سید شہزاد ناصر
محفلین
تم عشق کی تلخی کو کیا سمجھو
مگس بےحیا !۔
ڈھیٹ کہیں کی !۔
گھڑی گھڑی منہ پر آتی ہے۔ کبھی ناک پر بیٹھتی ہے۔
نتھنوں کو پھلا کر اڑاؤ تو ماتھے پر جا بیٹھتی ہے۔ وہاں سے ہٹاؤ تو کلے پر آ جاتی ہے۔ کوئی اس سے کہے کہ یہ بھی کوئی فرانس و بلجیئم کا ملک سمجھا ہے کہ جرمن کی طرح سر ہی ہو گئی۔
کل رات ہوا بند تھی۔ لیمپ پر کیڑے پتنگے آ رہے تھے۔ بیٹھنا دوبھر ہو گیا تھا۔ کسی نے کہا -- یہ موسمِ برسات بھی بلائے جاں ہے۔ دن کو کمبخت مکھیاں ستاتی ہیں اور رات کو یہ کیڑے دق کرتے ہیں۔
کوئی ان بےوقوف جانوروں سے پوچھے کہ روشنی میں کیا رکھا ہے کہ اس پر پلے پڑتے ہیں؟
ایک مکھی چھت کے پاس دیوار سے چمٹی بیٹھی تھی۔ آدمی کی یہ بات سن کر پروانے سے بولی -- سچ تو ہے ! کیوں لیمپ پر گرا پڑتا ہے؟ خواہ مخواہ جان کھوتا ہے۔ آپ بھی مرتا ہے دوسروں کو بھی پریشان کرتا ہے۔
پروانے نے سرد آہ بھر کر کہا -- بوا مکھی ! تم میرے دل کی لگن کیا جانو۔ مٹھاس کی رسیا ہو تم عشق کی تلخی کو کیا سمجھو۔ ہم کو اسی میں مزا آتا ہے۔
مگس بےحیا !۔
ڈھیٹ کہیں کی !۔
گھڑی گھڑی منہ پر آتی ہے۔ کبھی ناک پر بیٹھتی ہے۔
نتھنوں کو پھلا کر اڑاؤ تو ماتھے پر جا بیٹھتی ہے۔ وہاں سے ہٹاؤ تو کلے پر آ جاتی ہے۔ کوئی اس سے کہے کہ یہ بھی کوئی فرانس و بلجیئم کا ملک سمجھا ہے کہ جرمن کی طرح سر ہی ہو گئی۔
کل رات ہوا بند تھی۔ لیمپ پر کیڑے پتنگے آ رہے تھے۔ بیٹھنا دوبھر ہو گیا تھا۔ کسی نے کہا -- یہ موسمِ برسات بھی بلائے جاں ہے۔ دن کو کمبخت مکھیاں ستاتی ہیں اور رات کو یہ کیڑے دق کرتے ہیں۔
کوئی ان بےوقوف جانوروں سے پوچھے کہ روشنی میں کیا رکھا ہے کہ اس پر پلے پڑتے ہیں؟
ایک مکھی چھت کے پاس دیوار سے چمٹی بیٹھی تھی۔ آدمی کی یہ بات سن کر پروانے سے بولی -- سچ تو ہے ! کیوں لیمپ پر گرا پڑتا ہے؟ خواہ مخواہ جان کھوتا ہے۔ آپ بھی مرتا ہے دوسروں کو بھی پریشان کرتا ہے۔
پروانے نے سرد آہ بھر کر کہا -- بوا مکھی ! تم میرے دل کی لگن کیا جانو۔ مٹھاس کی رسیا ہو تم عشق کی تلخی کو کیا سمجھو۔ ہم کو اسی میں مزا آتا ہے۔