

وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں گناہگار ہیں اور جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔

سورۃ انفال آیہ -25
 

ام اویس

محفلین
حدیث نمبر ~~~~ 3. *جہاد اور نیت*

*حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالی عنھا*سےروایت ہے کہ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ارشاد فرمایا : فتح کے بعد ہجرت تو باقی نہیں رہی ۔ لیکن جہاد اور نیت باقی ہیں ۔ جب بھی تمہیں جہاد کے لئے روانہ ہونے کی دعوت دی جائے تو فوراً روانہ ہو جاؤ ۔

*ھجرت*

مکہ معظمہ کے فتح ہونے سے پہلے مکہ سے مدینہ ھجرت کرنا فرض تھا ۔ اگر مکہ کا رہنے والا قدرت کے باوجود مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ھجرت نہیں کرتا تھا تو اس کا اسلام اور ایمان بھی معتبر نہ ہوتا تھا تھا ۔ لیکن مکہ کے فتح ہو جانے اور دار الاسلام بن جانے کے بعد یہ خاص ہجرت باقی نہیں رہی ۔ چنانچہ اب دار الکفر میں مسلمانوں کو اگر کفّار اسلامی عبادات اور احکامات پر عمل کرنے سے نہ روکیں تو ان کے لئے ھجرت کر کے اسلامی ملک میں جا کر آباد ہونا ضروری نہیں ۔ اس لئے ترکِ وطن (ھجرت ) فرض نہیں رہی ۔ یہی مطلب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اس فرمان کا ہے ۔

*جہاد*

لیکن اسلام اور کُفر کا مقابلہ اور مسلمانوں کی کافروں سے لڑائی اور اس کی تیاریاں رہتی دنیا تک باقی رہیں گی ۔

حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ۔ جہاد قیامت تک جاری رہے گا ۔ جہاد ، اس میں نیک نیتی کا اعتبار اور اس پر اجر وثواب ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گا ۔ اسی لئے جب کسی اسلامی ملک کا فرماں روا الله کی راہ میں کافروں سے جنگ کرنے کے لئے میدانِ جنگ جانے اور لڑنے کی دعوت دے تو حسب استطاعت ہر مسلمان کا ۔۔۔۔۔ خواہ وہ اس ملک کا باشندہ ہو یا کسی دوسرے اسلامی ملک کا ۔۔۔۔ فرض ہے کہ وہ محض الله جل جلالہ کے دین کی حفاظت کے لئے کفّار سے جنگ کرے ۔ سوائے ان معذور لوگوں کے جن کو الله جل شانہ نے خود اپنی رحمت سے معذور و مجبور قرار دیا ہے

*جہاد اسلام کی سب سے بڑی عبادت ہے*

فتح مکہ سے پہلے ھجرت اور جہاد ۔۔۔۔۔۔ اور اسکے بعد صرف جہاد اسلام کی سب سے اہم اور اجر و ثواب والی عبادتیں ہیں مگر ان دونوں کی الله جل شانہ کے ہاں مقبولیت اور اجرو ثواب ملنے کا دارو مدار صرف اخلاص اور نیت پر ہے اگر رضائے الٰہی کے علاوہ کسی بھی اور نیت سے کرے گا تو یہ عبادتیں بھی مردود ہیں ۔ اگر الله جل شانہ کے لئے کرے گا تو دنیا اور آخرت دونوں میں اجر عظیم پائے گا یہی اس حدیث کی اصل روح ہے ۔

*مأخذ*

يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ

اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔

سورۃ مائدہ آیہ ۔ 54
 

ام اویس

محفلین
*حدیث نمبر ~~~~~4~~5*

*اخلاص کے ساتھ کسی نیک کام کی صرف نیت کرنے پر عمل کا ثواب ملتا ہے* ۔۔۔

حضرت *جابر* رضی الله تعالی عنہ سے روایت کہ :

کہ ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں گئے ہوئے تھے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے خطاب کرکے فرمایا ۔ مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم نے جو بھی مسافت طے کی ہے ۔ اور جس وادی سے تم گزرے ہو ۔ وہ تمہارے ساتھ رہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو صرف دُکھ بیماری نے روک دیا ہے ۔

( ورنہ اُن کے دل جہاد میں شرکت کے لئے تڑپ رہے ہیں ۔ )

ایک رویت میں " تمہارے ساتھ ہیں " کے بجائے " وہ اجر میں تمہارے شریک ہیں " آیا ہے
صحیح مسلم

حضرت *انس* رضی الله تعالی فرماتے ہیں : کہ
ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ہمراہ غزوۂ تبوک سے واپس آرہے تھے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : بےشک
بہت سے وہ لوگ جن کو ہم مدینہ میں چھوڑ آئے ہیں ۔ جس گھاٹی سے ہم گزرے ہیں اور جس وادی کو ہم نے طے کیا ہے ۔ وہ لوگ اس میں ہمارے ساتھ رہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو مجبوری و معذوری نے بے بس کر دیا ہے ۔

*نیت کی اہمیت* :-

جو مجبور اور معذور لوگ کسی کار خیر مثلا حج ، جہاد ، صدقات و خیرات وغیرہ کا جذبہ صادق پختہ ارادے ونیت کے ساتھ رکھتے ہیں مگر مجبوری اور معذوری کی وجہ سے اس نیک کام کو کر نہیں سکتے ان کو بھی الله جل جلالہ اپنی رحمت سے اس نیک نیتی اور اخلاص کی وجہ سے ثواب عطا فرما دیتے ہیں ۔

ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ۔۔۔ جو شخص دل سے کسی نیک کام کی نیت کرتا ہے۔ تو ایک نیکی کا ثواب تو اسی وقت لکھ لیا جاتا ہے اور جب اس پر عمل کر لیتا ہے تو دس نیکیوں کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے ۔

نیک نیت خود ایک مستقل عبادت ، بندگی کا تقاضہ اور الله تعالی سے تعلق کی دلیل ہے ۔

ایک اور حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے : کہ آدمی کی نیت اُس کے عمل سے بہتر ہے ۔ ۔۔ اس لئے انسان کا فرض ہے کہ ایسے نیکی کے کام جو الله کریم کی رضا اور خوشنودی کا سبب ہیں ان پر عمل کرنے کی پختہ نیت کر لے ۔ اگرچہ ظاہری اسباب اور وسائل اُس کے اختیار میں نہ ہوں ۔ تاکہ اُن کاموں پر عمل کرنے کی سعادت اس کے حصہ میں نہ بھی آئے پھر بھی کسی نہ کسی درجہ میں ان کے اجر وثواب سے محروم نہ رہے ۔

خصوصا *جہاد* اس کے متعلق آپ صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد مبارکہ کا مفہوم ہے : کہ
جس مسلمان کے دل نے اس کو کبھی جہاد کے لئے بھی نہیں کہا اور اسی حالت میں وہ مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا ۔۔۔۔ العیاذ بالله

یعنی اس نے کبھی جہاد کی نیت بھی نہیں کی ۔۔۔
اس نیت ، جذبہ اور شوق سے تو سوائے بدبختی اور قسمت کی خرابی کے اور کوئی چیز نہیں روک سکتی ۔ کہ مفت کا اجر و ثواب ملتا ہے ۔
اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے دلوں کو دنیا کے فائدے اور خواہش و غرض نے اس قدر مردہ کر دیا ہے کہ بقول شاعر
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

یہ سب کچھ ایمان یعنی الله جل شانہ سے تعلق کی کمزوری کا نتیجہ ہے ۔ اس لئے جلد از جلد اور سب سے پہلے الله جل جلالہ سے اپنا تعلق اور رشتہ نئے سرے سے جوڑنا چاہئیے ۔ اور اس کو زیادہ سے زیادہ پختہ کرنا چاہئیے ۔ تاکہ الله تعالی ہمیں اس نیک نیتی اور نیک عملی کی سعادت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔۔۔۔ آمین
 

ام اویس

محفلین
*حدیث نمبر ~~~~ 6*

*باپ کا صدقہ بیٹے کو مل جائے تب بھی باپ کو اس کی نیت کا ثواب ضرور ملتا ہے*

حضرت *ابو یزید معن بن یزید* رضی الله تعالی عنہ سے مروی ہے ۔ کہ ایک بار میرے والد یزید نے صدقہ کرنے کے لئے کچھ دینار نکالے ۔ اور مسجد میں ایک آدمی کے پاس رکھ دیئے ۔ ( تاکہ اگر کوئی ضرورتمند آئے تو اسے دے دے ۔ اتفاق سے میں مسجد میں آیا تو اُس نے مجھے دے دئے ) ۔
میں نے لے لئے ۔ اور ان کو لے کر آیا اور والد صاحب کو بتایا ۔ انہوں نے کہا : و الله میں نے تجھے دینے کی نیت نہیں کی تھی ۔
میرے اور اُن کے درمیان بحث ہونے لگی ۔ ( میں کہتا کہ میں ضرورتمند ہوں اس لئے پہلے میرا حق ہے ۔ وہ کہتے ۔ میں نے تو صدقے کی نیت سے نکالے ہیں ۔ تو تو میری اولاد ہے ۔ تیری کفالت میرا فرض ہے ۔ اولاد کو صدقہ نہیں پہنچتا ) ۔ ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں فیصلہ کے لئے حاضر ہوئے ۔
تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : اے یزید تم نے جو صدقہ کی نیت سے یہ دینار نکالے ہیں اس کا ثواب تم کو ضرور ملے گا ۔ اور مجھ سے فرمایا : اے معن تم نے جو لیا وہ تمہارے لئے حلال ہے ۔

*اہل و عیال پر صدقہ کا حکم*

زکٰوۃ اور صدقاتِ واجبہ مثلاً صدقۂ فطر ، صدقۂ نذر وغیرہ تو اولاد کے لئے جائز نہیں البتہ نفل صدقات اکر صدقہ کی نیت سے ضرورتمند اور محتاج اولاد کو دے دئے جائیں تو ادا ہو جاتے ہیں ۔ بلکہ اس میں دوہرا ثواب ملتا ہے ۔ صدقہ کا بھی اور صلہ رحمی کا بھی ۔

*نیت کا پھل اور الله جل شانہ کی شانِ کریمی*

بظاہر حضرت یزید کے دینار گھر میں رہے مگر الله کریم نے محض ان کی نیت کی وجہ سے ان کو صدقہ کے اجر و ثواب سے سرفراز فرمادیا ۔
ہر مسلمان کو نفل صدقات صدقہ کی نیت سے سب سے پہلے اپنے محتاج اور ضرورتمند متعلقین اور رشتہ داروں کو دینے چاہئیے ۔ تاکہ صدقہ اور صلہ رحمی دونوں کا ثواب ملے ۔
اور دو عبادتیں ادا ہوں ۔ ایک الله جل جلالہ کی راہ میں صدقہ کرنا اور دوسرے صلہ رحمی ۔

*مأخذ*

وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ

سورۃ البقرہ ۔ ایہ ۔ 177

اس آیہ مبارکہ میں قرابت داروں کا حق سب سے پہلا رکھا گیا ہے ۔۔۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
*حدیث نمبر 7

*الله تعالی کی خوشنودی کی نیت سے انسان جو کچھ بھی خرچ کرے سب عبادت ھے*
*حتی کہ بیوی کے منہ میں نوالہ بھی اس نیت سے دے تو وہ بھی عبادت اور اجر و ثواب کا*
*موجب ھے*

حضرت سعد بن ابی وقاص جو ان دس صحابہ میں سے ایک ہیں جن کو ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دے دی گئی ۔ سے روایت ھے ۔
(۱۰ہجری میں ) حجۃ الوداع کے سال ( میں مکہ میں جاکر شدید بیمار ہوگیا) تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم فداہ ابی و امّی میری عیادت کے لئے میرے پاس تشریف لائے ۔
میں نے عرض کیا ۔۔۔ یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم !
آپ دیکھ رہے ہیں کہ میری بیماری خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے اور میں کافی مالدار ہوں اور میری صرف ایک بیٹی ھے ۔ تو کیا میں دو تہائی مال الله جل شانہ کی راہ میں صدقہ کر دوں ؟
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ! نہیں
میں نے عرض کیا : آدھا مال یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم ؟
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ! نہیں ۔
تو میں نے عرض کیا : ایک تہائی مال یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم ؟
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ! ہاں تہائی مال اور تہائی مال بھی بہت ھے ۔ یا فرمایا ! بڑا حصہ ھے ۔
اور فرمایا ! یاد رکھو ! بے شک تم اپنے وارثوں کو غنی اور مالدار چھوڑو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم اُن کو محتاج و مفلس چھوڑو ۔ کہ وہ ایک ایک کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔ اور بے شک تم الله جل شانہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے جو مال بھی خرچ کرو گے تمہیں ضرور اس کا اجر ملے گا ۔ یہانتک کہ تم اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ بھی دو ۔
اس پر سعد بن وقاص نے عرض کیا : تو کیا یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاؤں گا ؟
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : تم پیچھے رہ بھی گئے تو جو بھی نیک کام تم الله تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرو گے یقینا اس کی وجہ سے تمہارا درجہ زیادہ اور بلند ہو گا ۔ اور غالب تو یہی ہے کہ تم پیچھے رہو گے ۔ اور تمہاری ذات سے بہت سے لوگوں کو نفع پہنچے گا ۔ اور بہت سے لوگوں کو نقصان پہنچے گا ۔
( پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم دعا فرماتے ہیں )
اے الله ! تُو میرے اصحابہ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کو برقرار رکھنا ۔ اور ان کو پچھلی حالت پر نہ لَوٹانا ۔۔۔۔ لیکن قابلِ رحم تو ہے بے چارہ سعد بن خولہ ۔
راوی کہتے ہیں ۔ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا مقصد اس کلمہ سے سعد بن خولہ کی حالت پر افسوس اور رحم کا اظہار ہے کہ ان کی وفات مکہ میں ہو گئی ۔
(یعنی آپ کی دعا سے پہلے ان کی وفات ہو گئی اور وہ دعا سے فائدہ نہ اٹھا سکے )
مُتّفَق علیہ ۔

*مال کی دینی اہمیت*

تمام مالی عبادات و حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد مال الله کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ اور بڑی نعمت ھے ۔ الله سبحانہ تعالی کے احکام کے مطابق مال خرچ کرنا اس نعمت کا شکریہ اور الله تعالی کے وعدے کے مطابق مال کی زیادتی ، فراوانی اور برکت کا سبب ھے ۔ اور آخرت میں درجات کی بلندی کی وجہ ھے ۔ ایک مفلس اور غریب آدمی مال نہ ہونے کی وجہ سے ان سعادتوں سے محروم رہ جاتا ہے ۔

اسی لئے حدیث میں "مال " کو بہترین مددگار بتایا گیا ہے ۔

*مال دیکھ بھال کر خرچ کرنا چاہئیے*

جس شخص کو الله سبحانہ و تعالی نے مال دیا ہو اسے مال دیکھ بھال کر خرچ کرنا چاہئیے ۔ سارا مال ایک ہی دفعہ ۔۔۔ صدقہ یا خیرات ہی کیوں نہ ہو ۔۔ نہیں کرنا چاہئیے ۔ بلکہ تھوڑا تھوڑا بقدر ضرورت اپنی اور اھل خانہ و رشتہ داروں ، پڑوسیوں ، حاجتمندوں وغیرہ کی ضرورت میں لگانا چاہئیے ۔
یہاں تک کہ بیماری کی حالت میں آخری وقت سمجھتے ہوئے بھی مال کو صدقہ نہ کرے ۔ کہ ورثا کی حق تلفی ہو گی اور اگر بیماری سے بچ گیا تو خود مفلس ہو جائے گا ۔

ارشاد باری تعالی ھے ۔

وَلَا تَبْسُطْھَا کُلُّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْماً مّحْسُوراً

بنی اسرائیل ۔

تم اپنا ہاتھ بالکل ہی نہ کھول دو کہ تمہیں قابل ملامت اور بے دست وپا ہو کر بیٹھنا پڑے ۔

*بیوی کے منہ میں نوالہ دینا ۔۔ ثواب کی وجہ*

انسان اپنی نادانی کی وجہ سے بیوی بچوں کی دلجوئی کو اور اُن کی ضرورتیں پوری کرنے کو ایک طبعی بلکہ نفسانی تقاضہ سمجھتا ھے ۔ اور اجر عظیم سے محروم رہتا ھے ۔ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے بیوی کی دلجوئی اور اس کے حقوق کی ادائیگی کو الله تعالی کی خوشنودی اور اجر و ثواب کا موجب قرار دے کر اس کے عبادت و اطاعت ہونے سے آگاہ فرمایا ھے ۔

ایک موقع پر ایک صحابی نے حیرت سے کہا : یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایک شخص اپنی بیوی کا بوسہ لیتا ہے ۔ یہ بھی صدقہ ہے ؟
رحمت دوعالم صلی الله علیہ وسلم نے اس سے فرمایا :
اگر یہی بوسہ وہ کسی اجنبی عورت کا لے تو اس پر گناہ ہو گا یا نہیں ؟
صحابی نے عرض کیا ! ضرور ہو گا ۔
اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا !
( تو جب اس نے جائز جگہ اور طریقہ سے اپنی خواہش کو پورا کیا ) تو اس پر ضرور ثواب ملنا چاہئیے ۔

افسوس صد افسوس ہماری نادانی ، غفلت اور محرومی پر کہ ہم نیت کی درستی کا ذرا خیال نہیں کرتے ۔ اگر ہم اپنے تمام طبعی تقاضوں ، خواہشوں اور جائز کاموں اور عادی امور میں دل میں یہ نیت اور ارادہ رکھیں کہ یہ تمام کام ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ الله جل شانہ نے اپنی رحمت خاصہ سے ان کاموں کو ہمارے لئے حلال کیا ہے ۔ تو ہماری ساری زندگی عبادت اور ہماری ہر عادت اس کی اطاعت اور ہماری دنیا دین بن جائے گی ۔

سبحان الله کتنا آسان ہے دین کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا لیکن ہم اپنی لاپرواہی اور بے حسی کی وجہ سے اس سعادت سے محروم رہتے ہیں ۔

*مأخذ*

بیوی کی دلجوئی اور اس سے اچھا سلوک ۔۔۔

وَعَاشِرُوْھُنّ بِالْمَعْرُوف
اور ان سے اچھا سلوک کرو

اور بیوی کی ضروریات کی کفالت ۔۔۔۔

اَلرِّجَالُ قَوّامُوْنَ عَلی النّساَء
مرد عورتوں پر حاکم ہیں

اور اولاد کی ضروریات کی کفالت ۔۔۔۔

و علی الْمَوْلود لَہُ رِزْقُھُنَّ وکِسْوَتُھُنّ بِالْمَعرُوفِ
دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمّے ہو گا

سے ثابت ھے ۔
 

ام اویس

محفلین
امام نووی رحمۃ الله علیہ " ریاض الصّالحین " میں بیان کرتے ہیں ۔

علماء فرماتے ہیں

ہر گناہ سے توبہ کرنا لازمی ہے ۔

اگر گناہ صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کے درمیان ہے (کسی انسان کے حقوق سے متعلق نہیں) تو اس کے لئے تین شرطیں ہیں

ایک یہ کہ گناہ سے باز رہے۔

دوسری یہ کہ اس پر نادم ہو

تیسری شرط یہ کہ آئندہ اس میں مبتلا نہ ہونے کا پختہ ارادہ کرے۔

اگر ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو توبہ صحیح نہ ہو گی ۔

اور اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو اس (کی توبہ) کے لئے چار شرطیں ہیں۔

تین تو یہی مذکورہ بالا ۔

اور چوتھی شرط یہ ہے کہ صاحب حق کا حق ادا کرے۔ اگر مال وغیرہ لیا ہو تو واپس کر دے۔ اگر تہمت وغیرہ کا معاملہ ہو تو (نفاذ حد کے لئے) اپنے آپ کو اس کے قابو میں دے یا اس سے معافی مانگے۔ اگر غیبت ہے تو بھی معافی طلب کرے۔
نیز تمام گناہوں سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ لیکن اگر بعض گناہوں سے توبہ کی تو بھی اہل حق کے نزدیک توبہ صحیح ہے اور باقی گناہوں سے توبہ اس کے ذمہ باقی ہے۔
 

ام اویس

محفلین
حقوق اللہ کی تلافی کا مطلب یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد سے جن فرائض اور واجبات کو چھوڑا ہو ان کی ادائیگی کی جائے۔
نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ سب کی تلافی کرنا بہت ضروری ہے۔ زندگی میں جو نمازیں قصدا یا سہوا یا مرض اور سفر وغیرہ میں ادا کرنے سے رہ گئی ہوں ان سب کو پورے اہتمام سے ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ نماز کو کسی بھی حالت میں چھوڑا نہیں جا سکتا۔
ان نمازوں کی ادائیگی کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد جتنی نمازیں ادا کرنے سے رہ گئی ہوں۔ ان کی گنتی اور حساب لگا کر ان سب نمازوں کی قضا پڑھی جائے۔

اسی طرح بالغ ہونے کے بعد جتنے روزے رہ گئے ہوں یا سفر اور بیماری کی وجہ سے جتنے روزے چھوڑے ہوں۔ ان سب روزوں کا حساب کر کے سب کی قضا رکھے۔

عورتوں کو مجبوری کے دنوں کی نمازیں تو معاف ہیں لیکن ان دنوں کے فرض روزے جتنے چھوڑ دئیے جاتے ہیں ان کی بعد میں قضا ضروری ہے۔

زکوٰۃ بھی ہر صاحب حیثیت مسلمان پر فرض ہے جتنے سال کی زکوٰۃ ادا نہ کی ہو اس کا حساب لگا کر اسی قدر مال زکوٰۃ مستحقین زکوٰۃ کو دے دے۔

اسی طرح صدقہ فطر بھی واجب ہے اگر اس کی بھی ادائیگی نہ کی ہو تو وہ بھی ادا کر دیا جائے۔

حج بھی ہر صاحب استطاعت انسان پر فرض ہے اور فرض ہونے کے بعد جس نے حج نہ کیا تو وہ بھی گناہ گار ہو گا اس لئے جس طرح ممکن ہو اس فریضے کو ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔
 

ام اویس

محفلین
حقوق العباد کی تلافی

حقوق العباد کی تلافی کرنا بھی توبہ کے لوازم میں سے ہے۔
حقوق العباد کی تلافی سے مراد یہ ہے کہ بندوں کے جو حقوق ذمہ ہوں ان سب کو ادا کیا جائے۔ حقوق العباد دو قسم کے ہیں:

حقوق العباد کی پہلی قسم مالی حقوق کے متعلق ہے۔
مالی حقوق سے مراد یہ ہے کہ جو مال ناحق اور ناجائز ذرائع سے ملکیت میں آیا ہو، وہ سب اموال صاحب حق کو لوٹا دئیے جائیں۔

حقوق العباد کی دوسری قسم عزت و آبرو کے متعلق ہے۔

عزت و آبرو کے حقوق کی تلافی کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو ناحق مارا ہو یا گالی دی ہو تہمت لگائی ہو یا کسی کو ذہنی، جسمانی، روحانی اور قلبی تکلیف و اذیت پہنچائی ہو تو اس سے معافی مانگ کر اس کو راضی کر لے۔

حقوق العباد کا تعلق چونکہ انسانیت سے ہوتا ہے اور حقوق العباد صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے۔ صرف زبانی توبہ کرنا اور حقوق العباد کی تلافی نہ کرنا توبہ میں داخل نہیں اور ایسا شخص قیامت کے دن صریح گھاٹے میں رہے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

عن ابى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ قَبْلَ أَنْ لا يَكُونَ دِينَارٌ وَلا دِرْهَمٌ إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص پر کسی مسلمان بھائی کی آبروریزی یا کسی اور چیز کا حق ہو اسے چاہئے کہ اس دن سے پہلے اس سے معاف کروا لے جس روز اس کے پاس نہ درہم ہو گا نہ دینار اگر اس کے نیک عمل ہوں گے اس کے حق کے مطابق لے لئے جائیں گے اگر اس کی نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی برائیاں لے کر اس پر ڈال دی جائیں گی۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت یوں ہے:
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال
"أتدرون ما المفلس؟
" قالوا: المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع
فقال:" إن المفلس من أمتي من يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي وقد شتم هذا وقذف هذا وأكل مال هذا وسفك دم هذا و ضرب هذا فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته فإن فنيت حسناته قبل أن يقضي ما عليه أُخذ من خطاياهم فطرحت عليه ثم طرح في النار"۔

"حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت فرمایا کہ تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ہم تو اسے مفلس شمار کرتے ہیں جس کے پاس درہم اور مال و اسباب نہ ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بےشک میری اُمت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ، اور زکوٰۃ لے کر آئے گا اور اس حال میں بھی آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی اور کسی پر تہمت لگائی ہو گی اور کسی کا مال (ناحق) کھایا ہو گا اور کسی کا خوب بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا پس اس کی نیکیوں میں سے کچھ اس کو دے دی جائیں گی اور کچھ اس کو دے دی جائیں گی، اگر حقوق کی ادائیگی سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو حقوق والوں کے گناہ لے کر اس پر ڈال دئیے جائیں گے پھر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔"

ان احادیث سے واضح ہو جاتا ہے کہ حقوق العباد کا معاملہ بڑا سخت ہے۔ ہر انسان کو ان حقوق کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہئے اور توبہ کے ضابطے مکمل کرنا چاہئیں۔
 
Top