عرب فوجی جو بصیرت افروز فنکار بھی ہے

کعنان

محفلین
عرب فوجی جو بصیرت افروز فنکار بھی ہے

wapmrp.jpg


کرنل عبدالناصر مہروں کے ذریعے بعض پیغام دینا چاہتے ہیں​

عبد الناصر غریم سعودی عرب کی فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ہیں لیکن وہ کوئی عام فوجی نہیں ہیں۔ ان کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو بھی ہے۔

وہ خلیجی ممالک کے معروف ترین فنکاروں میں سے ایک ہیں۔ امریکہ میں ہونے والے ستمبر گیارہ حملوں میں شامل ہائی جیکروں میں سے دو کے ہم جماعت بھی رہ چکے ہیں۔

ان کے فن میں عرب ثقافت کے نقش واضح ہیں۔ تاہم امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگون پر ہونے والے حملوں میں ملوث افراد میں ان کی خاص دلچسپی ہے۔

زمانۂ سکول میں کرنل غریم ان میں سے دو حملہ آوروں کے ساتھ ایک ہی جماعت میں زیرِ تعلیم رہے۔

آخر ایک ساتھ پڑھنے والے لوگوں نے زندگی میں دو مختلف راستے کیوں اختیار کیے؟ اس سوال کے جواب میں کرنل غریم نے کہا ’اہم مسئلہ یہ ہے کہ آپ آزادانہ طور پر سوچ ہی نہیں سکتے اور نہ ہی آپ کے پاس معلومات کا کوئی آزاد ذریعہ ہے۔ لہٰذا آپ بیٹھ کر صرف کسی کے حکم کا انتظار کرتے ہیں یا پھر کسی قسم کے نظریے کا اور وہ نظریہ آپ کے ذہن میں ڈال دیتے ہیں‘۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’جب آپ کوئی سوال کرتے ہیں تو آپ کے اہل خانہ چودہ سو سال قبل کے بعض دستاویزی جواب دیتے ہیں کہ آپ اس پر عمل کریں لیکن یکایک انٹرنیٹ آگیا جو کہ معلومات کا ذریعہ ہے۔‘

اپنے فن کے نمونے کو پیش کرنے کے لیے عبدالناصر کے پاس سعودی عرب میں کوئی گیلری تک نہیں تھی۔ ایسے میں وہ اپنے فن کو خود ہی براہ راست لوگوں تک لے جاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں ’آپ خود سڑکوں پر جائیں اور اصل ناظرین آپ کو مل جائیں گے‘۔


انھوں نے ایک پروگرام میں خود کو پیڑ کی شکل میں پیش کیا تھا

اپنی پہلے براہ راست فن کے مظاہرے میں ’فلورا اینڈ فاؤنا‘ یعنی نباتیہ اور حیوانیہ میں عبدالناصر نے اپنے آپ کو ایک درخت کی شکل میں پلاسٹك شیٹ سے لپیٹ لیا۔ اس مظاہرے کے ذریعے وہ یہ دکھانا چاہتے تھے کہ کس طرح باہر سے درآمد درختوں سے کسی مخصوص علاقے کے اصل درختوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

اپنے اور اپنے فن کے بارے میں وہ کہتے ہیں ’میرا تعلق ایک قبیلے سے ہے۔ میں ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا ہوں جہاں ہر کوئی ہر کسی کو جانتا ہے۔ میں فون کرتا تھا اور لوگ فوری طور پر آ جاتے تھے۔ شروع میں لوگوں کو لگتا تھا کہ یہ پاگل پن ہے لیکن پھر رفتہ رفتہ لوگ پوچھنے لگے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ اس طرح مجھے اپنی بات سمجھانے کا موقع ملنے لگا‘۔

عبدالناصر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ سعودی عرب کے معاشرے میں کئی قسم کے بنیاد پرست عناصر ہیں جنہیں ان کی سوچ پسند نہیں۔

ان کے فن کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں دیا جانے والا پیغام خفیہ ہوتا ہے اور اس لیے انہیں اپنی پینٹنگز کو دوسرے ممالک میں لے جانے میں آسانی ہوتی ہے اور اس طرح وہ حکام کے مختلف قسم کے سوالات سے بھی بچ جاتے ہیں۔


ان کے فن میں عرب ثقافت کی جھلک نمایاں ہے

ابھی لندن میں ان کے فن کی نمائش جاری ہے۔ اپنے فن کو عام فہم بنانے کے لیے انہوں نے کچھ الفاظ برطانیہ آنے کے بعد آرٹ ورک پر پینٹ کیے۔

ان کے فن کا ایک اہم موضوع ربڑ کی مہریں ہیں جو کہ زندگی کے ہر پہلو کو کنٹرول کرنے والی دفترشاہی پر نکتہ چینی کی ایک علامت ہے۔

اس بابت عبدالناصر کہتے ہیں ’جب آپ پیدا ہوتے ہیں تو ایک مہر لگ جاتی ہے۔ جب شادی ہوتی ہے تو بھی ایک مہر لگائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ چھٹیوں پر جانا ہو تو بھی پہلے ایک کاغذ پر کوئی مہر لگاتا ہے۔ یہ (مہریں) ہمارے خواب، ہمارے مقاصد کے حصول میں تاخیر کا سبب ہیں، وقت کا زیاں ہیں۔‘

کسی فوجی کے لیے ایک فن کار بھی ہونا اپنے آپ میں حیرت انگیز بات ہے۔ فوج کو ان کا کام سمجھنے میں تھوڑا وقت لگا لیکن کرنل ناصر کا کہنا ہے کہ ان کے سینیئر افسران ان کی حمایت کرتے ہیں۔

وہ اپنے فن کے استعمال سے سماج میں تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہرحال تبدیلی ان کے ذریعے نہیں بلکہ معاشرے کے ذریعہ ہی آئے گی۔

ہفتہ 26 اکتوبر 2013
 
Top