عالم باللہ کے سوالات عارف باللہ (حضرت مولانا اللہ یار خان ؒ) کے جوابات

ابن محمد جی

محفلین
کورس تو لفظ سکھاتے ہیں آدمی آدمی بناتے ہیں
جستجو ہم کو آدمی کی ہے وہ کتابیں عبث منگاتے ہیں
یوں تصوف وسلوک پر بے شمار لکھا گیا ہے اور تا قیامت لکھا جاتا رہے گا،ایک عالم ربانی جو راہ تصوف وسلوک کا متلاشی تھا حضرت مولانا اللہ یار خان رحمہ اللہ کی تصنیف "دلائل السلوک" کا مطالعہ فرماتا ہے۔امید کی کرن نظر آتی ہے ،مگر عالمانہ ذہن میں سوالات ابھرتے ہیں،حضرت مولانا اللہ یار خان ٌ کی طرف خط لکھ کر اظہار خیال کرتے ہیں،یہ تحریر حقیقت میں وہ خط اور اسکا جواب ہے۔
میری سمجھ کے مطابق تصوف و سلوک پر حضرت مولانا اللہ یار خان ٌ کے یہ جوابات حرف آخر ہیں،اب بھی اگر کوئی معترض ہے ،تو اسکے لئے دعا کی جا سکتی ہے
سوال 1:۔ کیا اذکار و اشغال مشائخ و ہیئت جلسہ ذکر‘ اور دو وقت ذکر کرنے اور اجتماعی طور پر ذکر کرنے کا وجود قرنِ ثلثہ میں ملتا ہے جو قرون مشہور باالخیر ہیں‘ اگر ان کا وجود قرونِ ثلثہ میں موجود نہ تھا تو اس کو بدعت کہنا بعید نہ ہو گا ؟
سوال 2 :۔ کیا نجات اخروی کے لئے اور دیگر تمام کمالات کے حصول کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کافی نہیں کہ مزید اذکار و اشغال مشائخ بایں قیودات و تخصیصات اختیار کئے جائیں جب کہ انسان عامل باالکتاب و السنت ہے ؟
سوال3:۔کیاعلم سلوک تصوف جزودین ہے؟اگر ہے تو قرون ثلثہ اس سے کیوں خالی رہے؟ اگر نہیں تو اسکے حصول کا کیا فائدہ ہے؟
سوال4 :۔ اگر علمِ سلوک جزوِ دین ہے تواس کے حصول کے لئے ولی کامل اور مرشد کامل کو موقوف علیہ ٹھہرانا کہاں ثابت ہے اس کا حصول تو کتب تصوف اور کتاب اللہ اور سنت سے ہو سکتا ہے؟
سوال5 :۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ علمِ سلوک ایک باطنی علم ہے مگر حصولِ علم کے لئے زندہ اشخاص کافی ہیں ( علام علوم باطنیہ) جن سے حاصل ہو سکتا ہے مگر جو صوفیائے کرام اور اولیائے عظام میں مشہور ہے کہ فیض روح سے بھی ہو سکتا ہے تو اہلِ قبور سے کس طرح ہو سکتا ہے جب بعد الدارین ہو چکا ہے‘ نیز فقہا میں تو بعض سرے سے سماع موتی کا انکار کرتے ہیں جب حال یہ ہے تو فیض حاصل کرنا کس طرح ہو سکتا ہے ؟ اور امام صاحب کا مذہب بھی بعض عدم سماع بتاتے ہیں۔
سوال6 :۔ خدا تعالیٰ نے سوال کئے بغیر پیدائش انسانی ‘ جنات و شیاطین قرآن میں بیان فرما دیں مگر روح کی پیدائش اور حقیقت باوجود سوال کے نہ بتائی جس سے خوب واضح ہوتا ہے کہ روح کوئی فرشتہ اور جن سے بھی زیادہ لطیف چیز ہے تو ایسی لطیف ہستی سے فیض حاصل کرنا بہت ہی مشکل ہے ‘ فیض کے لئے اول روح سے ہم مجلس ہو ‘ پھر اس کو دیکھے وہ نظر آئے پھر اس سے ہم کلام ہو اس کا کلام سنا جائے‘ پھر اس سے اخذ فیض کیا جائے‘ چہ جائیکہ اس سے خرقہ خلافت لیا جائے جس کی کوئی نظیر آپ فرمائیں اگر ہے تو۔ جب عدم سماع بھی سامنے ہے۔
سوال 7:۔ کیا روح پر موت طارے نہیں ہوتی؟ قرآن میں کل نفس ذائقتہ الموت‘ موجود ہے ‘ اس کلیہ سے آپ روح کو کیسے مستشنیٰ فرماتے ہیں؟ کیا روح کے لئے بھی روح ہے جبکہ حیات کا موقوف علیہ ہی روح ہے۔
سوال 8:۔ فنا فی الرسول ‘ فنا فی اللہ اور بقا باللہ اور دیگر مراقبات کی بھی کوئی حقیقت ہے؟ صوفیائے کرام کے نزدیک ان کے حصول و تحصیل کی کیا صورت ہے؟ کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے ؟ کیا وہ طریقہ آپ ہم کو لکھ کر ارسال کر سکتے ہیں؟ کہ ہم بھی ان کو حاصل کر کے خدا کے خاص بندوں میں داخل ہو جائیں۔ آپ سے دور افتادہ ہیں‘ مہربانی کر کے تفصیل سے لکھیں ‘ نیز کشفِ ملائکہ و جن و قبور جن جن وظائف سے حاصل ہو جاتے ہیں وہ بھی مفصل لکھنا مہربانی ہو گی‘ میں آپ کے حلقہ کا آدمی ہوں۔
 

ابن محمد جی

محفلین
جوابات
سوال 1:۔ کیا اذکار و اشغال مشائخ و ہیئت جلسہ ذکر‘ اور دو وقت ذکر کرنے اور اجتماعی طور پر ذکر کرنے کا وجود قرنِ ثلثہ میں ملتا ہے جو قرون مشہور باالخیر ہیں‘ اگر ان کا وجود قرونِ ثلثہ میں موجود نہ تھا تو اس کو بدعت کہنا بعید نہ ہو گا ؟
جواب1:۔ سب سے پہلے بدعت کا مفہوم سمجھ لینا چاہیے؛ جو چیز بوجوہ شرعی قرون ثلثہ میں موجود تھی وہ سنت ہے اور جو حکم بوجوہ شرعی قرون ثلثہ میں موجود نہ تھا وہ بدعت ہے۔
اب وجودِ شرعی کی تفصیل سنئے۔ اصطلاح اصولِ فقہ میں وجودِ شرعی اسے کہتے ہیں جو بغیر بیان رسولِ کریم ﷺ معلوم نہ ہو سکے اور حسِ عقل کا اس میں دخل نہ ہو‘ اس شئے کا وجود حضورِ اکرم ﷺ کے فرمان اور بیان پر ہی موقوف ہو گا۔ پھر بیان میں خواہ صراحت ہو‘ اشارۃ یا دلالتہ ہو یعنی بیان کی کوئی فروع پائی گئی تو اس حکم کا جواز ثابت ہو گا اور اس حکم کا وجود شریعت میں آگیا‘ خواہ اس وقت اس حکم کی جنس بھی خارج میں موجود نہ ہو ‘ چہ جائیکہ اس کا جزیہ ضروری ہو۔ پس جس حکم کا جواز کلیتہً ثابت ہو گیا وہ حکم لجمیع جزئیات ثابت ہو گا خواہ اس کا کوئی جزیہ بوجوہ خارجی قرون ثلثہ میں موجود ہو یا نہ ہو‘ اگر اس کلیہ کا کوئی جزیہ قرونِ ثلثہ کے بعد خارج میں وجود میں آیا وہ سنت میں داخل ہو گا بدعت نہ ہو گا۔
یوں تو اقسامِ حدیث میں قولِ رسول ؐ فعلِ رسولؐ تقریرِ رسولؐ ہوا جس نفسِ رسولؐ عزمِ رسولؐ ہم رسولؐ اور خواطرِ رسولؐ سب ہیں‘ مگر اذکار تو وہ سنت ہے جس کا ثبوت صراحتہً رسولِ کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے زمانے میں اور خیر القرون میں پایا جاتا ہے۔ اذکارو اشغال جن کی اصل کتاب و سنت میں موجود ہو اور ان کی جزئیات مشائخ نے اس اصل سے اخذ کی ہوں وہ داخل سنت ہوں گی۔ کیونکہ وسائل و ذرائع حکم مقاصد میں داخل ہیں۔
دوسری چیز یہ سمجھ لی جائے کہ تعلق بااللہ‘ نسبت با اللہ اور توجہ الی اللہ سب مامور من اللہ مامور بہ ہیں اگرچہ کلی مشکک ہے جس کا ادنیٰ درجہ مندوب ہے اور اعلیٰ درجہ افضل ہے اور سینکڑوں آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی ﷺ سے ان کا مامور من اللہ ہونا ثابت ہے‘ بلکہ تمام شریعت کا اجمال خلاصہ یہ ہے کہ مال اور اولاد سے تعلق حفاظت کا ہو اور اللہ تعالیٰ سے تعلق عبادت اور اطاعت کا ہو۔ جو شخص قرآن مجید اور حدیث شریف میں غور کرے سینکڑوں آیات و احادیث سے ان کا مامور من اللہ ہونا پائے گا اور غیر سے قلبی انقطاع کا ثبوت ملے گا۔
تیسری بات یہ سمجھ لیں کہ مامور بہ اور مامور من اللہ مقصود لذاتہ ہے اور جو چیز مامور بہ ہو اس کی تحصیل کے لئے جو ذرائع اور وسائل اختیار کئے جائیں گے یا جو طریقہ مشخص کیا جائے گا یا مقید کیا جائے گا وہ بھی مامور بہ ہو گا جیسے وضو کو دیکھئے مقصود لذاتہ تو نماز ہے اور نماز موقوف ہے وضو پر ‘ لہٰذا وضو کے لئے پانی مہیا کرنا واجب ہو گا ۔ کیونکہ وہی تو وسیلہ اور ذریعہ طہارت ہے ۔ اسی طرح نماز کے لئے ستر عورت فرض ہے لہٰذا لباس کا مہیا کرنا بھی فرض ہوا‘ لہٰذا ذکرِ الٰہی کے سلسلے میں مشائخ نے جو وسائل اور ذرائع اختیار کئے ‘ یا جن ذرائع کو اصل مقصود کے لئے مشخص کیا یا مقید کیا یا موکد و غیر موکد کیا ‘ جن پر مقصود ذاتی موقوف تھا ‘ وہ بھی مقاصد میں داخل ہوئے ‘ ان کو بدعت نہیں کہا جائے گا یہ احداث فی الدین نہیں ہو گا ‘ ہاں احداث الدین ہو گا جس طرح طبیب ہر زمانہ او ر ہر موسم ادویہ بدلتا اور تجویز کرتا ہے ‘ طبیب کا اصل مقصد تو صحت بدنِ انسانی ہے ‘ اسی طرح اذکار کا اصل مقصد تعلق مع اللہ اور توجہ الی اللہ ہے جس طریقہ سے حاصل ہو وہ اختیار کرنا فرض کے حکم میں داخل ہو گا۔
یا مثلاً اعلائے کلمتہ اللہ ایک مقصد ہے اور جہاد بھی اس کا ایک ذریعہ ہے ‘ جہاد جن آلات حرب پر موقوف ہو گا ان کی تحصیل بھی فرض ہو گی‘ جیسے آج کے حالات کے مطابق توپ‘ ٹینک ‘ ہوائی جہاز وغیرہ‘ ان کو اس وجہ سے بدعت نہیں کہا جائے گا کہ رسولِ کریم ﷺ یا صحابہؓ کے زمانہ میں یا خیر القرون میں ان کا وجود نہیں تھا۔ بس تلوار‘ نیزہ سے ہی کام لینا سنت ہو گا۔ معلوم ہوا کہ مقصد جب اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے جہاد کرنا ہے مگر اس مقصد کے حصول کے لئے حالات کے مطابق ذرائع مہیا کرنا ‘ جن پر یہ موقوف ہے وہ بھی واجب ہو گا اسے بدعت نہیں کہا جا سکتا۔
چوتھی بات یہ سمجھ لیجئے کہ حدیث جبرئیل میں احسان کو جزوِ دین کہا گیا ہے اس لئے اس کا حاصل کرنا مسلمانوں پر واجب ہے احسان صرف جزوِ دین ہی نہیں ‘ بلکہ دین کی روح اور خلاصہ ہے جس نے اسے حاصل نہ کیا اس کا دین ناقص ہے ‘ کیونکہ احسان کی حقیقت یہ بیان ہوئی کہ تعبد ربک کا نک تراہ فان لم تکن تراہ فا نہ یراک حدیث میں دین کے تینوں اجزاء کا ذکر ہے ۔ایمان جو اصل ہے ‘ اعمال جو فرع ہیں اور احسان جو ثمرہ ہے اسے چھوڑ دینا ایسا ہے جیسے ایک شخص مغرب کی نماز میں فرض کی دو رکعت پڑھ کر فارغ ہو جائے‘ ظاہر ہے کہ اس کی نماز نہ ہو گی‘ اسی طرح احسان کو چھوڑ دینا دین کے ایک عظیم جزو کو ترک کرنا ہے‘ اس لئے دین ناقص رہ جائے گا۔
پانچویں یہ بات سمجھ لیجئے کہ حضورِ اکرم ﷺ کے زمانہ میں یہ درجہ احسان صرف صحبتِ رسول ﷺ سے حاصل ہو جاتا تھا‘ صرف فرائض کی پابندی کے ساتھ صحبتِ رسول ؐ شامل ہو گئی تو درجہ احسان حاصل ہو گیا اور وہ بھی اس پایہ کا کہ بڑے سے بڑا ولی ایک ادنیٰ درجے کے صحابی کے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا‘ جب آفتابِ نبوت اوجھل ہو گیا تو مجاہدات و ریاضات کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ دین کا یہ اہم حصہ جو دین کا ما حصل ہے ‘ کمال کا اعلیٰ درجہ اور مقصود لذاتہ ہے حاصل ہو سکے رہا دو وقت ذکر کرنے کا سوال تو یہ نص سے ثابت ہے ۔ مثال کے طور پر دیکھئے۔۱۔ ان سخر نا الجبال معہ یسبحن با لعشی ولا شراق والطیر محشورہ ۔ ۱۹۔۱۸: ۳۸
ہم نے پہاڑوں کو حکم کر رکھا تھا کہ ان کے ساتھ شام اور صبح تسبیح کیا کریں ۔۔۔۔ اور پرندوں کو کو جو جمع ہو جاتے تھے۔
اس حقیقت کو کشف صحیح کی تا ئید بھی حاصل ہے ‘ اولیاء اللہ نے اس آیت سے دو امور ثابت کئے ہیں ۔ اول اجتماعی ذکر ‘ دوسرا اس میں ذاکرین کے انوار کا عکس ایک دوسرے پر پڑتا ہے جس سے نحوست دور ہوتی ہے۔ قلب میں انبساط پیدا ہوتا ہے‘ ہمت قوی ہو جاتی ہے اور اس اجتماعی ذکر سے جو تاثیر پیدا ہوتی ہے وہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی ‘ یہ کیفیت چشیدنی ہے گفتنی نہیں۔۲۔ واذکر ربک فی نفسک تضرعا وخیفتہ ودون الجھر من القول با الغدو ولاصال ولا تکن من الغافلین۔
اس آیت میں ذکرِ قلبی کرنے کا حکم ہے کیونکہ خوف کا تعلق دل سے ہے زبان سے نہیں۔
دوم: صبح شام ذکر کرنے کا حکم ہے ‘ آخری بات یہ نکلی کہ جو شخص اس طرح ذکر نہیں کرتا وہ خدا سے غافل ہے اور ظاہر ہے کہ خدا سے غافل ہو جانے سے بڑھ کر محرومی اور کیا ہو سکتی ہے اور اس غفلت سے دین میں جو نقص پیدا ہو جاتا ہے اس میں کلام کی گنجائش کہاں ہے۔۳۔ واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم باالغداۃ والعشی۴۔ ولا تطر د الذین یدعون ربھم باالغدۃ والعشی
یوں تو ہر حالت میں ذکر کرنے اور ذکرِ کثیر کرنے کا حکم ہے مگر دو وقت اہتمام سے ذکر کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔
اجتماعی ذکر کے سلسلے میں صحیح حدیث موجود ہے کہ:لا یقعد قوم یذکرون اللہ الاحفت بھم الملائکتہ وغشیتھم الرحمتہ وتنزلت علیھم السکینتہ ھم قوم لا یشقی جلیسھم۔
اس حدیث میں اجتماعی ذکر کا ثبوت موجود ہے ‘ پھر اس نعمت کا ذکر ہے کہ اس مجلس کو ملائکہ گھیر لیتے ہیں ‘ رحمتِ باری اور سکونِ قلبی نازل ہوتا ہے ‘ یہاں تک کہ اس مجلس میں ویسے بیٹھنے والا بھی بد بخت نہیں رہ سکتا۔
پھر صحیح حدیث موجود ہے کہ ملائکہ کی ایک جماعت حلقہ ذکر کی تلاش میں پھرتی رہتی ہے جہاں کہیں کوئی مجلس ذکر پاتے ہیں دوسرے فرشتوں کو بلاتے ہیں اور اس مجلس میں بیٹھ جاتے ہیں۔
مختصر یہ کہ ذکر کا مامور من اللہ ہونا اور صبح شام اہتمام سے ذکر کرنا نص سے ثابت ہے۔
 

ابن محمد جی

محفلین
سوال 2 :۔ کیا نجات اخروی کے لئے اور دیگر تمام کمالات کے حصول کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کافی نہیں کہ مزید اذکار و اشغال مشائخ بایں قیودات و تخصیصات اختیار کئے جائیں جب کہ انسان عامل باالکتاب و السنت ہے ؟

جواب 2 :۔ ذکرِ کثیر جو تمام اوقات کو شامل ہے اور صبح شام ذکر کرنے کا مامور من اللہ ہونا نصوص قرآنی اور حدیثِ نبوی ؐ سے ثابت ہے جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے تو یہ ذکر کرنا بھی عمل باالکتاب و السنت ہے ان کو ایک دوسرے سے جدا کیوں سمجھا جائے؟ حدیث جبرئیل سے ظاہر ہے کہ عقائد (ایمان) اور اعمال (اسلام) کے علاوہ بھی دین کا ایک حصہ ہے جس کا پورا کرنا اور اس فرض کو بجا لانا ضروری ہے جسے احسان کہا گیا ہے اسی کو تصوف کہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ انسان کامل طور پر عامل باالکتاب و السنت ہو ہی نہیں سکتا جب تک ذکرِ کثیر با العموم اور صبح و شام ذکر باالخصوص اہتمام سے نہ کرے۔

سوال3 :۔ کیا علم سلوک و تصوف جزوِ دین ہے؟ اگر ہے تو قرون ثلثہ اس سے کیوں خالی رہے؟ اگر نہیں تو اس کے حصول کا کیا فائدہ؟

جواب 3 :۔ پہلے سوال کے جواب میں بیان کر دیا گیا ہے کہ تصوف جزوِ دین ہے۔
 

ابن محمد جی

محفلین
سوال4 :۔ اگر علمِ سلوک جزوِ دین ہے تواس کے حصول کے لئے ولی کامل اور مرشد کامل کو موقوف علیہ ٹھہرانا کہاں ثابت ہے اس کا حصول تو کتب تصوف اور کتاب اللہ اور سنت سے ہو سکتا ہے؟

جواب4 :۔ کوئی علم یا فن کسی استاد کی شاگردی اختیار کئے بغیر نہیں سیکھا جا سکتا۔ کتاب اللہ اور سنت رسول ؐ کا صحیح فہم حاصل کرنا کامل اور ماہر استاد کے تعلیم دینے پر موقوف ہے۔ محض کتابوں کے مطالعہ سے کتاب اللہ کے اسرار اور سنت رسول ؐ کی حقیقت سمجھ میں نہیں آ سکتی‘ پھر اس کلیہ سے تصوف کو مستثنیٰ کیوں کیا جائے ‘ اس کے سیکھنے کے لئے مرشد کامل کی ضرورت کا انکار کیوں کیا جائے ‘ جبکہ وہی فن سکھانے کی مہارت اور اہلیت رکھتا ہے۔ کتب تصوف سے نشانِ راہ تو مل سکتا ہے مگر منزل تک رسائی نہیں ہو سکتی ۔ حالات‘ واردات‘ کیفیات اور روحانی ترقی کے لئے مراقبات‘ کتابوں سے سیکھنے کی چیز نہیں کیونکہ واضح نے ان کے لئے الفاظ وضح ہی نہیں کئے یہ کمالات شیخِ کامل کے سینے سے حاصل ہوتے ہیں شیخ کے باطن سے اور اس کے روح سے حاصل ہوتے ہیں‘ جس نے ولایت اور معرفت کا عملی نمونہ دیکھا ہی نہیں وہ عارف کیسے بنے گا‘ ہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ شیخ کامل ہو ‘ دل کا اندھا نہ ہو‘ قوی القلب ہو‘ جس کے قلب کے انوارات اتنے قوی ہوں کہ سالک کی روح اور اس کے باطن کو اپنی طرف کھینچ سکے۔
 

ابن محمد جی

محفلین
سوال5 :۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ علمِ سلوک ایک باطنی علم ہے مگر حصولِ علم کے لئے زندہ اشخاص کافی ہیں ( عالم علوم باطنیہ) جن سے حاصل ہو سکتا ہے مگر جو صوفیائے کرام اور اولیائے عظام میں مشہور ہے کہ فیض روح سے بھی ہو سکتا ہے تو اہلِ قبور سے کس طرح ہو سکتا ہے جب بعد الدارین ہو چکا ہے‘ نیز فقہا میں تو بعض سرے سے سماع موتی کا انکار کرتے ہیں جب حال یہ ہے تو فیض حاصل کرنا کس طرح ہو سکتا ہے ؟ اور امام صاحب کا مذہب بھی بعض عدم سماع بتاتے ہیں۔

سوال6 :۔ خدا تعالیٰ نے سوال کئے بغیر پیدائش انسانی ‘ جنات و شیاطین قرآن میں بیان فرما دیں مگر روح کی پیدائش اور حقیقت باوجود سوال کے نہ بتائی جس سے خوب واضح ہوتا ہے کہ روح کوئی فرشتہ اور جن سے بھی زیادہ لطیف چیز ہے تو ایسی لطیف ہستی سے فیض حاصل کرنا بہت ہی مشکل ہے ‘ فیض کے لئے اول روح سے ہم مجلس ہو ‘ پھر اس کو دیکھے وہ نظر آئے پھر اس سے ہم کلام ہو اس کا کلام سنا جائے‘ پھر اس سے اخذ فیض کیا جائے‘ چہ جائیکہ اس سے خرقہ خلافت لیا جائے جس کی کوئی نظیر آپ فرمائیں اگر ہے تو۔ جب عدم سماع بھی سامنے ہے۔

جواب 5 اور 6 :۔ اولیاء اللہ کے ارواح سے اور ان کی قبور سے فیض حاصل کرنا اہلِسنت و الجماعت کا اجماعی مسئلہ ہے۔ اس کے متعلق سوال کرنا مذہب اہلِ سنت سے نا واقفیت کی دلیل ہے‘ رہا بعد الدارین کا اشکال تو یہ بعد جسم کے لئے ہے‘ روح کی لئے بعد نہیں‘ معراج کی متواتر احادیث کیا آپ کے پیشِ نظر نہیں۔ حضورِ اکرم ﷺ نے جا بجا اہلِ برزخ کو دیکھا‘ ان کو راحت کی حالت میں بھی دیکھا‘ انبیاء کی امامت بھی کرائی‘ ان سے کلام ہوئی حالانکہ وہ برزخ میں تھے اور حضور ﷺ دنیا میں تھے‘ گو اس میں محدثین کا اختلاف ہے کہ مسجد اقصیٰ میں انبیاء ؑ کے ارواح حاضر ہوئے یا روح مع الجسم‘ میں ذاتی طور پر امر ثانی کا قائل ہوں۔ دیکھئے حضرت موسیٰ ؑ سے کتنا فیض ہوا کہ پچاس کی جگہ پانچ نمازیں فرض ہوئیں۔ کیا اس کے بعد بھی روح سے فیض لینے میں شبہ رہ سکتا ہے۔
دعوت عام سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ دارالعرفان منارہ چکوال پاکستان
رہی یہ بات کہ سالک روح کو دیکھتا کیسے ہے‘ کلام کیونکر ہوتی ہے۔ فیض کس طرح ہوتا ہے۔ سوال و جواب کیسے ہوتے ہیں؟ روح کی حیات کس طرح کی ہے وغیرہ؟ تو یہ چیزیں بتائی نہیں جا سکتیں‘ البتہ سیکھی اور سکھائی جا سکتی ہیں۔ میں تصوف کو جزوِ دین اور روحِ دین سمجھتا ہوں اور تحدیثِ نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ جسے سلوک سیکھنا ہو بندہ کے پاس ان شرائط کے ساتھ رہے جو میں پیش کروں گا‘ ان شا ء اللہ تعالیٰ یہ دکھا دوں گا کہ روح سے فیض کیسے اخذ کیا جاتا ہے۔ وہ شخص روح سے کلام کر لے گا ۔ قبر کے عذاب و انعام کو دیکھ لے گا۔ انبیا ء ؑ کی روحوں سے ملاقات کر لے گا اور حضورِ اکرم ﷺ کے دستِ مبارک پر روحانی بیعت کرا دوں گا بشرطیکہ وہ شخص متبع سنت ہو‘ خلوص لے کر آئے۔ پھر سماع موتی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ گو دلائل سمعیہ بھی سماع کے موئد ہیں‘ ان کا انکار صرف جاہل اور ضدی ہی کر سکتا ہے۔
دورِ صحابہ ؓ میں کشف و الہام بغیر ریاضت و مجاہدہ کے حاصل ہو جاتا تھا۔ صحبتِ رسول ؐ کی موجودگی میں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں تھی۔
حیاتِ روح کی حقیقت یہ ہے کہ روح کی حیات نور سے ہے‘ جس طرحروح محرک بدنِ انسانی ہے‘ اسی طرح نور محرک روح ہے۔ اور محرک نور ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔ روح کے بدن سے جدا ہونے سے تصرف و تدبیر کا تعلق بدن سے ختم ہو جاتا ہے۔ اس جدائی کو موت سے تعبیر کرتے ہیں۔ روح فانی نہیں۔ روح کی فنا نہیں ہے اور بقا زمانی ہے۔​
 
Top