ٹائپنگ مکمل عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

مقدس

لائبریرین
176

(360)

بہادر نے کی' گورا رن کر رہا تھا' لہذا انہوں نے زور سے وکٹ کیپر یعنی میری طرف پھینکی تا کہ میں وکٹ میں مار دوں۔ اب میرے پاس جو گیند آئی تو اول تو بہت قریب ہی قریب سے پھینکی تھی اور پھر اس زور سے پھینکی تھی کہ الامان لہذا قصداً اور غیر قصداً گیند مجھ سے نکل گئی اور میں اپنی ڈیوٹی چھوڑ چھاڑ کر ایک نعرہ مار کر گیند کے پیچھے! مگر مجھ سے پہلے ایک اور ہمارے کھلاڑی نے اٹھا لی اور زور سے جو وکٹوں کی طرف پھینکی یا ماری ہے تو وہ گولی کی طرح وکٹوں سے کچھ فاصلے سے ہو کر نکلی چلی گئی۔ وہاں روکتا کون۔ میں تو یہاں تھا۔ اب میں پھر لوتا اور بجائے وکٹوں پر رکنے کے گیند کی طرف دوڑا' وہں گیند دور جا چی تھی' ایک صاحب نے اٹھا کر مجھے دی۔ میں نے دیکھا کہ میری جگہ ایک اور ہمارے کھلاڑی آگئے ہیں اور گیند کے منتظر ہیں کہ پہنچے تو وکٹوں کو گرا دیں' لہذا میں نے اپنی پوری قوت سے گیند ان کی طرف پھینکی' انہوں نے ویسے ےو بڑی تیاری کی تھی لیکن جب گیند قریب آئی تو آدمی یہ بھی سمجھدار تھے صاف اپنے پیر بچانے کے لیے اچھل گئے اور پھر گیند نکلی چلی گئی اور اس درمیان ورے ہیں کہ زنازن' رن پہ رن! میں پھر گیند کی طرف لپکا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہمارے دو کھلاڑیوں کے درمیان سے گیند نکل گئی ہے۔ ایک نے اپنی جگہ تڑپ کرکہا "امان لینا"۔۔۔دوسرے نے کہا۔ "چہخوش! اپنی بلا میرے سر'خود کیوں نہیں دوڑتے" میں کپتان تھا' عزت ہمارے ہاتھ تھی' دوڑ کر گیند کو پکڑ ورنہ باؤنڈری ہو جاتی' مگر اب گھوم کر جو دیکھتے ہیں تو دس بارہ اور ہو جاتے۔ جب میں نے یہ دیکھا تو گیند ہاتھ میں لیے لپکتا آیا' دونوں کھلاڑی اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر میری طرف آ گئے' تیور پر ان کے بل تھے' ایک گورے نے بڑھ کر مجھ سے کہا "وہٹ از گوئینگ آن کیپٹن" بجائے جواب کے میں نے گیند کو وکٹ پر چھواتے ہوئے امپائر سے پوچھا "ہاؤزٹ امائر" ہمارا امپائر بولو "آؤٹ" اس پر پیویلین سے ایک شور سا ہوا، ہم خود قاعدہ قانون سے واقف اگر تھوڑی دیر کے لیے مان بھی لیا جائے کہ ہم قصداً رن بنانے کا غنیم موقع دے رہے تھے تو اس کے یہ معنی تو نہیں کہ رن کرنے والے رن کرتے کرتے نہ صرف رک جائیں بلکہ ادھر ادھر افیونیوں کی طرح گھومنے لگیں' خود ان کے اپنائر سے ہم نے بھی کہلوا لیا کہ کھلاڑیآؤٹ ہو گیا' بحث اور حجت تک نوبت پہنچی' ہم نے بھی کہا کہصاحب ہم بہترین فیلڈنگ کر رہے ہیں' آپ رن کیے جائیے' آپ کو ہماری فیلڈنگ سے کیا بحث۔ چاہے ہم زیادہ رن بنوا سیں یا تھوڑی آپ کون؟ آپ کو رن کرنے سے مطلب۔ چنانچہ اب جو گورے صاحبان کھیلنے کھڑے ہوئے ہیں تو ہماری فیلڈنگ کا رنگ ہی اور تھا' وہ کھلاڑی جو "ہٹ" پر تھا جب میں تاش لایا تھا اور کنارے بیٹھا "باؤنڈری مین" کے
 

مقدس

لائبریرین
176



(361)
ساتھ "چائنس" کھیل رہا تھا' جو کھلاڑی "آف" پر تھا وہ ہاتھ نچا نچا کر گنگنا رہا تھا "موٹر کا پہیہ تیز سیاں ہم نہیں بیٹھیں گے!۔۔۔ موٹر کا۔۔۔ "لانگ وکٹ کیپر" بیٹھا ہوا تھا' پوچھا کیوں' تو بولا' ہم ادھر سے گیند ہر گز نہ جانے دیں گے' تمہاری بلا سے بیٹھیں یا لیٹیں۔۔ باقی جو ان سے زیادہ مستعد تھے وہ بجائے علیحدہ علیحدہ کھڑے ہونے کے باتیں کرنے کے لیے دو دو اکٹھے کھڑے تھے یا لیٹے تھے۔ کچھ مونگ پھلیاں ٹھونگ رہے تھے' کھا اتنا لیا تھا کہ چلنا مشکل تھا' فیلڈ کی یہ حالت اور ادھر ہمارا بولر بار بار کھلاڑیوں کو پکار کر کہہ رہا تھا کہ "ریڈی پلیز" اور ادھر میں بھی اپنے "مڈگارڈ" ٹانگوں پر چڑھائے"یس۔۔۔ ۔۔ یس۔۔۔ ۔۔" کہہ رہا تھا اور ادھر گورے صاحبان بجائے کھیل کے حجت اور بحث پر آمادہ! آگ بگولا ہوکر مجھ سے گورے نے کہا "تمہارا کیا مطلب ہے؟ "اور ہمارے دو مستعد کھلاڑیوں کی طرف انگلی اٹھائی جع اس وقت بڑی تندہی سے پنجہ لڑا رہے تھے۔ میں نے جواب دیا کہ ہمارے کھلاڑی دراصل اپنی ذمہ داری کوب سمجھتے ہیں' آپ کو تکلیف کی کوئی ضرورت نہیں' ہماری ٹیم ایک جگہ نہیں سینکڑوں جگہ سے جیت کر آئی ہے' قصہ مختصر میں نے اور ہمارے بولر نے تقاضا کر کر کے گورے کو راضی کیا' ہمارے بولر نے قصداً گیندیں بچا بچا کر دینی شروع کیں ' ایسی کہ گورے کے پیچھے سے نکلی چلی جائے۔ چوتھی گیند گورے نے بڑھک کر کس کر ٹھونک دی اور اسی پر ہم جیت گئے۔
گیند میں ہٹ جو لگا اور میں نے جو کہا ہے کہ "لینا" تو اب ہمارے کھلاڑیوں کی مستعدی ملاحظہ کیجیئے کہ جو جہاں تھا وہیں سے دوڑ پڑا! گیند کی طرف! اور وہ بھی اس قدر بےتحاشا کہ بس دیکھا ہی کیجیئے' مگر گیند چونکہ آگے جا چکی تھی اور دوڑنے والوں نے قدرے دوسری سمت اختیار کی تھی لہذا بہت جلد وہاں سے لوگ پکارے "ہمیں نہیں ملتی" اور پھر فوراً ہی یہ روح فرسا پیغام آیا کہ "کھو گئی" انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ سن کر ہمارے بولر نے نعرہ مارا۔۔۔ ۔ "کھو گئی"۔۔۔ اب گوروں کی حماقت ملاحظہ ہو کہ رن نہیں کرتے' میں نے ہاتھ جھٹک کر ترغیب سی "گو آن سر۔۔۔ رن آن" پیویلین سے قہقے بلند ہوئے اور سینکڑوں آدمی چلائے "رن آن' رن آن" مگر توبہ کیجے گڑبڑ ہو گئی تمام لوگ پویلین پر سے اتر پڑے' ان میں سے کچھ غصہ تھے لیکن باقی ہنس رہے تھے۔ مگر خود کھلاڑی گورے آگ بگولا ہو رہے تھے' سوائے دو تین کھلاڑیوں کے جومیری پیٹھ ٹھونک کر کہنے لگے "ویل پلیڈ کیپٹن" اور میں حجت کر رہا تھا کہ آپ لوگ کیوں کھیل بند کیے دیتے ہیں' ہمارے سب کھلاڑی آن موجود ہوئے' بحث شروع ہو گئی' جن دو گوروں نے رن کیے تھے ان کا میمیں اور لڑکیاں مذاق اڑا رہی تھیں کہ خود اپنی حماقت پر انہیں ہنسی آنے لگی' بہتیرا ہم نے کہا کہ کھیلو مگر گورے نہ مانے۔ جب کسی طرح راضی نہ ہوئے تو ہم نے امپائر سے "رول مانگا"
 

مقدس

لائبریرین
177



(362)

نتیجہ یہ کہ ہم قریب پچاس ساٹھ رن سے جیتے اور بوجہ فریق مخالف کے نہ کھیلنے کے میچ ختم ہو گیا۔
اس کامیاب میچ کے بعد ہم نے کانپور میں دو تین اسی طرح کے میچ کھیل ڈالے حتی کہ ایک میچ میں زودکوب تک کی بونت پہنچی' پھر تو یہ دستور ہو گیا کہ جو بھی ٹاس جیتا وہ میچ بھی جیت گیا۔ پھر جب علی گڑھ میں ایم ' سی'سی کا میچ ہوا تو نہ صرف ایک ٹیم تیار کر لی تھی بلکہ ہماری ٹیم کے سرپرست اعلی اور دوسرے احباب ایک ہزار تک روپیہ بھی ایم'سی'سی کو دینے کو تیار تھے اور میں اس سلسلہ میں کچھ دوڑا دہوپا' مگر گلیگن نے وقت کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے انکار کر دیا ورنہ ہم صحیح کہتے ہیں کہ اس میدان پر ان کو شکست دیتے جس جگہ انہوں نے ہماری یونیورسٹی کو شکست دی تھی۔
 

مقدس

لائبریرین
177



(363)

کیا کبھی تم پر بھی کوئی عاشق ہوا ہے؟

ایک تو وہ لوگ ہیں جن کو خوبصورت ترین یعنی خدا نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے جیسے رسالوں کا ایڈیٹر۔ یا شیطان کے کان بہرے' خود ہماری گھر والی اور دوسرے وہ لوگ ہیں جن کو شاید خدائے تعالی نے فرشتوں سے ٹھیکے پر بنوایا ہے اور ان ٹھیکداروں نے ہم کو اس تیزی سے بنا بنا کر پھینکا ہے کہ کہیں کسی افسانہ کے پتلے پر کسی سیٹھ صاحب کا پتلا گرا تو کسی وکیل پر گاما کا پتلا گرا تو افسانہ نگار صاحب کی ناک کہیں پہنچی' ہونٹ کہیں پہنچے اور جب روح پھونکی گئی تو اچھے خاصے "حلوقہ" بن گئے پھر اس پر طرہ یہ کہ بہ ایں شکل و صورت خدائے تعالیٰ نے ان کے مختصر سینے کو محبت کے نور سے کوہ سینا بنا دیا۔ اب جو جوانی پر پہنچے ہیں تو دل کا تو یہ حال کہ پر ایک کو دینے کو تیار ہیں' مصیبت یہ کہ حلیہ شریف کو دیکھتے ہوئے کوئی کانی کھتری بھی محبت کی رواداد نہیں۔ نتیجہ یہ کہ کوئی لڑکی ان پر عاشق ہوتی تو ہم پر' مجبور ہو کر دغا فریب سے گھر والی کو ڈھونڈتے ہیں اور پھر دن رات اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ کہیں گھر والی کے دل سے بھی نہ اتر جائیں۔

(1)

ایک روز کا ذکر ہے کہ میں ایک مقدمے کی بحث تیار کر رہا تھا کہ اتنے میں گھر والی دوڑی ہوئی آئی۔ بدحواسی کا عالم اور مجھ سے گھبرا کر کہا کہ جمیا فجو خاں سپاہی کے ساتھ بھاگ گئی۔ اب میں کیا عرض کروں کہ اس خبر کو سنتے ہی مجھ پر کیا گزری' کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا مجوخاں کو خوش قسمت خیال کروں یا محترمہ جمیا کے انتخاب کی داد دوں۔ پہلے یہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو یہ بتلا دوں کہ یہ جمیا کون تھی۔
گندمی رنگت، کتابی چہرہ۔ کھڑی ناک اور پتلے ہونٹوں والی ایک پندرہ برس کی لڑکی تھی۔ میں اکثر دیکھتا تھا کہ سامنے سڑک پر بل کھاتی' گھومتی' نہایت چلبلے پن سے گنگناتی جا رہی ہے۔ برخلاف اس کے فجو خاں ایک 45 برس کے بھوت۔ اس سے زیادہ ان کے سپاہیانہ حسن کی نہ تو
 

مقدس

لائبریرین
178



(364)

میں تعریف کر سکتا ہوں اور نہ کرنا چاہتا ہوں۔ معاً مجھے خیال ہوا کہ دیکھو تو اس جمیا کو کہ پڑوس میں اول تو ہم خود رہتے ہیں۔ گو خوبصورت تو نہیں ہیں مگر بھوت بھی نہیں ہیں۔ علاوہ ہ،ارے عبدالعزیز رہتے ہیں اور ایک سے ایک خوبصورت جوان رہتا ہے مگر اس کمبخت چھوکری نے ہم لوگوں میں کسی کو پوچھا تک نہیں۔ اس سے یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اگر وہ کہتی تو میں اس کے ساتھ بھاگ جاتا یا کسی طرح بھی اس کو اپنے اوپر عاشق ہونے کی اجازت دے دیتا۔ مطلب میرا دراصل یہ ہے کہ اسے کم سے کم ایسا نہ کرنا چاہیے تھا اور گو ہم راضی نہ ہوتے پھر بھی یہ کیسے ممکن ہے۔ سو پکرے گئے اور مجھے وکیل کیا۔ اب اس مقدبے کی بحث تیار ہو رہی تھی۔ ہمارے ملزم کی طرف سے عذر یہ تھا کہ صاحب لڑکی تو ہم نے ضرور بھگائی۔ مگر واقعہ یوں ہے کہ خود لڑکی اپنی راضی خوشی سے ملزم پر عاشق ہو کر اور زور دے کر اس کے ساتھ چل دی۔ ملزم نے اپنی داستان عشق اپنے اقبالی بیان میں بڑی دلچسپی سے بیان کی تھی، کس طرح لڑکی اسے ملی کس طرح لیلی کی طرح وہ ان حضرت پو عاشق ہو گئی اور پھر کس طرح "کچھ ایسا دونوں طرف عشق کا اثر پھیلا۔"۔۔۔ کہ میرے موکل صاھب اپنی محبوبہ کو لے کر فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔
میں صحیح طرح عرض کرتا ہوں کہ میرے موکل صاحب نے جب گھر پر قصہ بیان کیا اور سچ سچ حال بتایا تو میں نے اول تو ان کی صورت دیکھی بہت غور سے' یہ دیکھنے کو کہ یا اللہ میں زیادہ خوبصورت ہوں یا یہ؟ کالا ہونا اول تو کوئی جرم نہیں اور پھر یہ واقعہ ہے کہ خوبصورتی اور بدصورتی سے اسے گو تعلق قطعی نہیں ہے لیکن جب دوسرے اعضا یعنی آنکھ۔ ناک۔ ہونٹ وغیرہ بغاور پر آمادہ ہوں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیاہی سونے پر سہاگے کا کام دیتی ہے۔ چنانچہ میں نے غور سے اپنے موکل کے چہرے کو دیکھا اور کچھ مشکوک نگاہوں سے دیکھ کر ان سے کہا کہ دیکھو بھئی وکیل سے تو سچ سچ دل جا حال بیان کرتے ہیں تم سچ سچ بات بتاؤ۔ یہ سن کر موکل صاحب نے مجھے اچھی طرح سمجھا کر کہا کہ جو واقعہ بیان کیا ہے اس میں قطعی شک کی گنجائش نہیں اور یہ کہہ کر اور بھی تفصیل کے ساتھ مفرورہ کے معاشقے کی داستان سنائی۔ قصے پر میں نے یقین کر لیا۔ مفرورہ سے جرح کی تو اس سے بھی یہی اندازہ لگا کہ ضرور بالضرور لڑکی ملزم پر عاشق ہوئی۔ واقعات مقدمے سے بھی اس کی تائید ہوئی اور وہ بھی اس طرح کہ مقدمے میں کامیابی کی قطعی امید ہو گئی اور بحث اب تیار ہو رہی تھی۔ یہ تو سب کچھ ہو گیا۔ لیکن جس روز سے یہ مقدمہ آیا میں ملزم کا فوٹو پیش کر کے ثابت کردیتا ہوں کہ حضرت میں اپنے موکل سے ہزار درجہ خوبصورت ہوں، وہ ادھیڑ ہے اور میں نو عمر ہوں۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ بدقسمتی کچھ اس طرح شامل حال رہی ہے اور رہے کہ کہ دنیا زمانے پر' کانے کھتروں پر' نکٹے کانوں پر تو ایک پری نژاد اور حور شمائل لڑکی عاشق ہو جائے اور نہ ہو تو ہم پر۔ جب کبھی بھی اس بات پر غور کیا افسوس ہی کرنا پڑا
 

مقدس

لائبریرین
178



(365)

بجائے اس کے کہ کوئی خدا کی بندی عاشق واشق ہوتی' اپنی زندگی کا تجربی بدقسمتی سے یہ رہا ہے کہ خوبصورت اور بدصورت لڑکیوں کے تلخ اور کتے چھنے جملے ہی سننے میں آئے ہیں اور وہ بھی ایسے کہ جی تو ہمیشہ یہی چاہا کیا کہ آئینے میں اپنی صورت دیکھ کر ایک پانچ۔۔۔ ۔ روزانہ ماریں جائیًں،، آپ کسی سے پوچھئے کہ کیوں بھئی کبھی تم پر کوئی عاشق ہوا ہے؟ تو جواب میں آپ ایک دلچسپ داسان سنیں گے۔ ہم نے بھی دیکھا دیکھی اسی قسم کے بالکل جھوٹے قصے گھڑ گھڑ کر دل سے اپنے یار دوستوں کو سنائے ہیں۔ وہ بات اور تھی۔ لیکن اب یہاں اس مضمون میں مجھے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے کہیں کوئی "اور" اس قصے کو سچ نہ مان لے تو لینے کے دینے پڑ جائین۔ لہذا سچ سچ کہوں گا۔ یہ بھی سن لیجیئے کہ کس طرح اس سچ بولنے کی ضرورت پڑ گئی۔

(2)

جمیا کے قصہ پر جب رد و قدح ہو چکی تو کام کے بارے میں خانم نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو۔ میں نے اس کے جواب میں ہنس کر کہا کہ۔ "ذرا اسے سنو" اور یہ کہہ کر ملزم کی طرف سے جو بیان تحریری میں داخل کیے تھے وہ پڑھ کر خانم کو سنانا شروع کیے۔ یہ بیان سات صفحوں پر تھے اور شاید ایک افسانہ نویس وکیل کے قلم کے ہونے کی وجہ سے اس میں اور بھی دلچسپی آگئی ہو گی۔ کانم نے جو بیان گور سے سنے تو کہنے لگی کہ یہ کسی رسالے کے لیے مضمون لکھا ہے یا سچ مچ مقدمے کے بیان ہیں۔
قصہ مختصر یہ بیان خانم نے بڑے غور اور شاید "عبرت" سے سنے' میں ان بیانات کو سنا کر خانم کو غور سے دیکھنے لگا۔ وہ بھی مجھے غور سے دیکھنے لگی۔ میں اپنے دل میں کیا سوچ رہا ہوں گا؟ بخدا اندازہ لگائیے اور میں نے دل میں یہ سوچا کہ یہ کیا سوچ رہی ہو گی۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ ان بیانات پر مفرورہ اور ملزم کی صورت شکل پر خانم نے بحث شروع کر دی۔ یہ بحث ختم ہو گئی تو میں نے کامیابی کے ساتھ خانم کو احتیاطَ یہ بھی سمجھا دیا کہ مردوں کے لیے سچ مچ یہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ ان پرعاشق ہونے کی تیاری کرنے سے پلے خوبصورت لڑکیاں یہ دیکھیں کہ مرد خوبصورت ہے یا بد صورت۔ کانا ہے یا کھترا۔ بس انہین تو تہیہ کر کے عاشق ہو جانا چاہیے۔
خانم نے یہ قصہ سن کر اپنی آنکھوں میں ایک ایسی دلچسپی کی چمک پیدا کر کے مجھ سے ہنس کر کہا کہ ایک بات تم سے قسم دے کر پوچھیں گے سچ سچ بتاؤ گے یا نہیں؟
میں نے کہا "وہ کیا؟"
وہ بولی۔ "پہلے وعدہ کرو۔ قسم کھاؤ۔"
میں نے فورا خدا کی ایک موٹی سی قسم کھائی تو وہ بولی کہ "یوں نہیں۔ ہماری قسم کھا کر
 

مقدس

لائبریرین
179


(366)
وعدہ کرو۔"
مجبورا یہ قسم بھی کھائی۔ ویسے نہ بھی کھاتے مگر اس وقت سوال معلوم کرنے کی کرید پر گئی۔ جب قسم کھا لی تو اس نے ذیل کا "ہنگامہ پرور" سولا کر دیا:
"سچ سچ بتانا۔ کبھی تم پر بھی کوئی لرکی عاشق ہوئی ہے یا نہیں"؟
مندرجہ بالا سوال نے مجھ کو کس شش و پنج میں ڈال دیا ہو گا! اس کا اندازہ لگائیے۔ اپنی رفیق زندگی کی قسم کھا کر جھوٹ بولنا ناممکن' اگر سچ سچ کہتا ہوں تو معاملہ بگڑ جاتا ہے۔ کیونکہ صحیح اور امر واقعی جو پوچھیے تو وہ ہمیشہ اسی تمنا میں رہے کہ کوئی ہم پر عاشق تو ہو۔ مگر یہ تمنا کبھی پوری نہ ہوئی اور قسمت میں خوبصورت اور "بےصورت" لڑکیوں کے اپنے ردانہ حسن کے بارے میں تلخ ریمارک اور تکلیف پہنچانے والے جملے ہی اس تمنائے عشق کی مکمل اور مفصل روئداد ہو کر رہ گئے جو اب بھی کانوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ مگر نہیں۔ میں نے شاید یہاں غلطی کی۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے اوپر بھی تین لرکیاں عاشق ہوئی ہیں۔ ایک تو خود سر پکڑ کر قسمت کو رو رہی ہے یعنی صاحبہ سوال۔ تو اس کا ذکر ہی جانے دیجیئے کہ وہ عاشق نہ ہو تو کرے بھی کیا۔ وہ مضمون ہے کہ کھاؤ تو بھرتہ اور نہیں کھاؤ تو بینگن کا بھرتہ۔ پچاس دفعہ غرض پڑے تو عاشق ہو ورنہ جانے دو۔ اس جھگڑے ہی کو چھوڑو۔ لہذا اس کو چھوڑیے۔
دوسری جو عاشق ہوئی تھی اس کے بارے میں عرض ہے کہ اس کی یاد میرے دل سے کبھی نہیں مٹ سکتی۔ اس کی دلچسپ یاد اب بھی دل میں تازہ ہے اور رہے گی' تاوقیتکہ شریر بچے مچلنا اور ضد کرنا بالکل نہ چھوڑ دیں کیونکہ صحیح عرض ہے کہ کچھ کچھ اسی کا حلیہ اور نقشہ بیان کر شریر بچوں کو ڈرایا جاتا ہے جب کہیں جا کے شریر قابو میں آتے ہیں!
اب رہ گئی تیسری نیک بخت جو میرے اوپر عاشق ہوئی تو بد قسمتی سے اس کا قصہ لائق نہیں کہ کسی اور کو یا بیوی کو سچ سچ سنایا جائے۔
چنانچہ مندرجہ بالا امور کو مدنظر رکھتے ہوئے میں خانم کے سوال سے کچھ چکر سا گیا۔ کیا جواب دوں؟ یہ فر دامن گیر ہوئی' سچ کہنا نہین چاہتا تھا اور جھوٹ ناممکن تھا۔ لہذا میں نے موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے وقت گزاری کے لیے بجائے جوب دینے کے یہی سوال التا خانم سے کر دیا کہ پہلے تم بتاؤ کہ تم پر بھی کوئی عاشق ہوا ہے یا نہیں۔
یہ سوال سن کر خانم کو ہنسی اور غصہ بیک وقت آیا۔ اس نے برا ماننے کی کوشش کی۔ مگر میں نے آڑے ہاتھوں لیا۔ یہ کہہ کت تمہیں ضرور بتانا پڑے گا ورنہ میں بھی نہ بتاؤں گا۔ جب میں نے زور دیا تو اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ خدا نہ کرے میرے اوپر کوئی عاشق کیوں ہوتا۔
مگر حضرت میں جرح شروع کر دی اور ایک درجن سوال نہ کیے ہوں گے کہ خانم کو کہنا
 

مقدس

لائبریرین
179


(367)
پڑا کہ میری شادی سے پہلے تین جگہ سے پیغام اور آئے تھے۔ ان میں سے دو کا تو خیر کچھ نہیں کیونکہ ان کو انکار کر دیا تو وہ مان گئے لیکن ایک ان میں روپے پیسے والے بڈھے صاحب تھے جنہوںنے زیادہ کوشش کی۔ لیکن ان کو نہایت سختی سے انکار کیا گیا اور ان کی ہزاروں کی جائداد کے لالچ کو ہمارے خسر صاحب نے بڑی سختی سے ٹھکرا دیا۔ چنانچہ قصہ سن کر میں نے بڈھے ہی کو پکڑا اور جناب واقعہ بھی یہی ہے کہ اکثر بڈھوں کا قاعدہ ہے کہ ادھر پڑوس میں لڑکی پیدا ہوئی نہیں کہ انہوں نے چھٹی میں اس کی شرکت کر کے اس کو دیکھا اور عاشق ہو گئے۔ پھر ٹھیک چودہ برس بعد آپ دیکھ لیجیے گا کہ بڑے میں دھر دھر کے شادی کی کوشش کر رہے ہیں۔
جب اس بڈھے والا قصہ ختم ہو گیا تو مجبوراً مجھے اپنا قصہ بے کم و کاست سنانا پڑا۔ آپ بھی سن لیجیئے۔

(3)

عرض ہے کہ بعض اوقات لوگوں کو گھر سے بھاگ جانا پڑتا ہے۔ تعلیم والیم سب کو خیر آباد کہہ کر یہ خاکسار بمبئی میں اسی ضروری کام کے لیے گیا ہوا تھا۔ گھر سے بھاگنے والے بمبئی کو نہ معلوم کیا سمجھتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر پتا چلتا ہے کہ گھر سے بھاگنا سراسر حماقت ہے' چنانچہ یہ اسی زمانے کا ذکر ہے کہ اس خاکسار کو بھی پتہ چل رہا تھا۔ یعنی ہوٹل کی نوکری سے کان پکڑ کر جو نکالے گئے تھے اس کو پندرہ دن کے قریب گزربے آئے تھے اور روپیہ جو کچھ بھی تھا وہ ختم ہونے والا ہی تھا۔ شام کو روازانہ کا میں نے یہ دستور بنا لیا تھا کہ چوپاٹی چلے گئے اور وہاں سے مالا بار ہل پہنچ گئے جس کو ہینگنگ گارڈن یعنی باغ معلق کہہ سکتے ہیں۔ آئیے میں پہلے اس باغ کی آپ کو سیر کراؤں۔
یہ باغ ایک مصنوعی ور کچھ غیر مصنوعی پہاڑی پر واقع ہے۔ یہ پہاڑی کیا ہے کہ سر سبزی اور شادابی کا گہوارہ ہے۔ اس کے دامن میں خوبصورت باغیچہ لگا ہوا ہے۔ اور یہ باغیچہ پہاری کی ڈھلوان سطح پر برابر چوٹی تک اس خوبصورتی سے چلا گیا ہے کہ انسانی کاری گری کی داد نہیں دی جا سکتی۔ جس طرح نینی تال' شملہ اور دوسرے ہل استیشنوں پر چکر دار سڑکیں بنی ہوئی ہیں جن پر ہو کر اوپر پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ کچھ اس نمونے کی پتلی پتلی سڑکیں یا روشیں پہاڑ کے اردگرد کمر پیٹی کی طرح کسی ہوئی ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ بینچیں رکھی ہوئی ہیں۔ پھولوں کی بھرمار ہے اور ان پرفضا پتلی پتلی سبزہ اور پھولوں سے لدی پھندی سڑکوں پر ہوتے ہوئے آپ چوٹی پر پہاڑ کی پہنچ جائیے ہر سڑک نیچے سڑک سے اونچی ہوتی گئی ہے۔ جگہ جگہ سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں تاکہ اوپر والی سڑک پر آسانی سے پہنچ جائیں' شام کے وقت چوپاٹی سے کھڑے ہو کر مالا بار ہل کی طرف نظر ڈالئے نیچے سے لے کر چوٹی تک خوشنما پھولوں اور جھاڑیوں میں رنگین اور چمکیلے لباس
 

مقدس

لائبریرین
180

(368)

والی عورتوں اور مردوں کی آمدورفت پہ معلوم ہوتی ہے کہ گویا رنگا رنگ کے پھول کھلے ہیں یا متحرک پتلیاں سبزے پر ناچ رہی ہیں۔ سامنے سمندر لہریں مار رہا ہے' خوشگوار ہوا چل رہ ہے اور دیکھنے والا محسوس کرتا ہے کہ مالا بار ہل پر ابدی نیکی اور خوشی کا دیوتا رہتا ہے جو اپنے پجاری کو مقناطیسی قوت کے ساتھ اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔
میں نے بھی چوپاٹی پہنچ کر یہی محسوس کیا اور مالا بار ہل پہنچا۔ ہر قدم پر بہار تھی اور ایک دلچسپ میلہ تھا کہ نازک اندامان بمبئی، خوش خرامان بمبئی' حسینان بمبئی کے ساتھ ساتھ' پہلو بہ پہلو۔ اس دلچسپ پہاڑی پر خوش فعلیوں' شرارتوں اور زندگی کی دلچسپیوں کا خاموش مطالعہ کرتے ہوئے ہم بھی چڑھے چلے جا رہے تھے۔ ہر قوم کی اور ہر عمر کی عورتیں اور مرد' ایک سے ایک خوبصورت ایک سے ایک شوخ اور ایک سے ایک پریزاد اور معصوم اس تفریح کے وقت پہاڑی پر چلی جا رہی تھی اور ہم بھی تھے پانچوں سواروں میں۔ خاموش طبعیت اندر ہی اندر سے باوجود اس تمام تفریح کے کچھ مردہ سی تھی۔ کوئی جان پہچا نہیں، کوئی یار دوست بات کرنے والا نہیں۔
قصہ مختصر خاموشی کے ساتھ میں پہاڑ پر پہنچا، پہار کی چوٹی ویسی نہیں ہے جیسی ہمالیہ کی چوٹی پر پہنچئے تو ایک لو و دق ہلکے سبزے کا میدان ہئ' ایک باغ لگا ہے۔ پھول کھلے ہوئے ہیں۔ روشوں پر لوگ ٹہل رہے ہیں' سبزے پر خوش فعلیاں ہو رہی ہیں۔ جگہ جگہ یوپین۔ پارسی۔ مرہٹہ۔ گجراتی وغیرہ وغیرہ اقوام کی لڑکیاں اور عورتیں کچھ کھیل رہی تھیں' کچھ بچوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھیں' یہاں سرکار کی طرف سے جھولے پڑے ہوئے ہیں' جگہ جگہ دو دو چار چار کی ٹولیاں سبزے پر خوش فعلیوں میں مشغول تھیں۔ ہمارے جیسے شاید دو ایک احمق اور بھی تھے جو علیحدہ ایک بنچ یا سبزے پر بیٹھے ہوئے خوبصورت لڑکیوں کو بڑے غور سے دیکھے چلے جا رہے تھے۔ ادھر قریب سے کوئی خوبصورت لڑکی گزری نہیں کہ انہوں نے کوشش کی کہ کسی طرح جاذب نظر بن جائیں۔

(4)
ادھر ادھر پھر کر میں اب تنہائی کے مقام پر پہنچا اور ایک بنچ پر سر جھکا کہ اس طرح غافل ہو کر بیٹھ گیا کہ تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند جو کیں تو یہ بھی خیال نہ رہا کہ کہاں ہوں' میں اسی طرح بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ آہٹ ہوئی' میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو پارسی لرکیاں آپس میں باتیں کرتی ہوئی میری طرف چلی آ رہی تھیں۔ میری بنچ کے قریب آ کر ایک نے مجھ سے کہا۔۔۔ ۔۔ "اگر کوئی مضائقہ نہ ہو تو کیا ہم بھی اس بنچ پر بیٹھ سکتے ہیں۔"
مین چونک سا پڑا اور میں نے کہا "ضرور۔ ضرور۔ بڑے شوق سے بلکہ میں خود ہی اٹھ جاتا
 

مقدس

لائبریرین
180


(369)

ہوں اور آپ ضرور بیٹھئے۔"
یہ کہتا ہوا میں اٹھا۔ میرا اٹھنا تھا کہ "نہیں نہیں" کہتی ہوئی بڑے اخلاق سے مجھے روکنے کو بڑھی اور بولی۔ "آپ بیٹھئے ہم خود چلے جائیں گے۔" فورا ہی دوسری بولی "ہم نے آپ کو تکلیف دی آپ بیٹھئے۔" اس پر میں نے اور بےبسی اصرار کیا۔ نتیجہ یہ کہ وہ مضمون ہو گیا کہ "واللہ آپ واللہ آپ" نتیجہ یہ کہ ان میں سے جو ذرا بڑی عمر والی یعنی اٹھارہ انیس برس کی تھی اس نے بڑے اخلاق سے میرا ہاتھ پکر لیا اور بولی "اچھا نہ آُ جائیے نہ ہم جائیں' آپ بھی بیٹھئے اور ہم بھی بیٹھتے ہیں۔"
میں نے اس پسندیدہ تجویز پر دل میں خوش ہوتے ہوئے کہا "مگر شاید آپ دونوں کے تخلیئے میں مخل ہوں گا۔"
اس پر چھوٹی عمر والی بولی۔ "ہر گز نہیں بلکہ آپ کی موجدگی ہمارے لیے باعث دلچسپی ہو گی۔ کیا آپ ہماری بات چیت ناپسند کریں گے۔"
میںنے کہا "ہر گز نہیں۔"
قصہ مختصر وہ بھی بیٹھ گئیں اور میں بھی بیٹھ گیا اور اس کے بعد ہی انہوں نے بڑے اخلاق اور بڑے تپاک سے مجھ سے تعارف حاصل کیا۔ مجھے یاد نہیں میں نے ان سے کیا جھوٹ سچ ملایا' جس کا لب لباب یہ تھا کہ محض بمبئی میں سیر و تفریح کے لیے آیا ہوا ہوں' اس کے بعد انہوں نے اپنا تعارف خود مجھ سے کرایا اور مجھے معلوم ہوا کہ بڑی عمر والی بیوہ ہے اور چھوٹی لڑکی اس کی دوست جو کنواری ہے' بڑی نے اپنا نام مسز بلحی بتایا اور چھوٹی کا نام مس رستم جی تھا۔ دونوں بہت خوش اخلاق' کوش پوشاک اور خوبصورت تھیں۔ مگر بلحی کو دیکھ کر اتنا ضرور کہنا پڑتا تھا کہ حضرت ڈارون کا مسئلہ ارتقا تو ضرور صحیح ہے مگر ایک بات ہے۔ وہ یہ کہ اگر حضرت انسان بندر کی اولاد کہے جا سکتے ہیں تو کچھ لوگ گھوڑے کی اولاد بھی ثابت کئیے جا سکتے ہیں ۔ بہت دیر تک یہ صحبت قائم رہی آخرش میں خود ہی ان دونوں سے رخصت ہو کر دوسری طرف چلا گیا۔

(5)

شام ہو رہی تھی اور لوگ پہار سے اتر رہے تھے۔میری طبعیت حسب معمول کند تھی چنانچہ بھیڑ بھڑکے کو چھوڑ کر میں قصداً اس طرف چلا جدھر سے کوئی بھی نہیں اتر رہا تھا اور روشوں کی تین منزلیں اتر کر میں چوتھی پر پہنچا اور پھولوں اور جھاڑیوں کے گنجان راستے طے کرتا ہوا بالکل ہی تنہائی کے راستہ پر پہنچا اور وہاں سے میں پانچویں روش پر اترا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مسز بلحی ایک گملے کے پاس ایک پیر جھکائے اور دوسرا پیر ایک جھاڑی میں پھنسائے اس طرح
 

مقدس

لائبریرین
181


(370)

کھڑی ہے کہ منڈیر پر ہاتھ سے پکڑے اور چہرے سے تکلیف ظاہر ہو رہی ہے۔ میں ایک دم سے اسے دیکھ کر جھجک گیا اور وہ بولی کہ خدا کے واسطے میری مدد کجیئے' میں فوراً اس کے پاس پہنچا تو اس نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا اور مجھے اس وقت یہ دیکھ کر برا تعجب ہوا کہ نہ تو اس کا کسی چیز میں کپڑا اٹکا ہے اور نہ پیر اٹکا ہے لیکن فوراً ہی اس نے لنگڑاتے ہوئے آگے برھنے کی کوشش کی اور گویا درد سے بیتاب ہو کر کہنے لگی "میرا پیر ٹوٹ گیا۔" میں نے استفسار کرتے ہوئے تسلی دینی چاہی تو اس نے بالکل ہی بےتکلف اور آذادی سے اپنا داہنا ہاتھ میرے گلے میں اچھی طرح حمائل کر کے اور مجھ پر لد کر اپنا پورا بوجھ دالتے ہوئے کہا کہ "براہ کرم جس طرح بن پڑے مجھے نیچے تک پہنچا دیجیئے۔"
آپ خود خیال فرمائیں کہ میں کد طرح انکار کرتا جبکہ یہ کہنے کے ساتھ ہی اس نے اسی شان سے کہ مجھ سے چمٹی یوئی اور گلے میں ہاٹھ حمائل ہے لنگڑا کر میرے ساتھ چلنا شروع کر دیا اور چار چھ قدم چلنے کے بعد ہی یہ معلوم ہوا کہ یہ نسوانی بوجھ اس طرح گھسیٹنا میرے بس کا روگ نہین لیکن اس عجیب و غریب تجربہ میں آ سے کیا عرض کروں کہ میرے دل میں کیسے لڈو پھوٹ رہے تھے۔
قصہ طویل ہے۔ مختصر اس کو یوں سمجھئے کہ تھوڑی ہی دیر بعد ہم دونوں ایک بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میری معلومات میں ایک نیا اضافہ ہوچکا تھا یعنی یہ کہ مسز بلحی مجھ پر بری طرح عاشق ہو چکی تھیں۔ نہ صرف انہوں نے مجھ کو مطلع کر دیا تھا بلکہ مجھے خود پتہ چل گیا تھا کہ غریب میرے عشق میں بری طرح عاشق ہو چکی تھیں۔ اب اس کا علاج صرف یہی ہے کہ اس کی خواہش کے مطابق اس کے گھر چلوں یعنی اس کے مرھوم شوہر کے گھر جس کی اب وہ سولہ آنے خود مالک و مختار ہے اور اب اس مال و دولت میں اپنا شریک بنانا چاہتی ہے۔
اب ایسے موقع پر یہ سوال نہین ہے کہ آپ ہوتے تو کیا کرتے یا کوئی اور ہوتا تو کیا کرتا بلکہ یہاں تعلق اس سے ہے کہ میں نے کیا کیا۔ میں نے یہ کیا کہ اسے ساتھ لے کر نیچے اترا، چوپاٹی پر عجیب بہار تھی۔ ہمیں اس کیا مطلب تھا ہم نے جلدی سے ایک موٹر کرائے پر لیا اور اس کے گھر کی طرف چلے' ایک عالیشان بلڈنگ کے پاس اس نے موٹر رکوایا۔ ہم دونوں اترے اور اس کے پیر کا درد قریب قریب غائب تھا۔ تیسری منزل پر پہنچے ۔ مگر اس نے ایک کمرے کے دروازے کا تالا ہاتھ میں لے کر کہا "اب کیا کروں نوکر تالا دے کر چل دیا۔"
چار و ناچار ہم سونوں کو لوٹنا پڑا کیونکہ اس نے بتلایا کہ نوکر دو گھنٹے بعد آئے گا۔ میں نے پوچھا کہ اب آپ کہاں چلیں گی۔ تو اس نے کہا کچھ چائے اور آئس کریم کھا کر سینما چلئے۔"
مجھے بھلا کیا انکار ہو سکتا تھا نیچے آکر میں نے پھر موٹر کرائے پر لیا اور سیدھے ان کی
 

مقدس

لائبریرین
181
(371)

فرمائش کے مطابق اس کی ایک ملنے والی کے یہاں چلے' وہاں سے تین لڑکیاں اور ہمارے ساتھ ہو لین اور سب مل کر ہوٹل میں پہنچے' کچھ کھا پی کر سینما گئے جہاں فرسٹ کلاس کے میں نے سب کے لیے ٹکٹ کریدے اور سینما دیکھنے کے بعد صبح کا وعدہ کر کے ہم سب رخصت ہوئے۔
اب میں جائے قیام پر پہنچ کر اپنی جیب کا جائزہ لیتا ہوں تو پیر تلے سے زمین نکل گئی۔ مطلب یہ بمشکل دو ڈھائی روپے ہوں گئے۔

(6)
دوسرے دن پہلا کام یہ کیا گیا کہ ساٹھ روپے کے قمیص کے بٹن پینتیس روپے میں رکھ دئے یہ کیوں؟ محض اس لیے کہ عشق سے سابقہ ذرا اچھی طرح نباہنا چاہیے۔ بدقسمتی سے یا خوش قسمتی سے یہ سمجھے ہوئے تھے کہ بمبئی کے سیٹھ کی بیوی سے شادی کریں گے اور سیٹھ کی دومت پر قبضہ جمائیں گے۔ چنانچہ 35 روپے جیب میں ڈال کر چلنے کی تیاری کی۔ آئینے میں دیکھ دیکھ کروہ سنگھار کیے کہ آپ سے ہم کیا بتائیں۔ بڑی دیر تک آئینے میں اپنی صورت دیکھتے رہے' ادھر سے دیکھا ادھر سے دیکھا اور ہر طرح اپنے آپ کو قبول صورت اور صاحب جمال پایا۔ دل نے فوراً کہا کہ بھیا مرزا دراصل تو بہت خوبصورت ہے اور یہ جو شوخ اور خوبصورت چھوکریاں جن کے دماغ مغعربی تعلیم نے خراب کر دئے ہیں تجھ کو چمرخ' پھٹیچرپنکی' تنکا افیونی اور سنیکیا پہلوان وغیرہ وغیرہ کہتی رہتی ہین تو اصل میں جھک مارتی ہین۔ اب تو تمہارے اوپر عاشق ہونے کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اگر تم کچھ دنوں اور بمبئی رہ گئے تو تعجب نہیں کہ حسینان بمبئی تمہیں تبرک کر کے بانٹ لیں۔ ہم نے کہا کہ "اے بھیا دل! اللہ تمہارا بھلا کرے۔ ہم تو کچھ کہتے سنتے نہیں ہیں' مگر ہاں اتنا تو ہم بھی جانتے ہیں کہ بمبئی میں پرکھ والیاں ہیں ورنہ اپنی طرف کا حال یہ ہے کہ اچھوتوں کو چھوڑ کر ہمیشہ عاشق ہونے والیاں امیروں ہی کو ڈھونڈتی ہیں۔"
مسز بلحی کے گھر پر جو میں پہنچا تو اس کو سڑک کے کنارے اپنا منتظر پایا' میں اترنے لگا تو وہ مسکراتی ہوئی خود موٹر پر چڑھ آئی اور شوفر سے کہا کہ رانی باغ چلو۔ شوفر نے موٹر کو پوری تیزی کے ساتھ چھوڑ دیا اور ہم دونں باتوں میں مشغول ہو گئے۔ وہ وہ تجویزینں کیں اور وہ وہ خوشگوار خواب میں نے دیکھے کہ بیان نہیں کر سکتا ۔ مسز بلحی کے عشق و حقیقی کی قدم قدم پر تصدیق ہوتی تھی۔
رانی باغ گئے اور سیر کی وہاں سے واپس ہوئے اور وہ اپنی ملنے والیوں کئ یہاں لے گئی اور شام تک وہی پروگرام رہا جو گذشتہ دن رہا تھا اور پروگرام میں بائیس روپے خرچ ہو گئے اور اب مجھے فکر ہوئی کہ روپے کا کچھ انتطام کرنا چاہیے۔ بمبئی میں میرے یار غار اور ہمدرد صرف
 

مقدس

لائبریرین
182

(372)
ایک تھے۔ بڑے یار باش، ضرورت سے زیادہ زندہ دل اور بڑے سچے ہمدرد۔ یہ حضرت اودھ کے رہنے والے ایک بوجواب سید تھے اور ریلوے میں نوکر تھے۔ چنانچہ میں اسٹیشن پر پہنچا تو ان کو ریسٹ روم میں یار دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں پاہا۔ فوراً ان کو ساتھ لے کر پشت والے کمرے میں تنہائی میں لے جا کر اپنی رام کہانی شروع کی۔ بہت تھوڑی سی سنا پایا تھا کہ وہ ہنس کر بولے کہ ۔"پھر آگے وہ لنگڑاتے ہوئے بھی تمہیں ملی یا نہیں اور اس کو تم نے چلنے میں مدد دی یا نہیں۔"
ظاہر ہے کہ مجھے کتنا تعجب ہوا ہو گا کہ میں نے ان سے کہا بھی نہیں اور انہین معلوم ہو گیا۔ چنانچہ میں یہ سمجھا کہ شاید انہوں نے مجھے اس کے ساتھ دیکھ لیا ہے' چنانچی ہنس کر میں نے کہا @تم کو کیسے معلوم ہوا۔"
اس کے جواب میں انہوں نے ایک ذبردست قہقہ لگایا اور ہنسی سے بیتاب ہو کر کرسی سے باوجود میرے پکڑنے اور روکنے کے اٹھ کھڑے ہوئے اور بڑے کمرے میں جہاں لوگ بیٹھے تھے ہپہنچ کر چلا کر کہا۔ "ارے میاں فاروق کچھ نئی سنو۔"
فاروق ہنس کر بولے۔ "کیوں بھئی کیا معاملہ ہے۔"
انہوں نے میری پیٹھ پر زور سے ہاتھ مار کر قہقہ لگا کر کہا ۔"ان پر بھیا مالا بار ہل والی نے الو کی لکڑی پھیر دی۔"
ان کا یہ کہنا تھا کہ کمرے کا کمرہ مارے ہنسی کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ بھروں کیطرح سب مجھے چمٹ پڑے' کوئی پوچھتا تھا کتنے روپے کھو بیٹھے' کوئی کہتا تھا ان کا وہ حال ہوا کہ مفلسی میں آٹا گیلا۔ کوئی کہنے لگا کہ میرے یار تم نے اپنی صورت تو دیکھی ہوتی آئینہ میں کہ کوئی اس پر عاشق ہو ہی نہیں سکتا۔ کوئی اور بولا کہ ان کے کان میں شیطان یہ کہہ گیا ہے کہ بھیا تجھ سے زیادہ حسین کوئی نہین وغیرہ وغیرہ' پھر ساتھ ہی حاضرین میں سے جو خود میری طرح تختہ مشق بن چکے تھے وہ بھی طرح طرح کی مسخری کی باتیں کرنے لگے۔ نتیجہ یہ کہ جب اطمینان سے بیٹھ کر مجھ سے احوال مفصل پوچھا گیا تو میں نے مجبوراً اپنی مصیبت گھٹانے کے لیے نقصان کی میزان صرف سات روپے بتلائی اور اس کے بعد معلوم یہ ہو کہ اس چالاک عورت کا پیشہ یہی ہے کہ کسی احمق پر روز عاشق ہونا اور اپنا الو سیدھا کرنا۔
یہ وہ داستان ہے کہ ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر بھی عمر مین ایک لڑکی عاشق ہوئی' اب یہ اور بات کہ خود ہم نے ہی سلسہ عشق کو توڑ دیا اور پھر جتنے دن بمبئی میں رہے کبھی اس طرف کا رخ نہ کیا۔ اب دیکھیں اور کوئی بھی ہے جو اس مضمون کے عنوان نما سوال کا جواب دے۔
 

مقدس

لائبریرین
182

(373)

چند بیل

ایک بیل کو میں نے دیکھا کہ خاموش بیٹھا جگالی کر رہا ہے' آنکھین نیم باز ہیں اور ایک کتا بڑی مشقت' تن دہی اور انہماک کے ساتھ اس کے منہ کے سامنے کھڑا بھونک رہا ہے۔ بڑھ بڑھ کر بھونکتا ہے اور پیچھے ہٹتا ہے۔ آخر جب کتا بہت قریب پہنچ گیا تو بیل نے زور سے "سوال" کر کے یوں سر ہلا دیا جیسے ہم آپ نفی کے طور پر سر ہلاتے ہیں۔ کتا بچھاڑ کھا کر بھاگا اور بدحواسی میں ایک آدمی سے جس کے سر پر ایک توکرا تھا لڑ گیا اور ٹوکرا گر گیا۔ بیل خاموش بیٹھا جگالی کرتا رہا۔
ایک بیل کو میں نے دیکھا کہ اس کے پیچھے ایک چھوٹا کتا اور دو عدد پاؤ ڈیڑھ پاؤ وزن کے پلے دوڑ رہے ہیں۔ بیل نے بدحواس ہو کر ہاکی فیلڈ کا رخ کیا۔ ایک خوانچہ لوٹ دیا ایک بنچ مع لڑکوں کے پھاند گیا' میدان میں جب لڑکے دوڑے تو گول میں گھس پڑا' اس طرح کہ جالی توڑ کر پار نکل گیا۔ سوچتا ہو گا کہ آج بال بال بچے' کیونکہ کتے اس سے الگ ہو گئے۔ ایک بیل کو میں نے دیکھا کہ ادھر سے آ رہا ہے۔ ادھر سے میں جا رہا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے ریب سے گزرے۔ سردی کے دن تھے وہ ٹاٹ کا اوور کوٹ پہنے ہوئے تھا اور میں اون کا اوور کوٹ پہنے تھا۔
ایک بیل نے (جس کا لقب سانڈ تھا) ایک چھوٹی سی بیل گاڑی پر حملہ کیا۔ جس میں میں بیٹھا تھا۔ دو بیل گاڑی کے اور تیسرا یہ سانڈ۔ ان تینوں کی کوشش کہیئ یا بدعنوانی' نتیجہ یہ نکلا کہ گاڑی کا ایک پہیہ بڑے مزے سے ایک فٹ اونچی چبوتری پر چڑھ گیا' گاڑی ٹوٹ گئی۔ نیچے ہم لوگوں کے بھوسا رکھا تھا، چوٹ کم لگی مگر گت خوب بنی۔ سانڈ ادائے عرض کے بعد بھاگ گیا۔
ایک مرتبہ میں بیل گاڑی پر بڑی دور جا رہا تھا۔ ایک بیل موتا تھا اور ایک دبلا۔ جو موتا تھا وہ سست چلتا تھا اور مار کو بھی کسی مار میں نہ لاتا تھا۔ میں نے تنگ آکر گاڑی والے سے کہا کہ اس کو خوب مارو۔ وہ بولا کہ اسے زیادہ مارا تو یہ فوراً نان کو اپریشن کر دیگا اور چلتے چلتے بیٹھ جائے
 

مقدس

لائبریرین
183

(374)
گا' پھر چاہے کاٹ دالو مگیہ نہ اٹھے گا۔ مجھے یہ بات ناممکن معلوم ہوئی اور اس کو پٹوایا نتیجہ یہ کہ وہ بیٹھ گیا اور بری طرح مارا اور کھرا کرنے کی کوشش کی تو وہ لیٹ گیا۔ اب قیاس میں آنا ناممکن ہے کہ کس کس طرح اس کو مارا مگر نہ اٹھنا تھا نہ اٹھا، آنکھوں پر مارا' سینگوں پر مارا' منہ توڑ دیا' مگر ہو لیٹا رہا۔ جب میں ہار گیا تو کنارے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر دم لینے لگا کیونکہ مارتے مارت تھک گیا تھا۔ سگرٹ سلگایا۔ گاڑی والے نے اپنی چلم سلگائی۔ نہ معلوم مجھے کیا سوجھی کہ گاڑی والے کئ چلم لے کر بیل کی دم کے نیچے چلتی ہوئی مہر کی طرح لگا دی۔ میں آپ سے کیا عرض کروں کہ کیسے وہ تڑپ کر اٹھا ہے کہ بیان سے باہر پھر لطف یہ کہ سولہ میل تک اس کو ہر طرح مارا مگر کبھی نہ بیٹھا۔ چند مہینے بعد گاڑی والا پھر ملا اور کہنے لگا کہ بس ایک دفعہ اور لیٹ گیا تھا مگر وہ ترکیب جو کی تو پھر کبھی بھول کر بھی اس نے ایسی غلطی نہیں کی۔
ایک بیل کی طبعیت خراب ہو گئی یعنی ہماری اور آپ کی طرح زبان میں چھالے پڑ گئے۔ ایک دیہاتی سول سرجن آئے جو ذات کے چمار تھے جو ذات کے چمار تھے۔ انہوں نے معائنہ کیا۔ تیل اور نمک طلب فرمایا۔ دونون کو ملا کر ایک برتن میں رکھا بیل کو پیر باندھ کر گرایا اور پھر زبان اس کی باہر نکال کر ایک کھرپے سے زبان کے چھالے بری طرح چھیلے۔ اس کے بعد نمک اور تیل اچھی طرح زبان پر ملا اور اس کے بڑی صفائی سے اپنا جوتا اتار کر زمین پر اس کا تلا رگڑ کر زور زور سے بیل کی زبان پر رگڑا۔ پھر چھوڑ دیا۔ بیل صاحب کھڑے کر دیے گئے ناک میں زبان بار بار دال رہے تھے۔ آپریشن نہایت ہی کامیاب رہا ۔ بیل صاحب تیسرے ہی روز صحت یاب ہو گئے۔
ایک بیل صاحب کو میں نے دیکھا جن کی قیمت معلوم ہوا پانچ سو اسی روپے ہے۔ وہ اس طرح پر کہ اسی روپیہ کے تو وہ خود تھے اور پانچ سو روپیہ کا نوت کھا گئے تھے اور کھا کر فوراً بھاگ گئے اور دن بھر نہ ملے۔ غالباً قتل کر دیے جاتے۔
ایک مرتبہ ہم لوگ شکار کو گئے۔ مستقر سے شکار گاہ تک بیل گاڑی سے پہنچے۔ ایک مناسب مقام پر گاڑی چھوڑ دی اور شکار میں مشغول ہو گئے۔ ہم سب لوگوں کا اور بیلوں کا ناشتہ گاڑی میں رکھا تھا۔ ایک بیل صاحب اپنا ناشتہ کھاتے کھاتے ہم لوگوں کے ناشتے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ سالن کی قسم سے جتنی چیزیں تھیں وہ زیادہ تر پھینک دیں۔ پراٹھے کل کے کل کھا لیے اور دسترخوان کھا رہے تھے کہ ہم لوگ بھوک پر دھار رکھے ہوئے کھانے کے لیے پہنچے جو ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیل صاحب دسترخوان کھانے میں مشغول ہیں ورحا لیکہ ہم گیارہ بھوکے یہ سوچنے لگے کہ دسترکوان پراٹھوں سے پہلے کھایا جاتا ہے یا پراٹھوں کے بعد۔ معلوم یہ ہوا کہ پراٹھوں کے بعد کھایا جاتا ہے۔ بھوک کے مارے مرمر گئے۔ ورنہ جس نے ہمارا ناشتہ کھا لیا ہم اس کا
 

مقدس

لائبریرین
183

(375)

ناشتہ کھا جاتے۔ کچھ بھی ہو۔ یہ پتہ چل گیا کہ شکار اس کو کہتے ہیں۔
ایک بیل صاحب کے بےتکلف احباب میں سے ایک کتے صاحب خوش ہو جاتے اور دو پیر سے کھڑے ہو کر ان سے گلے ملتے۔ جھوٹ موٹ اس کے پیروں میں کاٹ کاٹ کر بھاگتے اور یہ تمام باتیں بیل صاھب خندہ پیشانی سے گوارا فرماتے بلکہ جواباً کتے صاحب کو محبت کی نظر سے دیکھتے۔ صبح معمول تھا کہ بیل صاحب تشریف فرما ہیں اور ان کے بےتکلف دوست ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر ان سے کھیل رہے ہیں۔ دوپہر کو کتے صاحب اپنے دوست کے بالکل ہی پاس آرام فرماتے تھے۔
آگرے میں ایک سانڈ صاحب ہیں۔ ان کا دستور ہے کہ کسی مٹھائی کٹھائی کی دکان پر کھڑے ہو کر کھانا شروع کر دیا۔ اب لوگ مار رہے ہیں تو وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ محبت ہے۔ یعنی لوگ مار مار کر کھلا رہے ہیں۔ لہذا جہاں تک مار یا زور کی وجہ سے ہٹنے یا ہٹانے کا تعلق ہے وہاں تک ہٹنے سے کیا مطلب۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے سامنے ہی سے چیز اٹھا لی جائے۔ چنانچہ جب میزبان کی اس طرح سے نیت معلوم کر لی تو پھر ٹھہرنا بیکار خیال فرماتے ہیں۔
ایک بیل کے مالک ہیں کہ جنہوں نے ایک اعلی درجے کا عملی و ادبی رسالہ جاری کر رکھا ہے اور لطف یہ کہ جنوری مین سالگرہ نمبر کا اہتمام فرماتے ہیں۔ آپ کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ دسمبر کے پرچے میں ایک عجیب و غریب عنوان تجویز فرما کر میرا نام چھاپ دیا کہ ہمارے "مشہور مزاحیہ نگار" اس پر مضمون لکھیں گے۔ اب آپ ہی کہیے کہ کیا میں اس عجیب و غریب مطالبے سے عہدہ برا ہو سکا ہوں۔
 

مقدس

لائبریرین
۱۴۶
(۳۰۰)

سو پونڈ کے علاوہ کرایہ وغیرہ بھی لے چکا تھا۔ اور شام تک کچھ تار کا جواب نہ آیا۔ شام کو ٹہلنے چلا گیا۔ پاس کوڑی نہ تھی۔ کچھ جی الجھ سا رہا تھا۔ دیر تک سمندر کے کنارے بیٹھا رہا۔ یہی سوچا کیا کہ دیکھو تو والد صاحب کی کفاہت شعاری کہ کسی بھائی کو بمبئی ہمیں لینے تک کو نہ بھیجا اور نہ کوئی رشتہ دار آیا اور پحر یہ کہ روپیہ تار سے منگوایا تب بھی نہ بھیجا۔ رات گئے ہوٹل واپس آیا۔ سر میں کچھ خفیف سا درد تھا، صبح آنکھ کھلی تو حرارت تھی۔ اس پر غلطی یہ کی کہ حسب عادت نہا لیا۔ اخبار پڑھتے پڑھتے ہی تیز بخار آ گیا اور رات تک بخار کی تیزی میں بیہوش سا ہو گیا۔ ہوٹل والے نے مجھ سے کہا کہ ڈاکٹر کو بلواوَ۔ مگر جب میں نے کہا کہ"میراے پاس روپیہ نہیں ہے تو اس نے کہا کہ ہم روپیہ نہیں سے سکتے۔" میں نے کہا کہا"آپ ایک جوابی تار میری طرف سے والد صاحب کو اس پتے پر بھیج دیجئے اور اس میں لکھ دیجئے کہ میں بیمار ہوں۔ جلد سو روپیہ بھیج دیں۔" یہ تار دیا گیا۔ ادھر والد صاحب کا حال سنئے۔ تار جو پہنچا تو کہنے لگے کہ "یہ دیکھو ابھی تو تار دیا کہ بٹوا کھو گیا۔ اور اب یہ لکھتا ہے۔" جواب دیا کہ "روپیہ تو بڑی چیز ہء۔ ایک کوڑی نہ بھیجی جائے گی۔ خواہ آوَ خواہ بمبئی میں ہی پڑے رہو۔" نہیں کہہ سکتا میرا کیا حال ہوا۔ یہ میں سوچ رہا تھا کہ اپنی گھڑی فروخت کر دوں گا لیکن بخار کی شدت نے ءی حالت کر دی کہ مجھے تن بدن کا ہوش نہ رہا۔ ہوٹل والے نے جب یہ حالت دیکھی تو اس نے خیراتی ہسپتال پہنچانے کی فکر کی۔ اسباب اپنے قبضے میں رکھ کر مجھے غشی کے عالم میں ہسپتال پہنچا دیا گیا اور مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کہاں تھا اور کہاں آگیا۔ دراصل مجھے معیادی بخار ہو گیا تھا۔

(۲)

دوسرے دن رات بھر اتنا تو یاد ہے کہ نہ معلوم کیا بکا کیا۔ صبح کو ذرا طبعیت ٹھکانے جو ہوئی تو میں نے معلوم کیا کہ ہسپتال میں ہوں۔ جنرل وارڈ یعنی عام وارڈ میں ایک پوہے کے پلنگ پر ہسپتال کے کپڑے پہنے پڑا تھا کہ اتنے میں ایک کم رو سانولے رنگ کی نرس آئی' اس نے حرارت وغیرہ دیکھی' میں نے اس اسے اپنے آپنے آنے کی تفصیل دریافت کی؛ اس نے سب قصہ سنایا کہ کس طرح ہوٹل والے نے بھیجوایا ہے۔ مجھے سخٹ غصہ آ رہا تھا۔ اور میں نے بھی جھنجھلاہٹ میں طے کر لیا کہ اب والد صاحب کو کچھ نہ لکھوں گا۔ چنانچہ نرس سے میں نے کہا کہ "بڑی مہربانی ہو اگر میرا اسباب ہوٹل سے منگا کر مجھے آپ بجائے خیراتی وارڈ کے پرائیویٹ بورڈ میں بھرتی کرا دیں اور یہ کہ میرے پاس روپیہ پیسہ نہیں ہے۔ لہذا میں چاہتا ہوں کہ میرے بکس مین ایک سونے کی گھڑی کی زنجیر رکھی ہے۔ اس کو نکال کر کسی طرح فروخت کرا دیں اور ہوٹل کا بل ادا کر دیں اور بقیہ روپیہ میری دوا اور علاج پرائیویٹ وارڈ کا ایک الگ کمرہ لے کر خرچ کیا جائے۔"
 

مقدس

لائبریرین
۳۰۱
حالانکہ یہ اس کی ڈیوٹی نہیں تھی۔ لیکن اس نے ہوٹل والے کو کہلا بھیجا اور میرا اسباب بھی آگیا اور ہم پرائیویٹ وارڈ میں بھی آگئے۔ اب میں نے غور کیا کہ اپنے بکس کی کنجی تو دی ہی نہیں تھی' زنجیر فروخت کو کر یہ روپیہ کہاں سے آیا۔ نرس سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ "میں نے اپنے پاس سے دیا ہے۔ آپ اطمینان سے دے دیجیئے گا۔" میں نے اس ہمدردی کا شکریہ ادا کیا اور کنجی دے کر پھر تاکید کی کہ زنجیر نکلوا لیجئے۔ اس نے کنجی واپس کر سی اور کہا کہ "ابھی مجھ کو زنجیر کے فروخت کرانے کی فرصت نہیں ہے۔"
جس کمرہ میں اب میں آیا۔ یہ ایک چھوٹا مگر بڑا صاف ستھرا تھا۔ نرس خاص طور پر تیماداری کر رہی تھی لیکن دو چار ہی روز میں مرض نے کچھ صورت ہی دوسری اختیار کر لی۔ مرض کا وہ زور ہوا کہ کروٹ لینا بھی ناممکن ہو گیا۔ اور دو تین ہی روز میں غشی یا ہذیان کی حالت میں وقت گزرتا تھا' مگر نرس بیچاری دن رات ایسی تیماداری کر رہی تھِ کہ اگر یہ نہ ہوتی تو شاید ہم مر چکے ہوتے۔ دوا کے وقت دوا دینا اور غذا کے وقت غذا دینا ضروریات کا خیال رکھنا اور بار بار گندے کپڑے بدلنا غرض ساری خدمت یہی انجام دیتی تھی۔ رات کو جب کبھی میری آنکھ کھلتی تو ا سکو جھکا پاتا اور بڑی ہمدردی سے یہ حال پوچھتی اور پھر گھنٹوں سر دباتی اور بے کلی کو دور کرتی۔ اس حالت میں میں نے بار بار اس ے زنجیر کا تقاضا کیا۔ لیکن وہ ٹال ٹال دیتی۔ میں نے کہا کہ "آخر یہ خرچ کہاں سے چل رہا ہے۔"
اس کا نام میری تھا اور اس نے کہا "میں نے اپنے پاس سے دیا ہے۔ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں۔ میں خود آپ کی زنجیر خرید لوں گی۔"
"اسے ابھی نکالو۔" میں نے کرب کی حالت میں کہا۔ "ابھی نکالو ابھی نکالو۔"
میری نے کنجی لی اور بکس کھول کر زنجیر نکالہ۔"یہ کتنے کی ہو گی؟" میں نے پوچھا۔
میری نے مسکرا کر کہا "آپ کو معلوم ہونا چاہیء، جتنے میں آپ نے کریدی ہے آپ مجھے دیجیے۔"
میں نے کہا۔ "سسٹر تم کیوں اتنے دام دو' جتنی قیمت لگے' اتنی دے دو۔"
مگر مجھ کو تو فرصت نہیں کہ خود لے جا کر اس کی قیمت معلوم کروں اور دوسرے پر مجھے اعتبار نہیں۔ جتنے میں آپ نے کریدی ہے۔ اتنے دام مجھ سے لے لیجئے اور اگر اس سے کم کی ہو تو بعد میں مجھَ واپس کر دیجئے گا۔" یہ کہتی ہوئی وہ میرے پاس آئی اور اس نے میرے ماتھے پر سے بال ہٹاتے ہوئے کہا۔ "آپ متفکر نہ ہوں۔ آپ کو باتیں نہ کرنا چاہیے۔"
اس کی ہمدردی کا میرے دل پر خاص اثر ہوا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دبایا اور کہا۔ "روپوں کے حساب سے میں نے تین سو میں لی تھی۔ تم کو دو سو میں دوں گا۔ اگر اس سے
 

مقدس

لائبریرین
۱۴۷

(۳۰۲)

کم دام لگیں گے تو واپس کر دوں گا۔"
"مجھے منظور ہے۔ میں نے لے لی۔ اب تم خاموش ہو جاوَ۔" یہ کہہ کر اس نے زنجیر اپنی جیب میں رکھ لی اور کہا۔ "میں تمہارے اخراجات کا حساب رکھتی جا رہی ہوں۔ جتنا کچھ بچے کا وہ تمہیں واپس کر دوں گی۔ اب تو تم بات نہ کرو۔"
میں کچھ بولنے ہی کو تھا کہ اس نے میرے منہ کو آہستہ سے اپنے ہاتھ سے بند کر دہا اور مسکرا کر کہا۔ "تم اچھے مریض ہو۔ بس بات نہ کرو۔ چپ ہو جاوَ۔"
میں چپ ہو گیا۔ بخار بےچین کر رہا تھا اور میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کی طرف بڑھا کر پکڑ لیا اور اس کو دیر تک اپنے بائیں ہاتھ میں دابے رہا۔ دوسرے ہاتھ سے وہ میری پیشانی اور سر سہلاتی رہی اور میں سو گیا۔

(۳)
رات کو عجیب حال ہوا۔ بیہوشی کی حالت میں نہ معلوم کتنی دیر ہذیان کی سی حالت رہی۔ اتنا خیال ہے کہ بار بار اٹھتا تھا اور میری اور ایک اور نرس پکڑ پکڑ کر رکھتی تھیں۔ آج بجائے ایک کے دو نرسیں تھیں۔ میری کی ڈیوٹی ختم ہو جاتی تھی مگر جب بھی وہ نہ جاتی تھی، بخار کی تیزی میں یہ دونوں پکڑ ہکڑ کر لٹاتی تھیں۔ کبھی ہوش سا آ جاتا تھا اور کبھی پھر وہی بیہوشی اور بکنا اور اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کرنا۔ ایک دم سے زور دے کر میں اٹھ بیٹھا کہ میری نے سنبھال کر لٹایا۔ وہ پٹی پر بیٹھی ہوئی تھی تاکہ میں اٹھنے نہ پاوَں۔ اس نے چارپائی کی دوسری پٹہ پکڑ رکھی تھی اور خالی ہاتھ سے وہ میرا ماتھا صاف کر رہی تھی۔ دوسری نرس نے کپڑا برف میں بھگو کر سر اور پریشانی پر رکھ دیا۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ایک دم سے دماغ میں ٹھنڈک پہنچی۔ آنکھیں تھوڑی دیر میں کھل سی گئیں۔ میری بدستور پٹی پکڑے ہوئے میرا سیدھا ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ میں ایسے لئے بیٹھی تھی کہ اس کا سیدھا ہاتھ میرے اوپر سے گزر کر پٹی پکڑے ہوئے تھا، فیالفور دوسری نرس نے کوئی دوا مجھ کو دی۔ جو میں نے ہوش میں پی لی۔ ذرا دیر بعد وہ نرس میری سے یہ کہہ کر چلی گئی کہ"دیکھو یہ اٹھنے نہ پائیں، برابر موجود رہنا اور سر کا کپڑا ٹھنڈا کر کے بدلنا۔"
یہ دوا شاید نیند لانے کے لیے دی گئی تھی۔ تھوڑی سی دیر میں نیند کا غلبہ سا ہونے لگا۔ میری اسی طرح جھکی ہوئی میری آنکھوں کو دیکھ رہی تھِ، اس کا سر بالکل سینے پر تھا۔ وہ شاید یہ دیکھ رہی تھی کہ میں آیا سو رہا ہوں یا جاگ رہا ہوں۔ میں نے ذرا آنکھیں کھولیں تو اس نے آہستہ سے کہا ۔"سو جاوَ۔" اور یہ کہتے ہوئے اپنے بائیں ہاتھ سے میری آنکھیں ڈھک دیں۔ شاید میں فورا٘ سو گیا ہوں گا۔
 

مقدس

لائبریرین
۳۰۳
ابھی صبح نہ ہوئی تھی کہ میری آنکھ کھلی۔ میری اسی طرح بیٹھی تھی۔ مگر ا س کا سر میرے سینہ پر ٹھوڑی کے پاس ہی رکھا تھا اور وہ غافل سو رہی تھی۔ کئی دن سے برابر جاگ رہی تھی اور آج تو رات بھر اسی طرح اس کی گزر گئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بیٹھے بیٹھے اس کو نیند آ گئی اور سر وہیں کا وہیں گر گیا۔ بخار اب بھی تیز تھا۔ مگر نیند لینے سے اور سر پر برف رکھنے سے ضرور اچھا اثر ہوا تھا۔ میں نے ہمدردی سے اس غریب کے چہرے کو دیکھا اور دل میں میں نے اس کی تیماداری اور محنت کا اعتراف کیا۔ بوجہ کمزوری اور بخار کے دراصل اس کے سر کا بوجھ میرے سینہ پر سخت گراں گزر رہا تھا۔ مگر میں چونکہ اس وقت بالکل ہوش میں تھا۔ لہذا میرا جی نہ چاہتا تھا کہ اس غریب کو آنکھ جھپکانے کا آرام بھی نہ لینے دوں۔ جو شخص رات دن جاگتا رہے' اس کو تو سولی پر بھی نیند آ جاتی ہے نہ کہ ایسے موقع پر۔ میں نے اس کو رہنے دیا۔ لیکن نہیں بیان کر سکتا کہ تھوڑی ہی دیر بعد میرا تکلیف کے مارے کیا حال ہونے لگا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دراصل اس کی تھوڑی ہی دیر ہوئی ہو گی اور میری آنکھ بھی قبل از وقت شاید اس کے سر کے بوجھ سے گھبرا کر کھل گئی۔ قصہ مختصر وہ بیچاری کچھ آرام نہ کر پائی اور مجبور ہو کر میں نے ارادہ کیا کہ اس کو جگا دوں۔ مگر کس طرح جگاوَں، بہتر صورت یہ معلوم ہوئی کہ تھوڑا سا کلبلانا چاہیے۔ چنانچہ یہی ہوا مگر وہ تو گویا گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی۔ کیونکہ اس کو کئی دن سے متواتر سونا ہی نہ ملا تھا۔ جو وقت اس کو ڈیوٹی سے الگ ملتا تھا وہ میری تیماداری میں صرف کر دیتی تھی' جب مجھے زیادہ بےچینی ہوئی اور برداشت نہ ہو سکی تو میں نے آہستہ سے اپنا سیدھا ہاتھ اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور اس کو ذرا اوپر کو کیا۔ مگر وہ بےطرح غافل تھی۔ تکلیف سے پریشان ہو کر آخر کو میں نے اسی طرح اسے ہوشیار کیا۔ وہ ایک دم سے چونک پڑی اور گھبراہٹ اور جلدی میں کہنے لگی:
"میں سو گئی۔ مجھے نیند آ گئی۔ معاف کیجے گا۔" وہ کچھ شرمائی ہوئی تھی۔ اس نے گھڑی دیکھی اور میرا ہاتھ اور ماتھا دیکھ کر کہا۔"آپ کو نیند آ رہی ہو تو سو جائیے۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ میں نے اس بدتمیزی سے سو کر آپ کو جگا دیا۔ آپ کو اس سے تکلیف پہنچی' معاف کیجئے گا۔"
میں نے کہا۔ "نہیں مجھ کو کوئی خاص تکلیف نہیں پہنچی۔"
میری نے پھر کہا۔ "کیا بتاوَں میری آنکھیں نیند کی وجہ سے درد کر رہی تھیں اور مجھے پتا بھی نہیں کہ کب میرا سر آپ کے اوپر گر گیا۔"
"آپ جا کر سورئیے، میری طبعیت بہت ہلکی ہے۔" میں نے آرام سے کرسی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ "اس پر لیٹ جائیے۔"
 
Top