عشق کا ''وائرس

ضیاء حیدری

محفلین
عشق کا ''وائرس

ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا مرض عشق میں تباہ ہوتی جارہی ہے،چونکہ بنیادی طور پر ہم ایک فارماسسٹ ہیں، اس لئے اس پر تحقیق کرنا ہمارا حق بنتا ہے۔ یہ بیماری کس کو لگتی ہے، کون اس کا سبب بنتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

ہم نے فکر و تجسس کے سمندر میں کئی غوطے لگائیں ہیں تب کہیں جاکر کچھ موتی ہاتھ لگے ہیں۔ ع ش ق کی بنیاد پر یہ لفظ کھڑا ہے، ع سےعورت کا وجود اس کا پہلا جز ہے، اس کے علاوہ سوشل میڈیا، فلمیں، ٹی وی ڈرامے اس وائرس کے فروغ کے لئے وہی کام کرتے ہیں جو کسی زمانے میں گندے نالے مچھروں کی پرورش کے لئے کرتے تھے۔

ش سے شباب، عین عالم شباب میں اس مرض کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں، ویسے کچھ بوڑھوں کو بھی اس میں مبتلا دیکھا ہے، مگر اس کی شدت ان میں بس اتنی ہوتی ہے ،رہنے دو ساغر و مینا میرے آگے، شادی اس کی ہپی انڈنگ میں شامل ہے، ہپی اینڈنگ کا مطلب خوشی کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے،

ق سے قدم یہ بیماری ایک دم نہیں لگتا ہے بندہ قدم بقدم اس کی طرف بڑھتا ہے، گرلز کالج کی چھٹی کے وقت تیز تیز قدموں سے کالج کی طرف روانہ ہوتا ہے ایسا روزانہ ہونا اس وائرس کے انفیکشن کی پہلی نشانی ہے، چونکہ یہ وائرس انفیکشن ہوتا ہے، اس لئے ایک معین مدت تک رہتا ہے، پھر خود بخود معدوم ہوجاتا ہے، مگر ری انفیکشن کا خطرہ رہتا ہے، کئی کیسز میں ناقابل علاج بھی ہوتا ہے، اس کی سب سے کامیاب ویکسین ابا حضور کا ڈنڈا ہوتا ہے۔

۔ آپ عشق کی راہ میں قدم سوچ کے رکھنا، اس تحریر کی بنیاد پر اپنے آپ کو چیمپئں نہ سمجھ لینا، اس میں کئی مقامات آہ و بکا بھی آتے ہیں۔ ''
 
Top