علم الحیوانیات کا مطالعہ ۔۔ زوالوجی (دوسری قسط)

پہلی قسط
پچھلے دھاگے میں ہم نے دو طرح کے رویوں کے بارے میں جانا تھا آج ہم جانیں گے کہ ان رویوں کا کس کس نے کب کب مشاہدہ کیا تھا اور اس مشاہدے سے اس نے کیا نتیجہ نکالا تھا۔

تاریخی لحاظ سے جانووروں کے رویوں کا تذکرہ ہمیں مغربی فلسفیانہ روایات میں ملتا ہے۔ اس حوالے سے جو سب سے پہلا نام ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ ہے ارسطو۔

ارسطو نے سب سے پہلے جانوروں کو پانچ گروہوں میں تقسیم کیا۔ اور اس کی یہ تقسیم اس کے ظاہری مشاہدات کا نتیجہ تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس نے جن بنیادوں پر یہ تقسیم کی اس میں ہم زیادہ تفصیل یہاں نہیں پڑھیں گے وہ کسی اور موضوع کے لئے رکھتے ہیں یہاں صرف رویوں کے حوالے سے گفتگو ہے تو اسی کے بارے ہی میں گفتگو کرتے ہیں۔۔۔۔۔


ارسطو نے اس تقسیم میں سب سے نچلے درجے پر بے جان چیزوں کو رکھا اس کے اوپر پودےاس کے اوپر کے درجے پر جانور اور سب سے اوپر انسان کو رکھا۔ اس کی وجہ اس نے یہ بتائی کہ پودے اپنی ضرورت کے مطابق خوراک حاصل کرنے رہائش کے لئے موزوں جگہ کا انتخاب کرنے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے سے قاصر اس لئے انہیں جانوروں سے نیچے رکھا کیوں کہ جانوروں میں یہ رویہ دیکھا گیا ہے کہ جب انہیں بھوک لگے تو وہ خوراک کی تلاش یا کسی اور وجہ سے بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جا تے ہیں۔ جبکہ انسانوں کو سب سے اوپر رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے پاس عقل ہے وہ نہ صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتا ہے بلکہ اپنی مرضی کے مطابق رہنے کی جگہ بنا بھی سکتا ہے۔ وہ نئے اوزاار تخلیق کرتا ہےاور سوچ سکتا ہےوغیرہ وغیرہ۔

ارسطو کی اس تقسیم کے بعد جانداروں اور خصوصی طور پر جانوروں اور انسانوں کے رویوں پر بہت سے سوال اٹھائے جانے لگےمثلاً یہ جو رویے جاندار ظاہر کرتے ہیں ان کا ارتقاء کہا ں سے اور کیسے ہوا، اور یہ سب رویے کیوں اپنائے گئے۔ اور خاص طور پر وہ رویے جو کوئی بھی جانور اپنی پیدائش کے فوراً بعد ظاہر کرتا ہے۔ انہیں سوالات کے جوابات دینے کے لئے بہت سے فلسفیوں اور سائنس دانوں نے بہت سی وضاحتیں دیں ۔ ان میں سے جو قابلِ ذکر ہیں ان کا ذکر ہم یہاں کریں گے

تیرہویں صدی میں تھامس ایکویناس کا نام آتا ہے جس نے ان رویوں کے بارے میں ان الفاظ کا استعمال کیا کہ

جانور اگرچہ بے عقل ہوتے ہیں لیکن ان کے یہ رویّے ایک فطری جبلّت کا نتیجہ ہیں ۔ یہ جبلّی رویے انہیں مستقبل کی طرف لے جاتی ہے کیوں کہ یہ جبلّت انہیں ایک ایسی آفاقی ذات کی جانب سے ودیعت کی جاتی ہےجو علم غیب یعنی مستقبل کا علم رکھتی ہے۔

انہیں رویوں کی وضاحت کرتے ہوئے پےلے نامی عیسائیوں کے ایک پادری ، فلاسفر اور عالِمِ دین کا اِصرار تھا کہ اگر جانوروں کو بچاوْ اور افزائشِ نسل کے لئے ضروری رویوں کو سیکھنے کا موقع نہ بھی دیا جائے تو بھی وہ ان رویوں کو اپناتے ہیں۔ تو یہ ایک معقول ثبوت ہے کہ یہ رویے خدا کی طرف سے ودیعت کئے گئے ہیں

اٹھارویں صدی تک ان نظریات کو من و عن تسلیم کیا جاتا رہا۔ اور سب اس بات پر متفق رہے کہ جبلی رویے مخلوق کی بھلائی کے لیے خدا کی طرف سے ودیعت کئے جاتے ہیں۔

اس کے بعد چارلس ڈارون کے دادا اِریسمس ڈارون نے ایک نئی بحث کا آغاز کیااور تھامس ایکوئیناس اور پے لےکے نظریہِ مشیتِ ایزدی کا متبادل ایک مادی نظریہ دیا اور یہ کہا کہ جانورمشین کی طرح ہیں اور یہ سب رویے والدین سے اولاد میں منتقل ہوتے ہیں اس لئے جانوروں کو یہ سب سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

ڈارون کے دادااور ان کے ہم نوا سائنسدانوں نے اس نظریے کی وضاحت میں بہت سی مثالیں پیش کیں مگر وہ سب مثالیں اتنی باوزن نہ تھی کہ سائنسدان اس نظریے کو قبول کرتے۔

اس دھاگے تک تو جو کچھ بھی بتایا گیا یہ سب تمہیدی گفتگو تھی ۔اگلے دھاگے سے ہم اصل بحث کا آغاز کریں گے
تیسری قسط
 
آخری تدوین:
Top