عطاءالحق قاسمی کے عمران کو مخلصانہ مشورے ۔ عمران خان کی مقبولیت میں کمی۔ ذمہ دارکون؟… روزن دیوار سے

عمران خان کی مقبولیت میں کمی۔ ذمہ دارکون؟… روزن دیوار سے
attaul.haq@janggroup.com.pk
SMS: #AHQ (space) message & send to 8001
اگر سچ پوچھیں تو عمران خان کی لمحہ بہ لمحہ کم ہوتی ہوئی مقبولیت جمہوریت کے لئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ جمہوریت میں مضبوط حزب ِ اختلاف جمہوریت اور یوں عوام کی فلاح و بہبود کے ضمن میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیراعظم محمد نوازشریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) نے ہر دور میں ممکن حد تک عوام کی خدمت کی۔ معیشت کا گراف اوپر گیا اور اب بہت سے میگاپروجیکٹ تیاری کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ اوپر سے معاشی راہداری انشااللہ پاکستان میں ایک بہت بڑے معاشی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی تاہم اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے بھی مسلم لیگی قیادت کو جھنجھوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ میں عمران خان کی کم ہوتی مقبولیت سے خوش نہیں ہوں۔ مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ کبھی پیپلزپارٹی سے ہوتا تھا اور یوں دو جماعتی نظام کے کچھ نہ کچھ فوائد حاصل ہو جاتے تھے۔ اب پی پی پی بھی میدان میں اس طرح نہیں ہے جس طرح کبھی ہوتی تھی اور مستقبل میں بھی بظاہراس کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ چنانچہ اکیلا مسلم لیگ (ن) کا میدان میں رہ جانا کوئی اچھا سائن نہیں ہوگا!
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان نے اپنی مقبولیت پر خود کلہاڑا چلایا! انہوں نے اقتدار میں آنے کے لئے بہت زیاد ہ بے صبری کا مظاہرہ کیا اور اس ضمن میں اس امر کی بھی پرواہ نہیں کی کہ فوری طور پر اقتدار میں آنے کی خواہش سے صرف انہی کو نہیں ان کے اٹھائے ہوئے اقدامات سے پاکستان کو بھی نقصان پہنچے گا۔ ان کے تین مہینے کے دھرنے نے پاکستان کی معاشی ترقی میں بریکوں کا کام کیا۔ فوری اقتدار کی خواہش کی تکمیل کے لئے انہوں نے خود کو ’’امپائر‘‘ کے حوالے کردیا۔ یہ تو پاکستانی عوام کی خوش قسمتی تھی کہ جنرل راحیل شریف نے اس ’’مشن امپاسبل‘‘ کو ’’مشن امپاسبل‘‘ ہی رہنے دیا۔ دھرنے کے دوران اور دھرنے کے بعد بھی خان صاحب مسلسل یوٹرن لیتے رہے۔ انہوں نےانتخابات میں دھاندلی کے مسلسل الزامات لگائے اور جب کینٹ ایریاز کے انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو وہ جنرل الیکشن کے دن حلقوں سے عین مطابقت رکھتے تھے ۔ جن کے حوالے سے خان صاحب کا الزام تھا کہ ان میں مسلم لیگ (ن) دھاندلی کے ذریعے جیتی ہے۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ اسے دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اب اس کا کلائمکس پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات میں ہونے والی بے پناہ دھاندلی اور قتل و غارت گری کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ پختونخوا میں ان کی حلیف جماعت، جماعت ِ اسلا می نے اس دھاندلی کو منظم دھاندلی قرار دیا ہے اورمطالبہ کیا ہے کہ تمام حلقوں میں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ جماعت اسلامی کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس کے علاوہ اپنی حریف جماعت اے این پی کے رہنما میاں افتخار حسین پر قتل کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی جبکہ میاں افتخار حسین کا شمار ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کی دیانت اور شرافت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ا س پر طرہ یہ کہ مقتول کے والد نے یہ بیان دے دیا کہ ان پر دبائو ڈال کر میاںافتخار حسین کانام ایف آئی آر میں درج کرایاگیا تھا۔
دوسری طرف عمران خان کےایک وزیر پرالزام ہے کہ وہ ووٹوںکا پوراباکس اپنی گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ ان کی گرفتاری ہوئی مگروہ پولیس کی گرفت میں نہ آسکے۔ وزیر صاحب نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو خود گرفتاری کے لئے پیش کریں گے چنانچہ ان کے اسٹیٹس کے احترام میں ایسا ہی کیا گیا۔ اپنی جماعت کے وزیر کو یہ سہولت دی گئی اور میاں افتخار حسین جیسے صاف ستھرے سیاستدان کو یہ عزت دو دن حوالات میں رکھنے کی صورت میں عطا کی گئی!
اس کے علاوہ اپنی ڈھائی سالہ حکومت کے دوران خان صاحب کی جماعت صوبے کو وہ کچھ نہیں دے سکی جس کی توقع پر انہوں نے خان صاحب کو ووٹ دیئے تھے۔ عمران خان شاید صرف ایک صوبے کی حکومت کو اپنے شایان شان نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ وہ نئے پاکستان کے لئے پرانے سیاستدانوں کے کاندھوں پر بیٹھے ہیں۔ اکیلے پختونخوا میں تو ’’نیا پاکستان‘‘ نہیں بنایا جاسکتانا!
میں اپنے بچپن سے ایک محاورہ سنتا چلا آرہا ہوں جس کا مفہوم یہ ہے کہ آج جو بوئو گے کل وہی کاٹو گے، اس کی صحیح عملی صورت خان صاحب کی سیاست کے نتائج کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ انہو ں نےفوری اقتدار کے لئے دھرنے دیئے۔ اپنے حریف سیاستدانوں کے لئے انہوں نے اور ان کے حواریوں نے غیرمہذب زبان استعمال کی۔ آج ان کی اپنی جماعت کے لوگ اپنے مطالبات کے لئے دھرنے دے رہے ہیں اور کئی مقامات پر موصوف کے خلاف نعرے بازی بھی کی گئی ہے۔ کل انہو ںنے جنرل الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگایا آج ان کی جماعت نے خود دھاندلی کے ریکارڈقائم کردیئے اور یوں ہر طرف اس کے خلاف شدید ردعمل آ رہا ہے۔وہ جنرل الیکشن کے حوالے سے ابھی تک ان پر کوئی الزام ثابت نہیں کرسکے اور ان انتخابات کے دوران عالمی اورمقامی میڈیا نے کسی قسم کی دھاندلی کی نشاندہی نہیں کی تھی جبکہ آج سارا میڈیا اس کے شواہد پیش کر رہا ہےاور یہ سب چیزیں عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کے لئےکوئی اچھی خبریں نہیں ہیں۔
مگر جیسا کہ میں نےکالم کےشروع میں عرض کیا تھا کہ خان صاحب کی مرحلہ وار عدم مقبولیت پر میں خوش نہیں ہوں۔ میری خواہش ہے کہ وہ ایک مضبوط سیاسی رہنما کے طور پر سامنے آئیں تاکہ اگر حزب ِ اقتدار کہیں بھٹکنے لگے تو وہ اسے سیدھی راہ پر لے آئیں مگراس کے لئے خان صاحب کو اپنا وہ امیج بحال کرنا ہوگا جو سیاست میں آنےسے پہلے تھا….. اور یہ امیج اسی صورت میں بحال ہوسکتا ہے کہ وہ بے صبرے نہ بنیں۔ حکومت کو اپنی میعاد پوری کرنے دیں، الزام تراشی اورتہمتیں لگانے سےگریز کریں، اپنے صوبے کو ایک مثالی صوبہ بنائیں اور اس کے علاوہ جو بھی کہنا ہو،اسے پہلے تولیں اور پھر بولیں! سب سے اہم بات کہ ان کی کوئی بات اور کوئی عمل ایسا نہیں ہونا چاہئے جس سے یہ لگے کہ وہ ایک لسانی جماعت کے لیڈر ہیں۔ میںہر بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ان کی طرف سے دانستہ یا نادانستہ طور پر یہ تاثر دیا جارہاہے کہ وہ ایک لسانی قوت کے لیڈر ہیں۔ میں نے یہ سب کچھ پورے خلوص سے عرض کیا ہے اگر خان صاحب اپنے غصے کو چند لمحوں کے لئے پرے رکھ کر میری ان گزارشات پر غور کریںگے تو انہیں اپنے لئے اوراپنی جماعت کے لئے مفید پائیں گے!
 
اگر یہ کہا جائے کہ تحریک انصاف نے اپنے صوبے میں کوئی قابل ذکر اچھا کام نہیں کیا تو بجا نا ہوگا۔ میرے دوست جو ن لیگ کے حمایتی ہیں اور خیبر پی سے ان کا تعلق ہے نے بتایا کہ وہاں سکولوں، ہسپتالوں اور پولیس کی بہتری کے لئے قابل ذکر کام ہوا ہے۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ وہاں عوام کی توقعات اس طرح پوری نہیں ہوئیں جیسے کہ پی ٹی آئی نے دعوی کیا تھا۔ اور نتیجہ سامنے ہے کہ مبینہ "دھاندلی" کے باوجود وہاں یہ 24 فیصد سے زیادہ سیٹیں نہیں جیت سکی۔
مجھے بھی ایک مضبوط اپوزیش کی ضرورت ہے تاکہ حزب اقتدار کو راہ راست پر رکھا یا دھکیلا جا سکے۔ :)
 
Top