عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ!

arifkarim

معطل
nasif-awan-new.jpg


عمران خان کے پلان ’’سی‘‘ کے اعلان کے بعد حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچ چکی ہے۔ وہ پی ٹی آئی کی اس احتجاجی حکمت عملی کو ناکام بنانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ شہر شہر مظاہرے اور ہنگامے انہیں بے بس بھی کر سکتے ہیں لہٰذا وہ تاجر و سماجی تنظیموں سے رابطے کر رہے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے کسی مظاہرے میں شریک نہ ہوں۔ اگرچہ وہ اس میں ایک حد تک کامیاب دکھائی دے رہے ہیں مگر کیا اس سے احتجاج نہیں ہو گا، تحریک انصاف کے کارکن اور ووٹرز باہر نہیں نکلیں گے وہ ہر صورت سڑکوں پر آئیں گے۔ چوک چوراہوں میں آکر حکومت اور اس کے اتحادیوں کے خلاف نعرے لگائیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں سمجھتے ہیں کہ حکومت نے طویل ترین پر امن احتجاج کے باوجود بھی ان کی کوئی نہیں سنی لہٰذا اب ان کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ وہ شاہراہوں پر آ کر اسے اپنی طرف متوجہ کر یں۔ اگرچہ اس نے مذاکرات کا بھی عندیہ دیا ہے مگر مذاکرات تو پہلے بھی ہوئے تھے مگر ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا تھا کیونکہ حکومت سنجیدہ نہیں تھی اس کا مقصد خود کو سنبھالا دینا تھا اور دھرنے کو طوالت دے کر اس کے شرکا کوتھکانا تھا اب شاید وہ ایسا نہ کر سکے گی کہ تحریک انصاف کے قائدین و کارکنان کو اس کی سیاسی چال کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے لہٰذا وہ کچھ لو اور کچھ دو کی پوزیشن میں نظر آ رہی ہے مگر وہ اور تحریک انصاف دونوں غیر یقینی کی صورت حال سے دو چار ہیں۔ عدم اعتماد کی فضا قائم ہے لہٰذا وہ اپنے اپنے پروگرام سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے کہ پی ٹی آئی بھرپور احتجاج کرے گی اور حکومت روکے گی جس کے لیے اس نے پولیس اور رینجرز کو الرٹ کر دیا ہے۔ بہرحال تحریک انصا ف اپنا احتجاج جاری رکھے گی کیونکہ اس کے کارکنوں نے واضح طور سے کہہ دیا ہے کہ اگر اس سے عمران خان پیچھے ہٹیں گے تو وہ کچھ سوچنے پر مجبور ہوں گے اس میں وہ حق بجانب ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنا ختم کر دیا جبکہ وہ لاہور سے یہ عزم لے کر چلے تھے کہ انقلاب یا شہادت لہٰذا جب وہ اسلام آباد سے واپس آ گئے تو ان کے پیروکاروں اور کارکنوں نے اس بات کاسخت برا منایا یہاں تک کہ بہت سے کارکن عوامی تحریک کو چھوڑےئے لہٰذا تحریک انصاف کے کارکنوں میں بھی یہی سوچ پائی جاتی ہے کہ عمران خان نے انہیں پہلے وزیراعظم کے استعفیٰ کے لیے جدوجہد کرنے کو کہا اور اب انصاف کے حصول تک جاری رکھنے کا حکم دیا ہے اور اگر وہ اپنے پروگرام کو ملتوی کرتے ہیں تو انہیں سخت مایوسی ہو گی پھر ان کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ جوان سے متعلق مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادی کہہ رہے تھے کہیں سچ ہی تو نہیں۔۔۔؟ اس تناظر میں دیکھتے ہوئے لگ یہ رہا ہے کہ عمران خان اپنا مقصد حاصل کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے اور پھر حکومت بھی محض انہیں مذاکراتی عمل میں الجھانے کی کوشش کے بجائے کسی حل کی جانب آئے گی وگرنہ صورت حال اس کے اور سب کے سامنے ہے کہ ظلم و زیادتی کے اس دور میں عوام میں مزید غم و غصہ جنم لے گا بلکہ لے رہا ہے۔۔۔ بے شک حکومت نے پٹرول کی قیمتیں کم کر دی ہیں اور اگلے ماہ مزید کم کر دے گی مگر اس میں کمی دانائی و کمال نہیں یہ تو عالمی سطح پر ہوا ہے اور ادھر تو چالیس فیصد قیمتوں میں کمی آئی ہے مگر یہاں تیس فیصد کی گئی ہے جن کا خاطر خواہ عوام کو فائدہ نہیں پہنچا کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں وہیں کی وہیں ہیں اور میں یہ بھی عرض کردوں اگر تیل دوبارہ مہنگا ہو گیا تو حکومت کو بھی ایسا کرنا پڑے گا۔ اصل مسائل اور ہیں کہ سستے انصاف، تھانوں، پٹوار خانوں، قرضہ معاف کرانے والوں، سود خوروں، قبضہ گروپوں اور کمیشن خوروں سے متعلق سوچ بچار کی جائے۔ اس ملک کو جاگیرداریت اور سرمایہ داریت سے نجات دلائی جائے۔ کرپشن کے عفریت کو قابو میں کیا جائے۔ سرکاری اداروں کی جنگی بنیادوں پر اصلاح کی جائے تب جا کر حالات تبدیل ہوں گے۔ یہ تیل کی قیمتیں کم کر کے عوام کے مسائل کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔۔۔ آج نہیں تو کل یہ تیل فی لٹر ایک سو روپے سے زائد فروخت ہو گا۔ یہی کچھ عمران خان عوام کو بتار ہے ہیں سمجھا رہے مگر حکومتی عہدیدار اس کا برا منا رہے ہیں ۔ ایک جذباتی صحافی نے انہیں غیر ملکیوں کا آلہ کار تک کہہ ڈالا ہے۔ انہیں کم عقل کہنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جا رہی۔ ایک وزیر با تدبیر تو انہیں ہرگالی دے چکے ہیں۔ آصف علی زرداری نے پی ٹی آئی کے چیئر مین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو ابھی سیاست جانتے ہی نہیں۔۔۔ ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا یہی سیاست ہے کہ آپ کو پانچ برس حکمرانی کے لیے ملیں گے آپ عوام کی خدمت کرنے کے بجائے انہیں اذیت میں مبتلا کر دیں جس کی وجہ سے وہ پی پی پی سے سخت نفرت کرنے لگیں اور اسے سندھ تک محدود کر دیں۔ پانچ برس اقتدار میں رہنا کوئی سیاست نہیں کہ اس دوران ملک کو قرضوں کے شکنجے میں جکڑ دیا گیا۔ لوڈشیڈنگ سے لے کر مہنگائی تک کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کی سعی نہیں کی گئی ۔ یہ دیکھ کر عوام مایوسیوں کے صحرا میں بھٹکنے لگے۔ عمران خان ہی تو سیاستدان ہیں جنہیں نے عوام کو حوصلہ دیا ہے ہمت دی ہے انہیں خوف سے چھٹکارا دلایا ہے اپنے حق کے حصول کے لیے ڈٹ جانا سکھایا ہے۔ لہٰذا آصف علی زرداری کی سیاست، سیاست نہیں ریاکاری ہے اس سے عمران خان دور بھاگتے ہیں کیونکہ انہیں عوام سے ہمدردی ہے ، محبت ہے۔ اسی لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ تحریک انصاف میں عوام جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں اور اسی لیے ہی ’’حالت موجود‘‘ برقرار رکھنے والی تمام سیاسی جماعتیں اس کے خلاف ہو گئی ہیں اور خود کو جمہوریت کا چیمپئن سمجھ رہی ہیں۔ تحریک انصاف ابھی ان کے نزدیک نو آموز ہے۔ اسے سیاست کا کچھ علم نہیں۔ تو پھر کیوں اس سے سب خائف ہیں اور کیوں اتحاد کر لیا ہے۔ انہیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ پاکستان تحریک انصاف ایک دوسری بڑی سیاسی جماعت بن چکی ہے جسے نظر انداز کرنا ان کے بس میں نہیں۔ عمران خان عوام کے دل و دماغ پر چھا گئے ہیں کیونکہ وہ وہی کچھ کرنا چاہتے ہیں جو عوام کی خواہش ہے لہٰذا انہیں کوئی جو مرضی کہے وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ان کے مطالبات غیر آئینی ہیں نہ غیر قانونی۔ان کا پر امن احتجاج بھی آئینی ہے لہٰذا حکومت کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اور اسے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے آج جو ملکی حالات ہیں اس کے پیدا کردہ ہیں اگر وہ چار حلقوں کی جانچ پڑتال کر لیتی تو سب دریا معمول کے مطابق بہنا تھے اب اگر ان میں طغیانی آ گئی ہے تو اس میں عمران خان کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
ماخذ
قیصرانی ایچ اے خان ناصر علی مرزا نایاب کاشفی حسینی انیس الرحمن محمود احمد غزنوی زرقا مفتی صائمہ شاہ عبدالقیوم چوہدری عباس اعوان محمداحمد ابن رضا عمار ابن ضیا منقب سید سید ذیشان اوشو امجد میانداد محمد خلیل الرحمٰن خالد محمود چوہدری واجدحسین یوسف-2 منصور
 
Top