عشقِ بے مہر سے نکل آیا

ایم اے راجا

محفلین
ایک پرانی اور بھولی بسری غزل جو ہ صفائی کے دوران ہاتھ لگ گئی برائے نقید و اصلاح حاضر ہے۔

عشقِ بے مہر سے نکل آیا
درد کے قہر سے نکل آیا
میں کہ جنت تلاش کرتا ہوا
محورِ دہر سے نکل آیا
بھا گیا دشت کا سکوں مجھکو
اس لیئے شہر سے نکل آیا
اسنے تھاما جو ہاتھ کو میرے
لڑ، کے ہر لہر سے نکل آیا
شکر ہے صد مرے خدا تیرا
زلف کے سحر سے نکل آیا
فرطِ جذبات میں کہی وہ غزل
بندشِ بحر سے نکل آیا
اوڑھ کر سر پہ شام کو راجا
زرد دوپہر سے نکل آیا
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب راجا۔ اب میرے خیال میں تم فارغ الاصلاح ہو گئے ہو۔ پہلی قرات میں تو کوئی سقم نظر نہیں آیا۔ سوائے صوتی قوافی بحر اور سحر کے
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب راجا۔ اب میرے خیال میں تم فارغ الاصلاح ہو گئے ہو۔ پہلی قرات میں تو کوئی سقم نظر نہیں آیا۔ سوائے صوتی قوافی بحر اور سحر کے
نہیں سر اب بھی میں ویسا ہی ہوں جیسا پہلے دن تھا، پلیز اسے ایک بار پھر دیکھیئے گا، قوافی کو بھی کہ کیا دوپہر والے مصرع کا وزن ٹھیک ہے، کیونکہ مجھے دوپہر کے وزن پر شک ہے، اور بحر اور سحر والے پر بھی غور فرمائیے گا، شکریہ استاد محترم۔
 

الف عین

لائبریرین
درست ہیں راجا، پہر کو دونوں طرح شعرا نے استعمال کیا ہے، یعنی ہ متحرک اور ہ ساکن۔ یہاں ساکن ہے
 
Top