ٹائپنگ مکمل عظیم بیگ چغتائی کے افسانے۔ ص 106-111

فرحت کیانی

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
ص 106

رسول اللہ ص کی نصیحتوں سے بے نیاز ہیں اور وہ ہمارے لئے بے کار ہیں؟"
شیخ نے کہا " ہر گز نہیں ہر گز نہیں گفتہ رسول اللہ سر آنکھوں پر مگر میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آخر تمہارا اس درخواست سے مطلب کیا ہے؟ اگر فرض کرو تمہاری منسوبہ تم کو ناپسند ہوئی تو کیا تم اس نسبت کو توڑ دو گے اور نکاح نہ کرو گے؟"
نوری نے جواب دیا۔ "اس سے شاید آپ بھی اتفاق کریں گے اس صورت میں مجبوری ہو گی کیونکہ قرآن کریم کے حکم کے خلاف ہو گا۔؟"
"تو اس شرط پر تو تمہاری شادی صرف یورپ ہی میں ہو سکتی ہے" شیخ نے کچھ قرشرو ہو کر کہا مجھ کو ہر گز گوارا نہیں ہے کہ میری لڑکی سے نسبت کرنے کے لئے لوگ گاہک بن کر آئیں اور ناپسند کر کے چلے جائیں۔ کیا تم نے میری عزت و آبرو کا اندازہ غلط لگایا ہے؟ کیا تم نہیں خیال کرتے کہ نائب الشیخ کی تو ہین ہو گی، معاف کیجئے گا میں اس قسم کی گفتگو پسند نہیں کرتا جس میں میری عزت و آبرو کا سوال ہو۔"
نوری بھی پختہ ارادہ کر کے آیا تھا اور اس نے بھی تیز ہو کر کہا "بے شک آپ مصر میں وہ عزت و مقام رکھتے ہیں جو دوسروں کو نہیں مگر مجھ کو اجازت دیجئے کہ عرض کروں کہ پھر بھی آپ کو وہ عزت حاصل نہیں ہے جو امیر المومنین عمر بن خطاب رض کو مدینے میں حاصل تھی اور آج ساری دنیا میں حاصل ہے۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ حضرت عمر نے اپنی بیٹی ام المومنین حفصہ کو حضرت عثمان کے سامنے پیش کیا اور نکاح کی خواہش ظاہر کی اور جب حسب خواپش جواب نہیں ملا تو پھر ان کو حضرت ابو بکر صیق کے سامنے پیش کیا اور وہاں بھی ناکامی ہوئی۔ کیا ان سے ان کی عزت و آبرو میں خدانخواستہ بٹا لگ گیا۔؟"
شیخ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور وہ لاجواب ہو کر بولے کہ دونوں حضرات تو ان کے دوست تھے۔
"مگر میں بھی آپ کے عزیز ترین دوست مرحوم کی نشانی ہوں۔"
شیخ نے نظریں نیچی کر لیں اور کچھ تامل کے بعد کہا "مجھ کو کوئی انکار نہیں ہے۔" یہ کہتے ہوئے شیخ گھر میں چلے گئے۔

(3)
نوری کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا، اس نے کانپتے ہاتھوں سے ریشمی سیاہ پردہ اٹھایا اور اندر داخل ہوا حالانکہ دن تھا مگر کمرے میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے بجلی کا لیمپ روشن تھا، سامنے کرسی پر سیاہ گاؤن پہنے ایک سولہ یا سترہ سال کی نہایت حسین و جمیل لڑکی بیٹھی تھی۔!
نوری کو دیکھ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی نوری نے سلام کیا کچھ جواب نہ ملا۔ اس نے دوبارہ
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
ص 107

سلام کیا تو لڑکی نے آہستہ سے جواب دیا، لڑکی کی نظریں نیچی تھیں صرف داخل ہوتے وقت اس نے ایک لمحہ کے لئے نظر اٹھا کر نوری کو ضرور دیکھا تھا۔ وہ ساکت کھڑا تھا اور لڑکی نے نوری سے بیٹھنے تک کو نہ کہا۔ نوری اجازت طلب کرتے ہوئے بیٹھ گیا مگر لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا اور کھڑی رہی۔ نوری پھر کھڑا ہو گیا تو کہا کہ بیٹھ جائے۔ نوری نے اپنی کرسی قریب کر لی اور کہا کہ "مجھے فخر ہے کہ میں اس وقت اپنی منسوبہ نازلی خانم کے سامنے بیٹھا ہوں اور ان سے کچھ گفتگو کرنے کا مجھ کو موقع ملا ہے کیا مجھ کو اجازت ہے؟"
نازلی نے دبی زبان سے کہا "فرمائیے۔"
"آپ میرے نام سے تو واقف ہیں کیا میں دریافت کر سکتا ہوں کہ آپ کو مجوزہ یہ رشتہ پسند ہے۔؟"
اس کا نازلی نے کوئی جواب نہ دیا اس کے چہرے پر ایک خفیف سا رنگ آیا اور چلا گیا وہ زمین کی طرف دیکھ رہی تھی اور اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی سے داہنا ہاتھ کرید رہی تھی۔
انداز سے نوری نے معلوم کر کے کہا میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں ، اسی سلسلے میں نوری نے پوچھا۔
"کیا آپ میری اس ملاقات کو ناپسند کرتی ہیں۔؟"
"جی نہیں۔"
"تو پھر آپ نے اپنے والد صاحب سے اس بارے میں غیر آمادگی کا اظہار کیوں کیا تھا۔؟"
نازلی کے لبوں پر ایک مسکراہٹ آئی لیکن شرم کی وجہ سے شاید کچھ نہ کہہ سکی۔' نوری نے فوراً کہا " آپ کو اس بات کا جواب ضرور دینا پڑے گا اور میں بے پوچھے نہ مانوں گا۔"
نازلی نے کچھ تامل سے کہا "میں نے یونہی کہہ دیا تھا۔"
نوری نے برجستہ کہا "تو اس سے یہ مطلب میں نکال سکتا ہوں کہ آپ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔"
نوری نے یہ کہتے ہوئے نازلی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور پھر کہا "سچ سچ بتائیے کہ کیا آپ مجھ سے ملنا چاہتی تھیں؛ میں آپ کے دل کی بات معلوم کرنا چاہتا ہوں۔"
نازلی کی نظریں نیچی تھیں، اس کے سرخ اونی شال پر بجلی کی روشنی چمک رہی تھی جس کا عکس اس کے چہرے پر پڑ کر سیاہ گاؤن کے ساتھ ایک عجیب کیفیت پیدا کر رہا تھا۔ اس نے ذرا تامل سے کہا "میں آپ کو دیکھنا چاہتی تھی، ملنے کا تو مجھ کو خیال بھی نہ آ سکتا تھا۔"
"کیا آپ مجھ کو بتا سکتی ہیں کہ آپ مجھ کو کیوں دیکھنا چاہتی تھیں؟" یہ سوال کرنے سے نوری کو خود ہنسی آ گئی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
ص 108

نازلی نے بھی اب ہمت کر کے کہا "پہلے آپ ہی بتائیے کہ آپ آخر کیوں مجھ سے ملنا چاہتے تھے، جس لئیے آپ مجھ سے ملنا چاہتے تھے اس لئے میں بھی چاہتی تھی کہ آپ کو دیکھ لوں۔"
نوری نے کہا۔ "میں تو آپ کو اس لیئے دیکھنا چاہتا تھا کہ جو کچھ بھی میں نے اپنی بہن اور ماں سے آپ کے بارے میں سنا ہے اس کی تصدیق کر لوں مگر یہ تو بتائیے کہ آپ کیوں مجھ کو دیکھنا چاہتی تھیں۔؟"
نازلی نے اب نظریں اوپر کر لی تجیں اور اب روبرو ہو کر باتیں سن رہی تھی اس کو ان سوالات پر کچھ ہنسی بھی آ رہی تھی اور اس نے جواب دیا کہ "میں تو یونہی آپ کو دیکھنا چاہتی تھی۔"
"مگر میں آپ سے بغیر اس کی وجہ پوچھے نہ مانوں گا"
نازلی نے کہا "مجھ کو معلوم ہی نہیں تو پھر بھلا آپ کو کیا بتاؤں"
نوری کو اس جواب سے اطمینان ہو گیا لیکن اب اس کے دوسرا سوال پیش کر دیا۔
"میں جب پیرس میں بیمار پڑ گیا تھا تو آپ کو یاد ہو گا آپ نے دو مرتبہ اپنے خطوط میں میری بہن کو لکھا تھا کہ تمہارے بھائی اب کیسے ہیں؟ یہ آخر کیوں لکھا تھا؟"
نازلی کو اس بات پر ہنسی آ گئی اور وہ کہنے لگی "معاف کیجئے گا آپ کیسے سوالات کر رہے ہیں کیا کسی کی خیریت دریافت کرنا گناہ ہے۔؟"
نوری نے کہا "اچھا آپ صرف یہ بتائیے کہ کیا آپ میری بیماری کا سن کر کچھ متفکر ہوئی تھیں اور کیا آپ کو میرا خیال آیا تھا۔"
نازلی نے سمجھ لیا تھا کہ ایسے سوالوں سے نوری کا مطلب کیا ہے اور اس کو بھی ان سوالات میں دلچسپی آ رہی تھی اس نے بجائے جواب دینے کے ہنستے ہوئے کہا۔ "اچھا پہلے آپ بتائیے کہ اگر اسی زمانہ میں میں بیمار پڑتی اور آپ کو اس کا علم ہوتا تو آپ میری خیریت دریافت کراتے یا کچھ متفکر ہوتے یا آپ کو میرا کچھ خیال آتا؟"
نوری کچھ لاجواب ہو کر ! "میرا خیال ہے کہ ضرور مجھ کو بہت خیال آتا اور فکر بھی ہوتی اور میں خیریت بھی دریافت کراتا۔"
نازلی کامیابی کی خوشی کے لہجے میں تیزی سے بولی۔" آخر کیوں، آخر کیوں، نہ میں نے کبھی آپ کو دیکھا اور نہ آپ نے ہی مجھ کو دیکھا تھا۔"
نوری اس مسئلہ پر غور کر رہا تھا نازلی کا ہاتھ بدستور اس کے ہاتھوں میں تھا اس نے اس کے ہاتھ کو نرمی سے دباتے ہوئے عجیب پیرایہ میں کہا "میری جو باتیں خود سمجھ میں نہیں آتی تھی
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
ص 109


انہیں دریافت کرنا چاہتا تھا لیکن دراصل میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آپ کی طرف سے جو خیالات میرے دل میں تھے، کیا ویسے ہی میری طرف سے آپ کے دل میں بھی ہیں۔"
"پھر آپ نے کیا پایا؟"
"آپ کی اور اپنی حالت کو یکساں پایا۔ یہ ایک بات ہے کہ یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم دونوں میں محبت کی بنیاد دراصل اس وقت سے استوار ہو گئی جب ہم دونوں کو اس کا علم ہوا کہ یہ رشتہ قائم ہو گا۔"
اس کا جواب نازلی نے کچھ نہ دیا صرف اس کے نرم ہاتھ کو جنبش سی ہوئی جو نوری کے ہاتھ میں تھا اور یہی جواب تھا جو اس کے جذبات کی صحیح ترجمانی کر رہا تھا۔
نوری نے متاثر ہو کر کہا۔ "ایک سوال اور کروں گا اور اس کا جواب خدا کے واسطے ضرور دینا وہ یہ کہ آپ نے جو اپنے ہاتھ سے ایک جنگل کے سین کی رنگ برنگی تصویر بنا کر میری بہن کو بھیجی تھی ، وہ کیوں بھیجی تھی؟"
"وہ میں نے اس لئے بھیجی تھی کہ انہوں نے مجھ کو تصویروں کا ایک البم بھیجا تھا، تبادلہ تحفہ جات تو ایک پرانی رسم ہے۔"
نوری نے بے تاب ہو کر کہا "خدا کے واسطے ذرا اپنے دل کو ٹٹولئے اور اچھی طرح ٹٹولئے ہر معاملہ میں میرا اور آپ کا حال ایک سا نکلتا ہے بخدا مجھ کو ایسا معلوم ہوا کہ تصویر آپ نے میری بہن کے لئے نہیں بلکہ میرے لئے بھیجی تھی تاکہ میں دیکھوں اور خوش ہوں، اس وقت جس وقت تصویر آئی تو میرے دل میں یہی خیال تھا اور اب بھی یہی خیال ہے، سچ مچ کہئے گا کہ آپ جس وقت تصویر بھیج رہی تھیں کیا آپ کے دل میں کچھ میرا خیال آیا تھا۔"
نازلی کچھ حیران سی رہ گئی کیونکہ اس وقت نوری نے اس کے دل کی گہرائی کا اس طرح پتہ لگا لیا کہ اس کو وہم و گمان بھی ہونا ناممکن تھا۔ وہ کچھ جواب نہ دے سکی اور حیرت میں تھی، ساتھ میں حقیقی شرم بھی اس کو بولنے نہ دیتی تھی۔
نوری نے اصل حقیقت کو سمجھ لیا اور اصرار کے ساتھ کہا "اس بات کا میں آپ سے ضرور جواب لوں گا یہ میرا آخری سوال ہے اور میں اس وقت آپ کے صحیح جواب کا بے تابانہ انتظار کر رہا ہوں بتائیے تو سہی کہ وہ تصویر آپ نے کس کے لئے بھیجی تھی۔"
"آپ کے لئے" یہ کہہ کر نازلی نے آنکھیں نیچی کر لیں۔
نوری کی آنکھیں چمکنے لگیں اس کا دل جواب سن کر دھڑکنے لگا اس نے زور سے نازلی کا ہاتھ گویا لاعلمی میں دبایا اور خوش ہو کر اس کے منہ سے نکلا "بخدا؟"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
ص 110

"بخدا" نازلی کی زبان سے بھی نکلا۔
دونوں تھوڑی دیر تک خاموش رہے نازلی نیچی نظریں کئے ہوئے بیٹھی، نوری نے گھڑی دیکھی اور چاروں طرف دیکھ کر نازلی کا ہاتھ آہستہ سے چھوڑ دیا، اپنی جیب سے اس نے ہیرے کی ایک انگوٹھی نکالی جس کی دمک سے بجلی کی روشنی میں آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں، نازلی نے آنکھ کے گوشہ سے انگوٹھی کو دیکھا تو اس نے مسکرا کر کہا "یہ آپ کے لئے ہے" ہاتھ پکڑ کر کہا۔" کیا آپ اجازت دیتی ہیں" اور یہ کہتے ہوئے نازلی کی انگلی میں انگوٹھی پہنا کر اس کے ہاتھوں کو لبوں سے لگا کر آہستہ آہستہ سے چھوڑ دیا۔
"خدا حافظ۔ خدا حافظ۔" کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا، ایک طویل مصافحہ کیا اور پھر خدا حافظ کہہ کر اجازت چاہی۔ "خدا حافظ" نازلی نے آہستہ سے کہا۔ چلتے چلتے دروازے سے مڑ کر اس نے نازلی کی طرف دیکھا جو خود اس کو جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
ص 110
مہارانی کا خواب
میری عمر جب دو برس کی تھی تو کئی جگہ سے میری شادی کے پیغام آئے۔ منجملہ ان کے صرف ایک ایسا تھا جو ہم پلہ والی ریاست کے یہاں سے آیا تھا۔ لیکن لڑکی بہت بڑی تھی۔ دراصل اس کی عمر پندرہ سولہ سال تھی اور میں صرف دو سال کا بچہ تھا۔ چونکہ پیغام ایک ہم پلہ مہاراجہ کی راجکماری کا تھا اس لیے پتا جی مہاراجہ نے انکار تو نہیں کیا لیکن خاموش ہو گئے۔
جب میری عمر پانچ برس کی ہوئی تو اسی ریاست کے پاٹھوی کنور یعنی ولی عہد کی لڑکی کے لیے پتا جی مہاراجہ نے سلسلہ جنبانی کی۔ انہوں نے تو اپنی لڑکی کا پیغام دیا تھا اور یہاں سے ان کی پوتی کے لیے پیغام گیا۔ بہت گفت و شنید کے بعد انہوں نے اس شرط پر رضامندی ظاہر کی کہ پہلے لڑکی سے شادی کر لو، جب پوتی جوان ہو جائے گی تب اس کو بھی بیاہ دیں گے۔ گویا پوتی سے شادی کرنے کی شرط ہی یہ ٹھہری۔ چونکہ پتا جی مہاراجہ پوتی سے شادی ضروری خیال کرتے تھے، لہٰذا انہوں نے اس کو منظور کر لیا اور میری نسبت لڑکی اور پوتی یعنی پھوپی اور بھتیجی دونوں سے شادی پختہ کر لی، کیونکہ یہ امر راجپوتوں میں کوئی معیوب نہیں۔
میری شادی سے پہلے ہی پتا جی مہاراجہ سورگباش ہو گئے۔ ان کی برسی کے بعد جب میں آٹھ برس کا تھا تو میری شادی ہوئی۔ میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ نہ میری کوئی بہن تھی اور نہ بھائی۔ باپ کی موت کے بعد گدی کا مالک ہوا۔ میں چونکہ نابالغ تھا، ریاست کا انتظام کانسل اور ایجنٹ کے ہاتھ میں تھا۔ میری شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ دونوں ریاستوں کی طرف سے دل کھول کر روپیہ خرچ کیا گیا اور میں مہارانی کو بیاہ لایا۔ اس وقت میری عمر آٹھ برس کی تھی، اور میری مہارانی کی عمر کوئی اکیس یا بائیس برس کی ہو گی۔
میں اودے رنگ کی بنارسی اچکن پہنے ہوا تھا، اور شربتی رنگ کی کمخواب کا پاجامہ۔ پیازی رنگ کا صافہ تھا جس پر کلغی لگی ہوئی تھی اور چاروں طرف بیش قیمت جواہرات ٹکے تھے۔ جوڑ

اختتام ص 106-111
 
Top