عالمی برادری سے تعلقات تعطل کا شکار ، کیوںِ؟

میری طرح یقیناً آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ پاکستان کے عالمی برادری کے ساتھ مراسم تعطل کا شکار کیوں ہو گئے ہیں ؟

شروع میں تو میرا خیال تھا کہ شائد امریکہ ، فرانس اور پھر ملائیشیا کے ساتھ روابط کے اوائل میں ہی شکوک و شبہات اور بدزنی پیدا ہو جانے کی وجہ سے تعلقات سرد مہری کی نظر ہوگئے ہیں ۔ جو بات یقیناً کافی حد تک ٹھیک بھی ہے مگر اب میری توجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

در حقیقت دنیا کے ابزرورز پاکستان کے وزیراعظم کی تقاریر سن کر سکتے میں ہیں۔

کہ یہ ماجرا کیا ہے؟

دھرنوں کا کنٹینر ہو ، پارلیمنٹ ہاوس ہو ، عالمی تاجروں کابزنس فورم ہو یا کسی ملک کے سربراہ کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کے موضوع پر ملاقات ، مجال ہے موصوف کی گفتگو یا تقریر میں کوئی ایک لفظ بھی آگے پیچھے ہو۔

گویا کہ کوئی روبوٹ ہو

ملکی معاشی بدحالی اور بدعنوانی کی داستانیں روانی کے ساتھ اپنی خاص لے اور انداز میں جاری ہیں۔

حیرت ہے کہ کوئی وزیر یا مشیر بھی یہ اہلیت نہیں رکھتا کہ ان کو سمجھائے اور یقین دلائے بھئی اب آپ ایک ریاست کے سربراہ ہیں اپنی سوچ اور ٹیون کو بدلیں ۔

کسی بھی دورے یا عالمی سربراہ سے ملاقات سے پہلے تیاری کی جائے یہ کوئی فخر والی بات نہیں کہ ان کے پاس کوئی پرچی نہیں اور وہ جو زبان پر آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کون سمجھائے ان کو کہ گھر کی باتیں بازاروں یا دوستوں کی محفلوں میں نہیں کیا کرتے۔

کیا کوئی سرمایہ دار ہماری بدعنوانی کی داستانیں سن کر بھی اپنی دولت لٹانے ھمارے پاس آجائے گا ؟

دنیا تو اک اک بات اور انداز کو ابزرو کر رہی ہوتی ہے۔

اسے سادگی کہوں یا نادانی

کسی کی بھوک اور افلاس کو دیکھ کر بھیک تو دی جا سکتی ہے مگر کبھی کوئی کم عقل بھی بھوکے اور مفلس لوگوں سےکاروباری معاہدے نہیں کیا کرتا۔

سعودیہ اور چائینہ کی اور بات ہے وہ تو ہمارے نظریاتی ، ہمدرد اور کاروباری پارٹنرز ہیں ان کے ساتھ وابسطگی کی بنیاد انکی اور ہماری محبتیں ،ضرورتیں اور مجبوریاں ہیں۔ ان میں نئے تعلقات کی استواری کا کوئی عمل دخل نہیں۔

خدا را کوئی مدبرانہ سوچ اور لائحہ عمل اپنائیے ، کب تک ان ہمدردیوں ،بھیکوں اور مجبوری کے رشتوں کے سہارے چل سکیں گے۔
 
Top