علم الحیوانیات کا مطالعہ ۔۔ زوالوجی (تیسری قسط) لمارک کے نظریات

دوسری قسط
آج ہم بات کریں جین بیپٹسٹ ڈی لمارک کے بارے میں۔ لمارک کا یہ نظریہ تھا کہ آج ہم جانوروں کو جس شکل و صورت ميں موجود پاتے ہیں یہ با لکل اسی طرح کا وجودِ اصلی لئے پیدا ہوتے ہیں۔ دراصل وہ ایک ایسے نظریے کی پیروی کر رہا تھا کہ جس میں ایک جانور کے ایک لمبے عرصے میں نئی نسل میں تبدیل ہونے کی بات کی گئی تھی۔اور لمارک نے اپنے نظریے کی مادی توجیح بھی وضع کی۔ کہ کیسے ایک جاندار کی عادات اس کی سنتان یا اولادکی جبلت میں شامل ہوتی ہیں

لمارک کے مطابق یہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں جو جانداروں کو اپنی عادات بدلنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ان بدلتی عادات کے نتیجے میں جانور کئی اعضائے جسما نی کا استعمال زیادہ کر دیتے ہیں اور کئی اعضا کے استعمال میں کمی کر دیتے ہیں جس سے عُضوی تبدیلیاں ہوتی ہیں جنھیں اگلی نسل میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ چوں کہ جسمانی ڈھانچے جس میں اندرونی اور بیرونی اعضا اور ساختیں شامل ہیں ، رویوں پر اثر اندا ز ہوتی ہیں۔ تو نتیجتاً انہیں تبدیلیوں کو وراثت کے طور پر اگلی نسل میں منتقل کر دیا جاتا ہےجس سے نئے رویے جنم لیتے ہیں۔ اس طرح لمارک نے جبلّی رویوں کے آغاز اور اگلی نسل میں منتقلی کی وضاحت کی۔

لمارک کے اس مادی نظریے کی تین لازمی جزوّ ہیں۔ پہلا ، ماحول جانوروں کے رویوں میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک پرندہ کہ جس کا ماحول خشک ہوتا جا رہا ہے اور ماحول میں خشکی کی وجہ سے چھوٹے اور نرم بیج کی کمی ہونے کے باعث اسے بڑے اور سخت بیج ڈھونڈنے، توڑنے اور کھانے پڑیں گے۔

دوسرا، ماحولیاتی تبدیلیاں جانوروں کی بناوٹ اور ساخت میں تبدیلیوں کو باعث بنتی ہیں۔ اور ان تبدیلیوں سے نئے رویے جنم لیتے ہیں اور ان رویوں کی افزائش میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ پرندہ جس کا ماحول خشک ہو جانے کی وجہ سے چھوٹے اور نرم بیج کی غیر موجودگی کے باعث اب اسے بڑے اور سخت بیج توڑنے اور کھانے کے لئے اپنی چونچ میں تبدیلیاں لا کر اس کو بڑا اور مضبوط کرنا پڑے گا۔

تیسرا، ساخت اور رویوں کی یہ تبدیلیاں اگلی نسل میں منتقل کر دی جاتی ہیں۔ کیوں کہ لمارک کا ماننا تھا کہ ہر وہ چیزیا رویہ یا تبدیلی جو جانور اپنی زندگی میں حاصل کر لیتے ہیں اسے محفوظ کر لیا جاتا ہےاور عملِ تولید کے ذریعے اگلی نسلوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔

لمارک کا یہ خیال تھا کہ ماحول رویوں کی تبدیلی کا باعث بنتا ہےجس سے جانوروں کی بناوٹ اور ساخت میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ تبدیلیاں جنسی تولید کے قابل خلیوں۔۔جَرم سیلز۔۔میں تبدیلیوں کا باعث بنتی ہیں جو نئی نسل میں رویوں کے ارتقاء کا باعث بنتی ہیں۔

اس دھاگے میں ہم نے لمارک کے نظریات کےبارے میں پڑھا ۔ اگلے دھاگے میں ان نظریات میں جو خامیاں ہیں ان پر گفتگو کریں گے۔
 
چوتھی قسط

پچھلی قسط میں ہم نے لمارک کے نظریات کے بارے میں پڑھا تھا آج ہم اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں ۔

لمارک نے اس نظریے کے ذریعے جانوروں کے رویوں پر کسی آفاقی خالق کے اثر کو نظر انداز کر دیا۔ لیکن یہ نظریہ بھی سائنسدانوں کی ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر پایا کیوں کہ اس میں کئی سوال اٹھتے ہیں ان میں سے چند ایک پر گفتگو کریں گے۔

پہلا ، بدلتا ہوا ماحول کس طرح ایک جانور کو ایک خاص طرح کا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔مثال کے طور پر ، ماحول میں نرم بیج کی کمی پر کوئی پرندہ بڑے بیج ہی کھانے کے لئے کیوں چنتا ہے کوئی اور رویہ اختیار کیوں نہیں کرتا ۔ اور خاص طور ان رویوں پر سوال اٹھ رہا تھا کہ جن پر محول کے کچھ اثرات موجود نہیں تھے۔

دوسرا، لمارک نے اعضا کے استعمال اور ترکِ استعمال پر ایک نظریہ دیا ۔ کہ جس جسمانی عضو کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے وہ عضو اتنا ہی زیادہ نشونما پاتا ہے۔ اور جس جسمانی عضو کا استعمال ترک کر دیا جائے یا کم کر دیا جائے تو وہ عضو یا توسِرے سے مٹ جاتا ہے یا کمزور ہو جاتا ہے۔لیکن ہماری مثال کے تحت تو ایسا معلوم نہیں ہوتا۔ ایک پرندہ جو اپنی چونچ کے حساب سے زیادہ سخت بیج کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے تو یہ عمل اس کی چونچ کو سخت اور مضبوط کیسے بنا سکتا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بڑی شے کو کسی چھوٹے اوزار سے توڑنے کی کوشش کریں گے تو اس سے اوزار ٹوٹ توسکتا ہے مگر سخت اور مضبوط نہیں ہو سکتا۔ ایک اور مثال کو لے لیجئے کہ ایک جوتا کب ہم زیادہ استعمال کرتے ہیں تو کیا وہ بڑا اور مضبوط ہو جاتا ہے۔اور کیا جوتے کا کم استعمال کرنے سے کیا وہ چھوٹا اور کمزور ہو جاتا ہے۔ ہوتا تو دراصل یہ ہے کہ جب ہم جوتے کا زیادہ استعمال کرتے ہیں تو وہ گھس کر چھوٹا اور کمزور ہو جاتا ہے اور اگر استعمال نہیں کرتے تو وہ اپنی اصل شکل میں موجود رہتا ہے۔

اب اگر جانداروں کے حوالے سے لمارک کے اس نظریے کو دیکھیں تو جب کوئی ورزش کرتا ہے تو اس کے اعصاب میں پختگی آتی ہے۔اور جب وہ ورزش بند کر دیتا ہے ۔ تو اعصاب واپس اپنی ناپختہ حالت میں آ جاتے ہیں۔

تیسرا، اگر ہم اس بات پر تامل کرتے ہیں کہ کسی جانور کی ساخت اور رویوں میں آنے والی تبدیلیاں اس کی نسل میں ویسی ہی منتقل ہو جاتی ہیں ۔ جیسا کہ لمارک نے اپنی کتاب میں لکھا کہقانون ِ قدرت کے تحت ماں باپ میں جو بھی تبدیلیاں آتی ہیں وہ من و عن اگلی نسل میں منتقل ہو جاتی ہیں۔

یہ عقائد یورپ اور برطانیہ میں انیسوی صدی تک مقبول رہے۔لیکن اس نظریے کا آج تک کوئی ثبوت نہ دے سکے۔یعنی جو والدین اپنے اعصاب یا پٹھوں کو مضبوط بناتے ہیں چاہے وہ جتنی بھی جسمانی مشقت کر لیں ان کی اولاد پیدائشی تن ساز پیدا نہیں ہو گے۔ یا اگر ماں باپ بہت اچھا پیانو بجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی اولاد پیدائشی طور پر بغیر کسی تربیت کے اچھا پیانو بجا سکتی ہو گی۔

اور پھر ہم ایک جرمن سائنسدان آگسٹ وائزمین کا کام دیکھتے ہیں کہ اس نے چوہوں کی کئی نسلوں کی دم کاٹی لیکن ہر بار نئی نسل دم کے ساتھ پیدا ہوئی ۔ نئی نسل میں کوئی بھی چوہا ایسا پیدا نہیں ہوتا تھا کہ جس کی پیدائشی طور پر دم نہ ہو یا چھوٹی ہی ہوتی ہو۔اس تشخیص سے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایک جاندار میں دو طرح کے خلیے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اگلی نسل میں منتقل ہوتے ہیں یعنی جرم خلئیے ۔۔۔ تولید کے عمل میں حصہ لینے والے۔۔ اور دوسے سومیٹک خلئیے یعنی وہ خلئیے جو عملِ تولید میں حصہ نہیں لیتے۔اور اس نے یہ بتایا کہ سومیٹک خلئیوں میں تبدیلی کسی بھی صورت جرم خلیوں میں تبدیلی کا باعث نہیں بنتے۔ اور اس کی یہ تفریق آج تک من و عن قائم ہے۔
لمارک کی یہ تھیوری بھی حیوانی رویوں کا مکمل طور پر احاطہ کرنے سے قاصر رہی۔
 
پانچویں قسط


لمارک کا نظریہ حیوانی رویوں کا مکمل احاطہ تو نہ کر سکا مگر اس کے بعد ایک جمِ غفیر نے اس موضوع پر تحقیق کا آغاز کر دیا۔

اس نظریے کی ناکامی کے بعد ڈارون نے ایک نئی وضاحت پیش کی۔ جبلّت کی وضاحت کے حوالے سے ڈارون کا ابتدائی قصد لمارک کے نظریےکے ساتھ مطابقت رکھتا تھا اس کا ماننا تھا کہ ایسی فائدہ مند عادات جو کسی نسل میں مستقل رائج رہیں وہ اس نسل کے جانداروں میں روایتی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہیں اور یہی تبدیلیاں آگے جا کر جبلت کی صورت میں نئی نسل میں موجود ہوتی ہیں۔

بہر کیف، وراثتی عادات کا یہ نظریہ زیادہ دیر ڈارون کو مطمئن نہ کر سکا۔ خصوصي طور پر اس بات کا ادراک ہوا کہ کچھ ایسے رویے بھی ہیں جن کا ارتقاء عادات سے نہیں ہواجیسا کہ ہنری لارڈ بورگھم Henry Lord Brougham نے اپنی کتاب میں مثال کچھ یوں دی کہ ایک مادہ بھڑ لاروا کو خواراک کے طور پر گھن۔۔۔ گرب۔۔۔ فراہم کرتی ہے۔ جن کو ابھی انڈوں سے نکلنا ہوتا ہے۔حالاں کہ اس مادہ بھڑ نے کسی کیڑے کو انڈے سے نکلتے ہوئے دیکھا بھی نہیں ہوتا۔اور نہ ہی اس نے کبھی شعوری طور پر ان گربز کا استعمال کیا یا چکھا ہوتا ہے۔اور ڈارون نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ایسے رویوں کو عادات کا پیش خیمہ سمجھنا یا کہنا بہت مشکل ہے۔ ایک ایسا عمل جو زندگی میں ایک بار انجام دیا جائےبغیر کسی تجربے کے۔اور وہ بھی ایک ایسا رویہ کہ جس کو کرنے کا مقصد بھی اس جانور کو معلوم نہ ہو وہ عقل کے ذریعے سے حاصل کی گئی عادات کا پیش خیمہ نہیں ہو سکتا۔لہذا ڈارون نے اسے فائدہ مند وراثتی عادات کی بجائے اسے تولید تسلسل کے تناظر میں دیکھانا شروع کیا۔

آغاز میں جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ تاریخِ فطرت کا مطالعہ کا اصل کھنچاو خدا کی صنّاعی کی تحقیق کرنا تھا تھا۔ مگر سپیشیز کے ارتقاء Origin of Species کے حوالے سے ڈارون کی تصنیف نے اس نقطہِ نگاہ کو بدل دیا۔ ڈارون کا مرکزی نقطہِ نگاہ مختلف رویوں کے امتیازی اوصاف کی عملی تشریح کرنا تھا۔ڈارون کی کامیابی یہ تھی کہ اس نے وضاحت کی کہ اتنی حیرت انگیز مخلوقات کسی خصوصی تخلیق کے نتیجے میں وجود میں نہیں آئیں ۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ حیرت انگیزی چار بنیادی خصوصیات کی بے مہری کا نتیجہ ہیں۔

۱۔ ایک ہی نسل کے مختلف افراد میں اختلاف ہوتا ہے۔حتی کہ قریبی رشتہ داروں میں جیے باپ بیٹے یا جڑواں بچوں تک کے رویے میں بھی نمایاں فرق موجود ہوتا ہے۔

۲۔ بہت سی تبدیلیاں وراثتی ہوتی ہیں ۔ جیسے بچوں میں بہت سی خصوصیات والدین والی ہوتی ہیں اور یہ ان جینز کی وجہ سے ہوتی ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل کئے جاتے ہیں۔

۳۔ تمام جانداروں کی شرحِ بقاء میں فرق ہوتا ہے۔جیسے کہ ایک مادہ سنیپنگ ٹرٹل 24 انڈے دیتی ہےجن میں سے صرف 5 ہی شباب کو پہنچتے ہیں۔جب کہ ایک اور مادہ 18 انڈے دیتی ہےتو اس میں سے صرف ایک بچتا ہے۔

۴۔ وہ افراد جو بقا کی صلاحیتوں سے زیادہ مزین ہوتے ہیں وہی اگلی نسل تک جینز کی بکثرت فراہمی کر سکتے ہیں ۔ اسی قانون کو Survival of the Fittest کہا گیا۔

ڈارون کی اس توجیح کے بعد سائنس کی دو مختلف شاخیں وجود میں آئیں ایک ایکولوجی اور دوسری ایتھالوجی ۔اسی کا پیش خیمہ تھا کہ

آئیون پیولوو نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتوں

جے۔بی۔ واٹسن، ٹالمن اور لیشلے نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کترنے والے جانوروں

بی۔ایف۔ سکنر نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پرندوں

وولف گینگ کوہلر اور رابرڑ یرک نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پائیمیٹس ۔۔ دودھ پلانے ولے

جانوروں کے رویوں پر مطالعہ کا آغاز کیا۔ان تمام کا مقصد تھا کہ جانوروں کے رویوں پر کچھ مفروضے قائم کئے جائیں ۔جو ان کے عمومی برتاو کا احاطہ کرتے ہوں ۔ تا کہ بعد میں ان مفروضوں کو ٹیسٹ کیا جا سکے۔

لیکن اس سب کام میں بہت وقت لگتا تھا اور یہ بہت مشقت بھرا کام تھا۔ پھر ٹنبرگنTinbergen نے ایک ایسا طریقہ بتا یا کہ جس سے جانوروں کا مطالعہ کافی آسان ہو گیا۔اس نے اس مطالعہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا۔اور اس نظام کے تحت اگر ہم کتے کا دم ہلانے کے رویے کا مطالعہ کریں تو:

Proximate Cause۔۔۔ فوری پہلو:

Causation:

نفسیاتی:

کتے کے حسیاتی خلیے کسی مانوس انسان کی موجودگی کا کھاوج لگاتے ہیں اس کا نروس سیسٹم ایک ایمپلس بیجتا ہے جس سے کتے کی دم حرکت کرنے لگتی ہے

ادراکی:

کتے اپنے مالک کو پہچانتے ہیں اور دم ہلاتے ہیں

Ontogeny: ۔۔۔ انفرادی ارتقائی

دم ہلانے کا رویہ کتے میں وراثتی طور پر تھا لیکن یہ اسے سیکھنا پڑتا ہے کہ کون اس کا دوست ہے۔

Function ۔۔۔ عملی

دم ہلانا کتے کی طرف سے دوستانہ اشتیاق کا سگنل ہے جو اس کی پرورش بقا اور تولیدی عمل میں اس کا مددگار ثابت ہوتا ہے۔

Ultimate Cause۔۔۔ حتمی وجہ:

Evolutionary History۔۔۔ ارتقائی تاریخ

ماضی میں دم ہلانا اس وقت ہوتا تھا جب وہ جسمانی طور پرباہمی عمل کرتے تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ سگنل میں تبدیل ہو گیا۔

Causation سے سوال اٹھتا ہے کہ What makes behavior happen?

Ontogenyسے سوال کیا جاتا ہے کہ How Does Tail wagging behavior Develop?

Function سے معلوم کیا جاتا ہے کہHow this behavior contributes to genetic success?

Evolutionary History یہ ادراک ہوتا ہےکہHow this behavior evolved from its Ancestral form to present form?

اس تقسیم کو ہم آج Levels of Analysis کے نام سے جانتے ہیں۔
 
Top