علماء سے سنا ہے ٭ رعایت اللہ فاروقی

"علماء سے سنا ہے"

میرے ایک بھائی کسی پرواز سے کراچی آرہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ساتھ والی سیٹ پر ایک "حاجی صاحب" ٹائپ شخصیت تشریف فرما ہیں۔ نماز کا وقت ہوا تو حاجی صاحب نے سیٹ پر بیٹھے بیٹھے نماز شروع کردی۔ جب وہ نماز پوری کرچکے تو میرے بھائی نے ان سے کہا

"اس طرح نماز نہیں ہوتی"

اب حاجی صاحب کے جواب پر بہت توجہ دیجئے گا، فرمایا

"علماء سے سنا ہے کہ پڑھ لینی چاہئے"

فلائٹ کراچی ایئرپورٹ پر اتری تو برادرم ہدایت اللہ سدوخانی بھائی کو ریسیو کرنے آئے تھے۔ وہ بھائی کو ریسیو کرنے کے بجائے سیدھے حاجی صاحب کی جانب بڑھے اور بہت احترام سے ان سے ملے۔ جب حاجی صاحب رخصت ہوچکے اور میرے دونوں بھائی گھر جانے کے لئے اپنی گاڑی میں سوار ہوئے تو آنے والے بھائی نے ہدایت اللہ صاحب سے پوچھا

"یہ جن سے آپ اتنے احترام سے ملے یہ کون تھے ؟"

جواب ملا

"یہ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی صاحب تھے"

اب ذرا پلٹ کر ان کا جواب دوبارہ پڑھئے اور اندازہ لگائے کہ اہل علم کی روایت کیا ہے اور فیس بکی بونوں کا چلن کیا ؟ وہ تو اپنے ساتھی مسافر کو شرمندگی سے بچانے کے لئے اپنا مفتی اعظم ہونا بھی چھپا جاتے ہیں اور کہتے ہیں "علماء سے سنا ہے" اور یہ نابالغ مفتیان فیس بک ؟

رعایت اللہ فاروقی
 

جاسمن

لائبریرین
نہ صرف چھپانے اور شرمندگی سے بچانے کے لیے بلکہ اس سے ان کی عاجزی بھی ظاہر ہوتی ہے۔
اللہ تعالی ہمیں بھی ایسی اعلی عادات و خصائل سے نوازے۔ آمین!
شریک کرنے کے لیے جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

سید عمران

محفلین
میرے خیال میں عنوان کے لحاظ یہی لڑی بہترین رہے گی۔۔۔
تمام محفلین سے گزارش ہے کہ یہاں اپنا حصہ ڈالیں۔۔۔
علماء، صلحاء اور مشایخ کی باتیں جو آپ نے سنی ہوں یا پڑھی ہوں یہاں شیئر کریں۔۔۔
برائے مہربانی مکمل و طویل وعظ یا خطبہ نقل نہ فرمائیں۔۔۔
اس میں سے کوئی ایک بات یا ایک نکتہ لے لیں۔۔۔
دوسری بات نقل کرنے کے لیے الگ مراسلہ ارسال کریں۔۔۔
اکثر لوگ طویل تحریر نہیں پڑھتے، اس طرح اس تحریر میں موجود بعض قیمتی باتوں سے محروم رہ جاتے ہیں لہٰذا ایسی تحریر میں موجود باتوں کو توڑ کر الگ الگ ارسال کرنے سے تحریر کی طوالت کم ہوگی اور اسے پڑھنے میں عوام کی دلچسپی بڑھ جائے گی!!!
 

سید عمران

محفلین
واٹس ایپ پر ایک آڈیو سنی کہ کسی نے مودودی صاحب سے پوچھا کہ مرد ہر وقت باہر رہتے ہیں جبکہ اسلام عورتوں کو گھر میں رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟؟؟
انہوں نے ایک مثال کے ذریعے جواب دیا کہ لوہار کے گودام میں لوہے کے ڈھیر ایک دوسرے کے اوپر پڑے رہتے ہیں، بلکہ گودام کے باہر سڑکوں پر بھی پڑے نظر آتے ہیں، لیکن کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔۔۔
جبکہ سنار کی دوکان میں ہیرے کو کئی تجوریوں کے اندر مخمل کے کپڑے میں لپیٹ کر نہایت نفیس و نازک اور قیمتی ڈبیہ میں رکھا جاتا ہے۔۔۔
اسی سے دونوں کی قدر و قیمت کا اندازہ لگالیں!!!
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
"علماء سے سنا ہے"

میرے ایک بھائی کسی پرواز سے کراچی آرہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ساتھ والی سیٹ پر ایک "حاجی صاحب" ٹائپ شخصیت تشریف فرما ہیں۔ نماز کا وقت ہوا تو حاجی صاحب نے سیٹ پر بیٹھے بیٹھے نماز شروع کردی۔ جب وہ نماز پوری کرچکے تو میرے بھائی نے ان سے کہا

"اس طرح نماز نہیں ہوتی"

اب حاجی صاحب کے جواب پر بہت توجہ دیجئے گا، فرمایا

"علماء سے سنا ہے کہ پڑھ لینی چاہئے"

فلائٹ کراچی ایئرپورٹ پر اتری تو برادرم ہدایت اللہ سدوخانی بھائی کو ریسیو کرنے آئے تھے۔ وہ بھائی کو ریسیو کرنے کے بجائے سیدھے حاجی صاحب کی جانب بڑھے اور بہت احترام سے ان سے ملے۔ جب حاجی صاحب رخصت ہوچکے اور میرے دونوں بھائی گھر جانے کے لئے اپنی گاڑی میں سوار ہوئے تو آنے والے بھائی نے ہدایت اللہ صاحب سے پوچھا

"یہ جن سے آپ اتنے احترام سے ملے یہ کون تھے ؟"

جواب ملا

"یہ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی صاحب تھے"

اب ذرا پلٹ کر ان کا جواب دوبارہ پڑھئے اور اندازہ لگائے کہ اہل علم کی روایت کیا ہے اور فیس بکی بونوں کا چلن کیا ؟ وہ تو اپنے ساتھی مسافر کو شرمندگی سے بچانے کے لئے اپنا مفتی اعظم ہونا بھی چھپا جاتے ہیں اور کہتے ہیں "علماء سے سنا ہے" اور یہ نابالغ مفتیان فیس بک ؟

رعایت اللہ فاروقی

السلام علیکم تابش بھائی !

فرض کرتے ہیں یہ واقعہ ہوا ہے اوراسی طرح رونما ہوا ہے - واقعے سے کم از کم مندرجہ ذیل اسباق تو نکلتے ہیں :

١)عاجزی- یعنی واقعی جو کچھ ہوتے ہیں وہ خود کو کچھ نہیں سمجھتے -
٢)اختصار و اجمال -''زور عاشق مزاج ہے کوئی -درد کو قصہ مختصر دیکھا ''یعنی ہر موقعہ مفصّل مسئلہ بیان کرنے کا نہیں ہوتا -جیسا کہ مفتی صاحب نے برتا ؤ کیا -
٣) امر بالمعروف نہی عن المنکر - جیسا کہ مصنف کے بھائی نے کیا اورمذکورہ صورت حال میں ان پر واجب بھی تھاسلیقے سے درست مسئلہ(قاعدہ کلیہ ) بتانا -بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر درست نیّت اور اچھے لب و لہجے سے یہ مسئلہ بیان ہوا ہے تو نہ یہ کہ واجب ادا ہوا ہے بلکہ احیائے سنّت کی رو سے سو شہیدوں کا ثواب بھی کہیں نہیں گیا -کیونکہ یہ سنّت ناپید ہوتی جا رہی ہے -روز مرّہ مشاہدہ ہے کہ لوگ نمازیں غارت کر رہے ہیں اور ان کو نرمی اور سلیقے سے سمجھانے والے نہ ہونے کے برابر ہیں -رکوع کے بعد اور دو سجدوں کے درمیان پیٹھ سیدھی نہ کرنا اور مختصر بنیان کے سبب ستر کا کھل جانا جیسے مفسداتِ نماز میں عام ابتلا ہے اور سمجھانے والے نایاب ہوتے جاتے ہیں -وجہ وہی بے حسی "پرائے کا بچہ ہے -بگڑے تو اچھا ہے" اور "ہر مسئلے دی ہک ای کی -سانوں کی ؟ " حالانکہ سمجھانے کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوتے ہیں -

اب آئیے اس سبق کی طرف جو غالب گمان ہے کہ ہماری قوم اس واقعے سے نکالے گی

٤)مفتی اعظم کا فتویٰ ہے جہاز میں نماز بیٹھ کر پڑھنی چاہئے -کچھ لوگ ریل گاڑی' بس اور کار وغیرہ پر بھی اسی مسئلے کو قیاس کریں گے -


بہر حال اس چوتھے سبق سے ہماری قوم کو بچانے کے لئے ضروری تھا کہ مصنف حاشیے میں کہیں اصل مسئلہ بھی لکھ دیتے جو کہ یہ ہے :نماز میں قیام فرض ہے چاہے سفر ہی کیوں نہ ہو - معذور کو البتہ استثناء حاصل ہے -

بڑے جہازوں میں عموماً نماز کی الگ سے جگہ مختص ہوتی ہے -پی آئی اے میں الگ سے جگہ مختص تو نہیں لیکن بڑے جہاز میں نماز پڑھنے کی گنجائش نکل آتی ہے -چھوٹے جہازوں میں نماز کی جگہ "گیلی /galley"میں ہی نکل سکتی ہے جس میں سخت حرج ہے- اس حرج سے خود کو اور اوروں کو بچانے کے لئے علماء یہی فرماتے ہیں کہ نماز ضائع کرنے سے بہتر ہے بیٹھ کے حتی الا مکان قبلہ رو ہو کر پڑھ لی جائے اور بعد میں لوٹا لی جائے -یعنی ایسی نماز واجب الاعادہ ہے -

اب ممکن ہے مفتی صاحب معذور ہوں یا چھوٹے جہاز میں محو پرواز -

بہر حال میرے لئے تو اس واقعے میں پہلے تین اسباق ہی ہیں سو تابش بھائی جزاک اللہ -:)
 

فرقان احمد

محفلین
"علماء سے سنا ہے"

میرے ایک بھائی کسی پرواز سے کراچی آرہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ساتھ والی سیٹ پر ایک "حاجی صاحب" ٹائپ شخصیت تشریف فرما ہیں۔ نماز کا وقت ہوا تو حاجی صاحب نے سیٹ پر بیٹھے بیٹھے نماز شروع کردی۔ جب وہ نماز پوری کرچکے تو میرے بھائی نے ان سے کہا

"اس طرح نماز نہیں ہوتی"

اب حاجی صاحب کے جواب پر بہت توجہ دیجئے گا، فرمایا

"علماء سے سنا ہے کہ پڑھ لینی چاہئے"

فلائٹ کراچی ایئرپورٹ پر اتری تو برادرم ہدایت اللہ سدوخانی بھائی کو ریسیو کرنے آئے تھے۔ وہ بھائی کو ریسیو کرنے کے بجائے سیدھے حاجی صاحب کی جانب بڑھے اور بہت احترام سے ان سے ملے۔ جب حاجی صاحب رخصت ہوچکے اور میرے دونوں بھائی گھر جانے کے لئے اپنی گاڑی میں سوار ہوئے تو آنے والے بھائی نے ہدایت اللہ صاحب سے پوچھا

"یہ جن سے آپ اتنے احترام سے ملے یہ کون تھے ؟"

جواب ملا

"یہ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی صاحب تھے"

اب ذرا پلٹ کر ان کا جواب دوبارہ پڑھئے اور اندازہ لگائے کہ اہل علم کی روایت کیا ہے اور فیس بکی بونوں کا چلن کیا ؟ وہ تو اپنے ساتھی مسافر کو شرمندگی سے بچانے کے لئے اپنا مفتی اعظم ہونا بھی چھپا جاتے ہیں اور کہتے ہیں "علماء سے سنا ہے" اور یہ نابالغ مفتیان فیس بک ؟

رعایت اللہ فاروقی
اس واقعے کا دل پر سچ مچ بہت اثر ہوا۔ عمدہ شراکت!
 
Top