علی زریون کی "کلاسیک"

سیما علی

لائبریرین
غالبؔ و آتشؔ و تہذیب و علی ایک ہوئے
ریختہ ڈاٹ پہ پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
(اقبالؒ کی روح سے معذرت)

حافی کے لیے شاید یہی کافی ہو۔ پھر یہ ؎

میں اس کو ہر روز بس یہی ایک جھوٹ سننے کو فون کرتا
سنو یہاں کوئی مسئلہ ہے تمہاری آواز کٹ رہی ہے
 

سیما علی

لائبریرین
تہذیب حافی کی یہ نظم بھی دیکھیں اور بچپن کا ایک کھیل بھی یاد کر لیں۔

تیرے ہونٹوں پہ مکڑی کے جالوں کے جمنے کا دکھ تو
بہرحال مجھ کو ہمیشہ رہے گا
تو نے چپ ہی اگر سادھنی تھی
تو اظہار ہی کیوں کیا تھا؟
یہ تو ایسے ہے بچپن میں جیسے کہیں کھیلتے کھیلتے
کوئی کسی کو سٹیچو کہے
اور پھر عمر بھر اس کو مڑ کر نہ دیکھے۔۔۔
 
Top