علی اکبر ناطق ۔۔۔۔یہ آگ پیتا ہوا زمانہ

فیصل عزیز

محفلین
یہ آگ پیتا ہوا زمانہ

یہ آگ پیتا ہوا زمانہ
فریب دیتا ہے زندگی کو
کھلی فضاوْں میں سانس لینے پہ عیب رکھتا ہے
سبز شاخوں کے نرم ریشے جلا رہا ہے
یہ آگ پیتا ہوا زمانہ
دھواں بنانے کے ماہروں نے وہ سحر پھونکے ہیں آدمی پر
کہ مول لیتے ہیں آگ موجِ صبا کے بدلے
گھٹن کی غاریں ہوا کے بدلے
عجب حماقت زدہ یہ انساں
گلابی رنگوں کو کاٹتا ہے
گداز سینے میں چھید کرتاہے
زہر دل میں اُتارتا ہے
اسے ہواوْں سے دشمنی ہے
حیات رنگوں کو دینے والی کھلی فضاوْں سے دشمنی ہے
غلیظ مادے کو شعلہ دے کر کشید کرتا ہے تیز بدبو
اسے کثافت کی جستجو ہے
جو نیل سرخی میں گھول دیتی ہے
راکھ خلیوں میں پھینکتی ہے
 
Top