ٹائپنگ مکمل عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

مقدس

لائبریرین
113

(231)

الگ ہے اور کیا فائدہ جو ناک چوٹی کاٹ کراسے نکالنا پڑا۔" اور پھر میں نے زور دے کر کہا:
"میں آپ کو روزانہ میٹھے ٹکڑے پکا کر کھلاؤں گی۔"
رفیق نے کہا "جھوٹی چڑیل کہیں کی سب خود کھا جائے گی۔۔۔ آپ اس کی باتوں میں نہ آئیے گا۔"
افضل بھائی کے ہوش اڑ گئے۔ رفیق نے وہ ملامت کی ہے کہ توبہ ہی بھلی۔"میں نہیں سمجھتی تھی کہ آُ مجھے اس لائق نہ سمجیھں گے اور اس مردی پر عاشق ہو جائیں گے۔ صورت نہ شکل۔ بھاڑ میں ستے نکل۔ پھوہڑیا کہیں کی۔ جہاں جائے گی مار جوتیاں نکالی جائے گی' بڑی آئی وہاں سے۔"
افضل بھائی بچے نہ تھے۔ ان کے ہوش جاتے رہے۔ اٹھ کر بھاگنے جو لگے تو میں نے ہاتھ پکڑا لیکن اماں جان کی جو آواز آئی تو ہم نے چھوڑ دیا۔ ہم دونوں اپنے کمرے میں آئے۔ ہنسنے کی کوشش کی مگر بجائے ہنسی کے غصہ اور رنج تھا، رفیق اپنے گھر جانے والی تھی۔ مگر اس وقت رک گئی اور ہم دونوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ اس بیہودہ افضل بھائی سے اب نہیں ملیں گے۔ شام کو رفیق چلی گئی۔
شام کا ذکر تھا کہ گھر میں ایک اضطراب و ہیجان کی صورت پیش ہو گئی۔ والد صاحب بار بار کہہ رہے تھے۔ "بڑے شرم کی بات ہے۔" عجلت اور پریشانی سے ٹہل رہے تھے۔ میں کچھ نہ سمجھ سکی سوا اس کے کہ حامد خاں کا معاملہ ہے، اس وجہ سے میں چپ رہی۔ مگر میرے دل کو فکر لگ گئی۔ ابا جان امی جان کو لے کر علیحدہ باغ کی طرف والے برآمدے میں گئے۔ افضل بھائی اپنے کمرے میں بند تھے اور میں چپکے سے غسل خانے میں پہنچ کر لگی کان لگا کر باتیں سننے۔ جو کچھ بھی میں نے سنا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ"بڑی شرم کی بات ہے!" کیونکہ حامد خاں دو دن سے تقیسم جائیداد کے لیے جھگڑ رہے تھے جس کا نتیجہ آج یہ نکلا کہ ان کے وکیل کا نوٹس آیا ہے کہ تین یوم کے اندر اندر حساب فہمی کر کے چپے چپے کا بٹوارہ کردو۔ بڑے شرم کی بات ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ ایک شخص بیٹے کی طرح ایک لڑکے کی پرورش کرتا ہے۔ اس کی جائیداد اپنی جائیداد سمجھ کر دیکھتا بھالتا ہے۔ حد یہ کہ اپنی بیٹی دینا منظور کر لیتا ہے اور لڑکے بدتمیزی ملاحظہ ہو کہ اس محسن کے احسانات کو تسلیم کرتے ہوئے کہتا ہے کہ "اکبر کے ساتھ جو بیرم خان نے کیا۔ اس سے انکار نہیں مگر اس کے یہ معنی تو نہیں کہ بجائے اکبر کے دلی کے تحت کے مالک خانخاناں رہیں۔" غضب خدا کا۔ "والد صاحب نے کہا۔ "اس بدتمیز چھوکرے نے میرا نام بیرم خاں رکھ دیا۔ لوگوں سے کہتا ہے کہ میں بیرم خاں ہوں!"
نتیجہ ظاہر ہے۔ "ہم اپنی لڑکی ایسے سرکش کو کیوں دیں؟"
 

مقدس

لائبریرین
13


228

کھانے سے کوئی آدھ گھنٹہ قبل۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا افضل بھائی والدہ صاھبہ کے ساتھ باتوں میں مشغول تھے اور مہمان کوئی تھا نہیں، میں تیزی سے اتر کر باغ میں چلی گئی۔ بیڈمنٹن کورٹ کے پاس لکڑی کی بنچ تھی۔ میں جا کر اس پر بیٹھ گئی، وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ باغ میں اندھیرا تھا مگر سڑک کی روشنی اور گھر کی بلند روشنی کی شعاعیں ایک عجیب نظاری پیش کر رہی تھیں۔ میں دو منٹ ہی بیٹھی ہوں گی اور دل میں قدرے گھبراہٹ سی تھی' لمحے گھنٹہ معلوم ہوئے اور میں حیرت سے دروازے والی سمت کی روش پر نظر جمائے بیٹھی تھی کہ پشت کی طرف سے آہستہ سے دلکش لہجہ میں آواز آئی۔
"سلیم۔۔۔ ۔۔"
میں اندھیرے میں کھڑی ہو گئی۔ یہ آواز تیرتی ہوئِ روح میں گرمی سی پیدا کرتی چلی گئی۔
"سلام علیکم" قریب آکر آہستہ سے کہا۔
میں کچھ نہ بولی تو پھر کہا۔ میں نے جواب دیا "وعلیکم السلام۔"
میں قطعی نہیں سمجھی تھی کہ میں اس قدر پریشان ہو جاوں گی۔ شرم کے مارے ایسی حالت ہو جائے گی۔ نہ میں مصافحہ کر سکی' نہ باوجود اندھیرے کے سر اٹھا سکی۔
"لاحول ولا قوہ" حامد خاں نے مصافحہ کے لیے ہاتح پکڑ کر جھٹک کر کہا "خدا کی قسم یہ کیا حماقت ہے۔"
مجھَ اتنی شرم آئی کہ بائیں ہاتھ سے میں نے آنکھ ملتے ہوئے ذرا مڑتے ہوئے کہا "مجھے جانے دیجئے۔۔۔ ۔"
اب ذرا صورت حال کی نزاکت پر غور کیجئے اور افضل بھائی کی "سیر کہسار" اور زندہ دلی پر ایک نہایت ہی سریلی آواز آتی ہے قریب ہی سے۔
"اور ہم بادبان ہو۔۔۔ و۔و۔و تے۔۔۔ ۔اے۔۔۔ اے تو دل۔۔۔ ۔سن تو لتا دے۔۔۔ تے"
(اگر ہم باغباں ہوتے تو گلشن کو لٹا دیتے)۔
(کسی کی آہٹ سن کر) "تون؟" ۔۔۔ ۔۔خاموشی۔
حامد خاں تو اس دخل در معولات سے گھبرائے لیکن میرے لیے ہنسی کا ضبط کرنا دشوار ہو گیا۔ افضل بھائی کو شبہ تھا کہ کوئی ہے۔ اس لیے اپنا مخصوص تحقیقاتی لفظ "تون" فرمایا تھا۔۔۔ مگر شبہ جاتا ہرا اور فورا الاپے۔
"اور ہم بادباں ہوتے۔۔۔ ۔" اندھیرے میں قریب ہی کسی جھاڑی میں سے رفیق نے جملہ پورا کیا۔۔۔ ۔ "تو کشتی میں بندھے ہوتے۔"
افضل بھائی کے منہ سے ایک عظیم الشان "تون" نکلا اور اندھیرے میں رفیق کی ہنسی کی
 

مقدس

لائبریرین
13

(229)

آواز۔ میں بھی ضبط نہ کر سکی۔ چھڑا کر بھاگی اور ادھر حامد خاں جل بھن کر کوئلہ ہو کو لاحول بھیجتے ہوئے بھاگے کیونکہ ہنسی کے سبب ہنگامہ ہونے لگا۔ میں اسی چپقلش میں چاہتی ہی تھی کہ چپکے سے نکل جاوں مگر بھائی افضل نے برآمدے میں داخل ہوتے مجھے دیکھ لیا۔ کہنے لگے "معلوم ہو سیا۔۔۔ ۔۔تون ہے۔"
دوسرے روز صبح کا ذکر ہے۔ ناشتہ ہم دونوں بہنوں نے اپنے کمرے میں کیا۔ رفیق والدہ صاحبہ پاس چلی گئی' میں تنہا بیٹھی تھی کہ کمرے کا پردو اٹھا اور بھائی افضل آ گئے۔ میں نے ہنس کر کہا۔ "آئیے آئیے۔ بھائی آئیے۔"
افضل بھائی نے محبت سے ہاتھ بڑھایا۔ میں نے گرمجوشی سے ہاتھ میں ہاتھ لے کر ان کو اصرار کرکے ایک نیچی سی گدی دار کرسی پو بٹھایا۔ افضل بھائی نے اپنے دلچسپ انداز میں باتیں شروع کر دیں اور بہت جلد رات والے "بادبان" والے قصے کو شروع کر کے مجھے شوخ شریر چلبلی وغیرہ وغیرہ کہہ کر اول تو بڑی محبت سے مارنے کو کہہ کر میری گردن دبائی اور جب میں نے ہنس کر کہا کہ "افضل بھائی اب نہیں چھیڑوں گی"تو میری گردن چھوڑ کر ہلکے سے میری گال پو محبت سے طمانچہ مارا۔میں نے کندھے سے بچانے کی کوشش کی تو کہنے لگے۔
"تیرا بدن درم ہے" یہ کہہ کر میری پریشانی پر ہاتھ رکھا۔ میں نے سوکھا منہ بنا کر کہا۔ "بخار ہے" اور ہاتھ پیش کیا۔ افضل بھائی نے میری نبض دیکھی۔ بولے "چل جھوتی۔" یہ کہہ کر پھر ماتھے کو میرے دیکھا۔ میں نے ہنس کر کہا۔ "افضل بھائی مجھے ٹھنڈا بخار ہے۔"
"تھندا بتھار!" تعجب کے لہجے میں افضل بھائی نے کہا۔ مجھ سے ہنسی ضبط نہ ہوئیتو آُ نے پھر میرے گال پر طمانچہ مارا۔ میں نے افضل بھائی کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور ان کا چہرہ دیکھ کر میرے تعجب کی انتہا نہ رہی! مجھے کچھ شبہ سا ہوا۔ بیان نہیں کر سکتی۔ کچھ پریشان سی ہو گئی اور بیٹھ گئی۔ افضل بھائی نے آہستہ سے کہا "سلمی۔۔۔ ۔" میرا ہاتھ گرمجوشی سے اپنے ہاتھ میں لیا اور۔۔۔ خدا کی پناہ! یہ واقعہ تھا کہ انہوں نے ایک زریں تجویز پیش کر دی یعنی یہ کہ ان کو مجھ سے محبت ہے' بقول ان کے سچی محبت ہے۔۔۔ میرے ہوش جاتےرہے۔ افضل بھائی مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
پہلے تو میں صدمے کے سبب کچل کر رہ گئی، ذرا امکان پر جو غور کیا تو ایک زریں پہلو نظرآیا تو عرض نہیں کر سکتی کہ کس قدر صدمہ جاتا رہا۔ خوش قسمت ہو گئی وہ لڑکی جس سے افضل بھائی کی شادی ہو۔ بھلا ایسا مشغلہ کبھی ہاتھ آتا ہے۔ اس تجویز کی نوعیت اور حماقت پر غور نہ کرنا ہی ستم ہو گیا۔ سب شرم و حجاب جاتا رہا۔ ہنسی کی سوجھی۔ میں نے کہا۔ "افضل بھائی آپ مجھ سے شادی کریں گے! مجھے منظور ہے مگر ایک شرط پر۔"
 

مقدس

لائبریرین
114

(232)

یہ الفاظ کتنے تکلیف دہ تھے، وہ مجھے تسلیم ہےکہ حامد خاں نے بدتمیزی کی۔ مگر۔۔۔ ۔ میں کیا کہہ سکتی تھی کیونکہ "واقعی بڑے شرم کی بات تھی۔" سوال اب یہ تھا کہ ہم اپنی لڑکی کیوں دیں؟ ظاہرا٘٘ کوئی وجہ نہیں تھی اور والد صاحب نے بھی پوری زمیندارانہ شان کے ساتھ طے کر لیا کہ حامد خاں کو اس محسن کشی کا صلہ اچھی طرح دیں گے۔ زمینداروں کی آپس کی لڑائی اور مقدمہ بازی کے نتیجوں سے میں خوب واقف تھی۔ زیادتی تھوڑی بہت والد صاحب کی بھی تھی۔ کوئی وجہ نہیں کہ بنک کا روپیہ حو حامد خاں کی امانت ہے کیوں نہ حامد خاں کے حوالے ہو۔ ایک خود مختار نوجوان پیسے پیسے کے لیے ہاتھ پھیلائے۔ مقررہ مہینے تک یکمشت نہ ملے۔ ضرورت اب ہے اور بنک سے نکال کر دینے کے بجائے انتظار ہے کہ گاوں سے رقم آئے' جب ملے۔ کارندوں کے پاس رقعہ لیے دوڑ رہے ہیں اور روپیہ نہیں ملتا۔ حد ہو گئی۔ حامد خاں کہتے ہیں کہ مجھے مقررہ رقم مہینے کے مہینے دیجیئے مگر ناممکن۔۔۔ ۔ قسطیں کر کے ملتی ہے۔۔ یہ سب کیوں؟ محض حامد خاں کے فائدے کے لیے۔۔
میں سن کر جلدی سے اپنے کمرہ میں چلی آئی اور گھنٹوں اسی فکر میں رہی۔
افضل بھائی دوسرے ہی روز چلے گئے۔ اپنی شادی کا میرے ساتھ طے کر کے اس شرط پر کہ اپنی کل جائیداد مہر میں دے دیں گے۔ مگر اس کا کسی کو علم نہ ہوا۔
اب قصے کو بیچ سے چھوڑ کر مختصر کرتی ہوں۔ مقدمہ بازی شباب پر پہنچی ادھر ابا جان نے روپیہ بند کر دیا اور ادھر کاشتکاروں نے انکار کر دیا۔ دوران مقدمہ خرچہ ملنے کے معاملے کو وکیلوں نے دھکیل دھکیل کر التوا میں ڈالا۔ نتیجہ یہ کہ حامد خان جل کر دیہات پہنچے' وہاں کاشتکاروں نے گستاخی کی۔ حامد خان نے مارا تو ابا جان نے فوجداری کا مقدمہ کاشتکاروں سے چلوا دیا اور مقدموں سے مقدمے پیدا ہونے کی ریت پڑی۔ حامد خاں نے بھلا یہ زکیں کب اٹھائی تھیں۔ مارے غصے کے دیوانے ہو گئے اور اسی دوران میں ان کو اور ان کو کیا سب کو یہ معلوم ہوا کہ میری شادی افضل بھائی سے ہو گی۔ میرے اوپر تو گویا بجلی گری' افضل بھائی نہ تو غریب تھے' نہ بدصورت مگر بخدا افضل بھائی تھے۔ میرے ہوش ٹھکانے نہ رہے' ماں باپ کی اکلوتی لڑکی۔ جس کے ساتھ شادی ٹھہری وہ بھی اکیلا۔ دونوں مل کر رئیسوں رئیس ہو جائیں، ساتھ کے ساتھ کھیلے ہوئے' ایک دوسرے سے واقف۔ یہ تو ستم سا معلوم ہوا۔ مگر میں کیا کر سکتی تھی' دیوانی ہو ئی جاتی تھی جب ان جھگڑوں پر غور کرتی تھی۔
کئی دفعہ سوچا کہ حامد خاں کو خط لکھوں۔ مگر کیا لکھوں؟ بارہا کوشش کی مگر بیکار۔ حتی کہ ادھر تو یہ خبر آئی کہ حامد خاں ایک آذاد خیال عیسائی افسر کی لڑکی کے ساتھ موٹروں پر دوڑے پھرتے ہیں اور عجب نہیں کہ نکاح کر لیں اور ادھر افضل بھائی کے یہاں سے منگنی کے
 

مقدس

لائبریرین
114

(233)
تحائف وغیرہ بھی آ گئے اور اعلان بھی کر دیا گیا۔ طے یہ پایا کہ ڈیڑھ مہینے بعد شادی! کیا یہ ممکن تھا۔
میں بغاوت پر آمادہ ہو گئی مگر کیا کر سکتی تھی۔ شریف گھرانے کی لڑکی تھی "بڑے شرم کی بات" ہوتی۔
اب والدین بیچاروں کی کیا خطا۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ افضل ایسا لڑکا ہے کہ کسی لڑکی کو ناپسند ہی نہیں ہو سکتا۔ سب پسند کرتی ہیں' وہ ہے ہی ایسا۔ بڑا بھولا (یعنی احمق؟) لڑکیاں تو اس پر سب فدا ہیں۔
جب میں نے دیکھا کہ اب کوئی چارہ نہیں تو میں نے ہمت کر کے ایک خط حامد خاں کو لکھا:
جناب خان صاحب۔ السلام علیکم۔ "بڑے شرم کی بات ہے" کہ آپ نے نہ تو ابا جان کا خیال کیا اور نہ میرا۔ میں آپ کے ساتھ کھیلی ہوئی تھی اور کچھ نہیں تو ساتھ کھیلے کے پاس کے سبب میرا بھی کچھ آپ پر حق تھا، مگر "بڑے شرم کی بات ہے" کہ نہ تو آپ کو اپنی بات کا پاس ہے اور نہ میری بات کا پاس ہے۔ کیا یہ آپ کی مقدمہ بازی کسی طرح بھی میرے لیے مفید ہو سکتی ہے؟
آپ کی سلمی
اس کا جواب آیا:
ڈئیر سلیم۔ تمہارا خط ملا۔بہتر ہے کہ زخموں کو یونہی رہنے دو۔ چچا صاحب سے میری صلح ناممکن۔ خواہ مر جاوَں مگر صلح ناممکن۔ تم مجھے بدستور عزیز ہو اور مجھے الزام دینا بیکار ہے۔ خطا میری مگر غلطی چچا صاحب کی ہے۔ مگر کیا ہوا۔ بقول کسی کے خدا کی مصلحت سے کون واقف ہے۔ اس میں بھی کوئی بہتری تھی اور ہے۔ خدا مبارک کرے۔۔۔ ۔ تمہارا بہی خواہ حامد
میں نے یہ خط دیکھا تو عرض نہیں کر سکتی جان ہی ےو میری جل گئی۔ صدمہ کم اور غصہ زیادہ آیا۔ میں نے بحی حسب ذیل خط لکھ مارا۔
جناب من! آپ کا گرامی نامہ ملا۔ "بڑے شرم کی بات ہے" کہ آپ ایسی ناشائستہ بات ایک بیچاری لڑکی کو لکھتے ہیں ۔ معاف کیجیے گا میری بےشرمی کو' کیا نوجوانوں کا یہی شیوہ ہے۔ آپ کو شرم نہ آئی لکھتے کسی کو؟ اپنی ساتھ کی کھیلی اور اپنی منسوبہ کو یہ لکھتے ہیں کہ مبارک ہو۔ کاش آپ زندہ نہ ہوتے۔ کوئی غیور نوجوان اس بات کو گوارا کر سکتا ہے۔ کیا اس ذلت کو گوارا کر سکتا ہے! جس کے آپ اہل ثابت ہوئے۔ کاش کہ مجھے موت آ جاتی۔ قبل اس کے کہ میں اس شخص کا دل آزار خط پڑھوں جو میرے خیالات کا مرکز رہ چکا ہو۔ مجھے سے زیادہ بدقسمت لڑکی غالبا کوئی نہیں ہو گی۔ مجھے سرد مہری کی شکایت اتنی نہیں معلوم ہوتی جتنی یہ معلوم کر کے کہ آپ کی محبت کیا ہوئی۔ کاش کے مجھ کو موت آ جائے۔
آپ کی خیراندیش
 

مقدس

لائبریرین
115

(234)

اس کا جواب ایک پھٹے ہوئے کاغذ پر بغیر آداب و القاب کے آیا:
"یہ تو ٹھیک ہے۔ مگر میں کر ہی کیا سکتا ہوں۔ مجھے خود افسوس ہے۔ کسی کی جان تو لینے سے رہا۔ فولاد جھک نہیں سکتا۔ میں خود عاجز ہوں۔
میں نے اس کا جواب دیا:
خان صاحب! السلام علیکم۔ فولاد نہ جھکے۔ مگر ٹوٹ سکتا ہے اور وہ رہ گئےلاچار اور بیچارے کو کچھ نہیں کر سکتے بہتر ہء کہ وہ نوجوان لڑکیوں کے خیالوں کی بستی کو ویران رہنے دیں۔ "رے شرم کی بات ہے" حیف ہے کہ ایک غیور نوجوان عذر خواہیاں اچھی جانتا ہے۔ کاش میں تمہاری جگہ ہوتی اور تم میری جگہ۔ تب غالبا کچھ بتا سکتی۔ خیر غالبا میری موت کی خبر تسکین قلب کا باعث ہو گی۔ غلطی ہوئی، اب نہ لکھوں گی' خدا حافظ۔
خاکسار سلمی
اس خط کو لکھنے کے بعد ہر صورت سے میں نے اپنی رضامندی کا اظہار والدین سے کروا دیا تھا۔ مگر اس کی کیا اہمیت تھی میں خاموش تھی۔ کیا غل مچانے لگتی۔
میں عجیب مایوسی کے عالم میں تھی کہ میں ان کی جگہ ہوتی تو کہہ نہیں سکتی کیا کرتی۔ مگر یہ طے ہے کہ یہ صورت ہر گز پیش نہ آتی۔ خواہ کچھ ہو جاتا۔ میں اسی شش و پنج میں تھی کہ حامد خاں کا پھر ایک مختصر سا پرزہ آیا:
"آپ نے اپنے ایک گذشتہ خط میں لکھا تھا کہ آپ کے خیالات کا مرکز "وہ چکا ہوں۔" براہ کرم مطلع فرمائیں اب کون ہے؟"
میری زبان سے یہ جملہ پڑھتے ہی نکل گیا "تم۔" اور یہی میں نے خط کے حاشیہ پر لکھ دیا اور واقعہ بھی یہی تھا۔
یہ خط وکتابت اس طرح ہوتی تھی کہ پہلا خط جو میں نے بھیجا تھا اس کا جواب باغ کی دیوار پر اینٹ سے دبا دینا اور اسی جگہ میں خط رکھ دیتی تھی۔ اس کا جواب آیا:
مائی ڈئیر سلیم۔ تم میری ہو اور اب دیکھنا ہے کہ کس میں ہمت ہے۔ جو مجھے روک سکے۔ میں کل ہی چچا صاحب کو الٹی میٹم دیتا ہوں۔ اگر نامنظور ہوا تو بہتر ہے کہ رات کو باغ کے کمپاوَنڈ والا دروازہ کھول دینا اور باغ کی طرف غسل خانے کا دروازہ بھی کھول دینا' بولو کھول دو گی ؟ اگر ہاں تو ابھی جواب لکھ دو۔۔ فقط۔
میں نے اسی خط کے حاشیہ پر لکھ دیا۔ "دروازہ کھول دوں گی مگر یہ تو بتاوَ کہ کہاں ملو گے؟ جواب جلد دیجئے۔" صرف آپ کی سلمی
دوسرے روز کا ذکر ہے کہ حامد خاں نے اپنے وکیل کو اور دو دوستوں کو بھیجا کہ شادی کی تاریخ مقرر کریں۔ نیز یہ کہ میری شادی دوسری جگہ ناممکن ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے۔ یعنی والد صاحب
 

مقدس

لائبریرین
115

(235)

نے ان پیغامبروں کو بغیر پٹوائے نکالا!
میں نے حسب وعدہ رات کو کھانا کھانے کے بعد باغ کا دروازہ کھول دیا اور غسل خانے کا دروازہ کھول دیا۔ رات گئےایک بجے تک نظر جمائے دیکھتی رہی۔ مگر کچھ پتا نہ چلا نہ جواب آیا۔ رات ایک بجے بعد میں سو گئی۔
سردی کا زمانہ تھا۔ ایک چھوٹا سا لیمپ میرے کمرہ میں جل رہا تھا اور میں غافل پڑی سو رہی تھی۔ کروٹ سے سوتی تھی کہ میری آنکھ کھلی۔ حامد نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھ کر میرا منہ چوم لیا اور میں اٹھ بیٹحی۔ میرے حواس باختہ ہو گئے۔ جلدی سے میں ے دوپٹہ اوڑھا،
"یہ کیا؟" میں نے برا مانتے ہوئے کہا۔ "بڑے شرم کی بات ہے۔"میں نے تیورہ پر بل ڈال کر سختی سے کہا۔
"جلدی چلو۔" حامد خان نے کہا۔ "کہاں؟" میں نے پوچھا۔
وہ بولے۔ "موٹر پر۔ موٹر تیار ہے۔" میں نے کہا۔ "بڑے شرم کی بات ہے غالبا آپ شریف ہیں۔"
حامد خاں نے کہا۔ "غالبا آپ کو چلنا پڑے گا۔" میں نے کہا۔ "ناممکن۔ بہتر ہے کہ آپ چلے جائیں۔"
حامد خاں نے کہا۔ "بہتر ہے آپ چلی چلیں۔ ورنہ۔۔۔ ۔۔"میں نے کہا۔ "ورنہ کیا؟۔۔۔ ۔"
حامد خان نے کہا۔ "پھر تم نے غلط لکھ دیا۔ تمہارے خیالوں کا مرکز کون۔۔۔ " میں نے شرم سے سر جھکا لیا۔
حامد خاں نے ہاتھ جھٹک کر کہا۔ "بولو۔بولو۔۔۔ ۔" میں نے کہا دبی آواز سے۔ "تم۔۔۔ "
حامد خاں نے کہا۔ "بخدا میں تم کو ابھی لے جاوَں گا۔ چلو۔۔۔ " میں نے ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا۔۔ "خدا کے واسطے جائیے۔ بڑے شرم کی بات ہے۔۔۔ "
ھامد خاں نے جملہ پورا کیا کہ "میری پیاری بیوی کو کوءی اور لے جائے! ناممکن"
یہ کہہ کر مجھے پھول کی طرح اٹھا لیا کہ ملازمہ کی آواز دلان سے آئی۔ "کون" میرے منہ سے چیخ نکل گئی!
خدا کی پناہ! ملازمہ نے گھر سر پر اٹھا لیا تو چل میں چل۔ مگر حامد خاں کے ساتھ تیرہ چودہ مسلح آدمی تھے۔ دم کے دم بھاگڑ مچ گئی' چیخوں سے حویلی گونج اٹھی۔ دو فیر ہوئے سب کے سب ڈر گئے۔ والد صاحب کے کمرے میں اور جگہ جگہ نوکروں کے سر پر پستول لیے ساتھی کھڑے تھے۔ پستول کی آواز جو آئی تو نوکروں نے اپنی اپنی کوٹھریوں کو بند کر کے چیخنا شروع کیا۔ اس دوران میں حامد خاں مجھے لے اڑے۔ باوجودیکہ میں خوب
چیخی۔ تڑپی۔ چلائی۔ مگر توبہ کیجئے کون
 

مقدس

لائبریرین
116

(236)

چھوڑتا تھا۔ چشم زون میں موٹرمیں دال کر جو لے کے مجھے چلے ہیں تو اپنے ایک دوست کے یہاں بارہ میل پر پہنچے۔ یہ ایک قصبہ اور ریلوے اسٹیشن تھا۔ یہاں قاضی وغیرہ سب موجود تھے۔
صبح چار بجے تھے۔ میںروتی جاتی تھی اور کہتی تھی "بڑے شرم کی بات ہے۔" مگر نکاح توہونا ہی تھا۔ نکاح کا رجسٹر آیا تو میں نے دستخطوں سے انکار کر دیا۔ جب حامد خاں نے میرے پیر پکڑ لیے اور کہا ۔"ظالم۔ کیا بغیر نکاح کے رہنا ہے۔" میں نے دستخط کر دیئے۔ حامد خاں اسی وقت مجھے واپس اپنے گھر لے آئے۔ شہیر میں تہلکہ بپا تھا۔ میں رو رہی تھی۔ "بڑے شرم کی بات ہے کہ مجھے حامد خاں اس طرح پکڑ لائے۔"
کوئی بارہ بجے گھر پر مجسٹریٹ اور مسلح سپاہی اور ابا جان آگئے۔ حامد خاں نے کہا کہ میں برضآ و رغبت آئی ہوں، مجسٹریٹ نے بیانات لینے کو کہا۔ ایک بند کمرہ میں مجسٹریٹ نے بیان لیے۔ والد صاحب موجود تھے۔ خود سوچئے۔ میں کیا بیان دیتی۔ میں نے سچ سچ بیان دے دئیے' وہ یہ کہ حامد خاں مجھے جبرا گھر سے اٹھا لائے زبردستی مجھ سے نکاح کر لیا۔ مجسٹریٹ نےحکم دیا کہ میں والد صاحب کے ساتھ جا سکتی ہوں۔ والد صاحب نے مجھے ساتھ لیا اور ادھر حامد خاں پولیس کی حراست میں آگئے۔ گھر پر والد صاحب اور والدہ صاحبہ نے ساری کیفیت پوچھی۔ میں نے سب بتا دیا رو رو کر۔ یہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ دروازے کس نے کھولے۔ پولیس والوں نے ملازموں کو شبے میں کھینچا مگر بیکار تھا۔ لہذا پھر رہنے دیا۔
قصہ کو مختصر کرتی ہوں۔ حامد خاں کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ میں نہٰں بیان کر سکتی کہ میرے لیے کیا مصیبت تھی۔ والد صاحب حامد خاں کی تباہی کے درپے تھے۔ میری عقل کام نہ کرتی تھی کہ کیا کروں۔ حامد خاں کا عذر یہ تھا کہ وہ مجھے برضا رغبت لائے۔ مقدمے میں عمر کا سوال اٹھایا گیا۔ والد صاحب نے حتی الوسع کوشش کی کہ میری عمر سولہ سال سے م قرار دی جائے مگر سترہ سے اوپر قرار دی گئی اور اب یہ سوال محض اس کا رہا کہ آیا مجھے زبردستی لے گئے یا برضا رغبت گئی۔ والد صاحب کو حقیقت نہیں معلوم تھی۔ ورنہ وہ مقدمے میں اس قدر انہماک نہ لیتے۔ ان کو نہیں معلوم تھا کہ حامد خاں کے قبضے میں میرے ایسے خطوط ہیں جن سے بخوبی ثابت ہو سکتا ہے کہ میں راضی کوشی گئی، اور ادھر میرا یہ حال کہ مقدمے کے خیال سے روح کانپتی تھی۔ یہی خیال آیا کہ الہٰی جب میرے خطوط پیش ہوں گے تب کیا ہو گا۔ والدین اور دنیا کو کیا منہ دکھاؤں گی۔ اور پھر یہ کہ اس مقدمے بازی کا کیا نتیجہ ہو گا۔ والد صاحب مقدمے میں ایسی دلچسپی لیتے تھے کہ اندازا ناممکن ہے۔ وکیلوں کو لا کر میرے بیان سنوائے گئے، قلمبند کیے گئے، اور پھر مجھ سے جرح کے سوال کر کر کے پختہ کیا گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ مخالف وکیل جب میں یہ کہوں گی تب کیا سوال کرے گا اور مجھے کیا جواب دینا چاہیے۔
 

مقدس

لائبریرین
116

(237)
آخرش وہ تاریخ آئی کہ میرے بیانات قلمبند ہوں۔ میں نے حامد خاں کو خط لکھنے کا کئی مرتبہ ارادہ کیا مگر ہمت نہ پڑی۔ حتٰی کہ تاریخ آگئی اور وقت آگیا۔ والد صاحب نے بڑے اعلی پیمانے پر مجسٹریٹ اور وکلا کے لیے پان شربت کا انتظام کیا اور مجھے بیانات کے لیے پختہ کر دیا۔
کوئی ایک بجے حاکم اور وکیل آگئے، مجسٹریٹ کی کرسی کے قریب ہی کرنچ کا پردہ رکھوا دیا اور ایک کرسی ڈال دی گئی۔ میں اس پر آ کر بیٹی۔ آزمائش سخت تھی۔ حامد خاں اور ان کا وکیل آگے بڑھا' میں نے حامد خاں کو دیکھ کر نظر نیچی کر لی۔ مجسٹریٹ نے مجھے حلف دیا اور نام پوچھا۔ نام میں جب یہ سوال آیا کہ بنت لکھا جائے تو حامد خاں کے وکیل نےزوجیت کا سوال اٹھا دیا کہ مجھے زوجہ حامد خاں لکھا جائے۔ اس پر وکیلوں میں خوب بحث اور رد و قدح ہوئی۔ آخر یہ بھی سوال رد کر دیا گیا۔ میرے بیان ہوئے اور میں نے من و عن جیسے بیان بتائے گئے تھے دے دئیے، یعنی یہ کہ مجھے حامد خاں زبردستی اور مرضی کے خلاف پکڑ کر لے گئے۔ زبردستی اور دھمکیاں دے کر مجھ سے نکاح کے رجسٹر پر دستخط کرائے۔ میں نے ڈر کے سبب بوقت نکاح گواہوں اور قاضی سے رضامندی ظاہر کی وغیرہ وغیرہ۔
اس کے بعد حامد خان کا وکیل جرح کے لیے آگے بڑھا۔ اس نے پوچھا اور میں نے جواب دے دئیے کہ میں نے حامد خاں کو کبھی کوئی خط نہیں لکھے۔ میں کسی طرح نہیں لکھ سکتی تھی۔ میں نے کبھی نہیں چاہا کہ مجھے حامد خاں ذبردستی لے جائیں۔ نہ میں نے کبھی ایسا لکھا۔ میں نے دروازہ کبھی نہیں کھولا۔ میں نے حامد خاں کا کبھی نہیں بلایا کہ مجھے لے جائین۔ اس کے بعد ہی حامد خاں نے میرے خطوط کا پلندہ اپنی جیب سے نکالا۔ میں دیکھ کر لرز گئی۔ وکیل نے بڑھ کر میرے ہاتھ میں ایک رقعہ دے دیا۔ والد صاحب نے بڑھ کر دیکھنا چاہا تو حامد خاں کے وکیل نے اعتراض کر دیا اور والد صاحب روک دئیے گئے۔ میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے رقعہ لیا۔ یہ وہ خط تھا جس میں حامد خان نے مجھ سے پوچھا تھا کہ "تمہارے خیالوں کا مرکز کون؟" اور میں نے جواب دیا تھا کہ"تم۔"
حامد خاں کے وکیل نے کہا۔ "دیکھیئے۔ جتنا سوال پوچھا جائے اتنا ہی جواب دیجیئے گا۔ جب تک نام نہ پوچھا جائے۔ مت بتائیئے گا اور یہ کاغذ کا ٹکڑا مجھے ہی واپس دیجیئے گا۔۔۔۔"
میرے لیے وقت سخت تھا اور حامد خاں کی اور میری نظریں چار ہوئیں تو میں نے نطر بچا کر ان کے آگے ہاتھ جوڑے۔ حامد خاں پر ایک بجلی سی گری ایسی کہ وہ ہل گئے۔ اپنے وکیل کے ہاتھ سے خط لے لیے۔ بغیر عدالت کے پوچھے آہستہ سے میری طرف بڑھے اور رقعہ واپس مانگتے ہوئے بھوؤں کی جنبش سے رقعے کی طرف اشارہ کر کے آہستہ سے کہا۔۔۔"۔۔۔۔کون؟" یعنی
 

مقدس

لائبریرین
116

238

تمہارے خیالوں کا مرکز اب کون ہے؟ میں نےا یک نظر بھر ان کو دیکھا۔ گردن نیچی کر لی اور میرے لبوں کو جنبش ہوئی "تم۔"
حامد خان نےخطوط اپنی جیب میں رکھے اور اپنے وکیل کو اشارہ کیا۔ وکیل نے عدالت سے کہا۔ "مقدمہ ختم کیجئے۔ ملزم اقبال قلمبند کروانا چاہتا ہے۔"
جس نے سنا۔ مارے حیرت کے کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔
شروع سے اخیر تک انہوں نے میرے بیان کی تائید کر دی اور اقبال جرم کر لیا کہ میں خلاف مرضی اس کو جبرا پکڑ کر لے گیا اور میں ے جرم کیا ہے۔ فورا کا فورا مقدمہ ختم ہوا اور کچھ لکھا پڑھی ہو کر دوسرے دن پر فیصلہ رکھا گیا۔
والد صاھب نے مجھے کرید کرید کر ان خطوط کے بارے میں پوچھا میں لاعلمی ظاہر کی۔ اس خط کے بارہ میں پوچھا کہ کیا لکھا تھا جو میرے ہاتھ میں دیا تو میں نے کہا کہ پڑھا نہ گیا۔ نہ معلوم کیا لکھا تھا اور کس کے ہاتھ کا تھا۔ حامد خاں کے غیر معمولی رویے کے بارے میں پوچھا تو اس سے بھی میں نے لاعلمی ظاہر کی۔
والد صاحب حامد خاں کی سزا کا خیال کر کے خوش ہو رہے تھے، انہوں نے پوری زمیندارانہ شان کے ساتھ مقدمہ بازی کی تھی 'جیل والوں سے یہ انتظام کیا کہ جیل لے جائیں تو ہماری کوٹھی کے سامنے سے ہو کر۔ میں عجیب سناٹے میں تھی۔ معلوم نہ تھا کیا ہو گا۔ حتی کہ والد صاحب خوشی خوشی گھر میں داخل ہوئے اور پکار کر انہوں نے والدہ صاحبہ سے کہا۔ "لو مبارک ہو ڈھائی سال کی قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا ہوئی ہے۔" میں دم بخود رہ گئی۔۔۔ کوئی آدھ گھنٹہ بعد میں نے دیکھا' اپنی آنکھوں سے'اپنے خیالوں کے اصلی مرکز کو' ہتھکڑیاں پڑی ہوئی سامنے سڑک سے گزرتے ۔ والد صاحب اور ان کے دوست احباب یہ نظارہ دیکھ کر خوش ہوئے۔ حامد خاں نے سر اٹھا کر نہ دیکھا۔ میرا سکتہ سا عالم تھا۔
اس کے تیسرے روز کا ذکر ہے کہ حامد خاں کے وکیل نے دعوی کر دیا کہ قرار دیا جائے کہ سلمی میری جائز منکوحہ بیوی ہے اور جو نکاح کیا گیا وہ برضا و رغبت تھا، علاوہ اس کے انہوں نے سزا کے خلاف اپیل کی۔ اپیل میں جرمانہ بحال رہا مگر سزا چھ ماہ کی رہ گئی، اور اب والد صاھب نے آگے اپیل کر دی۔ دیوانی دعوی نے افضل بھائی کے ساتھ جو شادی کی تاریخ مقرر ہوئی تھی اس میں بڑبڑ ڈال دی۔ حامد خاں جیل کاٹ کر واپس آئے۔ والد صاحب سزا بڑھوانے میں ناکام رہے تھے اور دیوانی مقدمہ اس نوبت پر پہنچا کہ میرے بیان قلمبند ہوں۔ حامد خاں اپنے موٹر پر مع اپنے دوستوں کے آئے۔ کمرے میں منصف صاحب بیان لینے آئے۔ لیکن قبل اس کے کہ بیان قلمبند ہوں حامد خان نے جحپٹ کر مجھے کرسی سے اٹھا لیا۔ ان کے تین دوست دن
 

مقدس

لائبریرین
116

(239)

دہاڑے پستول نکال کر والد صاحب کو روک کر کھڑے ہوگئے۔ میں چیختی کی چیختی رہ گئی مگر زور قطعی نہ لگایا کہ کچھ تو تلافی کردوں۔ موٹر میں لا کر مجھے لے اڑے۔ گھر پر پہنچے ہی تھے کہ والد صاحب پولیس کا دستہ مع مجسٹریٹ کے لے کر آگئے' میں رو رہی تھی' مجسٹریٹ لینے آئے تو حامد خاں نے والد صاحب کو علیحدہ کروا دیا۔ مجسٹریٹ نے مجھ سے سوالات کیے۔ میں نے جواب دیا کہ "خود آئی ہوں۔ منکوحہ بیوی ہوں۔ پہلے بھی خود ہی گئی تھی۔ نکاح راضی خوشی ہوا تھا۔ میں اپنے شوہر کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔ باپ کے پاس نہیں رہنا چاہتی۔ اگر میرے شوہر کے پاس پستول نہ ہوتے تو میں حبس بیجا سے آذاد نہیں ہو سکتی تھی۔ مجھے بچانے اور میری حفاظت کے لیے ایسا کیا گیا۔ اس سے پہلے مقدمے میں جو بیان میں نے دئیے وہ غلط اور جھوٹے تھے اور دباوَ سے دیے تھے"۔۔۔ ۔ والد صاحب باہر ہی تھے اور مجسٹریٹ نے والد صاحب سے جو یہ کہا تو وہ سناٹے میں آگئے۔
جس طرح میں نے حامد خان کو شکست خوردہ ہتحکڑی پہنے جاتے دیکھا تھا تو رنج کے سبب سکتہ کا سا عالم ہو گیا تھا۔ اسی طرح میں نے اپنے عزیز اور پیارے باپ کو دیکھا۔ حامد خاں سے زیادہ قابل رحم حالت تھی۔ میں مقدمے سے نڈھال ہو رہی تھی۔ حامد خان کے دوست احباب فقرہ چست رہے تھے۔ تیسرے دن معلوم ہوا کہ دیوانی مقدمہ جو حامد خان نے میرے اوپر چلایا تھا' وہ حامد خاں کے وکیل کی عدم حاضری کے سبب ہار گیا۔ میرا اور والد صاحب کا وکیل موجود تھا۔ چنانچہ میں جیت گئی اور حامد خاں کا مقدمہ مع خرچ خارج ہو گیا۔
وہ تو سب کچھ ہو گیا مگر میں سخت پریشان تھی۔ اس سے زیادہ اور کیا شرم کی بات ہو سکتی تھی کہ دن دہاڑے ایک شخص ایک لڑکی کو حاکم کی ناک کے تلے سے پکڑ لے جائے اور وہ لڑکی خود باپ کے خلاف بیان دے دے۔ میں نے پریشان ہو کر حامد خاں سے کہا۔۔ "خان صاحب میں اس طرح زندہ نہیں رہ سکتی۔"
حامد خاں نے کہا۔ "اول نمبر کی مکارہ ہو تم۔" میں نے کہا "کیوں؟"
وہ بولے۔ "تم نے مجھے جیل کرائی اور کتنی مشکلوں میں ڈالا۔" میں نے کہا "اور تم سمجھے کہ چاہنے والی بیوی یونہی مل جاتی ہو گی۔ کچھ بھی ہو۔۔ سن کو کان کھول کر۔۔۔ تم مجھے ذبردستی پکڑ کر لائے۔۔ میں تو گھر جاتی ہوں۔۔ پھر بڑے شرم کی بات ہے کہ میں باپ کے خلاف مجسٹریٹ کے سامنے بیان دوں۔"
حامد خاں نے کہا۔ "پھر کیوں دئیے۔" میں نے کہا "کچھ راضی خوشی دئیے؟"
"پھر؟" میں نے کہا"ڈر کے مارے دئیے۔"
کہنے لگے "شاید کہ تمہاری شامت پھر آ ئے۔" میں نے کہا " نہ شامت نہ آمت۔ بندی تو
 

مقدس

لائبریرین
117

(240)

جاتی ہے۔ نکئی ہو کر جینے سے رہی۔"
وہ بولے۔ "اور جو پھر بات آگے بڑھی۔" میں نے کہا، "میں نہیں جانتی، ایسا ہی ہے تو پھر تم مجھے پکڑ لانا، مگر میں نکٹی ہو کر نہیں جی سکتی۔"
حامد خان بولے۔ "اب جو تم اپنی ناک جوڑنے کی فکر میں پڑیں تو اچھی طرح سمجھ لو۔ میں دیوانہ ہو جاؤں گا۔" میں نے کہہ دیا کہ دیوانگی کا تو سوال فضول ہے۔ رہ گئی میری ناک تو وہ بےجڑے نہیں رہ سکتی۔ بد قسمتی سے حامد خاں مذاق ہی سمجھا کئے اور میں جیسا کہہ چکی تھی چپکے سے دوسرے روز شام کو ایک تانگہ منگا کر سیدھی گھر پہنچی۔ ایک خط لکھ کر رکھتی گئی کہ جھگڑا نہ کھڑا کرنا بلکہ ادھر کا رخ نہ کرنا۔
گھر پہنچی تو جھٹپنا کا وقت تھا، تانگے سے اتر کر سیدھی اپنے کمرہ میں چلی گئی۔ گھر میں کھلبلی مچ گئی۔ والدہ صاحبہ آئین تو ان سے گلے مل کر میں خوب روئی۔ اباجان کی شکایت کی کہ مجھے بےبسی میں چھوڑ آئے مجھے مار ڈالنے کی دھمکی دی گئی اور ڈر کے مار مجھے بیان دینا پڑے۔ غج ہے خدا کا کہ مجھے کوئی بچانے والا نہیں۔ میں نے وہ فیل مچائے کہ ہر کس و نا کس کو مجھ سے ہمدردی ہو گئی۔ والد صاحب کہیں باہر تھے' انہیں بلانے آدمی دوڑایا اور رشتے کنبے میں جلد تر خبر کی گئی۔ والد صاحب آئے اور جب انہوں نے سنا کہ میں چپکے سے بھاگ آئی اور یہ کہ مجھ سے ذبردستی بیان لیے گئے تھے تو باغ باغ ہو گئے۔ مجھے سینہ سے لگا لیا اور مارے محبت کے بیچارے رونے لگے اور پھر جو خیال آیا تو فورا عدالت کی سوھجی۔ تو چل اور میں چل۔ پولیس اور مجسٹریٹی میں موٹر دوڑنے لگی۔ انا فانا میں استغاثہ تیار ہو گیا۔ وکیل آ گئے۔ پولیس مین رپورٹ لکھا دی گئی۔ دوسرے دن مجسٹریٹ کے سامنے استغاثہ پیش ہو گیا۔ مجسٹریٹ نے گھر آکر بیان لیے۔ مین بیان دیئے کہ مجھے جبرا پکڑ کر لے گئے۔ زبردستی بیان دلوائے۔ وہ بیان جھوٹے تھے اور دباؤ سے دیئے تھے۔ دیوانی مقدمے کے فیصلے کی نقل پیش کی گئی اور فوراً ثابت کر دیا گیا کہ میں حامد کاں کی بیوی نہیں ہوں۔ مجھ سے اس بارے می پوچھا تو میں نے کہہ دیا کہ "مجھے پتہ نہیں۔" مجسٹریٹ بیان لے کر چلا گیا۔ والد صاحب بے حد خوش تھے مگر دوسرے روز تمام خوشیاں خاک میں مل گئی۔ مجسٹریٹ نے میرا استغاثہ خارج کر دیا اور تمام واقعات پر سرسری طور پر تبصرہ کرتے ہوئے فیصلہ میں یہ رائے ظاہر کی کہ میں جھوٹی ہوں اور ساری شرارت میری ہی ہے۔ کبھی کچھ بیان دیتی ہوں اور کبھی کچھ اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا "تو یہ لڑکی اپنے ہر گذشتہ بیان کی تلذیب کرتی رہے گی۔ لہذا یہ مقدمہ خارج کیا جاتا ہے۔"
والد صاحب آگ بگولا ہو گئے اور طے ہوا کہ اس فیصلہ کے خلاف اپیل کریں گے۔۔
یہ تو سب کچھ ہوا۔ لیکن ان ٹھوس حقیقت بھی سامنے تھی۔ سب رشتہ دار اور کنبے دار
 

مقدس

لائبریرین
117

(241)

جمع ہوئے اور معاملات پر غور کیا۔تو بوڑھیاں سر ہلانے لگیں۔ ذرا دیر تو چپ رہیں پھر دو ایک پھٹ پڑیں۔ بولیں۔۔ "نا بابا۔ بیوی تو یہ حآمد کی ہے۔ اور کہیں اس کی دوسری شادی ہو تو ہم شریک نہیں۔"
والد صاحب نے جو سنا تو پھر وہی عدالت اور کچہری۔ کسی طرح قابو میں نہ آئے۔ سب رشتہ داروں اور کنبے والوں نے صلاح مشورہ کیا کہ حامد معافی مانگیں۔ مگر والد صاحب رضآمند نہ ہوئے۔ جب کسی طرح راضی نہ ہوئے تو لوگوں نے کیا کیا کہ حامد خاں کے ہاتھ باندھ ابا جان کے سامنے لا کھرا کیا۔ اور ان کے پیروں پر گرا دیا۔ ایسا کہ ابا جان کو چار و ناچار حامد خاں کو گلے لگانا پڑا۔ کرتے بھی کیا۔ اور اسی ہفتے باضابطہ شادی اور رخصت بھی کر دی۔ گویو عید پیچھے ٹرو، نکاح وہی قائم رکھا گیا۔ اس طرح جا کر یہ جھگڑا بخیر و خوبی ختم ہو گیا اور اللہ نے میری آبرو اور شرم رکھ لی۔ ورنہ آپ خود غور کریں کہ "بڑے شرم کی بات تھی۔" اس چپقلش میں افضل بھائی ہمیشہ کے لیے ہاتھ سے گئے۔
××××
 

مقدس

لائبریرین
173

(354)
کرکٹ میچ
(1)
کرکٹ میچ پر آج کل برسات کر موسم میں کوئی مضمون لکھنا "بےفصلی" سی چیز ہے' بالخصوص جبکہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کرکٹ کے واہیات میچوں کا حال لکھنا اور انکی خبریں چھاپتے چھاپتے اخابر والوں نے پبلک کو پست کر دیا اور پھر اب تو ایم سی سی والے بھی ہندوستان سے "آؤٹ" ہو گئے ورنہ بہت ممکن ہے کہ یہ مضمون اگر کچھ پہلے شائع ہوتا تو ہمارے ہندوستانی کھلاڑی کرکٹ کا ایک ایسا گر جان جاتے کہ ایک مقابلے میں ایم سی سی کی عقل راہ پر آ جاتی۔
بہت ممکن ہے کہ ُآ سوچیں کہ یہ ایک مضمون نگار غریب کیا جانے کرکٹ اور کرکٹ کی باتیں! مگر عرض ہے' اکثر میدان کا رزار میں لٹھ کام آتے ہیں اور تلواریں دھری رہ جاتی ہیں اور پھر میں کرکٹ میں ایسا گمنام یا اناڑی بھی تو نہیں' مجھے تسلیم ہے کہ اسکول کی ٹیم کے کپتان سے ہمیشہ پیش از پیش رہا۔ کالج میں ہینچ ر وزیر علی اور نذیر علی کا کلاس فیلو رہا۔ سینکڑوں میچ دیکھ ڈالے' رن گن ڈالے' امپائروں کی غلطیاں نکالیں' ولایتی بلوں میں خرابیان نکالیں' بلکہ ایک تو چرا لیا' علی گڑھ میں جب ایم سی' سی والے آئے تو گلیکن کے سامنے ایک میچ کا چیلنج دیا اور اگر منظور کر لیتے تو اپنی شکست کو عمر بھر نہ بھولتے' قصہ مختصر کرکٹ کی فضا میں رہا بڑھا اور پلا اور محض اپنی جدت سے کرکٹ میں وہ ترکیب دریافت کی جس سے میچ ہارنے کا امکان ہی جاتا رہا' ایک نہیں اسی ترکیب سے دس میچ کھیلے اور جیتے ہیں' خود ہم نے!

(2)

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تو کپتان صاحب سے دوڑ دھوپ کر کے مل ملا کر کسی نہ کسی طرح ایک میچ گوروں سے طے کر آئے۔ یہ گورے تو ویسے بھی میچ کے بھوکے ہوتے ہیں۔ اس میچ میں کپتان صاحب نے نہ تو ہمیں کھلاڑیوں میں شامل کیا اور نہ
 

مقدس

لائبریرین
173

(355)

"مدفاضل" میں رکھا جو ہر جگہ گھس گھس کر میچ دیکھتے' رن گنتے' بلے تولتے' یا اس طرح خصوصیت جتاتے اور ریفریشمنٹ کے انتظامات میں بھی پیش از پیش ہوتے ہیں' گوروں کی فوج کی طرف سے میچ کا خاصا انتظام تھا' حد یہ کہ ایک خیمے میں ریفریشمنٹ کے بہانے سے نہ معلوم کیا یار لوگ "ریشم" اور "کلابتون" اڑایا کیے اور ہم "ناتوان" دیکھا کیے! یعنی ہم اور ہمارے دوست واقعی دور سے معمولی میچ دیکھنے والوں کی طرح میچ کو سچ مچ "دیکھتے" ہی رہ گئے۔ نتیجہ ہمارے اسکول دوڑتے دوڑتے اور "پدتے پدتے" سویرا ہو گیا۔ کھلاڑیوں کا گوروں نے فشار نکال دیا' ایک سے ایک تگڑا وہاں گوراموجود' ایسا کہ ادھر گیند پہنچی نہیں کہ اس نے "بنی" کر دی۔ قصہ مختصر لڑکوں کو رپٹا مارا' جتنا کھلایا تھا سب وصول کر لیا' پھر عنایت سمجھئے جو گوں نے بخش دیا' کیونکہ ان کے رن اتنے ہو گئے تھے کہ آگے کھیل کی ضرورت ہی نہ رہی' کئی وکت اور بہت سے رنوں سے اسکول کی ٹیم ہاری۔
میچ کا انتظام اور ریفریشمنٹ وغیرہ کا انتظام ایسا نہ تھا کہ اس کی دلکشی اور سہانی یاد کسی نیک اور پاک دل طالب علم کے معصوم دل سے محو ہو سکے۔ چنانچہ ہمیں بھی فکر پرا کہ کسی طرح ان گوروں سے میچ کریں۔
چنانچہ ہم اس تاک میں تھے کہ ایک روز اسی رجمنٹ کا گورا ہمارے بنگلے کی طرف نکل کر آیا۔ یہ رجمنٹ ہانیلنڈرز کا تھا' اس گورے کے ساتھ ایک کتا تھا اور ہمارے یہاں بلامبالغہ اچھے سے اچھے کتے موجود تھے اور کتوں کے ڈاکٹر اور قدردان نہیں بلکہ عاشق زار بھائی صاحب بھی موجود۔ کچھ تو کتا پسند اور کچھ گورا پسند' لہذا گورے صاحب کو روکنے کا بہانہ ہاتھ آیا۔ نتیجہ یہ کہ بہت جلد قبلہ گورے صاحب بنگلے میں مختصر لان پر بیٹھے کتوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ یہاں اپنا یہ حال کہ باتیں تو کتوں کی ہو رہی ہیں مگر جی ہے کہ پرا ہے میچ کے ریفریشمنٹ میں گورے صاحب کو کرکٹ کے ڈول پر لانا چاہا تو معلوم ہوا کہ وہ کرکٹ کے قطعی شوقین نہیں' سوڈا برف سے ان کی خاطر مدارت کی؛ ان کے یہاں کتے دیکھنے آنے کا وعدہ کیا اور یہ بھی برسیل تذکرہ عرض کر دیا کہ میچ کا معاملہ بھی وہیں طر کر لیں گے۔
دو چار بعد رجمنٹ میں جو پہنچے تو یا تو اس بیہودہ گورے کا ہم نام بھول گئے یا دس بیس گورے اسی نام کے موجود تھے۔ پتہ لگا کر پہنچے جو سہی تو اسی نام کا ایک سخت بدتمیز گورا ملا' جو ہمیں دیکھتے ہی آنکھیں مٹاکنے لگا اور انگلیاں نچانے لگا اور اس کے ساتھی لگے قہقہ اڑانے پھر آگے ہمت نہ پڑی جو اس منحوس کی تلاش میں کسی اور بھی "خراب" گورے سے ملتے۔
باضابطہ ٹائپ شدہ چیلنج ایک فرضی کلب کے کپتان کی طرف سے لائے تھے کیونکہ کسی
 

مقدس

لائبریرین
174

(356)

رجمنٹ سے میچ طے کرنا معمولی بات نہیں۔ گھنٹوں ادھر سے ادھر دوڑے' درجنوں افسروں اور نہ معلوم کن کن سے ملے اور نتیجہ یہ کہ جواب باصواب نہ ملا۔ خط پر پتے لکھ کر چھوڑ آئے کہ اس پتہ پر ہم مطلع ہوں۔
بات گئی گزری سی ہو گئی کہ دس پندرہ دن بعد ایک اطلاع نامہ آیا کہ ہم فلاں دن میچ کے لیے تیار ہین' فوراً ہم رجمنٹ پہنچے اور میچ منظور کر لیا' ایک شرط پر۔ وہ یہ کہ کھیل کا سامان دوسری ٹیم اسی روز ایک اور جگہ لے جائے گی' لہذا سامان وغیرہ آپ کا ہی رہے گا' دراصل یہاں یہ حال تھا کہ ٹوٹا بلا چھوڑ "اسکورنگ" پنسل تک نہ تھی' گوروں کے یہاں قاعدہ ہے کہ روز تو وہاں قواعد پریڈ اور اسی قسم کے فضول دھندے رہتے ہیں میچ کے لیے خاص طور پر دن نکالا جاتا ہے' ساری رجمنٹ کی چھٹی ہوتی جاتی ہے۔ چنانچہ ہم سے وقت پر پہنچنے کا بھی اشارہ کر دیا گا۔ یہ معاملہ جو طے کر کے ہم آئے ہیں تو یار دوست مارے خوشی کی دیوانے ہو گئے' ناچنے لگے اور یہ حال کہ تمام کے تمام دوست میچ کھیلنے کو تیار! ایسے ایسے اناڑی کہ گیند کھیلنے سے پیشتر ہی آؤٹ ہو جائیں۔ بڑ مشکل سے ہم نے انتخاب کیا اور گہری دوستی ہی مجبور معیار قرار دیا۔ ایک صاحب کو محض اس وجہ سے رکھنا پرا کہ انہوں نے دو سوٹ دوسرے کھلاڑیوں کو دینے کا وعدہ کیا' دراصل یہ بےحد ضروری تھا کہ ہم ٹھاٹ سے جائیں' ایک موٹر کرایہ کیا اور اتنے قبل ز وقت ہم پہنچے ہیں کہ سوائے مزدوروں اور خلاصیوں کے کوئی نہ تھا۔ موٹر پر آنا بیکار گیا' اس دوران میں سب آپس میں تھوی راج کی فوج کی طرح ایک دوسرے سے عہد و پیمان کرتے رہے کہ نےحد اچھا کھیلیں گئ' جب تک جان میں جان ہے اور بلا ہاتھ میں ہے گیند کو وکٹ کے قریب بھی نہ جانے دیں گے خواہ کتنے ہی زور سے گیند آتی ہو گی' ہر گز ہر گز کریز نہ چھوڑیں گے۔ دراصل سو تین ایسے ہی تھے ان سے قسمیں لیں۔

(3)

بہت جلد خدائے عزوجل نے مہربانی کی اور میدان بھر گیا' سینکڑوں گورےبقول کسے !گورے پہ گورا" اور میمیں اور ادھر ادھر کے لوگ آ جمع ہوئے' پہلے کا سا مجمع ہو گیا اور انتظام وہ زور دار کہ ریفیرشمنٹ کے خیمہ کی طرف دیکھ کر ہم لوگ آپس میں جب آنکھ کا اشارہ کر کے مسکراتے تو اندر سے دل کھینچنے لگتا' کھانا بھی کون منحوس کھا کر آیا' کسی نے کہا کہ بھیا میں دو بسکت کھا کر آیا ہوں' کوئی روٹی کا ایک ٹکڑا کھا کر اوپر سے بہت سا پانی پی کر آیا تھا۔ میں نےود صرف ایک انڈے پر اکتفا کی تھی۔ یہ سوچ کر کہ وہ ڈٹ کر کھایا ہو کہ یاد کریں گورے بھی کہ آئی تھی کوئی ٹیم کرکٹ کھیلنے۔ میچ تھا گوروں سے کوئی مذاق تھوڑی تھا۔
ہم آپ سے صحیح عرض کرتے ہیں کہ سہم ہی تو گئے جب گوروں کے کپتان نے کہا کہ
 

مقدس

لائبریرین
174

(357)

ٹاس!" گویا یہ طے ہو کہ کون پہلے کھیلے' ہم نے کہا کہ جیسا ہم عرض کر چکے ہیں عموماً ہم دو میچ کھیلتے ہیں' اس میں ہم پہلے کھیل لیں اور دوسرے میچ میں آپ پہلے کھیل لیجیئے گا' ایک گورے نے چون و چرا کی تو ہم نے کہا "صاحن ہم لوگ آخر کو ہندوستانی اور وہمی آدمی ہیں' شگون اور استخارہ سے کام چلاتے ہیں اگر اس کے خلاف ہوا تو اپنے عقیدے کےبموجب نہ صرف ہم ہار جائیں گے بلکہ اور کسی افتاد سے سابقہ پرے گا۔" شگون اور استخارہ کے پاکیزہ اصول جب ان بےوقوف گوروں کو سمجھائے تو وہ بہت ہنسے اور راضی ہو گئے۔
جلدی جلدی اور چپکے چپکے میں نے کھلاڑیوں کو قسمیں دے دے کر تاکید کی کہ دیکھو گڑبڑ نہ ہونے پائے' ڈرنا مت' ڈٹ کے کھیلنا وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے دو گھٹیا قسم کے کھلاڑی بلا لے کر میدان میں تولیوں کی گونج میں اترے۔ یہ دونوں دیکھنے میں بڑے عمدہ کھلاڑی معلوم ہوتے تھے' مگر اصلیت یہ تھی کہ گلی ڈنڈے سے آگے کچھ نہ جانتے تھے۔ تیار ہو کر کھڑے ہوئے' ادھر گیند جو آئی تو ان کا وعدہ تھا کہ بالکل نہ ڈروں گا۔ چنانچہ وعدہ پورا کیا انہوں نے اور وہ کس کے ہٹ لگایا کہ اگر گیند پر بلا پڑ جاتا تو تارا ہو جاتی' مگر وہ تو کمبخت وکت اڑا لے گئی' انہیں پہلے ہی سے سیکھا دیا گیا تھا اور باوجود آؤٹ ہونے کے اپنی جگی سے نہ ہٹے' پوچھا تو کہنے لگے یہ تو "ٹرائل بال" تھی۔ گورے فوراً راضی ہو گئے مگر یہ حضرت تیسر گیند پر آؤٹ ہو گئے۔ دو خالی نکل گئیں۔
چوتھا شخص جو ہمارا پہنچا ہے تو اس نے گوروں کو پریشان کر دیا۔ اچھا کھلاڑی تھا' ساتھی بھی اچھا ملا' چو طرفہ ہٹ لگائے اور کسی طرح گوروں کے قبضے میں نہیں آیا تاوقیتکہ اس نے چونیتیس رنز نہ لیے' کل ملا کر ہمارے رنز پچاس کے پہنچے تھے کہ یہ خاکی پتلا اٹھا' یار لوگوں کو سکھا دیا تھا' اس واسطے خوب چئیرز دیے گئے اور میں اس ٹھاٹھ سے "کریز" پر پہنچا ہوں کہ بس دیکھا ہی کیجیئے' پہنچتے ہی اول تو میں نے چاروں طرف ایسے نظر دوڑائی گویا یہ دیکھ رہا ہوں کہ کس گورے کو زیادہ دورانا چاہیے' دیکھ بھاک کے بعد میں نے کریز ناپی' اس کے بعد ان کے امپائر سے بڑی شان کے ساتھ سینٹر مانگا' اپنے امپائر کو بھی آنکھ ماری وہ بھی پہنچا اور انتظام میں شریک ہو کر اس نے سائنٹیفک طریقے پر غلطی نکال کر نئے سنٹر کی تصدیق کی اور وہ بھی اتھی جانچ پڑتال کے بعد کہ غالباً لوگ تنگ آ گئے ہوں گے' اس کے بعد رومال جو میں "پویلین" میں قصداً چھوڑ آیا تھا وہ مانگا' فوراً ایک سدھایا ہوا ساتھی بگٹٹ لیے دوڑا آیا' اب جو دیکھتا ہوں تو سامنے گوروں کا خطرناک "بولر" ایک گٹہا ہوا' انتہا سے زیادہ سرخ اور سخت مذبوط؛ خود گیند کی طرح گول مول گورا تھا' جو اس زور سے بھنا کر گیند پھینکتا تھا کہ معلوم ہو میکسم گن کا گولا ہے کہ
 

مقدس

لائبریرین
175

(358)

چلا آ رہا ہے! میںنے اس بدتمیز کو دیکھا کہ چلا وہ ادھر سے گیند لے کر اور ادھر قبل اس کے ہاتھ سے گیند چھوٹے میں "ناٹ ریڈی" کہہ کر کریز کو چھوڑ کر پرے ہٹ گیا' گیند بیچ کا وکٹ اڑائے چلی گئی۔ میں نے معذرت کی' کچھ نہیں ایسا بھی ہوتا ہے۔ میں نے اس طرح سے گیند کی رفتار بھی معلوم کر لی۔ اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ کہیں لگ گئی یہ گیند میرے سر پت تب کیا ہو گا۔ دل نے کہا کہ بھیا مرزا گھیل گیا چولہے میں۔ یہ گیند نہیں گولا ہے جسے ایک موذی پھینک رہا ہے۔ سب کپتانی دھری رہ جائے گی جو پھوٹ گیا سر تو ریفرشمنٹ کے خیمہ کے بجائے یہی نا معقول گورے تمہیں خآلی پیٹ ملٹری ہسپتال نہ پہنچا دیں گے اور پھر کیک پیسٹری کے بجائے صرف کھاری سوڈا ہاتھ آئے گا۔
چنانچہ ان امور کو مدنطر رکھتے ہوئے میں نے بادل ناخواستہ گیند پھینکنے کی اجازت دی' دل دھڑکنے لگا' منہ بنا کر اور بدن کو جھٹکا دے کر وہ کمبخت لپکا ہے کہ گیند تو اس کے پاتھ سے چھوٹتے نظر آئی' میں نے کچکچا کر بلا مضبوط پکڑ لیا تھا اور اٹھا کر ہٹ لگانے کے امکان پر غور کرنے ہی کو تھا کہ "کھٹکا" ہوا' میں چونک پڑا' کیا اوٹ ہو گیا! مگر نہٰں گیند بلے پر پڑی تھی۔ لوگوں نے نعرہائے تحسین بلند کیے۔ "ویل پلیڈ" "ویل ڈن" "ویل ججڈ" ان معقول آوازوں کے ساتھ ہی "اوور" ختم ہو گیا۔ اب دوسرے کھلاڑی کی باری تھی' ان کا ویسے ہی دم سوکھ رہا تھا' ادھو میں نے ان سے کہا "اسٹڈی" ادھر تڑ سے وکٹ ان کا غائب۔
نیا کھلاڑی آیا اس نے بھگتان بھگتا ہی تھا کہ میرا نمبر آیا۔ میں نے دل میں کہا کہ اگر یہ اوور کھیل لیے خریت سے تو پھر ایک سرے سے کرکٹ ہی کھیلنا کم کر دیں گے؛ ادھع بولر جھومتا چلا اور ادھر میں نے دل میں سوچا کہ گیند یا تو میری طرف آئے گی یا وکتوں کی طرف' اگر ہٹ نہ لگا تو کیا ہے گیند بھی تو نہ لگے گی۔ بس یہ دیکھنا ہے کہ گیند خود اپنی طرف تو نہیں آ رہی دراصل کرکٹ کا یہی گر ہے ۔ چنانچہ یہ سوچ کر میں تیار ہو گیا۔ ادھر سے گیند جو آئی دندناتی ہوئی تو صحیح عرض کرتا ہوں کہ جس وقت بولر کے ہاتھ سے چھوٹی ہے میرا قطعی ارادہ نہیں کہ اس پر باؤںڈری لگا دوں گا کیونکہ وہ وکٹ کی طرف آ رہی تھی' مگر جب تک گیند آدھی مسافت طے کرے میں"چوٹ پھینٹ" کے امکان پر غور کر چکا تھا' وکٹوں کی طرف!۔۔ میری طرف!۔۔۔وکٹ محفوظ! مگر نہیں وہ تو دونوں طرف آتی ہوئی معلوم ہوئی' وکٹ گئے چولہے میں؛ کوئی چارہ کار نہ تھا سوائے اس کے کہ استغفار پڑھ کر آنکھ میچ کے بلے کی ڈھال بناتے ہوئے جگہ سے "نوبال" کہہ کر اچھل کر دور گروں۔ اس کاروائی میں بلے کی جگہ میرے پیر نے لی اور اس پر زور سے گیند لگی اور اسدر میں "نوبال" کہہ کر پھاند چکا تھا۔ سکھایا پڑھایا امپائر اپنا تھا' دونوں طرف سے اپیل
 

مقدس

لائبریرین
175

(359)

ہوئی' ہماری طرف والے بولے "ناٹ آؤٹ" امپائر بھی بول اٹھا "ناٹ آؤٹ" گورے بھنا کر رہ گئے۔ قاعدہ اچھا ہے جو امپراہر کہے وہ سچ اور ہم نے تو اپنے امپائر سے کہہ دیا تھا کہ اگر تمہاری وہاں کسی نے کرکری کی تو حسب دستور جھگڑا کر کے میچ بند کر دیں گے'اب دوسری گیند جو آئی تو میری ہمت قالابازی کھا رہی تھی' آنکھ میچ کے یا علی کہہ کہ جو ہٹ بڑھ کر دیا تو بلا خالی اور گیند شانے کو چاٹتی ہوئی توپی اڑا لے گئی۔ میں پحر چیخا "نوبال" مگر کچھ فائدہ نہ ہو' اب سوائے جان پر کھیل جانے کے چارہ نہ تھا' اس کے بعد پھر جو گیند آئی تو کیا عرض کروں جانچ تول کر ہٹ لگایا' نشانہ بھی صحیح بیٹھا مگر وکٹ غائب' بس یہ معلوم ہو۔۔۔۔ میرے بعد پھر جو باقی بچے وہ بہت برا کھیلے' ڈر کے مارے کریز پھاند پھاند پڑے' ادھر ادھر کی جاتی گیندوں کو مردانہ وار ران اور پشت پر لیا جو سیدھی آئی وکٹ لیے چلی گئی کل ہمارے ساٹھ ستر رن کے قریب ہوئے اور سب آؤٹ۔ ہم بھی اس حماقت سے چھٹی پا کر خوش ہوئے کہ چلو اب اصل کھیل شروع ہر گا ریفیشنمٹ والا' اب دیکھیں یہاں کون کون ہٹ اور باؤنڈری لگاتا ہے۔

(4)

ناشتے کی میزوں پر گھمسان کا معرکہ رہا۔ گورے خود بےتکلف اور ہم سب بےتکلف اور مزید برآں بھوکے' الم غلم جو سامنے آیا پار کیا۔ بعض چیزیں تو اس گڑبڑ کے عالم میں کھائیں کہ نمک ڈالنا بھول گئے اور بعض کا ذائقہ یاد نہ رہا۔ دل کو سمجھا لیا کہ بھئی انگریزی کھانے پھیکے میٹھے تو ہوتے ہی ہیں۔ میں خود پورا ایک کیک کھاگیا۔ گوروں نے بمشکل فی کس اتنا کھایا ہو گا کہ اس کا چوکنا ہمارے یہاں اس شکص نے کھایا جس نے سب سے کم کھایا' اس پر چائے اور پان کے بجائے نارنگیاں' غرض وہ ڈٹ کر کھایا کہ اب "باقی پھر" مگر ہمیں تو میچ کھیلنا اور جیتنا بھی تھا۔
عرض ہے کہ یہ خاکسار وکٹ کیپری میں قدرے ماہر ہے' لہذا جب گوروں کی کھینلے کی باری آئی تو ان فرائض کا بارگراں اپنے ہی کندھوں پر رکھا۔ اپنے کھلاڑیوں کو قرینے کھڑا کیا' کسی کو خواہ مخواہ ذرا سا ادھر ہٹایا کسی کی جگہ بدلی' اس کے بعد بندہ نہایت ہی ہوشیاری سے بڑی شان کے ساتھ اپنے اہم فرائض میں مصروف ہو گیا۔
ہماری طرف سے پہلی ہی گیند آئی ہے کہ غدر مچ گیا ' گوروں نے کس کر ہٹ لگایا'ہت اوچھا پرا اور بڑا عمدہ "سلپ" نکلا' ایس اکہ گیند اٹھ گئی اور سیدھے ہمارے ایک ہوشیار کھلاڑی کے سینہ کی طرف ایک بہترین "کیچ" کا امکان لیے ہوئے آئی مگر کھلاڑی ایک ہوشیار ٹہرا۔ صاف بچا گیا۔ سر پر ہاتھ رککھ کر بیٹھ گیا اور گیند اوپر سے نکل گئی اور پرے گری۔ لپک کر ہمارے ایک
 
Top