عشق کا شین

بسم اللہ الرحمن الرحیم
عشق کا ''ش''
لکھنے سے قبل یہ وضاحت کرنا پسند کروں گا کہ (عشق ) کا بیڑا غرق کئی دفعہ
ہوچکاہے ۔۔ صدیوں تک لفظِ ''عشق'' جڑا ہوا تھا لیکن اس صدی کا بھلا ہو جس نے بالکل
عاشقِ نا مراد کے کپڑوں کی طرح اس لفظ کو بھی تار تار کردیا ہے ۔۔ اس سے پہلے کسی
لکھاری نے (نام یاد نہیں رہا ) کتاب لکھی ہے (عشق کا عین )۔۔ میں نے یہ کتاب نہیں
پڑھی مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ ناول ہے یا کیا ؟؟ لیکن سنا ضرور ہے ۔۔ اس طرح
(عشق) کا ''عین'' عاشقانہ انداز میں عشق کے لفظ سے گرا ۔۔ اور اب کچھ دن پہلے میری
نظر سے (سرفراز احمد راہی )صاحب کے ناول کا نام بھی گزرا ۔۔ (عشق کا قاف)۔۔''عشق کے
عین'' کی طرح ہم نے ''عشق کے قاف'' کا مزہ بھی نہیں چکھا۔۔ شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ
مصروفیت میں ہمیں یہ'' عشق وشق ''کرنا یاد نہیں رہا ۔۔ خیر ۔۔ ہم نے سوچا کہ جب ان
دونوں حضرات نے عشق کا میدان مارا ہے تو ہم کیوں پیچھے رہیں؟؟ اس لئے ہم نے فیصلہ
کیا ہے ۔۔۔ اب کی باری عشق کے ''شین''کی حقیقت سے پردہ اٹھایا جائے ۔۔
یوں تو اگر عشق کے ''شین'' پر لکھا جائے تو کتاب بن سکتی ہے ۔ لیکن چونکہ ہمیں
لکھنا نہیں آتا البتہ تھوڑے بہت الفاظ جوڑنے آتے ہیں اس لئے چند باتیں ہی لکھ پاؤں
گا۔۔ بندہ نا چیز اگر لکھاری ہوتا تو شاید عشق کے ''شین'' کے چپے چپے کا سفر کرکے
آپ کو اس رنگین لفظ عجیب و غریب حقیقتیں بتاتا ، لیکن ؟
خیر ! عشق محبت کا آخری درجہ ہے ۔۔ انسیت ، لگاؤ ، دلچسپی ، پیار ، محبت ، وفا
، وعدے ، اخلاص ، عشق ۔۔۔ اور ان سب جذبوں کی بنیاد نظر رکھتی ہے لیکن یہ قاعدہ
کلیہ نہیں۔۔ کبھی کبھی حضرتِ ''کان ''بھی اس بربادی میں اپنا کردار انجام دیتے
ہیں۔۔ عربی کے ایک شاعر نے اسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے :
قَدْ ہِمْتُ فِيْ عِشْقِہٖ مِنْ قَبْلٖ رُؤیَتِہٖ
وَالأذْنُ تَعْشِقُ قَبْلَ الْعَیْنِ أَحْیَانَا
ترجمہ : میں اپنے محبوب کے عشق میں اسے دیکھنے سے پہلے دیوانہ ہوگیا ۔۔کبھی کبھی
کان آنکھ سے پہلے عشق کربیٹھتا ہے ۔
جسکا مطلب یہ ہوا کہ میرا دل اسکا حُسن وخوبیاں سنتے ہی اسکا اسیر ہوگیا ۔
ضروری نہیں کہ دیکھنے ہی سے عشق ہو۔ کبھی کبھی دیکھنے سے پہلے سننے سے ہی کوئی شخص
کسی کا عاشق ہوجاتا ہے ۔
بہر کیف ہم عشق کے ''شین'' کی طرف آتے ہیں ۔۔ یہ ''شین'' ایک ایسا سمندر ہے کہ
جتنا گہرا آپ اس میں جانا چاہیں گے جا سکیں گے لیکن جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں مجھے
لکھنا کا کوئی سابقہ تجربہ نہیں۔۔ اس لئے جو جو موتی مجھے اس سمندر سے ملیں گے آپ
کے سامنے پیش کرتا جاؤں گا ۔۔۔ پتہ نہیں کہ موتی کہنا زیادہ مناسب ہے یا پھر تیر ؟؟
کیونکہ بقول شاعر :
چشم تر ، خاک بسر ، چاک گریباں، دل زار
''عشق '' کا ہم نے دنیا میں نتیجہ دیکھا
عشق موتی ہوتا تو یہ کسی کی منور جبیں کو مزید منور کرتا۔۔ کسی حسینہ کے گلے میں
ہوتا ۔۔ یا کسی ''جوبن'' کی کلائیوں کی زینت بنتا۔۔ لیکن :
قہر ہے ، موت ہے ، بلا ہے عشق
سچ تو یہ ہے بری بلا ہے عشق
لیکن یہ بھی قاعدہ کلیہ نہیں کہ ہمیشہ عشق بری بلا ہی ہوتا ہے ۔۔ کیونکہ عشق دو
قسم کے ہیں:
(١) عشق حقیقی :
یہ وہ عشق ہے جو خالق (اللہ تعالی ) اور مخلوق (اللہ کے بندوں ) کے درمیان ہوتا
ہے ۔اس درجہ پر بیحد کم لوگ فائز ہوتے ہیں۔ یہ بہت ہی اعلی مقام ہے۔ اس مقام کو
پانے کے لئے قرآن وسنت کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے ۔۔۔ شرعی تصوف اس کی ایک حقیقت
ہے ۔۔ بہت خمدار بھی ہے ۔ سمجھنے کے لئے علم او ر مکمل انسانی سوجھ بوجھ ہونے کی
ضرورت ہے ۔۔
اس عشق کی روداد مت پوچھئے ۔۔ اگر عشق خود بولنے کے قابل ہوتا تو یہ اپنا مژدہ
رو روکر آپ کو سناتاکہ مجھے کس طرح انسانوں نے روندا ہوا ہے کیونکہ خدا سے عشق تو
دور کی بات رہی ۔۔۔ خدا کی معرفت سے بھی ہم نابلد ہیں ۔۔ کبھی آپ نے سوچا کہ ہم خدا
سے کتنا پیار کرتے ہیں ؟ یہ بات یاد رہے کہ صرف لفاظی کو محبت نہیں کہتے بلکہ محبت
محبوب کے سانچے میں ڈھل جانے کا نام ہے ۔۔
(٢) عشق مجازی :
اس کی تقسیم دو طرح کر سکتے ہیں:
پہلی قسم :
(١) والدین سے پیار ۔ بھائی بہن کی اُلفت ۔رشتہ داروں سے محبت ۔میاں بیوی کا
عشق ۔۔ اس عشق کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ۔۔ بلکہ یہ عشق اجتماعی نظام کی
کامیابی کے لئے بیحد ضروری ہے۔۔ لیکن ایک نکتہ یاد رکھنا چاہئے کہ نبی کریم ؐ وسلم
کی محبت پر یہ محبت غالب نہیں آنی چاہئے۔ کیونکہ آپ ؐ سے محبت رکھنا ہمارا فرض ہے
۔اس محبت کے بعد ہی باقی ''محبتوں'' کا درجہ ہونا چاہئے
دوسری قسم :
(ب) یہ وہ'' عشق ''ہے جو آج گلی گلی کوچہ کوچہ ناچ رہا ہے ، اس کے مریض سسک سسک
کر جی رہے ہیں۔۔ اور یہ سب غیروں کی چکا چوند ثقافت سے بھر پور روشنی کی دین ہے۔۔یہ
تہذیبِ نو کی ناجائز اولاد ہے جو ''مغرب ''کی سازشوں کا نتیجہ ہے ۔ ''ڈش انٹینا ''۔
''کیبل ''۔ ''فلمیں''۔۔اسی کڑی کا سلسلہ ہیں۔ بلکہ عشق کی یہ قسم انہی چیزوں کی عطا
کردہ ہے۔۔
خیر! یہ شعر سنئے :
بچو تقلیدِ مغرب سے اے ''ایشیا'' والو!
کہ'' مغرب ''کی طرف جاتے ہی سورج ڈو ب جاتا ہے
اس طرح ظفر علی خاں مرحوم نے کہا تھا :
''تہذیبِ نو'' کے منہ پر وہ تھپڑ رسید کر
جو اس ''حرام زادی'' کا حلیہ بگاڑ دے
اوہو ۔۔ ہم نے با ت عشق کے ''شین''کی چھیڑی تھی اور کہاں سے کہاں چلے گئے۔۔ اس
لئے واپس لوٹتے ہیں ۔۔ عشق کے ''شین'' کی طرف ۔
سو ۔۔۔''عشقِ مجازی ''۔۔۔ اس کے ''شین ''کا بترتیبِ مراحل بتدریج جائزہ لیتے
ہیں۔۔ان الفاظ کا جائزہ لیتے ہیں عشق کے ''شین'' میں :
شباب ، شوشہ ، شکار ، شہد ، شربت ، شب ، شفایاب ، شیشہ ، شد بد ، شہنشاہیت ، شریک
ششدر ، شریر ، شرارہ ، شر ، شکنجہ ، شش و پنج ، شادی ، شد ید ، شکستہ خاطر ، شکست
عام طور پر'' شباب ''یعنی جوانوں میں'' عشق'' کا ''وائرس'' پیدا ہوتا ہے۔۔ نظر
اٹھتی ہے ۔۔ کسی سے ملتی ہے ۔۔
آنکھوں آنکھوں میں اشارے ہوئے ہیں
تم ہمارے ، ہم تمہارے ہوئے ہیں
پھر لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوتی ہیں ۔۔جوڑی کے بارے میں''شوشے'' چھوڑے جاتے
ہیں۔۔ عشق نہیں بھی ہونا ہوتا تو لوگوں کی وجہ سے ہوجاتا ہے ۔ سو نتیجہ یہ ہوتا ہے
کی جوڑی عشق کے ''وائرس'' کا ''شکار ''ہو جاتی ہے ۔۔ابتدا میں تو عشق ''شہد'' سے
بھی لذیذ محسوس ہوتا ہے ۔۔ ''شربتِ وصل '' پینے کے لئے وعدے کئے جاتے ہیں۔ اور
چونکہ اس کام میں کئی رکاوٹیں ہوتی ہیں تو ''شب بھر'' جاگتے ہوئے تارے گنے جاتے ہیں
۔۔ پھر عشق ایک جنون ہے اس لئے اسکا مریض ''شفایاب'' ہونے کے بجائے مزید جنون میں
گھرتا چلا جاتا ہے ۔۔نوبت ''شیشہ'' یا آئینہ سے بات کرنے تک پہنچ جاتی ہے ۔۔
چونکہ عموما عاشق کچی عمر کے ہوتے ہیں اس لئے وہ زندگی کے ابجد سے نا واقف ہوتے
ہیں ۔ انہیں کچھ تجربہ ہوتا ہے نہ ہی عشق کی'' شدبد''ہوتی ہے اس لئے عاشق کے اند ر
''شہنشاہیت '' عروج پر ہوتی ہے ۔۔ وہ کسی کا کہا نہیں مانتا ۔۔ بلکہ اپنے افکار اور
محبوب میں کسی کو ''شریک '' کرنا بھی پسند نہیں کرتا وہ اپنی ہی دنیا میں رہتا ہے
۔۔ اور کوئی بھی خطرہ مول لینے کو تیار رہتا ہے۔۔ نڈر ہوتا ہے ۔۔
جو رہِ عشق میں قدم رکھیں
وہ نشیب و فراز کیا جانیں
چونکہ اکثر عاشق کو عاشقی میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہےاور گھر والے مخالف
ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ ''ششدر''رہتا ہے۔ جو بھی اسے نصیحت کرتا ہے اسے ''شریر ''
وحاسد سمجھتا ہے ۔۔وہ سمجھتا ہے کہ لوگ جلتے ہیں اس لئے اسے منع کررہے ہیں ۔۔
حالانکہ معاملہ الٹا ہوتا ہے ۔۔ اسی انا کے کھینچ تانی میںعشق کا ''شرارہ'' مزید پخ
جاتا ہے ۔۔پھر عاشق عشق کے ''شر'' میں پھنس جاتا ہے ۔۔ پھر نیندنہ سکون۔۔ بس جنون
ہی جنون ۔۔ پھر عشق ہوتا ہے اور عاشق کی روح اسکے ''شکنجے ''میں ماہیئ بے آب کی طرح
تڑپتی رہتی ہے ۔۔ ''شش و پنج '' کی کیفیت طاری رہتی ہے ۔۔ ''شادی'' کا مطالبہ کرتا
ہے۔۔۔ کردی جائے تو پھر اسے ''شدید'' خوشی ہوتی ہے ۔۔ نہیں توہ ''شکستہ خاطر''
ہوجاتا ہے ۔مخالفت کی جائے تو وہ خود سے ''شکست '' کھاکر اور دوسروں کو دیکر خود
کشی کر بیٹھتا ہے۔۔یہ ہے ناجائز محبت کا انجام ۔۔
خوش قسمت ہوتے ہیں جن کی شادی ہوجاتی ہے ۔۔۔ شادی ہونے کے بعد خوشگوار زندگی کی
کوئی ''گارنٹی'' نہیں۔۔ کیونکہ جس گھر کی بنیاد مکڑی کے جال کی طرح کمزور ہو وہ
زیست کے جھٹکے کیسے برداشت کرے ؟؟
چلئے اب بات کرتے ہیں جائز محبت کی ۔۔چونکہ کسی سے محبت ہونا ایک غیر اختیاری
امر ہے ۔۔ اس لئے جائز محبت کا حل یہ ہے کہ پیار کرنے والوں کا فورا نکاح کردیا
جائے ۔۔ اب مثال کے طور پر کسی کی نظر کس پر پڑ جاتی ہے ۔۔ پڑ کر اٹک جاتی ہے ۔۔
والدین کو چاہئے کہ دین کی شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے دو دلوں کو جوڑ دیا جائے۔۔۔
یہاں میں ایک دعا کرتا ہوں ۔۔ خدا کرے ''جہیز کی رسم '' کی موت آجائے ۔۔ سب کہو :
آمین ۔۔ کیونکہ اس رسم کے سبب خواتین زندگی کے پھندے پر لٹکتی رہتی ہیں۔۔ کس کس چیز
کا بندہ رونا روئے ؟؟آخر میں ۔۔۔
جملہ معترضہ :
چندا میاں ! عشق مت کرنا ۔۔کیونکہ یہ بے وفا جذبہ ہر کسی کا ساتھ نہیں دیتا۔۔
اور اگر میری نصیحت پلے نہیں پڑتی اور مجھے یقین ہے کہ تم اس پر عمل نہیں کرو گے اس
لئے ۔۔۔۔۔
تم عشق کی منزل میں قدم سوچ کے رکھنا
دریائے محبت کے کنارے نہیں ہوتے
 

جیہ

لائبریرین
بہت خوب راسخ ۔ بہت ہی خوب۔ مزہ آگیا پڑھ کر۔۔۔۔


ویسے آپ جب م س ورڈ میں ٹائپ کرتے ہیں تو بلا وجہ انٹر نہ دبائیں ۔ “انٹر کی“ صرف اس وقت دبائیں جب پیرا گراف ختم ہو۔
 
وقت نکال کر پڑھنے اور جواب دینے کا شکریہ

جیہ: میں بلا وجہ سپیس نہیں دیتا۔ در اصل یہ تحریر ان پیج میں تھی اسے میں نے کنورٹ کرکے بغیر دیکھے یہاں پوسٹ کردیا تھا۔
اس لئے

تنبیہ کا شکریہ
 
علیم الحق حقی کا ناول ’’عشق کا عین‘‘ میں نے کوئی بیس سال پہلے پڑھا۔ محی الدین نواب نے اس کا پیش لفظ لکھا اور اس میں وضاحت کی کہ ’’عین‘‘ سے مراد ’’جوہر‘‘ ہے، یعنی اس سے حرف ’’ع‘‘ نہیں بلکہ لفظ ’’عین‘‘ مراد ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہ لیں کہ ناول کے عنوان کا مطلب ’’عشق کی حقیقت/اصل‘‘ یا ’’اصل عشق‘‘ ہے۔ میرا خیال ہے ناول (جو پہلے ٹی وی ڈراما تھا) کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے پھر لفظ کے حصے بخرے کرنے شروع کیے اور ’’عشق کا شین‘‘ تصنیف کیا۔
 

مزمل اختر

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عشق کا ''ش''
لکھنے سے قبل یہ وضاحت کرنا پسند کروں گا کہ (عشق ) کا بیڑا غرق کئی دفعہ
ہوچکاہے ۔۔ صدیوں تک لفظِ ''عشق'' جڑا ہوا تھا لیکن اس صدی کا بھلا ہو جس نے بالکل
عاشقِ نا مراد کے کپڑوں کی طرح اس لفظ کو بھی تار تار کردیا ہے ۔۔ اس سے پہلے کسی
لکھاری نے (نام یاد نہیں رہا ) کتاب لکھی ہے (عشق کا عین )۔۔ میں نے یہ کتاب نہیں
پڑھی مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ ناول ہے یا کیا ؟؟ لیکن سنا ضرور ہے ۔۔ اس طرح
(عشق) کا ''عین'' عاشقانہ انداز میں عشق کے لفظ سے گرا ۔۔ اور اب کچھ دن پہلے میری
نظر سے (سرفراز احمد راہی )صاحب کے ناول کا نام بھی گزرا ۔۔ (عشق کا قاف)۔۔''عشق کے
عین'' کی طرح ہم نے ''عشق کے قاف'' کا مزہ بھی نہیں چکھا۔۔ شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ
مصروفیت میں ہمیں یہ'' عشق وشق ''کرنا یاد نہیں رہا ۔۔ خیر ۔۔ ہم نے سوچا کہ جب ان
دونوں حضرات نے عشق کا میدان مارا ہے تو ہم کیوں پیچھے رہیں؟؟ اس لئے ہم نے فیصلہ
کیا ہے ۔۔۔ اب کی باری عشق کے ''شین''کی حقیقت سے پردہ اٹھایا جائے ۔۔
یوں تو اگر عشق کے ''شین'' پر لکھا جائے تو کتاب بن سکتی ہے ۔ لیکن چونکہ ہمیں
لکھنا نہیں آتا البتہ تھوڑے بہت الفاظ جوڑنے آتے ہیں اس لئے چند باتیں ہی لکھ پاؤں
گا۔۔ بندہ نا چیز اگر لکھاری ہوتا تو شاید عشق کے ''شین'' کے چپے چپے کا سفر کرکے
آپ کو اس رنگین لفظ عجیب و غریب حقیقتیں بتاتا ، لیکن ؟
خیر ! عشق محبت کا آخری درجہ ہے ۔۔ انسیت ، لگاؤ ، دلچسپی ، پیار ، محبت ، وفا
، وعدے ، اخلاص ، عشق ۔۔۔ اور ان سب جذبوں کی بنیاد نظر رکھتی ہے لیکن یہ قاعدہ
کلیہ نہیں۔۔ کبھی کبھی حضرتِ ''کان ''بھی اس بربادی میں اپنا کردار انجام دیتے
ہیں۔۔ عربی کے ایک شاعر نے اسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے :
قَدْ ہِمْتُ فِيْ عِشْقِہٖ مِنْ قَبْلٖ رُؤیَتِہٖ
وَالأذْنُ تَعْشِقُ قَبْلَ الْعَیْنِ أَحْیَانَا
ترجمہ : میں اپنے محبوب کے عشق میں اسے دیکھنے سے پہلے دیوانہ ہوگیا ۔۔کبھی کبھی
کان آنکھ سے پہلے عشق کربیٹھتا ہے ۔
جسکا مطلب یہ ہوا کہ میرا دل اسکا حُسن وخوبیاں سنتے ہی اسکا اسیر ہوگیا ۔
ضروری نہیں کہ دیکھنے ہی سے عشق ہو۔ کبھی کبھی دیکھنے سے پہلے سننے سے ہی کوئی شخص
کسی کا عاشق ہوجاتا ہے ۔
بہر کیف ہم عشق کے ''شین'' کی طرف آتے ہیں ۔۔ یہ ''شین'' ایک ایسا سمندر ہے کہ
جتنا گہرا آپ اس میں جانا چاہیں گے جا سکیں گے لیکن جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں مجھے
لکھنا کا کوئی سابقہ تجربہ نہیں۔۔ اس لئے جو جو موتی مجھے اس سمندر سے ملیں گے آپ
کے سامنے پیش کرتا جاؤں گا ۔۔۔ پتہ نہیں کہ موتی کہنا زیادہ مناسب ہے یا پھر تیر ؟؟
کیونکہ بقول شاعر :
چشم تر ، خاک بسر ، چاک گریباں، دل زار
''عشق '' کا ہم نے دنیا میں نتیجہ دیکھا
عشق موتی ہوتا تو یہ کسی کی منور جبیں کو مزید منور کرتا۔۔ کسی حسینہ کے گلے میں
ہوتا ۔۔ یا کسی ''جوبن'' کی کلائیوں کی زینت بنتا۔۔ لیکن :
قہر ہے ، موت ہے ، بلا ہے عشق
سچ تو یہ ہے بری بلا ہے عشق
لیکن یہ بھی قاعدہ کلیہ نہیں کہ ہمیشہ عشق بری بلا ہی ہوتا ہے ۔۔ کیونکہ عشق دو
قسم کے ہیں:
(١) عشق حقیقی :
یہ وہ عشق ہے جو خالق (اللہ تعالی ) اور مخلوق (اللہ کے بندوں ) کے درمیان ہوتا
ہے ۔اس درجہ پر بیحد کم لوگ فائز ہوتے ہیں۔ یہ بہت ہی اعلی مقام ہے۔ اس مقام کو
پانے کے لئے قرآن وسنت کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے ۔۔۔ شرعی تصوف اس کی ایک حقیقت
ہے ۔۔ بہت خمدار بھی ہے ۔ سمجھنے کے لئے علم او ر مکمل انسانی سوجھ بوجھ ہونے کی
ضرورت ہے ۔۔
اس عشق کی روداد مت پوچھئے ۔۔ اگر عشق خود بولنے کے قابل ہوتا تو یہ اپنا مژدہ
رو روکر آپ کو سناتاکہ مجھے کس طرح انسانوں نے روندا ہوا ہے کیونکہ خدا سے عشق تو
دور کی بات رہی ۔۔۔ خدا کی معرفت سے بھی ہم نابلد ہیں ۔۔ کبھی آپ نے سوچا کہ ہم خدا
سے کتنا پیار کرتے ہیں ؟ یہ بات یاد رہے کہ صرف لفاظی کو محبت نہیں کہتے بلکہ محبت
محبوب کے سانچے میں ڈھل جانے کا نام ہے ۔۔
(٢) عشق مجازی :
اس کی تقسیم دو طرح کر سکتے ہیں:
پہلی قسم :
(١) والدین سے پیار ۔ بھائی بہن کی اُلفت ۔رشتہ داروں سے محبت ۔میاں بیوی کا
عشق ۔۔ اس عشق کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ۔۔ بلکہ یہ عشق اجتماعی نظام کی
کامیابی کے لئے بیحد ضروری ہے۔۔ لیکن ایک نکتہ یاد رکھنا چاہئے کہ نبی کریم ؐ وسلم
کی محبت پر یہ محبت غالب نہیں آنی چاہئے۔ کیونکہ آپ ؐ سے محبت رکھنا ہمارا فرض ہے
۔اس محبت کے بعد ہی باقی ''محبتوں'' کا درجہ ہونا چاہئے
دوسری قسم :
(ب) یہ وہ'' عشق ''ہے جو آج گلی گلی کوچہ کوچہ ناچ رہا ہے ، اس کے مریض سسک سسک
کر جی رہے ہیں۔۔ اور یہ سب غیروں کی چکا چوند ثقافت سے بھر پور روشنی کی دین ہے۔۔یہ
تہذیبِ نو کی ناجائز اولاد ہے جو ''مغرب ''کی سازشوں کا نتیجہ ہے ۔ ''ڈش انٹینا ''۔
''کیبل ''۔ ''فلمیں''۔۔اسی کڑی کا سلسلہ ہیں۔ بلکہ عشق کی یہ قسم انہی چیزوں کی عطا
کردہ ہے۔۔
خیر! یہ شعر سنئے :
بچو تقلیدِ مغرب سے اے ''ایشیا'' والو!
کہ'' مغرب ''کی طرف جاتے ہی سورج ڈو ب جاتا ہے
اس طرح ظفر علی خاں مرحوم نے کہا تھا :
''تہذیبِ نو'' کے منہ پر وہ تھپڑ رسید کر
جو اس ''حرام زادی'' کا حلیہ بگاڑ دے
اوہو ۔۔ ہم نے با ت عشق کے ''شین''کی چھیڑی تھی اور کہاں سے کہاں چلے گئے۔۔ اس
لئے واپس لوٹتے ہیں ۔۔ عشق کے ''شین'' کی طرف ۔
سو ۔۔۔''عشقِ مجازی ''۔۔۔ اس کے ''شین ''کا بترتیبِ مراحل بتدریج جائزہ لیتے
ہیں۔۔ان الفاظ کا جائزہ لیتے ہیں عشق کے ''شین'' میں :
شباب ، شوشہ ، شکار ، شہد ، شربت ، شب ، شفایاب ، شیشہ ، شد بد ، شہنشاہیت ، شریک
ششدر ، شریر ، شرارہ ، شر ، شکنجہ ، شش و پنج ، شادی ، شد ید ، شکستہ خاطر ، شکست
عام طور پر'' شباب ''یعنی جوانوں میں'' عشق'' کا ''وائرس'' پیدا ہوتا ہے۔۔ نظر
اٹھتی ہے ۔۔ کسی سے ملتی ہے ۔۔
آنکھوں آنکھوں میں اشارے ہوئے ہیں
تم ہمارے ، ہم تمہارے ہوئے ہیں
پھر لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوتی ہیں ۔۔جوڑی کے بارے میں''شوشے'' چھوڑے جاتے
ہیں۔۔ عشق نہیں بھی ہونا ہوتا تو لوگوں کی وجہ سے ہوجاتا ہے ۔ سو نتیجہ یہ ہوتا ہے
کی جوڑی عشق کے ''وائرس'' کا ''شکار ''ہو جاتی ہے ۔۔ابتدا میں تو عشق ''شہد'' سے
بھی لذیذ محسوس ہوتا ہے ۔۔ ''شربتِ وصل '' پینے کے لئے وعدے کئے جاتے ہیں۔ اور
چونکہ اس کام میں کئی رکاوٹیں ہوتی ہیں تو ''شب بھر'' جاگتے ہوئے تارے گنے جاتے ہیں
۔۔ پھر عشق ایک جنون ہے اس لئے اسکا مریض ''شفایاب'' ہونے کے بجائے مزید جنون میں
گھرتا چلا جاتا ہے ۔۔نوبت ''شیشہ'' یا آئینہ سے بات کرنے تک پہنچ جاتی ہے ۔۔
چونکہ عموما عاشق کچی عمر کے ہوتے ہیں اس لئے وہ زندگی کے ابجد سے نا واقف ہوتے
ہیں ۔ انہیں کچھ تجربہ ہوتا ہے نہ ہی عشق کی'' شدبد''ہوتی ہے اس لئے عاشق کے اند ر
''شہنشاہیت '' عروج پر ہوتی ہے ۔۔ وہ کسی کا کہا نہیں مانتا ۔۔ بلکہ اپنے افکار اور
محبوب میں کسی کو ''شریک '' کرنا بھی پسند نہیں کرتا وہ اپنی ہی دنیا میں رہتا ہے
۔۔ اور کوئی بھی خطرہ مول لینے کو تیار رہتا ہے۔۔ نڈر ہوتا ہے ۔۔
جو رہِ عشق میں قدم رکھیں
وہ نشیب و فراز کیا جانیں
چونکہ اکثر عاشق کو عاشقی میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہےاور گھر والے مخالف
ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ ''ششدر''رہتا ہے۔ جو بھی اسے نصیحت کرتا ہے اسے ''شریر ''
وحاسد سمجھتا ہے ۔۔وہ سمجھتا ہے کہ لوگ جلتے ہیں اس لئے اسے منع کررہے ہیں ۔۔
حالانکہ معاملہ الٹا ہوتا ہے ۔۔ اسی انا کے کھینچ تانی میںعشق کا ''شرارہ'' مزید پخ
جاتا ہے ۔۔پھر عاشق عشق کے ''شر'' میں پھنس جاتا ہے ۔۔ پھر نیندنہ سکون۔۔ بس جنون
ہی جنون ۔۔ پھر عشق ہوتا ہے اور عاشق کی روح اسکے ''شکنجے ''میں ماہیئ بے آب کی طرح
تڑپتی رہتی ہے ۔۔ ''شش و پنج '' کی کیفیت طاری رہتی ہے ۔۔ ''شادی'' کا مطالبہ کرتا
ہے۔۔۔ کردی جائے تو پھر اسے ''شدید'' خوشی ہوتی ہے ۔۔ نہیں توہ ''شکستہ خاطر''
ہوجاتا ہے ۔مخالفت کی جائے تو وہ خود سے ''شکست '' کھاکر اور دوسروں کو دیکر خود
کشی کر بیٹھتا ہے۔۔یہ ہے ناجائز محبت کا انجام ۔۔
خوش قسمت ہوتے ہیں جن کی شادی ہوجاتی ہے ۔۔۔ شادی ہونے کے بعد خوشگوار زندگی کی
کوئی ''گارنٹی'' نہیں۔۔ کیونکہ جس گھر کی بنیاد مکڑی کے جال کی طرح کمزور ہو وہ
زیست کے جھٹکے کیسے برداشت کرے ؟؟
چلئے اب بات کرتے ہیں جائز محبت کی ۔۔چونکہ کسی سے محبت ہونا ایک غیر اختیاری
امر ہے ۔۔ اس لئے جائز محبت کا حل یہ ہے کہ پیار کرنے والوں کا فورا نکاح کردیا
جائے ۔۔ اب مثال کے طور پر کسی کی نظر کس پر پڑ جاتی ہے ۔۔ پڑ کر اٹک جاتی ہے ۔۔
والدین کو چاہئے کہ دین کی شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے دو دلوں کو جوڑ دیا جائے۔۔۔
یہاں میں ایک دعا کرتا ہوں ۔۔ خدا کرے ''جہیز کی رسم '' کی موت آجائے ۔۔ سب کہو :
آمین ۔۔ کیونکہ اس رسم کے سبب خواتین زندگی کے پھندے پر لٹکتی رہتی ہیں۔۔ کس کس چیز
کا بندہ رونا روئے ؟؟آخر میں ۔۔۔
جملہ معترضہ :
چندا میاں ! عشق مت کرنا ۔۔کیونکہ یہ بے وفا جذبہ ہر کسی کا ساتھ نہیں دیتا۔۔
اور اگر میری نصیحت پلے نہیں پڑتی اور مجھے یقین ہے کہ تم اس پر عمل نہیں کرو گے اس
لئے ۔۔۔۔۔
تم عشق کی منزل میں قدم سوچ کے رکھنا
دریائے محبت کے کنارے نہیں ہوتے
بہت شاندار بھائی جان پڑھ کر مزا آگیا۔
 

ارشد رشید

محفلین
راسخ صاحب اچھا ہوتا کہ پہلے آپ علیم الدین حقی کا شاہکار ناول عشق کا عین پڑھ لیتے اور پھر یہ سب لکھنے کا سوچتے -
اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ تو آپ اُس کتاب کا ذکر ایسی بے دردی سے کرتے اور معاف کیجیئے گا نہ ہی ایسی تحریر لکھتے -
 
آخری تدوین:
Top