ذوق عالم ہے زندگی میں زمانہ شباب کا


عالم ہے زندگی میں زمانہ شباب کا
گلشن میں برگ برگ ہے پھول آفتاب کا
جلوہ ہو کیونکہ خاک پہ تابِ غناب کا
جلتا نہیں ہےبرقِ سرو آنِ سحاب کا
اے گلرخو نہ چھیڑنا دامن سحاب کا
دیکھو چھلک رہا ہے کٹورا گلاب کا
اُس گُل بغیر طوطئی بسمل سے کم نہیں
سبزہِ مزار عاشق پُر اضطراب کا
صد پارہ دل ہے گنجفہِ عشق ہو گیا
اور ہر ورق پہ نقش ہے حکم آفتاب کا
ہے دل جلوں کے واسطے نامہ بر تو خوف
اڑنا مگر محال ہے مرغِ کباب کا
ٹپکے اگر عرقِ گل رخسار سے ترے
دریا میں ہر حباب ہو شیشہ و تاب کا​
 
Top