الف نظامی

لائبریرین
phoroperveen001.jpg

حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال علیہ الرحمۃ نے آپ کی خطاطی کو دیکھ کر بے ساختہ یہ شعر ارشاد فرمایا تھا کہ

جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ​

013.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
عبد المجید پرویں رقم
از قلم صاحبزادہ نصرت نوشاہی​
لاہور میں بیسویں صدی کا آغاز ایک ایسے عہد آفریں صاحب فن کی ولادت سے ہوا جس کے خاندان کو مسلسل کئی پشتوں سے فن خطاطی کو عروج بخشنے کا فخر حاصل رہا۔ اس کے شگفتہ قلم نے وہ جوہر دکھائے کہ وقت نے اسے فن خطاطی کا امام اور شہنشاہ بنا دیا۔
یہ نادر روزگار شخصیت جناب عبد المجید پرویں رقم مرحوم و مغفور کی تھی جو 1901 میں بمقام لاہور پیدا ہوئے۔ یہیں بچپن گزرا اور یہیں پل کر جوان ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار مولوی عبد العزیز صاحب مرحوم و مغفور لاہور کے مشہور خطاط تھے۔
مغلیہ عہد حکومت میں راجپوت خاندان کے مولوی امام اللہ صاحب مشہور خوش نویس تھے ان کی اولاد میں سے مولوی سید احمد خوش نویس اپنے آبائی شہر ایمن آباد کو چھوڑ کر لاہور آ بسے اور اپنے بڑے بھائی مولوی جان محمد صاحب خوش نویس کو بھی اپنے پاس بلا لیا اس طرح ان دونوں بزرگ خوش نویسوں کا ہنر آموز خاندان لاہور میں مستقلا آباد ہوگیا۔ ان فنی رہنماوں کی کاوشوں سے خطاطی کو خاصی ترقی حاصل ہوئی اور خطہ لاہور جو ہمیشہ علمی ، ادبی اور ثقافتی اقدار کے باعث ہمیشہ اہل نظر کی توجہ کا مرکز رہا ہے ، بلاشبہ تاریخی رعنائیوں سے معمور ہوا۔
پرویں رقم اسی خوش نویس خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ فن کتابت سے محبت انہیں آباء کی طرف سے ورثہ میں ملی تھی۔ لڑکپن ہی سے آپ نے حروف کی نوک پلک سنوارنے کی کوشس شروع کردی۔ دینی تعلیم بھی حاصل کی ، بعض اساتذہ سے فارسی کی کتابیں بھی سبقا سبقا پڑھیں۔ آپ نے آٹھ سال تک مسلسل پورے انہماک سے دن رات محنت کی اور شمسی رسم الخط میں وہ کمال پیدا کیا جو آپ ہی کا خاصہ ہے۔
اس دوران آپ کی ملاقات شفاء الملک حکیم فقیر محمد چشتی مرحوم سے ہوگئی ، جو حاذق طبیب ہونے کے علاوہ صاحب طرز ادیب ، اعلی پایہ کے مصور اور نستعلیق طرز کتابت میں اجتہادی قوت رکھتے تھے۔ وہ خود اس جستجو میں تھے کہ کوئی جوہر قابل ملے تو اسے ساتھ ملا کر فن خوش نویسی میں نئی طرح ڈالیں۔ چناچہ صوفی عبد المجید صاحب کا شوق کتابت ملاحظہ کیا تو اپنے بیش بہا مشوروں اور قیمتی معلومات سے آپ کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صوفی عبدالمجید کے کتابت کے لیے قدرتی طور پر موزوں نازک ہاتھوں نے اور حکیم صاحب مرحوم کے فکری تجسس نے پرانے رسم الخط میں نیا رنگ بھر دیا۔ انہوں نے قدیم رسم الخط میں جس قدر تبدیلیاں مناسب سمجھیں ، کیں بلکہ اپنے دریافت کردہ نئے خط کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے انتھک محنت کی۔ پختگی اور مشاقی کا دور ختم ہوا تو حضرت عبد المجید نے نئی طرز ایجاد کرنے کا طرہ امتیاز حاصل کیا۔ نتیجتا آپ کے موجد طرز جدید ہونے کا دعوی ہم عصر فن کاروں سے لیکر دور حاضرہ تک کے اساتذہ فن تک سب کو تسلیم کرنا پڑا۔
ابتدا میں آپ نے خوش رقم خطاب اپنایا۔ بعد میں برصغیر کے ادیب شہیر مولانا غلام رسول مہر نے حکیم فقیر محمد چشتی مرحوم کی فرمائش پر صوفی عبد المجید کے لیے پرویں رقم کا خطاب تجویز کیا ، جسے حکیم صاحب نے پسند کیا اور یہی خطاب دیا گیا۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشند خدائے بخشندہ
پرویں رقم جتنا خوبصورت لکھتے تھے ، اتنے خوب صورت آپ خود بھی تھے اور آپ کی سیرت اس سے بڑھ کر خوبصورت تھی۔ قدرت کاملہ نے آپ کو سیرت حسنہ کی دل نشیں اداوں سے نوازا تھا۔ باغ و بہار شخصیت تھے۔ طبیعت میں کوئی تکلف نہ تھا ، اپنا ہو یا بیگانہ سبھی سے بڑے خلوص سے ملتے تھے۔ کوئی آپ کی تعریف کرتا تو اسے معیوب گردانتے اور کسر نفسی سے کام لیتے ۔ پنجابی زبان کا یہ شعر اکثر ورد لب رہتا
ڈردے رہیے رب ڈاہڈے کولوں
متے پھٹ جائے دودھ کڑھ کے
ایک دفعہ اپنے بے تکلف دوست شیخ مبارک علی تاجر کتب سے فرمایا: مجھ میں تو کوئی خوبی نہیں صرف غیبی عنایت ہے
نہایت منکسر المزاج تھے۔ لباس بے شک امیرانہ رہا مگر طبعا فقیر تھے۔ کسی کو ذرا دکھ میں دیکھ لیتے تو تڑپ جاتے۔ خوش باش انسان تھے۔ عادات و اطوار میں اپنے اسلاف کی پاکبازی اور شرافت کا شاندار مظہر تھے۔
لہو و لعب اور کھیل تماشہ سے ہمیشہ نفرت رہی۔ عبادات و اذکار میں مشغول رہتے۔ اپنے مرشد کے بتائے ہوئے وظائف پر سختی سے عمل کرتے تھے۔ چشتی نطامی سلسلہ تصوف کے شیخ کامل حافظ غلام محی الدین قصوری رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت تھے۔ حضرت سید علی الہجویری المعروف داتا گنج بخش کے مزار کے کتبات باوضو ہوکر کتابت کرتے رہے۔ چونکہ آپ فطرتا کم گو ، صوفی منش علم دوست ، درویش مزاج اور بالغ النظر انسان تھے ، اس لیے شفائ المک مرحوم کو ایسی ممتاز ہستی اپنی رفاقت کے لیے بہت پسند آئی۔
جناب حمید نظامی مدیر "نوائے وقت" لاہور نے آپ کے انتقال پر جو اداریہ مورخہ 9 اپریل 1946 کی اشاعت میں سپرد قلم کیا اس کے مندرجات میں یہ اعتراف بھی شامل ہے کہ:
"منشی عبد المجید پرویں رقم بھی اس ہفتہ انتقال کر گئے۔ مرحوم کو فن کتابت میں موجد کا درجہ حاصل ہے"
یکم جون 1950 ریڈیو پاکستان پشاور سے آپ کی موقر شخصیت پر جو نشریہ پیش کیا گیا ، رسالہ آہنگ کے حوالہ سے اس میں یہ الفاظ موجود ہیں
" خطاط مشرق جناب خلیفہ عبد المجید پرویں رقم نے جنہیں ہم طرز جدید کا سب سے بڑا موجد مانتے ہین ، پچھلے تمام شاہی خوش نویسوں سے بڑھ کر اس فن کو کمال تک پہنچایا اور رات دن کی محنت و کاوش سے پچھلی طرز تحریر ہی بدل ڈالی۔ خوش نویسی کو طرز جدید کے سانچے میں ڈھال کر نور علی نور بنا دیا۔ منشی صاحب موصوف اپنی طرز کے دنیا میں ایک ہی باکمال شخص تھے جنہوں نے تمام عمر اس فن کی تکمیل میں صرف کردی"
نوائے وقت کے ایک اداریہ کا اقتباس ملاحظہ ہو:
" آپ کی وفات پر ملک کے نامور حضرات کے علاوہ سینکڑوں علم دوست حضرت مولانا غلام رسول مہر ، مولانا محمد بخش مسلم اور مولانا عبد المجید سالک بھی جنازہ میں شامل ہوئے۔ انہوں نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے فرمایا آج فن کتابت کو ہیشہ ہمشہ کے لیے میانی صاحب لاہور میں دفن کردیا گیا ہے اور شاید قیامت تک ایسا صاحب فن پیدا نہ ہوسکے "
ممتاز خطاط سید انور حسین نفیس رقم مرحوم روزنامہ کوہستان لاہور کی اشاعت 14 جون 1964 میں ان خیالات کا اظہار فرماتے ہیں:
"اسی زمانہ میں خط نستعلیق کے مسلم الثبوت استاد عبد المجید پرویں رقم مرحوم کا آفتاب شہرت نصف النہار پر تھا۔ جناب پرویں رقم کو اس فن میں اجتہاد کا مقام حاصل تھا۔ انہوں نے خط نستعلیق کو ایک جدید اور دل کش طرز نگارش سے آراستہ کیا۔ خوش نویسان لاہور کی بہت بڑی تعداد نے ان کے اسلوب تحریر کو قبول عام کی سند دی۔ چناچہ جناب زریں رقم نے خط پروینی ہی اختیار کیا۔"
خطاط بے بدل حافظ محمد یوسف سدیدی مرحوم اپنے مقالہ "عہد اسلامی میں خطاطی" روزنامہ امروز مورخہ 15 اگست 1950 میں تحریر کرتے ہیں:
عبد المجید پرویں رقم لاہوری عہد برطانیہ کے بہت بڑے ماہر گذرے ہیں۔ انہوں نے نستعلیق میں بہت سے تبدیلیاں کیں اور نئی طرز تحریر کے جوڑ اور پیوند لگائے۔ یہاں کے خطاط عبد المجید پرویں رقم کے مقلد ہوئے اور بکمال خوبی اس طرز تحریر کو اپنایا۔ پرویں رقم نے اپنی زندگی میں کلام اقبال کی خطاطی کی۔
پرویں رقم کے شاگردوں میں خوشی محمد خوش رقم مرحوم اور جناب حاجی محمد اعظم صاحب منور رقم جو ان کے جانشین کی حیثیت سے پکارے جاتے ہیں ، خطاطی کی مختلف نمائشوں میں خصوصی انعامات ، میڈل اور تعریفی اسناد حاصل کرچکے ہیں
شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال علیہ الرحمۃ کا آپ سے خاص محبت تھی۔ وہ آپ کے فن و ہنر کے دلی قدر دان تھے۔ فلسفہ کہ گہرائیوں میں اتر جانے والا ذہن ، علم و حکمت کے اسرار مخفی سے آگاہ ہونے والا عظیم مفکر ، جس کی دور رس بصیرت نے حیات و موت کے راز معلوم کیے ، اسے یقینا پرویں رقم کی عظمت فن کا کوئی گوشہ دکھائی دیا ہوگا۔ ان کی رائے حقائق سے خالی نہیں ہوسکتی۔
بال جبریل کی کتابت شروع ہوئی تو فن اور قلم پسند کروانے کے لیے پرویں رقم نے ایک صفحہ لکھ کر اپنے عزیز شاگرد خوشی محمد خوش رقم کو علامہ کی خدمت میں بھیجا۔ حکیم الامت نے کتابت شدہ ورق دیکھتے ہوئے فرمایا
جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
خطاط مشرق کے مداح جان سکتے ہیں کہ حکیم الامت کی دیگر پیش گوئیوں کی طرح پرویں رقم کی آفاق گیر شہرت کے باب میں علامہ کا یہ شعر کتنا صادق آتا ہے۔ جوں جوں وقت گذرتا جائے گا ، اس فن لطیف کے پرستار ہر دور میں پرویں رقم کی معراج عظمت کے معترف رہیں گے۔ دنیا میں اقبال سا ترجمان حقیقت نہ ہوگا اور نہ پرویں رقم سا خوش نویس۔ دونوں کا عہد حیات ایک تھا۔ دونوں اپنی نظیر آپ تھے۔ دونوں کے کارناموں سے افق مشرق روشن ہوا کہ اہل مغرب کی آنکھیں چندھیا گئیں۔
آپ کا طریق کار مختلف تھا۔ طبیعت میں ٹھہراو پاتے تو کام کرتے ورنہ توجہ نہ دیتے۔ تھکاوٹ محسوس کرتے تو کام چھوڑ دیتے ، کیونکہ فن کار جو کچھ اپنے شوق اور آمادگی طبع سے ساتھ کرتا ہے وہ یادگار ہوتا ہے۔ پیشہ وری فن سے نزاکت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ پرویں رقم نہایت باوقار طریقہ سے مسند پر بیٹھتے۔ کمرے میں فرشی دری بچھی ہوتی تھی اس پر اعلی قسم کا قالین ہوتا۔ ٹیک لگانے کے لیے دو گاو تکیے رکھے ہوتے۔ ایک چھوٹے سائز کا قالین آپ کی عین نشست کی جگہ بچھا ہوتا۔ گدی میں پرندوں کے پر بھرے ہوتے تھے اپنے بیٹھنے کو استمعال کرتے تھے۔
صبح کے وقت ہی کام پر بیٹھتے۔ تازہ قلم تراشتے۔ مشق کی عادت شروع سے ہی اتنی پختہ تھی کہ کام کرنے سے پہلے اپنے آخری وقت تک تھوڑی سے مشق کرتے۔ نئی چیز لکھنے کے لیے دائرہ منتخب کرتے ، جو دائرہ مناسب ہوتا ، تحریر کے تمام دائرے عین اسی کے مطابق بناتے۔ جتنا آسانی سے لکھا جاسکتا ، لکھتے۔ عصر کی نماز کے بعد عموما کام نہ کرتے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
حاجی محمد اعظم نے بہ روایت مولانا ظفر اقبال صاحب راقم الحروف کو یہ دل چسپ واقعہ سنایا کہ 1354 ہجری میں انجمن حمایت الاسلام کی طرف سے آفسٹ پیپر پر سب سے پہلا عکسی نسخہ قرآن مجید شائع ہوا۔ خط نستعلیق میں پرویں رقم کو منتخب کیا گیا تھا۔ آپ نے نہایت ذوق و شوق سے فرائض کتابت ادا کیے۔ اس کلام پاک کے آغاز میں سابق سیکرٹری انجمن حمایت الاسلام مولانا ظفر اقبال نے تعارفی سطور قلم بند کرتے ہوئے لکھا:
خط نستعلیق کے لیے پنجاب کے بہترین خوش نویس منشی عبد المجید صاحب ملقب بہ پرویں رقم کا منتخب کیا گیا جنہوں نے نہایت ذوق و شوق سے فراءض کتابت ادا کیے۔
حاجی محمد اعظم خوش نویس نے بیان کیا کہ مولانا ظفر اقبال صاحب نے اپنی رہائشی عمارت تعمیر کروائی تو اس پر کتبہ "فصیح منزل" لگوانے کے لیے جگہ چھوڑ دی۔ پرویں رقم کے پاس گئے اور کتبہ لکھنے کو کہا۔ چند جلی حروف تھے۔ پرویں رقم نے اس کام کا معاوضہ دو صد روپے بتایا۔ مولانا بولے ، پچیس روپے حاضر کروں گا۔ بہرحال معاملہ طے نہ ہوسکا۔
کچھ عرصہ بعد اچانک پھر دونوں صاحبان کی ملاقات ہوئی۔ پرویں رقم نے مولانا سے دریافت کیا ، وہ کتبے کا کیا بنا۔ انہوں نے کہا آپ نے لکھا نہیں ، ہم نے کسی سے لکھوایا نہیں۔ جگہ خالی چھوڑ دی ہے۔ پرویں رقم مسکرائے اور فرمایا " مولانا آپ نے فن کی قدر کی ہے ، کتبہ لے آئیں میں لکھ دوں گا" اور آپ نے غیر مشروط بات کی اور انہِیں کتبہ لکھ دیا۔ آپ کی مروت احساس کی آئینہ دار تھی۔
آپ کے دور عروج سے پہلے پنجاب کی خوش نویس برادری غیر منظم تھی۔ کاتب حضرات اپنے حقوق کے تحفظ و حصول کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ آپ کے دل میں اس طبقہ کی خوشحالی اور بحالی کے حقوق کا احساس پیدا ہوا۔ چناچہ آپ کی سرپرستی میں سب سے پہلے خوش نویس یونین کا قیام عمل میں لایا گیا۔
آپ کو اچھے اچھے صوفیانہ اشعار حفظ تھے ، جنہیں کام کرتے وقت پڑھتے رہتے تھے۔ کبھی صرف گنگناتے ، کبھی بلند آواز سے پڑھتے تاکہ پاس بیٹھے ہوئے لوگ سن لیتے۔ ان اشعار سے آپ کا ذوق لطیف اجاگر ہوتا ہے۔ کیونکہ جو اشعار آپ کو بالعموم یاد تھے ، انہیں آپ نے قطعات کی صورت میں پیش کیا۔ مثلا:
مرا ز پیر طریقت نصیحتے یاد است
کہ غیر یاد خدا است ہر چہ برباد است

نوازش دل ما کن کہ دل نواز توئی
بساز کار غریباں کہ کارساز توئی
حافظ شیرازی کا یہ شعر پرویں رقم نے اپنی طبیعت کی جولانی کے ساتھ ایک قطعہ کی صورت میں جلی قلم کے ساتھ لکھ دیا اور اپنے دوست جناب نوازش علی خاں صاحب کو یہ کہتےہوئے تحفتا دیا کہ:
"میں نے یہ تیرے لیے لکھا ہے ، دوسروں کے لیے نہیں"
یہ واقعہ غالبا 1935 کے بعد کا ہے ، خاں صاحب نے نہایت محبت و خلوص سے شیشہ میں سجا کر اپنے گھر کی زینت بنا لیا۔
مولوی محمد افضل خوش نویس تلمیذ پرویں رقم بیان کرتے ہیں:
میں روزنامہ "انقلاب" لاہور میں ملازم تھا۔ مجھے مولانا غلام رسول مہر جو ان دنوں انقلاب کے مدیر اعلی تھے ، نے آپ کے پاس ایک نظم لکھوانے کے لیے بھیجا۔ پرویں رقم کتابت کرنے لگے تو
احتیاط کے پیش نظر مجھے مخاطب ہوکر کہا
" دیکھنا افضل ذرا خیال رکھنا میرا قلم کسی لفظ پر دوبارہ تو نہیں لگتا "
قلم کا ایک حرف پر دوبارہ لگنا آپ کے نزدیک فنی عیب تھا ، جس سے ہمیشہ پرہیز کیا۔ فرماتے تھے کہ قلم دوبارہ لگنے سے الفاظ کی نزاکت ختم ہوجاتی ہے۔ آپ کی طبیعت میں اتنی رنگینی تھی کہ پاس بیٹھنے والوں کو روح کی تسکین مل جاتی تھی۔ پرویں رقم کے عہد کا لاہور علوم و فنون کا خاص مرکز بنا ہوا تھا۔ بڑی ادبی شخصیات ایک جگہ جمع ہوتی تھیں۔ بڑے بڑے دانش ور ، ادیب ، مورخ ، فلسفی ، قانون دان ، اطباء ، پروفیسر ، خطاط اور فنون لطیفہ کے ماہر ارتقاء علم و فن کے لیے ہمت آزما رہے۔ پرویں رقم کا دور بڑا سنہری دور تھا۔ آپ دانش ور طبقے کے مشترکہ فن کار تھے۔ آپ کی ذات سے سب نے پیار کیا۔ خطاط المشرق کے ہاتھوں میں موہبت ازلی کا خاص کرشمہ پوشیدہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ حروف تاریخ کے سانچے میں ڈھالتے رہے۔ جو کارنامے انجام دیے ، یادگار زمانہ بنے۔ وہ لکھتے تھے ، عبارت بولتی تھی۔ وہ قلم لگاتے تھے تو اوراق سے اعجاز قدرت کا ظہور ہوتا تھا۔ یہ مبالغہ آرائی نہیں حقیقت ہے۔ اس درویش صفت کی شخصیت فن سے ابھری اور فن کو آپ نے بقائے دوام بخشا۔ بے شمار خوبیوں کا یہ مجسمہ زندگی کے بیش قیمت لمحات گزارنے کے بعد 4 اپریل 1946 کو یہ کاروان ہستی راستہ ہی میں چھوڑ کر اپنی منزل آخرت کو سدھار گیا۔ نوائے وقت کے ادارہ کے مطابق تمام اردو انگریزی اخبارات زمیندار ، پربھات ، پرتاپ ، ٹریبیون اور سول ملٹری گزٹ نے جلی سرخیوں میں اس صاحب فن اور فن کتابت کی موت پر اظہار افسوس کیا۔
اس دور تاب ناک میں خطاط تجھ سا اور
آیا نظر نہ کوئی خدا کی قسم
کتبہ دارالفرقان بیگم پورہ لاہور ، فصیح منزل ، مرکز تجلیات لوح مزار داتا گنج بخش اور مزار شریف کے چاروں طرف کے کتبات ، مرکز تجلیات مزار پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی کے کتبات ، سردار مسجد ساہی وال ، لوح مرقد حکیم فقیر محمد چشتی ، لوح مرقد سردار بیگم زوجہ شہاب الدین ، شفا منزل آپ کے یادگار کتبے ہیں۔
اسی طرح ان کے کتابت شدہ بعض کتابوں ، رسالوں اور اخبارات کے نام بھی ، قابل ذکر ہیں۔ جیسے روزنامہ نوائے وقت دور اول ، روزنامہ مساوات امرتسر ، روزنامہ انقلاب ،جامع اللغات ، خزائن الادویہ ، مشیر الاطباء ، استاذ الاطباء ، رسالہ بیسویں صدی ، حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی بیشتر کتب۔
 

arifkarim

معطل
کمال ہے عارف بھائی! آپ اس شاندار خطاطی کو ان پیج 3 کے کشیدہ سے ملا رہے ہیں :( سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔

بھائی میں‌نے جس خطاطی کے نمونے کے بارے میں یہ کہا تھا، وہ لنک اب کام نہیں کر رہا۔ وہاں انپیج 3 کی قسم کا کشیدہ استعمال ہوا تھا۔
 
Top