عبادت کی روحِ حقیقی ’’محبت ِ خداوندی‘‘ اللہ کے رسولﷺ کی محبت

سیما علی

لائبریرین
ان کی زندگی میں اللہ کی محبت ہر چیز پر غالب آ گئی ہے. تمام علائقِ دُنیوی کی محبت نیچے ہے اور اللہ کی محبت اس پر غالب ہے. تو اللہ کی محبت ایمان کے لوازم میں سے ہے. بلکہ صرف اللہ ہی کی نہیں‘ اللہ کے رسولﷺ کی محبت بھی جب تک تمام علائق دُنیوی پر غالب نہ ہو جائے تب تک ایمان معتبر نہیں ہے.
اور انکی محبت غالب آ گئی ہے. تمام علائقِ دُنیوی کی محبت نیچے ہے اور اللہ کی محبت اس پر غالب ہے. تو اللہ کی محبت ایمان کے لوازم میں سے ہے. بلکہ صرف اللہ ہی کی نہیں‘ اللہ کے رسولﷺ کی محبت بھی جب تک تمام علائق دُنیوی پر غالب نہ ہو جائے تب تک ایمان معتبر نہیں ہے.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی نبی اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:

لاَ یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (۱)
’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اپنے والدین سے‘ اپنی اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں.‘‘
 

ام اویس

محفلین
لاَ یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (۱)
’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اپنے والدین سے‘ اپنی اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں.‘

کاش ہم محبت کا صحیح مفہوم سمجھ کر آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں مبتلا ہوجائیں؛ کہ جب محبت ہو تو پھر محبوب کے ہر حکم کی پیروی کی جاتی ہے، اس کا محبوب اپنا محبوب ہو جاتا ہے اور اس کو ناپسندیدہ لگنے والی کسی شئے کی طرف نگاہ اٹھتی ہی نہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
لاَ یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (۱)
’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اپنے والدین سے‘ اپنی اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں.‘

کاش ہم محبت کا صحیح مفہوم سمجھ کر آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں مبتلا ہوجائیں؛ کہ جب محبت ہو تو پھر محبوب کے ہر حکم کی پیروی کی جاتی ہے، اس کا محبوب اپنا محبوب ہو جاتا ہے اور اس کو ناپسندیدہ لگنے والی کسی شئے کی طرف نگاہ اٹھتی ہی نہیں۔
آمین الہی آمین
 

سیما علی

لائبریرین
”وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ“۔
(القلم:۲)

ترجمہ: اور بے شک آپ بڑی بلند اخلاقی پر قائم ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سب سے مخاطب ہوکر فرمایا: تمہارَا کیا خیال ہے آج میں تم سے کیا سلوک کرنے وَالا ہوں؟ سب نے بیک زبان جواب دِیا: أخٌ کریمٌ وابنُ أخٍ کریمٍ۔ آپ ایک شریف بھائی ہیں اور ایک شریف بھائی کے فرزند ہیں یعنی ہم آپ سے اُمید رکھتے ہیں جو ایک شریف بھائی سے رَکھی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں آج تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اَپنے بھائیوں سے کہی تھی:
”لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ط یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ“․
(یوسف:۹۲)

ترجمہ:آج تم پر کوئی سرزنش اور ملامت نہیں، اللہ تم کو معاف کرے اور وہ سب رحم کرنے وَالوں سے زیادَہ رحم کرنے وَالا ہے۔

یعنی سزا تو سزا آج میں تمہارے جرائم بھی یاد نہیں دِلاوٴں گا کہ اُن کا تذکرہ کر کے تم پر ملامت کی جائے۔ پھر فرمایا: اذْہَبُوا فَأَنْتُمُ الطُلَقَاءُ۔”جاوٴ تم سب آزاد ہو“!

آج رحم و کرم کا دن ہے، جو شخص ابو سفیان کے گھر داخل ہوجائے اسے امن ہے، جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا اسے امن ہے ، جو مسجدِ حرام میں داخل ہوگیا اسے امن ہے۔

اِسی حسنِ اخلاق کا نتیجہ تھا کہ اُن میں سے اَکثر مسلمان ہوئے اور دِل و جان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے لگے اور دُشمن کی بجائے دوست بن گئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اُمت کو کریمانہ اخلاق کی تعلیم دِی ہے، وہاں اپنے عمل سے اُن کے سامنے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بھی پیش فرمایا ہے۔ آپ کی یہ اخلاقی تعلیمات آپ کی زِندگی میں روزِ روشن کی طرح واضح ہیں، جن کی نظیر انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
لاَ یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (۱)
’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اپنے والدین سے‘ اپنی اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں.‘
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَاللّٰہَ کَثِیْرًا“․
(الاحزاب:۲۱)

”بلاشہ اے مسلمانو! تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں عمدہ نمونہ ہے اُس شخص کے لیے جو اللہ کی ملاقات کا اور قیامت کے دن کا خوف رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔“
 

سیما علی

لائبریرین
”وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ“۔
(القلم:۲)

ترجمہ: اور بے شک آپ بڑی بلند اخلاقی پر قائم ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سب سے مخاطب ہوکر فرمایا: تمہارَا کیا خیال ہے آج میں تم سے کیا سلوک کرنے وَالا ہوں؟ سب نے بیک زبان جواب دِیا: أخٌ کریمٌ وابنُ أخٍ کریمٍ۔ آپ ایک شریف بھائی ہیں اور ایک شریف بھائی کے فرزند ہیں یعنی ہم آپ سے اُمید رکھتے ہیں جو ایک شریف بھائی سے رَکھی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں آج تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اَپنے بھائیوں سے کہی تھی


”لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ط یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ“․
(یوسف:۹۲)

ترجمہ:آج تم پر کوئی سرزنش اور ملامت نہیں، اللہ تم کو معاف کرے اور وہ سب رحم کرنے وَالوں سے زیادَہ رحم کرنے وَالا ہے۔

یعنی سزا تو سزا آج میں تمہارے جرائم بھی یاد نہیں دِلاوٴں گا کہ اُن کا تذکرہ کر کے تم پر ملامت کی جائے۔ پھر فرمایا: اذْہَبُوا فَأَنْتُمُ الطُلَقَاءُ۔”جاوٴ تم سب آزاد ہو“!
 

سیما علی

لائبریرین
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کے بیان سے تو قلم و قرطاس قاصر ہیں؛ تاہم حضرت حسان بن ثابت رضی اللّہ عنہ کے دو اشعار تشنگیِ شوق کی تسکین کے لیے حاضر ہیں۔

وَأحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَیْنِيْ
وَأجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاء
خُلِقْتَ مُبَرَّئًا مِنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَأنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاء

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین میری آنکھوں نے نہیں دیکھا
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جمیل کسی ماں نے کوئی بچہ نہیں جنا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر عیب سے فطرتاً پاک و صاف پیدا ہوئے
گویا جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے ویسے ہی پیدا ہوئے
 
Top