نوید ملک
محفلین
پہنچ جائےگا تو وہ باہر نکلے گا۔ اور جہاز والے بالاخر اسے رکابیاں دھونے پر ملازم رکھ لیں گے حتٰی کہ جہاز بصرہ کی بندرگاہ میں لنگر انداز ہو جائے گا ۔جیسے اس کے ایک عزیز نے کیا تھا۔
لیکن یہ دلچسپ تفصیلات سوچنے کے بعد وہ گھر لوٹ آیا ۔ اس میں بھاگ جانے کی جرات نہ تھی۔لیکن اسکا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ بھاگ جانے کی تفصیلات بھی نہ سوچے۔جب وہ گھر واپس پہنچا تو علی احمد اسکا انتظار کر رہے تھے۔“غلام محمد“ انہوں نے نوکر کو آواز دی۔“ایلی کو ڈاکٹر رام داس کے پاس لے جاو“ ڈاکٹر سے دوا لگوانے کے بعد وہ چارپائی پر لیٹ کر فیصلہ کرتا رہا کہ وہ دولت پور کے کالج میں داخل نہیں ہو گا چاہے کچھ ہو جائے لیکن تیسرے روز جب علی احمد نے اپنے ہیڈ کلرک کے ساتھ اسے دولت پور کینٹ کالج میں داخل ہونے کیلئے بھیجا تو وہ یوں چپکے سے اسکے ساتھ چل پڑا۔جیسے دولت پور کالج میں داخل نہ ہونے کا اس نے فیصلہ ہی نہ کیا ہو۔
چند ایک روز تو ایلی چبارے کے ان دونوں کمروں میں پریشان حال گھومتا رہا پھر قانع ہو کر اطمینان سے بیٹھ گیا۔جب شام کے وقت شمیم کھانا پکانے لگتی اور ناظمہ حوائج میں مصروف ہو جاتی اور انجم کی ناک بہتی تو وہ چپکے سے باہر نکل جاتااور دولت پور کی گلیوں میں گھومتے ہوئے سوچتا کہ یہ مکان سیٹھ گردھاری لال کا تو نہیں اور یہ لڑکی جو کھڑکی میں کھڑی ہے۔دولت ہور کا نیا فتنہ ہےیا سلفے کی چلم۔
وہ یونہی گھومتا رہتا تاکہ وہ شمیم کو کھانا پکاتے ہوئے نہ دیکھے۔ کھانا کھاتے ہوئے وہ سوچنے لگتا کہ کس طرح وہ جہاز میں چھپنے میں کامیاب ہو سکے گا ۔ اور پھر کس طرح جہاز کا کپتان اسے رکابیاں دھونے پر نوکر رکھنا منظور کر لے گا اور پھر بصرہ کی بندرگاہ میں کس طرح سے چوری چوری جہاز سے اترے گا۔ وہ مسلسل طور پر کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا تاکہ کھانے کے دوران یہ خیال نہ آئے کہ یہ وہی کھانا ہے جسے شمیم نے پکایا ہے۔
جمعہ شاہ
پھر ایک روز علی احمد کے یہاں بالا اور اسکی چچی آ گئے۔ آگے آگے بالا تھا۔ اور اسکے ہاتھ میں سوٹ کیس تھا اور اسکے پیچھے اسکی چچی دیواروں کا سہارا لیتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔
“سلام کہتا ہوں جی۔“ بالا شمیم سے مخاطب ہو کر بولا “ اپنے پھوپھا جان کہاں گئے ہیں ۔ ہوں گے! ہوں گے باہر سیر کو۔ ہائیں ایلی بھائی بھی یہاں ہیں۔ مزاج تو بخیر ہے نا۔شکر اللہ کا میں تو بالکل خیریت سے ہوں ہاں “۔ وہ اپنے آپ سے باتیں کئے جا رہا تھا جیسا کہ اسکی عادت تھی۔ خود ہی سوال کرتا ۔ پھر خود ہی اسکا جواب دینے لگتا۔ اسکی نگاہیں نہ جانے کس طرف دیکھنے میں کھوئی رہتی تھیں۔ جیسے دیوار کے پار کچھ دیکھ رہا ہو۔ اسکی چچی بالا کی طرف دیکھنے میں کھوئی رہتی جیسے ڈرتی ہو کہ کہیں بالا اسکی نگاہ سے اوجھل ہونے دیا گیا تو وہ پراسرار طریقے سے گم ہو جائے گا۔
جلد ہی شمیم اور ایلی کو معلوم ہو گیا کہ بالا اور اسکی چچی وہاں دو ایک مہینے ٹھہرنے کیلئے آئے تھے۔ کیونکہ انکا خیال تھا کہ شاید علی احمد کے زیراثر رہنے سےبالا میں دسویں پاس کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ اگرچہ علی احمد نے انکی آمد پر خوشی کا اظہار کیا تھا مگر ان کے انداز سے ظاہر تھا کہ انہیں قطعی طور پر خوشی نہیں ہوئی بلکہ انکے آنے سے کوفت محسوس ہو رہی تھی۔
بالا اپنے جواہرات کے ڈبے کھول کے بیٹھ جاتا۔ “یہ دیکھو ایلی ۔۔۔۔۔۔“ وہ اسے اکساتا ۔ “یہ نیلم جو ہے یہ کوہ سفید کے سوا اور کسی جگہ سے نہیں ملتا ہاں۔ کیونکہ وہی ایک پہاڑ ہے جہاں پریوں کی آمدورفت رہتی ہے۔ پریوں کو نیلم سے محبت ہوتی ہے۔ ہاں۔ پھر جب چودھویں رات کا چاند چمکتا ہے نا تو اس کا رنگ اور بھی گہرا ہو جاتا ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔“
ایلی کو اب بالا کے قیمتی پتھروں سے وہ دلچسپی نہ تھی جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی ۔ ایلی اسکی باتیں سن کر مسکراتا اور پھر سوچتا کہ کس طرح بالا کے طلسمی پتھروں سے مخلصی پائے لیکن اعلانیہ بالا کی بات کاٹ کر چلے جانا یہ اس کے لئے ممکن نہ تھا ۔ بہرحال وہ بالا کی باتیں سنتا جمائیاں لیتا اور نہ سننے کی آرزو کرتا۔
پھر دفعتاً بالا اٹھ بیٹھتا اور آپ ہی آپ بڑبڑانے لگتا۔ جیسے اسے کوئی بلا رہا ہو۔ “ ابھی آتا ہوں۔ بھئی۔ ابھی آیا میں۔ وہ بلا رہے ہیں نہ مجھے۔“ اسکے اشاروں میں رازدارانہ اور پراسرار انداز جھلکتا۔ اسکی مسکرائٹ میں احساس برتری کی جھلک ہوتی۔ جیسے وہ حالات کو بہتر طور پر سمجھتا ہو جیسے وہ فطرت کے راز سے کماحقہ واقف ہو۔ “ذرا انتظار کرو میں ہو آوں ۔“ وہ ایلی سے کہتا اور پھر چپ چاپ کوٹھے کی سیڑھیاں چڑھنے لگتا۔ اسکے جانے کے بعد کوٹھے سے زیر لب باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دیتیں۔ پھر وہ لوٹ آتا لیکن سیڑھیاں اترتے وقت دفعتاً رکتاجیسے کسی نے اسے پھر بلایا ہو اور نہ جانے کس سے مخاطب ہو کر کہتا۔ “ نہیں نہیں یوں نہیں۔ جیسے میں نے کہا اسے پھر بلایا ہو اور نہ جانے کس سے مخاطب ہو کر کہتا ۔“ نہیں نہیں یوں نہیں۔ جیسے میں نے کہا تھا ویسے۔“ اور پھر مسکراتا ہوا نیچے اتر آتا۔ شمیم اور ایلی حیرانی سے اسکی طرف دیکھتے رہتے۔ اسے آتا دیکھ کر شمیم گھبرا کر اٹھ بیٹھتی اور انجم کو کلیجے سے لگا کر ناطمہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر گویا انہیں محفوظ کر لیتی۔
پھر وہ گھبرا کر پوچھتی۔“بالا تم کس سے باتیں کیا کرتے ہو۔“
بالا مسکرا دیتا ہے۔ “ آپ نہیں جانتی پھوپھی۔ آپ انہیں نہیں جانتیں۔ اپنی ہی ہیں وہ۔ بڑے اچھے ہیں بیچارے“۔
بالا جواب دیتا۔ “ کہاں نہیں ہیں۔ ان کے لئے کوئی حد مقرر نہیں وہ ہر جگہ موجود ہیں۔ ہر مکان میں جنگل میں میدان میں۔ لیکن بڑے اچھے ہیں وہ بچارے بار بار مجھے بلا لیتے ہیں۔ ہی ہی ہی۔“ وہ ہنستا۔
“ اس وقت تو اپنے جمعہ شاہ کو نہیں جانتے بڑے زبردست ہیں وہ جو چاہیں کر لیں۔ جو چاہیں جسے چاہیں بلا لیں تو یہ بھئی کس میں ہمت ہے کہ انکی بات رد کرے۔ لیکن میں ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسنے لگتا“ میری اور بات ہے۔ میرا ہم زاد بڑا زبردست ہے نا۔ اس لئے۔ لیکن تمہیں کیا معلوم پھوپھی میں نے کہی بات انہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔“
اور بالا اسی طرح ایک قصہ چھیڑ دیتا۔ جس کے دوران وہ بار بار مسکراتا اور انہیں یوں سمجھانے کی کوشش کرتا جیسے دونوں بچے ہوں پھر جب رات پڑ جاتی تو وہ کتاب سامنے رکھ کر دیوار کے پار دیکھنے میں مصروف ہو جاتا۔ اسکی نگاہوں میں عجیب قسم کی دیوانگی جھلکتی۔
ایلی کو بالا کی طرف دیکھ کر ڈر لگتا تھا۔ اس لئے وہ کوشش کیا کرتا کہ اسکی طرف نہ دیکھے۔ دوسری جانب بالا کی چچی یوں بیٹھی رہتی جیسے کپڑوں کی گٹھڑی پر کسی ڈائن کا سر کاٹ کر رکھ دیا گیا ہو۔ اسکی نگاہیں بالا پر مرکوز رہتیں اور وہ مسلسل طور پر پیار بھری سیاہ دار نگاہوں سے اسے گھورتی رہتی۔ حتٰی کہ بالا کی آنکھیں بند ہو جاتیں اور سر کتاب پہ جھک جاتا اور ٹانگیں
لیکن یہ دلچسپ تفصیلات سوچنے کے بعد وہ گھر لوٹ آیا ۔ اس میں بھاگ جانے کی جرات نہ تھی۔لیکن اسکا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ بھاگ جانے کی تفصیلات بھی نہ سوچے۔جب وہ گھر واپس پہنچا تو علی احمد اسکا انتظار کر رہے تھے۔“غلام محمد“ انہوں نے نوکر کو آواز دی۔“ایلی کو ڈاکٹر رام داس کے پاس لے جاو“ ڈاکٹر سے دوا لگوانے کے بعد وہ چارپائی پر لیٹ کر فیصلہ کرتا رہا کہ وہ دولت پور کے کالج میں داخل نہیں ہو گا چاہے کچھ ہو جائے لیکن تیسرے روز جب علی احمد نے اپنے ہیڈ کلرک کے ساتھ اسے دولت پور کینٹ کالج میں داخل ہونے کیلئے بھیجا تو وہ یوں چپکے سے اسکے ساتھ چل پڑا۔جیسے دولت پور کالج میں داخل نہ ہونے کا اس نے فیصلہ ہی نہ کیا ہو۔
چند ایک روز تو ایلی چبارے کے ان دونوں کمروں میں پریشان حال گھومتا رہا پھر قانع ہو کر اطمینان سے بیٹھ گیا۔جب شام کے وقت شمیم کھانا پکانے لگتی اور ناظمہ حوائج میں مصروف ہو جاتی اور انجم کی ناک بہتی تو وہ چپکے سے باہر نکل جاتااور دولت پور کی گلیوں میں گھومتے ہوئے سوچتا کہ یہ مکان سیٹھ گردھاری لال کا تو نہیں اور یہ لڑکی جو کھڑکی میں کھڑی ہے۔دولت ہور کا نیا فتنہ ہےیا سلفے کی چلم۔
وہ یونہی گھومتا رہتا تاکہ وہ شمیم کو کھانا پکاتے ہوئے نہ دیکھے۔ کھانا کھاتے ہوئے وہ سوچنے لگتا کہ کس طرح وہ جہاز میں چھپنے میں کامیاب ہو سکے گا ۔ اور پھر کس طرح جہاز کا کپتان اسے رکابیاں دھونے پر نوکر رکھنا منظور کر لے گا اور پھر بصرہ کی بندرگاہ میں کس طرح سے چوری چوری جہاز سے اترے گا۔ وہ مسلسل طور پر کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا تاکہ کھانے کے دوران یہ خیال نہ آئے کہ یہ وہی کھانا ہے جسے شمیم نے پکایا ہے۔
جمعہ شاہ
پھر ایک روز علی احمد کے یہاں بالا اور اسکی چچی آ گئے۔ آگے آگے بالا تھا۔ اور اسکے ہاتھ میں سوٹ کیس تھا اور اسکے پیچھے اسکی چچی دیواروں کا سہارا لیتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔
“سلام کہتا ہوں جی۔“ بالا شمیم سے مخاطب ہو کر بولا “ اپنے پھوپھا جان کہاں گئے ہیں ۔ ہوں گے! ہوں گے باہر سیر کو۔ ہائیں ایلی بھائی بھی یہاں ہیں۔ مزاج تو بخیر ہے نا۔شکر اللہ کا میں تو بالکل خیریت سے ہوں ہاں “۔ وہ اپنے آپ سے باتیں کئے جا رہا تھا جیسا کہ اسکی عادت تھی۔ خود ہی سوال کرتا ۔ پھر خود ہی اسکا جواب دینے لگتا۔ اسکی نگاہیں نہ جانے کس طرف دیکھنے میں کھوئی رہتی تھیں۔ جیسے دیوار کے پار کچھ دیکھ رہا ہو۔ اسکی چچی بالا کی طرف دیکھنے میں کھوئی رہتی جیسے ڈرتی ہو کہ کہیں بالا اسکی نگاہ سے اوجھل ہونے دیا گیا تو وہ پراسرار طریقے سے گم ہو جائے گا۔
جلد ہی شمیم اور ایلی کو معلوم ہو گیا کہ بالا اور اسکی چچی وہاں دو ایک مہینے ٹھہرنے کیلئے آئے تھے۔ کیونکہ انکا خیال تھا کہ شاید علی احمد کے زیراثر رہنے سےبالا میں دسویں پاس کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ اگرچہ علی احمد نے انکی آمد پر خوشی کا اظہار کیا تھا مگر ان کے انداز سے ظاہر تھا کہ انہیں قطعی طور پر خوشی نہیں ہوئی بلکہ انکے آنے سے کوفت محسوس ہو رہی تھی۔
بالا اپنے جواہرات کے ڈبے کھول کے بیٹھ جاتا۔ “یہ دیکھو ایلی ۔۔۔۔۔۔“ وہ اسے اکساتا ۔ “یہ نیلم جو ہے یہ کوہ سفید کے سوا اور کسی جگہ سے نہیں ملتا ہاں۔ کیونکہ وہی ایک پہاڑ ہے جہاں پریوں کی آمدورفت رہتی ہے۔ پریوں کو نیلم سے محبت ہوتی ہے۔ ہاں۔ پھر جب چودھویں رات کا چاند چمکتا ہے نا تو اس کا رنگ اور بھی گہرا ہو جاتا ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔“
ایلی کو اب بالا کے قیمتی پتھروں سے وہ دلچسپی نہ تھی جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی ۔ ایلی اسکی باتیں سن کر مسکراتا اور پھر سوچتا کہ کس طرح بالا کے طلسمی پتھروں سے مخلصی پائے لیکن اعلانیہ بالا کی بات کاٹ کر چلے جانا یہ اس کے لئے ممکن نہ تھا ۔ بہرحال وہ بالا کی باتیں سنتا جمائیاں لیتا اور نہ سننے کی آرزو کرتا۔
پھر دفعتاً بالا اٹھ بیٹھتا اور آپ ہی آپ بڑبڑانے لگتا۔ جیسے اسے کوئی بلا رہا ہو۔ “ ابھی آتا ہوں۔ بھئی۔ ابھی آیا میں۔ وہ بلا رہے ہیں نہ مجھے۔“ اسکے اشاروں میں رازدارانہ اور پراسرار انداز جھلکتا۔ اسکی مسکرائٹ میں احساس برتری کی جھلک ہوتی۔ جیسے وہ حالات کو بہتر طور پر سمجھتا ہو جیسے وہ فطرت کے راز سے کماحقہ واقف ہو۔ “ذرا انتظار کرو میں ہو آوں ۔“ وہ ایلی سے کہتا اور پھر چپ چاپ کوٹھے کی سیڑھیاں چڑھنے لگتا۔ اسکے جانے کے بعد کوٹھے سے زیر لب باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دیتیں۔ پھر وہ لوٹ آتا لیکن سیڑھیاں اترتے وقت دفعتاً رکتاجیسے کسی نے اسے پھر بلایا ہو اور نہ جانے کس سے مخاطب ہو کر کہتا۔ “ نہیں نہیں یوں نہیں۔ جیسے میں نے کہا اسے پھر بلایا ہو اور نہ جانے کس سے مخاطب ہو کر کہتا ۔“ نہیں نہیں یوں نہیں۔ جیسے میں نے کہا تھا ویسے۔“ اور پھر مسکراتا ہوا نیچے اتر آتا۔ شمیم اور ایلی حیرانی سے اسکی طرف دیکھتے رہتے۔ اسے آتا دیکھ کر شمیم گھبرا کر اٹھ بیٹھتی اور انجم کو کلیجے سے لگا کر ناطمہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر گویا انہیں محفوظ کر لیتی۔
پھر وہ گھبرا کر پوچھتی۔“بالا تم کس سے باتیں کیا کرتے ہو۔“
بالا مسکرا دیتا ہے۔ “ آپ نہیں جانتی پھوپھی۔ آپ انہیں نہیں جانتیں۔ اپنی ہی ہیں وہ۔ بڑے اچھے ہیں بیچارے“۔
بالا جواب دیتا۔ “ کہاں نہیں ہیں۔ ان کے لئے کوئی حد مقرر نہیں وہ ہر جگہ موجود ہیں۔ ہر مکان میں جنگل میں میدان میں۔ لیکن بڑے اچھے ہیں وہ بچارے بار بار مجھے بلا لیتے ہیں۔ ہی ہی ہی۔“ وہ ہنستا۔
“ اس وقت تو اپنے جمعہ شاہ کو نہیں جانتے بڑے زبردست ہیں وہ جو چاہیں کر لیں۔ جو چاہیں جسے چاہیں بلا لیں تو یہ بھئی کس میں ہمت ہے کہ انکی بات رد کرے۔ لیکن میں ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسنے لگتا“ میری اور بات ہے۔ میرا ہم زاد بڑا زبردست ہے نا۔ اس لئے۔ لیکن تمہیں کیا معلوم پھوپھی میں نے کہی بات انہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔“
اور بالا اسی طرح ایک قصہ چھیڑ دیتا۔ جس کے دوران وہ بار بار مسکراتا اور انہیں یوں سمجھانے کی کوشش کرتا جیسے دونوں بچے ہوں پھر جب رات پڑ جاتی تو وہ کتاب سامنے رکھ کر دیوار کے پار دیکھنے میں مصروف ہو جاتا۔ اسکی نگاہوں میں عجیب قسم کی دیوانگی جھلکتی۔
ایلی کو بالا کی طرف دیکھ کر ڈر لگتا تھا۔ اس لئے وہ کوشش کیا کرتا کہ اسکی طرف نہ دیکھے۔ دوسری جانب بالا کی چچی یوں بیٹھی رہتی جیسے کپڑوں کی گٹھڑی پر کسی ڈائن کا سر کاٹ کر رکھ دیا گیا ہو۔ اسکی نگاہیں بالا پر مرکوز رہتیں اور وہ مسلسل طور پر پیار بھری سیاہ دار نگاہوں سے اسے گھورتی رہتی۔ حتٰی کہ بالا کی آنکھیں بند ہو جاتیں اور سر کتاب پہ جھک جاتا اور ٹانگیں