علمی اور ادبی سرگرمیوں سے مہکتی 4 روزہ 12 ویں عالمی اردو کانفرنس ختم ہوگئی

جاسم محمد

محفلین
علمی اور ادبی سرگرمیوں سے مہکتی 4 روزہ 12 ویں عالمی اردو کانفرنس ختم ہوگئی


شہر قائد میں فلسفہ، ادب، ثقافت، موسیقی، شاعری اور مزاح کے ساتھ علمی اور ادبی سرگرمیوں سے مہکتی 12 ویں عالمی اردو کانفرنس اختتام پذیر ہوگئی۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کے تحت کراچی میں ہونے والی 4 روزہ عالمی اردو کانفرنس میں بھارت، امریکا، چین، جرمنی ، برطانیہ اور پاکستان سے سیکڑوں ممتاز شعراء اور ادیبوں نے شرکت کی۔

عالمی اردو کانفرنس کے آخری روز نامور صحافی، ادیب اور شاعروں نے سیر حاصل گفتگو کی، اس موقع پر معروف اینکر سہیل وڑائچ اور انور مقصود کے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام بھی کیا گیا۔

کانفرنس کے آخری روز سوشل میڈیا اور اردو کے عنوان سے سیشن کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں سینئر صحافی وسعت اللہ خان اور اویس توحید نے حاضرین سے گفتگو کی، ایک اور سیشن میں سینئر صحافی سہیل وڑائچ سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔

معروف ڈرامہ و مزاح نگار انور مقصود کو سُننے کے لیے عالمی اُردو کانفرنس میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر انور مقصود نے اپنے مخصوص اندازِ بیاں سے حاضرین کے دل موہ لیے۔

کانفرنس کے آخری دن کئی کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی جب کہ پاکستان میں اظہار فن کی آزادی، کشمیر اور خطے میں امن کی صورتحال کے علاوہ تعلیم کے مسائل اور ان کے حل سے متعلق بھی سیشن کا اہتمام کیا گیا۔

209873_1658131_updates.jpg

سینئر صحافی سہیل وڑائچ گفتگو کرتے ہوئے — فوٹو: آن لائن

اردو کانفرنس ایک روایت کے عنوان سے ہونے والے اختتامی سیشن کی صدارت عشرت حسین، شمیم حنفی، کشور ناہید، امجد اسلام امجد، افتخار عارف، پیرزادہ قاسم، نور الہدیٰ شاہ سمیت نامور شخصیات نے کی اور یوں فضاؤں میں رنگ بکھیرتے عالمی اردو کانفرنس نوجوانوں کے مشاعرے پر ختم ہوئی۔
 

ابو ہاشم

محفلین
کانفرنس ختم بھی ہو گئی اور اردو محفل پر کوئی تذکرہ نہیں کہ کن کن موضوعات پر بات ہوئی اور چیدہ چیدہ باتیں کیا ہوئیں
 

فرقان احمد

محفلین
باجوے پنجابی نہیں بولن گے تے کون بولے گا؟
جب ایک زبان لکھی ہی نہیں جا رہی ہے تو اسے بولے گا کون؟ کیا بچے پنجابی قاعدہ پڑھتے ہیں؟ کیا وہ اس کے رسم الخط سے آگاہ ہیں؟ پنجابی زبان و ادب کا حال بھی ہمارے سامنے ہے؛ خال خال ہی نواحی علاقوں میں پنجابی ادب تخلیق پا رہا ہے جس کے حوالے سے تنقیدی آراء تک پڑھنے کو نہیں ملتی ہیں۔ یہ جو پنجابی زبان ہے، اسے ہم سے زیادہ ہندوستان میں بسنے والے پنجابیوں نے زیادہ بہتر طور پر محفوظ کر رکھا ہے یا پھر کچھ ہمارے جگت بازوں کا کارنامہ سمجھیے وگرنہ یہ صاحب جو کچھ فرما رہے ہیں، وہی درست ہے۔ حکومتِ پنجاب تک کو اس زبان سے اب واجبی سی دلچسپی ہے۔ یہ معاملہ یوں ہی چلتا رہا تو سمجھ جائیے کہ کم از کم پاکستانی پنجاب میں بیس پچیس برس بعد پنجابی کا چل چلاؤ ہو سکتا ہے؛ یہ زبان بولنے والے افراد تعداد میں بہت کم رہ جائیں گے۔
 
Top